Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 کَاْسً شراب کے بھرے ہوئے جام کو اور قدح خالی جام کو کہتے ہیں مَعِیْن کے معنی ہیں، جاری چشمہ۔ مطلب یہ ہے کہ جاری چشمے کی طرح، جنت میں شراب ہر وقت میسر ہوگی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٤] کأس کا لغوی مفہوم :۔ کَأسٌ کا لفظ صرف شراب سے بھرے ہوئے پیالہ یا گلاس کے لئے مستعمل ہے، جسے ہماری زبان میں جام یا ساغر کہتے ہیں۔ دودھ یا پانی سے بھرے ہوئے پیالہ کو کَأسٌ نہیں کہہ سکتے اور اگر یہ پیالہ خالی ہو اور شیشے کا ہو تو اسے قَدْحٌ کہتے ہیں، چمڑے کا ہو توعَلْبۃٌ اور مٹی کا ہو تو مُوْکِنْ اور مَعِیْنٌ دراصل صاف شفاف نتھرے، خوش ذائقہ، میٹھے اور ٹھنڈے پانی کو کہتے ہیں۔ مگر جب معین کے ساتھ کأس کا لفظ آئے تو معین سے مراد یہی صفات رکھنے والی شراب ہوگی۔ کیونکہ کأس کا لفظ شراب کے بھرے ہوئے پیالہ کے لئے ہی مخصوص ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يُـطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَاْسٍ : ” کَأْسٌ“ شیشے کا پیالہ جو شراب سے بھرا ہوا ہو، خالی پیالے کو ” کَأْسٌ“ نہیں کہتے۔ مجلس احباب میں سرور کے لیے شراب معروف تھی، سو فرمایا، جنت میں شراب کے جام پھرانے والے۔ غلمان ہوں گے، انھی جنتیوں کے لڑکے جو (چھوٹی عمر میں فوت ہوگئے اور ) ہمیشہ اسی طرح رہیں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَيَطُوْفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ) [ الطور : ٢٤ ] ” اور ان پر چکر لگاتے رہیں گے انھی کے لڑکے، جیسے وہ چھپائے ہوئے موتی ہوں۔ “ اور فرمایا : (يَــطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ ۔ بِاَكْوَابٍ وَّاَبَارِيْقَ ڏ وَكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ ) [ الواقعۃ : ١٧، ١٨ ] ” ان پر چکر لگا رہے ہوں گے وہ لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رکھے جائیں گے۔ ایسے کوزے اور ٹونٹی والی صراحیاں اور لبالب بھرے ہوئے پیالے لے کر جو بہتی ہوئی شراب کے ہوں گے۔ “- مِّنْ مَّعِيْنٍۢ : ” مَّعِيْنٍۢ“ ” مَعَنَ یَمْعَنُ مُعُوْنًا “ (ف، ک) ” اَلْمَاءُ “ ” جَرٰی “ پانی کا بہنا۔ ” مَّعِيْنٍۢ“ (فَعِیْلٌ) بہنے والا، جیسے ” شَرُفَ “ سے ” شَرِیْفٌ“ ہے۔ یعنی وہ شراب اس قسم کی نہیں ہوگی جو دنیا میں پھلوں اور غلوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے، بلکہ قدرتی چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی صورت میں بہتی ہوگی، جن میں سے جام بھر بھر کر انھیں پلائے جائیں گے۔ جنت کی چار قسم کی نہروں میں سے ایک قسم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ) [ محمد : ١٥ ] ” اور کئی نہریں شراب کی ہیں، جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يُطَافُ عَلَيْہِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍؚ۝ ٤٥ۙ- طوف - الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها .- قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ.- ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔- كأس - قال تعالی: مِنْ كَأْسٍ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] ، كَأْساً كانَ مِزاجُها زَنْجَبِيلًا [ الإنسان 17] والْكَأْسُ : الإناء بما فيه من الشراب، وسمّي كلّ واحد منهما بانفراده كأسا . يقال : شربت كَأْساً ، وكَأْسٌ طيّبة يعني بها الشَّرَابَ. قال تعالی: وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة 18] . وكَاسَتِ الناقة تَكُوسُ : إذا مشت علی ثلاثة قوائم، والکيس : جودة القریحة، وأَكْأَسَ الرّجلُ وأكيس : إذا ولد أولادا أكياسا، وسمّي الغدر كيسان تصوّرا أنه ضرب من استعمال الكيس، أو لأنّ كيسان کان رجلا عرف بالغدر، ثمّ سمّي كلّ غادر به كما أنّ الهالكيّ کان حدّادا عرف بالحدادة ثمّ سمّي كلّ حدّاد هالكيّا - ( ک ء س ) الک اس ۔ پینے کا برتن جب کہ اس میں پینے کی چیز موجود ہو ۔ قرآن میں ہے : مِنْ كَأْسٍ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان 5] اور ایسی شراب نوش جان کریں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ اور کبھی کا اطلاق خالی پیالہ صرف سے پینے کی چیز پر ہوتا ہے ۔ مثلا ۔ شربت کا سا ۔ میں نے شراب کا پیالہ پیا ۔ کاس طیبہ عمدہ شراب ۔ قرآن میں ہے : وَكَأْسٍ مِنْ مَعِينٍ [ الواقعة 18] اور صاف شراب کے گلاس کاست الناقۃ تکوس ۔ اونٹنی کا تین پاؤں پر چلنا اور الکیس کے معنی دانائی اور زیر کی کے ہیں اور اکاس الرجل واکیس کے معنی عدر یعنی بد عہدی بھی آتے ہیں کیونکہ اس میں زیر کی سے کام لیا جاتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ کیسان نامی ایک شخص تھا جو بےوفائی میں ضرب المثل تھا پھر ہر غدار کو کیسان کہاجانے جیسا کہ ھال کی اصل میں ایک مشہور آہنگر کا نام تھا پھر ہر خدا د یعنی آہنگر پر ھال کی کا لفظ بولا جانے لگا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ ۔ ” گردش کر رہے ہوں گے ان پر ُ (خدام) ّنفیس شراب کے پیالوں کے ساتھ۔ “- وہ شراب صاف شفاف اور بغیر کسی نشے کے ہوگی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :24 اصل میں یہاں شراب کی تصریح نہیں ہے بلکہ صرف کأس ( ساغر ) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن عربی زبان کی کأس کا لفظ بول کر ہمیشہ شراب ہی مراد لی جاتی ہے ۔ جس پیالے میں شراب کے بجائے دودھ یا پانی ہو ، یا جس پیالے میں کچھ نہ ہو اسے کأس نہیں کہتے کأس کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب اس میں شراب ہو ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :25 یعنی وہ شراب اس قوم کی نہ ہو گی جو دنیا میں پھلوں اور غلوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے ۔ بلکہ وہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی شکل میں بہے گی ۔ سورہ محمد میں اسی مضمون کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّشَّارِبِیْنَ ۔ اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے لذت ہوں گی ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :26 یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ شراب کے یہ ساغر لے کر جنتیوں کے درمیان گردش کون کرے گا ۔ اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر ارشاد ہوئی ہے : وَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ غِلْمَانٌ لَّھُمْ کَاَنَّھُمْ لُوءْ لُوءٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ان کے خادم لڑکے ، ایسے خوبصورت جیسے صدف میں چھپے ہوئے موتی ( الطور ، آیت 24 ) ۔ وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَا رَأَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُوْء لُؤًا مَّنْشُوْراً ۔ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہنے والے ہیں ۔ تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی بکھیر دیے گئے ہیں ( الدہر ، آیت 19 ) ۔ پھر اس کی مزید تفصیل حضرت اَنَس اور حضرت سَمُرَہ بن جُندُب کی ان روایات میں ملتی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں ۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے ( ابو داؤد طَیالِسی ، طبرانی ، بزَّار ) ۔ یہ روایات اگرچہ سنداً ضعیف ہیں ، لیکن متعدد دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے سن رشد کو نہیں پہنچے ہیں وہ جنت میں جائیں گے ۔ پھر یہ بھی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کے والدین جنتی ہوں گے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہیں گے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اس کے بعد لامحالہ وہ بچے رہ جاتے ہیں جن کے ماں باپ جنتی نہ ہوں گے ۔ سو ان کے متعلق یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ وہ اہل جنت کے خادم بنا دیے جائیں ۔ ( اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری اور عمدۃالقاری ، کتاب الجنائز ، باب ماقیل فی اولاد المشرکین رسائل و مسائل ، جلد سوم ، ص 177 تا 187 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani