[٢٣] آیت نمبر ٤٢، ٤٣، ٤٤ میں (رزق کریم) یعنی باعزت طور پر روزی ملنے کی ہی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
عَلٰي سُرُرٍ مُّتَـقٰبِلِيْنَ : لذت کی تکمیل کے لیے احباب اور مجلس کے لوازم کا ہونا ضروری ہے۔ فرمایا، وہ اور ان کے احباب سب بادشاہ ہوں گے، جو تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور وہ جتنے بھی زیادہ ہوں گے ہر ایک کا چہرہ دوسرے کے چہرے کے سامنے ہوگا، کسی کی پیٹھ دوسرے کی طرف نہیں ہوگی۔ اس سے ان کے دلوں کی صفائی اور باہمی محبت کا بھی اظہار ہوتا ہے، کیونکہ دلوں میں محبت نہ ہو تو چہرے ایک دوسرے کی طرف نہیں رہتے۔
(٤) (آیت) علیٰ سرر متقبلین، یہ اہل جنت کی مجلس کا نقشہ ہے کہ وہ ” تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے “ کسی کو کسی کی طرف پشت نہیں ہوگی، اس کی عملی صورت کیا ہوگی ؟ اس کا صحیح علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، بعض حضرات نے فرمایا کہ مجلس کا دائرہ اتنا وسیع ہوگا کہ کسی کو کسی کی طرف پشت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، اور اللہ تعالیٰ اہل جنت کو ایسی قوت بینائی، سماعت اور گویائی عطا فرما دے گا کہ وہ دور بیٹھے ہوئے لوگوں سے بڑے آرام کے ساتھ باتیں کرسکیں۔- اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ تخت گھومنے والے ہوں گے اور جس سے بات کرنی ہو اسی کی طرف گھوم جائیں گے۔ واللہ سبحانہ، اعلم۔
عَلٰي سُرُرٍ مُّتَـقٰبِلِيْنَ ٤٤- سَّرِيرُ- : الذي يجلس عليه من السّرور، إذ کان ذلک لأولي النّعمة، وجمعه أَسِرَّةٌ ، وسُرُرٌ ، قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] ، فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية 13] ، وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف 34] ، وسَرِيرُ الميّت تشبيها به في الصّورة، وللتّفاؤل بالسّرور الذي يلحق الميّت برجوعه إلى جوار اللہ تعالی، وخلاصه من سجنه المشار إليه بقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الدّنيا سجن المؤمن» «1» .- السریر - ( تخت ) وہ جس کی ( ٹھاٹھ سے ) بیٹھا جاتا ہے یہ سرور سے مشتق ہے کیونکہ خوشحال لوگ ہی اس پر بیٹھتے ہیں اس کی جمع اسرۃ اور سرر آتی ہے ۔ قرآن نے اہل جنت کے متعلق فرمایا : مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور 20] تختوں پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ۔ فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية 13] وہاں تخت ہوں گے اونچے بچھے ہوئے ۔ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف 34] اور ان کے گھروں کے دروازے بھی ( چاندی بنادئیے ) اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ۔ اور میت کے جنازہ کو اگر سریر المیت کہاجاتا ہے تو یہ سریر ( تخت) کے ساتھ صوری شابہت کی وجہ سے ہے ۔ یا نیک شگون کے طور پر کہ مرنے والا دنیا کے قید خانہ سے رہائی پاکر جوار الہی میں خوش وخرم ہے جس کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : الدنیا سجن المومن کہ مومن کو دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے ۔- ( قبل) مُقَابَلَةُ والتَّقَابُلُ- : أن يُقْبِلَ بعضهم علی بعض، إمّا بالذّات، وإمّا بالعناية والتّوفّر والمودّة . قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلَيْها مُتَقابِلِينَ [ الواقعة 16] ، إِخْواناً عَلى سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ [ الحجر 47] ، ولي قِبَلَ فلانٍ كذا، کقولک : عنده . قال تعالی: وَجاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ [ الحاقة 9] ، فَمالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ [ المعارج 36] ، ويستعار ذلک للقوّة والقدرة علی الْمُقَابَلَةِ ،- المقابلۃ والتقابل - کے معنی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہونے کے ہیں خواہ وہ توجہ بذریعہ ذات کے ہو یا بذریعہ عنایت اور سورت کے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُتَّكِئِينَ عَلَيْها مُتَقابِلِينَ [ الواقعة 16] آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے ۔ إِخْواناً عَلى سُرُرٍ مُتَقابِلِينَ [ الحجر 47] بھائی بھائی تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ لی قبل فلان کذا کے معنی ہیں میرے فلاں کی جانب اتنے ہیں اور یہ عندہ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ«7» [ الحاقة 9] اور فرعون اوع جو لوگ اس سے پہلے تھے سب ۔۔۔۔ کرتے تھے ۔ فَمالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ [ المعارج 36] تو ان کا فروں کو کیا ہوا ہے کہ تمہاری طرف دوڑتے چلے آتے ہیں ۔ اور استعارہ کے طور پر قوت اور قدرت علی المقابل کے معنی میں استعمال ہوتا ہے
آیت ٤٤ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ” وہ تختوں کے اوپر بیٹھے ہوں گے آمنے سامنے۔