Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] دور نبوی میں کہانت کا چرچا :۔ دور نبوی میں عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا اور کاہنوں کو معاشرہ میں ایک معزز مقام حاصل تھا۔ ان کے متعلق مشہور یہ تھا کہ جن اور شیطان کاہنوں کے قبضہ میں ہوتے ہیں جو انہیں غیب کی خبریں مہیا کرتے ہیں۔ اچھے بھلے لوگ ان کے ہاں آتے اور ان کی خدمات حاصل کرتے تھے حتیٰ کہ بعض دفعہ اپنے مقدمات کے فیصلے کے لئے ان کے ہاں آتے تھے۔ ایسے ہی ایک کاہن کا واقعہ احادیث میں بھی مذکور ہے۔ قرآن جب نازل ہوا تو اس میں کچھ سابقہ انبیاء و اقوام کے حالات تھے اور کچھ آئندہ کی خبریں بھی تھیں۔ پھر آپ نے لوگوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ آپ کے پاس فرشتہ آتا ہے جو آپ پر یہ کلام نازل کرتا ہے۔ ان ساری باتوں سے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ شاید وہ دوسرے کاہنوں کی طرح آپ کے پاس بھی کوئی جن یا شیطان آتا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ آپ بیمار ہوئے تو دو تین راتیں تہجد کی نماز کے لیے اٹھ نہ سکے تو ابو لہب کی بیوی آپ کے پاس آکر کہنے لگی۔ میں سمجھتی ہوں کہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة والضحیٰ ) اور اسی وجہ سے وہ لوگ آپ کو کاہن ہی سمجھتے تھے۔ اگلی دو آیات میں ان کے اسی غلط نظریہ کی تردید کی گئی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰي : ” لَا يَسَّمَّعُوْنَ “ اصل میں ” لَا یَتَسَمَّعُوْنَ “ (تفعّل) ہے۔ ” اوپر کی مجلس “ سے مراد فرشتوں کی مجلس ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کے لیے آپس میں گفتگو کرتے ہیں کہ آئندہ فلاں کام کب اور کیسے کرنا ہے۔ یعنی ان ستاروں کے ذریعے سے سرکش شیاطین سے فرشتوں کی باتیں محفوظ رکھنے کا اتنا زبردست انتظام ہے کہ وہ ان کی مجلس کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے، بلکہ ان پر ہر جانب سے شہاب پھینکے جاتے ہیں۔ اگر ”ۙاِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَةَ “ کا استثنا نہ ہوتا تو یہ آیت دلیل تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں سن سکتے، مگر اللہ تعالیٰ نے خود ہی ”ۙاِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَةَ “ (مگر جو کوئی اچانک اچک کرلے جائے) کے ساتھ استثنا فرما دیا، جو آگے آرہا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰي وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ۝ ٨ۤۖ- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] ، وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف 60] ، إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص 20] ، قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل 29] ، وغیر ذلک من الآیات . يقال : فلان مِلْءُ العیونِ. أي : معظّم عند من رآه، كأنه ملأ عينه من رؤيته، ومنه : قيل شابّ مَالِئُ العینِ «3» ، والملأ : الخلق المملوء جمالا، قال الشاعر : فقلنا أحسني مَلَأً جهيناومَالَأْتُهُ : عاونته وصرت من ملئه . أي : جمعه . نحو : شایعته . أي : صرت من شيعته، ويقال : هو مَلِيءٌ بکذا . والمَلَاءَةُ : الزّكام الذي يملأ الدّماغ، يقال : مُلِئَ فلانٌ وأُمْلِئَ ، والمِلْءُ :- مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ.- ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف 60] اور قوم فرعون میں جو سر دور تھے کہنے لگے ۔ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص 20] کہ شہر کے رئیس تمہارے بارے میں صلاحیں کرتے ہیں ۔ قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل 29] وہ کہنے لگی کہ اے اہل در بار میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ محاورہ ہے : ۔ فلان ملاء العیون یعنی سب اسے عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں گویا اس نے ان کی نظروں کو اپنے جلوہ سے بھر دیا ہے ۔ اسی سے کہا گیا ہے ۔ شاب مللی العین اپنی خوبصورتی سے آنکھ کو بھر دینے والا نوجوان ۔ الملاء اخلاق جو حسن سے بھر پور ہوں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 412 ) فقلنا احسنی ملاء جھینا تو ہم نے کہا کہ اسے چھینہ اپنے اخلاق درست کرو ۔ مالا تہ کے معنی کسی کا معاون بننے اور اس کے گردہ میں شامل ہونے کے ہیں ۔ جیسا کہ شایعتہ کے معنی کسی طرف دراوں میں داخل ہونے کے آتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ ھو ملی بکذا ینعی وہ فلاں چیز سے پر ہے ۔ الملاء زکام جو فضلہ سے دماغ کو بھر دے اور ملی فلان فلان واملا کے معنی زکام زدہ ہونے کے ہیں المل کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ مجھے ایک ، دو ، تین پیمانے بھر کر دو ۔- قذف - الْقَذْفُ : الرّمي البعید، ولاعتبار البعد فيه قيل : منزل قَذَفٌ وقَذِيفٌ ، وبلدة قَذُوفٌ: بعیدة، وقوله : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] ، أي : اطرحيه فيه، وقال : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] ، يَقْذِفُ بِالْحَقِا عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] ، وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] ، واستعیر القَذْفُ للشّتم والعیب کما استعیر الرّمي .- ( ق ذ ف ) القذف ( ض ) کے معنی دور پھیکنا کے ہیں پھر معنی بعد کے اعتبار سے دور دراز منزل کو منزل قذف وقذیف کہاجاتا ہے اسی طرح دور در ازشہر کو بلدۃ قذیفۃ بول لیتے ہیں ۔۔۔ اور آیت کریمہ : فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِ [ طه 39] پھر اس ( صندوق ) کو دریا میں ڈال دو ۔ کے معنی دریا میں پھینک دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] اور ان کے دلوں میں دہشت ڈال دی ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ [ الأنبیاء 18] بلک ہم سچ کو جھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں ۔ يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّامُ الْغُيُوبِ [ سبأ 48] وہ اپنے اوپر حق اتارتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینکے جاتے ہیں ( یعنی ) وہاں سے نکال دینے کو ۔ اور رمی کی طرح قذف کا لفظ بھی بطور استعارہ گالی دینے اور عیب لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - جنب - أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال،- ( ج ن ب ) الجنب - اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨۔ ١٠) وہ شیاطین ان محافظ فرشتوں کی باتوں کی طرف کان بھی نہیں لگا سکتے اور اگر وہ اس چیز کی کوشش بھی کرتے ہیں تو ہر طرف سے مار کر دھکے دے دیے جاتے ہیں۔- اور یہ ستاروں کی مار کا یا یہ کہ جہنم کا ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہوگا۔- مگر جو شیطان کچھ خبر سن کرلے ہی بھاگے اور فرشتوں کی گفتگو سے کچھ اچک ہی لے تو ایک دھکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے ہولیتا ہے جو اس کو جلا کر ختم کردیتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی ” وہ سن نہیں پاتے ملأ اعلیٰ کی باتیں “- اصل میں یہ فعل یَتَسَمَّعُوْنَ (باب تفعّل) تھا ‘ جو یَسَّمَّعُوْنَ بن گیا ہے۔- وَیُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ ” اور ان کو مار پڑتی ہے ہر طرف سے ۔ “- عالم بالا تک ان کی رسائی کو روکنے کے لیے ان پر میزائل فائر کیے جاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani