[٢١] جنت کے رزق کی خصوصیات :۔ یعنی وہ رزق جو کتاب و سنت میں جابجا مذکور ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ ہر قسم کے اور آپس میں ملتے جلتے پھلوں پر مشتمل ہوگا۔ جبکہ ان کا مزا بالکل ایک دوسرے سے جداگانہ ہوگا۔ نیز انہیں ہر وہ چیز مہیا کی جائے گی جس کی وہ خواہش کریں گے۔ اس رزق کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ باعزت طور پر دیا جائے گا۔ ایک یہ ہے کہ وہ کبھی ختم نہ ہوگا نہ اس کا سلسلہ منقطع ہوگا۔ ایک یہ کہ جو زرق انہیں دیا جائے گا اسے اس دنیا میں پوری طرح سمجھا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ ویسی چیزیں نہ کسی نے دیکھی ہیں، نہ سنی ہیں اور نہ کسی کے حاشیہ خیال میں آسکتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ رزق صرف لذت حاصل کرنے کے لئے کھایا جائے گا۔ بھوک لگنے کی بنا پر نہیں کھایا جائے گا۔ یعنی اس لئے نہیں کہ محنت مشقت کی وجہ سے بدن کے کچھ اجزاء تحلیل ہوچکے ہیں تو ان کی تلافی کے لئے یا اپنی زندگی کی بقا کے لئے وہ رزق کھایا جائے۔
اُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ : یعنی ایسی روزی جو ان کے لیے مقرر ہوچکی ہے، جس کے ملنے کا انھیں یقین ہے کہ ہمیشہ ملتی رہے گی، کبھی روکی نہیں جائے گی۔ اگلی آیت میں اس کی کچھ تفصیل بیان فرمائی۔
خلاصہ تفسیر - ان (اللہ کے مقبول بندوں) کے واسطے ایسی غذائیں ہیں جن کا حال (دوسری سورتوں میں) معلوم (ہو چکا) ہے یعنی میوے (جن کا ملنا سورة یٰسین آیت (آیت) لہم فیہا فاکہتہ میں اور جن کی صفات سورة واقعہ آیت (آیت) وفاکہتہ کثیرة لا مقطوعة ولا ممنوعہ میں اس کے قبل نازل ہوچکی ہیں، کیونکہ یٰسین اور واقعہ سورة صفٰت سے نزول میں مقدم ہیں۔ کذا فی الاتقان) اور وہ لوگ بڑی عزت سے آرام کے باغوں میں تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے (اور) ان کے پاس ایسا جام شراب لایا جائے گا (یعنی غلمان لائیں گے) جو بہتی ہوئی شراب سے بھرا جائے گا (اس سے شراب کی کثرت اور لطافت معلوم ہوئی اور دیکھنے میں) سفید ہوگی (اور پینے میں) پینے والوں کو لذیذ معلوم ہوگی (اور) نہ اس میں درد سر ہوگا (جیسے دنیا کی شراب میں ہوتا ہے جس کو خمار کہتے ہیں، اور نہ اس سے عقل میں فتور آئے گا، اور ان کے پاس نیچی نگاہ والی بڑی بڑی آنکھوں والی (حوریں) ہوں گی (جن کی رنگت ایسی صاف ہوگی کہ) گویا بیضے ہیں جو (پروں کے نیچے) چھپے ہوئے ہیں (کہ گردو غبار اور داغ سے بالکل محفوظ ہوتے ہیں تشبیہ محض صفائی میں ہے) پھر (جب سب لوگ ایک جلسہ میں جمع ہوں گے تو) ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر بات چیت کریں گے (اس بات چیت کے دوران میں) ان (اہل جنت) میں سے ایک کہنے والا (اہل مجلس سے) کہے گا کہ (دنیا میں) میرا ایک ملاقاتی تھا وہ (مجھ سے بطور تعجب) کہا کرتا تھا کہ کیا تو بعث کے معتقدین میں سے ہے، کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہم (دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور زندہ کر کے) جزا سزا دیئے جائیں گے ؟ (یعنی وہ آخرت کا منکر تھا، اس لئے ضرور وہ دوزخ میں گیا ہوگا۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ (اے اہل جنت) کیا تم جھانک کر (اس کو) دیکھنا چاہتے ہو ؟ (اگر چاہو تو تم کو اجازت ہے) سو وہ شخص (جس نے قصہ بیان کیا تھا) جھانکے گا تو اس کو وسط جہنم میں (پڑا ہوا) دیکھے گا (اس کو وہاں دیکھ کر اس سے) کہے گا کہ خدا کی قسم تو تو مجھ کو تباہ ہی کرنے کو تھا (یعنی مجھ کو بھی منکر آخرت بنانے کی کوشش کیا کرتا تھا) اور اگر میرے رب کا (مجھ پر) فضل نہ ہوتا (کہ مجھ کو اس نے صحیح عقیدے پر قائم رکھا) تو میں بھی (تیری طرح) ماخوذ لوگوں میں ہوتا (اور اس کے بعد جنتی اہل مجلس سے کہے گا کہ) کیا ہم بجز پہلی بار مر چکنے کے (کہ دنیا میں مر چکے ہیں) اب نہیں مریں گے اور نہ ہم کو عذاب ہوگا ؟ (یہ ساری باتیں اس جوش مسرت میں کہی جائیں گی کہ اللہ تعالیٰ نے سب آفات اور کلفتوں سے بچا لیا اور ہمیشہ کے لئے بےفکر کردیا۔ آگے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جنت کی جتنی جسمانی اور روحانی نعمتیں اوپر بیان کی گئیں) یہ بیشک بڑی کامیابی ہے، ایسی ہی کامیابی (حاصل کرنے) کے لئے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہئے (یعنی ایمان لانا اور اطاعت کرنا چاہئے) ۔- معارف ومسائل - اہل دوزخ کے حالات بیان کرنے کے بعد ان آیات میں اہل جنت کے احوال کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ تذکرہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ابتدائی دس آیتوں میں عام اہل جنت کو جو عیش و آرام حاصل ہوگا، اس کا بیان ہے اور اس کے بعد کی آیات میں ایک خاص جنتی کا عبرت آموز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ابتدائی دس آیتوں میں چند باتیں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔- (١) اولئک لھم رزق معلوم، کا لفظی ترجمہ یہ ہے ” انہی لوگوں کے لئے ایسا رزق ہے جس کا حال معلوم ہے “ مفسرین نے اس کے مختلف مطلب بتائے ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس سے جنتی غذاؤں کی ان تفصیلی صفات کی طرف اشارہ ہے جو مختلف سورتوں میں بیان کی گئی ہیں۔ چناچہ خلاصہ تفسیر میں حکیم الامت حضرت تھانوی نے اسی تفسیر کو اختیار فرمایا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ” رزق معلوم “ سے مراد یہ ہے کہ اس کے اوقات متعین اور معلوم ہیں، یعنی وہ صبح و شام پابندی کے ساتھ عطا کیا جائے گا، جیسا کہ دوسری آیت میں بکرة وعشیا (صبح و شام) کے الفاظ صراحةً آئے ہیں ایک تیسری تفسیر اور ہے، اور وہ یہ کہ ” رزق معلوم “ کا مطلب یہ ہے کہ وہ یقینی اور دائمی رزق ہوگا، دنیا کی طرح نہیں کہ کوئی شخص یقین کے ساتھ نہیں بتاسکتا کہ کل مجھے کیا اور کتنا رزق ملنے والا ہے ؟ اور نہ کسی کو یہ علم ہے کہ جتنا رزق مجھے حاصل ہے وہ کب تک میرے پاس رہے گا ؟ ہر انسان کو ہر وقت یہ دھڑا لگا ہوا ہے کہ جو نعمتیں مجھے اس وقت حاصل ہیں وہ شاید کل میرے پاس نہ رہیں، جنت میں یہ خطرہ نہیں ہوگا بلکہ وہاں کا رزق یقینی ہوگا اور دائمی بھی۔ (تفسیر قرطبی وغیرہ)
اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ ٤١ۙ- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو
آیت ٤١ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ ” یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے طے شدہ رزق ہے۔ “
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :22 یعنی ایسا رزق جس کی تمام خوبیاں بتائی جاچکی ہیں ، جس کے ملنے کا انہیں یقین ہے ، جس کے متعلق انہیں یہ بھی اطمینان ہے کہ وہ ہمیشہ ملتا رہے گا ، جس کے بارے میں یہ خطرہ لگا ہوا نہیں ہے کہ کیا خبر ، ملے یا نہ ملے ۔