دُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ:” دَحَرَ یَدْحَرُ دَحْرًا وَ دُحُوْرًا “ (ف) بھگانا، دفع کرنا۔ ” وَّاصِبٌ“ ” وَصَبَ یَصِبُ وُصُوْبًا “ (ض) دائمی ہونا۔ یعنی ان کے لیے دائمی عذاب ہے، کیونکہ دنیا میں بھگانے کے لیے ان پر شہاب پھینکے جاتے ہیں اور آخرت میں جہنم کا عذاب اس کے علاوہ ہے۔
دُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ٩ۙ- دحر - الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً- [ الأعراف 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] .- ( د ح ر ) - الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینگے جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - وصب - الوَصَبُ : السّقمُ اللّازم، وقد وَصِبَ فلانٌ فهو وَصِبٌ ، وأَوْصَبَهُ كذا فهو يَتَوَصَّبُ نحو : يتوجّع . قال تعالی: وَلَهُمْ عَذابٌ واصِبٌ [ الصافات 9] ، وَلَهُ الدِّينُ واصِباً [ النحل 52] .- فتوعّد لمن اتّخذ إلهين، وتنبيه أنّ جزاء من فعل ذلک عذاب لازم شدید، ويكون الدّين هاهنا الطّاعة، ومعنی الوَاصِبِ الدّائم . أي : حقّ الإنسان أن يطيعه دائما في جمیع أحواله، كما وصف به الملائكة حيث قال : لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ [ التحریم 6] ويقال : وَصَبَ وُصُوباً : دام، ووَصَبَ الدّينُ : وجب، ومفازةٌ وَاصِبَةٌ: بعیدة لا غاية لها .- ( و ص ب ) الواصب - کے فلاں ( س ) فھوا وصیب کے معنی دائمی مرض میں مبتلا ہونے کے ہیں ۔ او صبہ کذا فھوا یتو صب اسے فلاں بیماری لگ گئی چناچہ وہ بیمار پڑگیا جیسے او جعۃ فھوا یتو جع قرآن میں ہے : ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ واصِبٌ [ الصافات 9] اور ان کے لئے عذاب دائمی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَهُ الدِّينُ واصِباً [ النحل 52] اور اسی کی عبادت لازم ہے ۔ میں اس شخص کے لئے وعید ہے جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرتا ہے کہ ایسے شخص کو دائمی عذاب کی سزا ملے گی ۔ اور یہاں دین بمعنی طاعت ہے اور واصب بمعنی دائم اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو ہر حالت میں ہمیشہ اسی کی عبادت کرنے چاہیئے جیسا کہ فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ [ التحریم 6] جو ارشاد خدا ن کو فرماتا ہے اس کی نافر مانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں ۔ وصب وصوبا کسی چیز کا دائم اور ثابت رہنا ۔ وصب الدین قرض کا واجب اور لازم ہوجانا مفازۃ واصبۃ دور تک پھیلا ہوا بیابان جس کی انتہا نہ ہو ۔
آیت ٩ دُحُوْرًا وَّلَہُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ۔ ” بھگانے کے لیے ‘ اور ان کے لیے (پھر) ایک دائمی عذاب ہے۔ “