Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی آسمان دنیا پر، زینت کے علاوہ، ستاروں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سرکش شیاطین سے حفاظت ہو۔ چناچہ شیطان آسمان پر کوئی بات سننے کے لئے جاتے ہیں تو ستارے ان پر ٹوٹ گرتے ہیں جس سے بالعموم شیطان جل جاتے ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات اور احادیث سے واضح ہے۔ ستاروں کا ایک تیسرا مقصد رات کی تاریکیوں میں رہنمائی بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر بیان فرمایا گیا ہے۔ ان مقاصد سہ گانہ کے علاوہ ستاروں کا اور کوئی مقصد بیان نہیں کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ مَّارِدٍ : ” مَّارِدٍ “ ” شَدِیْدُ الشَّرِّ “ یعنی زینت کے علاوہ آسمان دنیا کو ہر سرکش شیطان سے محفوظ کرنے کے لیے بنایا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

( آیت) وحفظا من کل شیطن مارد (الی قولہ تعالیٰ ) فاتبعہ شھاب ثاقب، ان آیات میں زینت و آرائش کے علاوہ ستاروں کا ایک فائدہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ شریر قسم کے شیاطین کو عالم بالا کی باتیں سننے سے روکا جاتا ہے۔ وہ غیبی خبروں کی سن گن لینے کے لئے آسمان کے قریب جاتے ہیں، لیکن انہیں فرشتوں کی باتیں سننے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ کوئی شیطان اگر کوئی آدھی تہائی بات سن بھاگتا ہے تو اسے ایک دہکتے ہوئے شعلہ کے ذریعے مار لگائی جاتی ہے، تاکہ وہ دنیا میں پہنچ کر اپنے معتقد کاہنوں اور نجومیوں کو کچھ بتا نہ سکے، اسی دہکتے ہوئے شعلے کو ” شہاب ثاقب “ کہا گیا ہے۔- ” شہاب ثاقب “ کی کچھ تفصیل سورة حجر میں گزر چکی ہے، یہاں اتنی تنبیہ ضروری ہے کہ قدیم یونانی فلاسفہ اس بات کے قائل تھے کہ ” شہاب ثاقب “ دراصل کوئی زمینی مادہ ہوتا ہے جو بخارات کے ساتھ اوپر چلا جاتا ہے، اور کرہ نار کے قریب پہنچ کر جل اٹھتا ہے، لیکن قرآن کریم کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے ” شہاب ثاقب “ کوئی زمینی مادہ نہیں، بلکہ عالم بالا ہی میں پیدا ہونے والی کوئی چیز ہے۔ قدیم مفسرین اس موقع پر یہ کہتے آئے ہیں کہ یونانی فلاسفہ کا یہ خیال کہ ” شہاب ثاقب “ کوئی زمینی مادہ ہے محض قیاس اور تخمینہ پر مبنی ہے، اس لئے اس سے قرآن پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، اس کے علاوہ اگر کوئی زمینی مادہ اوپر جا کر مشتعل ہوجاتا ہو تو قرآن کریم سے اس کی بھی کوئی منافات نہیں۔- لیکن آج کی جدید سائنسی تحقیقات نے یہ سوال ہی ختم کردیا ہے۔ موجودہ سائنسدانوں کا خیال یہ ہے کہ ” شہاب ثاقب “ ان گنت ستاروں ہی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوتے ہیں، اور عموماً بڑی بڑی اینٹوں کے برابر، اور یہ انت گنت ٹکڑے فضا میں رہتے ہیں۔ انہی کا ایک مجموعہ ” اسدیہ “ کہلاتا ہے جو سورج کے گرد ھلیلہ کی شکل میں گردش کرتا رہتا ہے، اور اس کا ایک دورہ ٣٣ سال میں پورا ہوتا ہے۔ ان ٹکڑوں میں روشنی ان کی تیز رفتاری اور خلائی اجرام کی رگڑ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ٹکڑے 10 اگست اور 27 نومبر کی راتوں میں زیادہ گرتے ہیں، اور ٠٢ اپریل، 28 نومبر، 18 اکتوبر، اور ٦، ٩، 13 دسمبر کی راتوں میں کم ہوجاتے ہیں۔ - (از تفسیر الجواہر للطنطاوی، ص ٥، ج ٨)- جدید سائنس کی یہ تحقیق قرآنی اسلوب بیان کے زیادہ مطابق ہے، البتہ جو لوگ ” شہاب ثاقب “ کے ذریعہ شیطانوں کے مارے جانے کو بعید از قیاس سمجھتے ہیں ان کے بارے میں طنطاوی مرحوم نے الجواہر میں بڑی اچھی بات لکھی ہے :- ” ہمارے آباء و اجداد اور حکماء کو بھی یہ بات گراں محسوس ہوتی تھی کہ قرآن کریم ان کے زمانہ کے علم فلکیات کے خلاف کوئی بات کہے، لیکن مفسرین اس بات پر راضی نہیں ہوئے کہ ان کے فلسفیانہ نظریات کو قبول کر کے قرآن کو چھوڑ دیں، اس کے بجائے انہوں نے ان فلسفیانہ نظریات کو چھوڑا اور قرآن کے ساتھ رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد خود بخود ثابت ہوگیا کہ قدیم یونانی فلاسفہ کا خیال بالکل باطل اور غلط تھا، اب بتائیے کہ اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ یہ ستارے شیطانوں کو جلاتے، مارتے اور تکلیف پہنچاتے ہیں تو اس میں کونسی رکاوٹ ہے ؟ ہم قرآن کریم کے اس بیان کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل کے انتظار میں ہیں، (جب سائنس بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلے گی) ( جواہر، ص ٤، ج ٨)- مقصد اصلی :- یہاں آسمانوں، ستاروں اور شہاب ثاقب کا تذکرہ کرنے سے ایک مقصد تو توحید کا اثبات ہے کہ جس ذات نے یکہ و تنہا اتنے زبردست آفاقی انتظامات کئے ہوئے ہیں، وہی لائق عبادت بھی ہے۔ دوسرے اسی دلیل میں ان لوگوں کے خیال کی تردید بھی کردی گئی ہے جو شیطانوں کو دیوتا یا معبود قرار دیتے ہیں اور جتا دیا گیا ہے کہ یہ تو ایک مردود و مقہور مخلوق ہیں، ان کو خدائی سے کیا واسطہ ؟- اس کے علاوہ اسی مضمون میں ان لوگوں کی بھی بھرپور تردید موجود ہے جو قرآن کریم کا آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی وحی کو کاہنوں کی کہانت سے تعبیر کیا کرتے تھے۔ ان آیتوں میں اشارہ کردیا گیا کہ قرآن کریم تو کاہنوں کی تردید کرتا ہے، لے دے کر ان کی معلومات کا سب سے بڑا ذریعہ شیاطین ہیں، اور قرآن یہ کہتا ہے کہ شیاطین کی عالم بالا تک رسائی ممکن نہیں، وہ غیب کی سچی خبریں نہیں لا سکتے۔ جب کہانت کے بارے میں قرآن کریم کا بیان کیا ہوا عقیدہ یہ ہے تو وہ خود کہانت کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس طرح یہ آیتیں توحید اور رسالت دونوں مضامین کی طرف اشاروں پر مشتمل ہیں، اور آگے انہی آسمانی مخلوقات کے ذریعہ آخرت کے عقیدے کو ثابت کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ مَّارِدٍ۝ ٧ۚ- حفظ - الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12]- ( ح ف ظ ) الحفظ - کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - مرد - قال اللہ تعالی: وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] والمارد والمرِيد من شياطین الجنّ والإنس : المتعرّي من الخیرات . من قولهم : شجرٌ أَمْرَدُ : إذا تعرّى من الورق، ومنه قيل : رملةٌ مَرْدَاءُ : لم تنبت شيئا، ومنه : الأمرد لتجرّده عن الشّعر . وروي : «أهل الجنّة مُرْدٌ» «4» فقیل : حمل علی ظاهره، وقیل : معناه : معرون من الشّوائب والقبائح، ومنه قيل : مَرَدَ فلانٌ عن القبائح، ومَرَدَ عن المحاسن وعن الطاعة . قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] أي : ارتکسوا عن الخیر وهم علی النّفاق، وقوله : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] أي : مملّس . من قولهم : شجرةٌ مَرْدَاءُ : إذا لم يكن عليها ورق، وكأنّ المُمَرَّدَ إشارة إلى قول الشاعرفي مجدل شيّد بنیانه ... يزلّ عنه ظفر الظّافر ومَارِدٌ: حصن معروف وفي الأمثال : تَمرَّدَ ماردٌ وعزّ الأبلق قاله ملک امتنع عليه هذان الحصنان .- ( م ر د ) المارد والمرید ۔ جنوں اور انسانوں سے اس شیطان کو کہاجاتا ہے جو ہر قسم کی خیر سے عاری ہوچکا ہو ۔ قرآن پاک میں ہے : وَحِفْظاً مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ مارِدٍ [ الصافات 7] اور ہر شیطان سرکش سے اس کی حفاظت کے لئے ۔ یہ شجر امرد سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں وہ درخت جس کے پتے نہ ہوں ۔ اور اسی سے رملۃ مرداء ہے یعنی ریت کا ٹیلہ جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو اور اس سے امرد اس نوجوان کو کہتے ہیں جس کے ہنوز سبزہ نہ اگاہو ۔ حدیث میں ہے اھل الجنۃ کلم مرد ) کہ اہل جنت سب کے سب امرد ہوں گے ۔ چناچہ بعض نے اس حدیث کو ظاہری معنی پر ہی حمل کیا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوں گے ۔ جیسے محاورہ ہے : مرد فلان عن القیائح فلاں ہر قسم کی قباحت سے پاک ہے ۔ مرر فلان عن المجاسن وہ محاسن سے عاری ہے ۔ مرر عن للطاعۃ ۔ سرکشی کرنا ۔ پس آیت کریمہ : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة 101] ومن اھل المدینہ مردو ا عن النفاق کے معنی یہ ہیں ۔ کہ اہل مدینہ سے بعض لوگ ۔۔۔ نفاق پر اڑ کر ہر قسم کی خیر سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] شیشے جڑے ہونے کی وجہ سے ہموار ۔ میں ممرد کے معنی ہموار ی چکنا کیا ہوا کے ہیں ۔ اور یہ شجرۃ مردآء سے ماخوذ ہے ۔ گویا ممرد کے لفظ سے اس کی اس صفت کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے ( سریع ) (406) فی مجلدل شید بنیانہ یزل عنہ ظفرا لطائر ایک مضبوط محل میں جس پر ایسا پلا سڑ لگا گیا ہے کہ اس سے پرند کے ناخن بھی پھسل جاتے ہیں ۔ مارد ایک مشہور قلعے کا نام ہے ۔ مثل مشہور ہے مرد مارد وعزالابلق۔ مارہ ( قلعہ ) نے سرکشی کی اور ابلق ( قلعہ ) غالب رہا ۔ یعنی وہ دونوں قلعے سر نہ ہوسکے ۔ یہ مقولہ ایک باشاہ کا ہے جو ان دونوں قلعوں کو زیر نہیں کرسکا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ ” اور حفاظت کی خاطر ہر سرکش شیطان سے۔ “- یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ سورة الحجر کی آیت ١٧ کے ضمن میں اس کی وضاحت قدرے تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ بہر حال اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ِجنات ّکی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اور میری رائے اس کے متعلق یہ ہے کہ ان کو سورج کی آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اسی لیے نظام شمسی کی حدود میں جنات آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں کسی اہتمام یا کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ بلکہ جیسے پرندے فضا میں آسانی سے ادھر ادھر اڑتے پھرتے ہیں اسی طرح جنات بھی نظام شمسی کی پوری فضا یا حدود میں اپنی مرضی سے جہاں چاہیں آ جاسکتے ہیں۔ البتہ نظام شمسی کی حدود سے تجاوز کرنے کی انہیں اجازت نہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض سرکش جنات عالم بالا کے معاملات کی ُ سن گن لینے کے لیے اپنی حدود سے تجاوز کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تخلیق کے اعتبار سے جنوں اور فرشتوں میں چونکہ قرب پایا جاتا ہے (فرشتے نوری ہیں اور یہ ناری) اس لیے شیاطین جن فرشتوں سے رابطہ کرنے اور کسی نہ کسی حد تک ان سے کچھ معلومات اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چناچہ فرشتے عالم بالا سے احکام لے کر جب آسمانِ دنیا کی طرف نزول کرتے ہیں تو شیاطین جن ان سے کچھ معلومات قبل از وقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے حفاظتی انتظام کر رکھا ہے۔ خصوصی طور پر نزول وحی کے زمانے میں اس حفاظتی نظام کو غیر معمولی طور پر فعال کیا جاتا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :6 یعنی عالَم بالا محض خلا ہی نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس میں نفوذ کر جائے ، بلکہ اس کی بندش ایسی مضبوط ہے ، اور اس کے مختلف خطے ایسی مستحکم سرحدوں سے محصور کیے گئے ہیں کہ کسی شیطان سرکش کا ان حدوں سے گزر جانا ممکن نہیں ہے ۔ کائنات کے ہر تارے اور ہر سیارے کا اپنا ایک دائرہ اور کُرہ ( ) ہے جس کے اندر سے کسی کا نکلنا بھی سخت دشوار ہے اور جس میں باہر سے کسی کا داخل ہونا بھی آسان نہیں ہے ۔ ظاہری آنکھ سے کوئی دیکھے تو خلائے محض کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ لیکن حقیقت میں اس خلا کے اندر بے حد و حساب خطے ایسی مضبوط سرحدوں سے محفوظ کیے گئے ہیں جن کے مقابلے میں آہنی دیواروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اس کا کچھ اندازہ ان گو ناں گوں مشکلات سے کیا جا سکتا ہے جو زمین کے رہنے والے انسان کو اپنے قریب ترین ہمسائے ، چاند تک پہنچنے میں پیش آ رہی ہیں ۔ ایسی ہی مشکلات زمین کی دوسری مخلوق ، یعنی جنوں کے لیے بھی عالم بالا کی طرف صعود کرنے میں مانع ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani