Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] شراب کے تین نقصان اور ایک فائدہ :۔ دنیا میں جو شراب تیار کی جاتی ہے۔ وہ کچھ مخصوص پھلوں یا غلوں کو گلا سڑا کر اور ان میں خمیر اٹھا کر بنائی جاتی ہے۔ اور ایسی شراب میں تین نقص ہوتے ہیں اور ایک فائدہ ہوتا ہے۔ نقص یہ ہیں کہ وہ پینے کے بعد کڑوی محسوس ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ وہ سر کو چڑھ جاتا ہے جس سے بعض دفعہ سر چکرانے لگتا ہے اور تیسرا یہ کہ اسی وجہ سے انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اور نشہ زیادہ چڑھ جائے تو کئی طرح کے غلط کام بھی کر بیٹھتا ہے۔ شراب کے ساتھ اول فول بکنا اور فحاشی کے کام عموماً لازم و ملزوم بن جاتے ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ پینے والے کو وقتی طور پر کچھ سرور حاصل ہوتا ہے۔ جنت میں اہل جنت کو جو شراب دی جائے گی وہ مندرجہ بالا تمام نقائص سے تو پاک ہوگی۔ مگر اپنی لطافت، پاکیزگی اور لذت کے لحاظ سے دنیا کی شرابوں سے بہت افضل ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا فِيْهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُوْنَ : ” غَوْلٌ“ کا معنی خرابی، سر درد، پیٹ کا درد اور ہلاکت ہے۔ ” يُنْزَفُوْنَ “ ” نَزَفَ “ (مجرد) اور ” أَنْزَفَ “ (مزیدفیہ) معروف و مجہول کا معنی عقل زائل ہونا ہے۔ دنیا کی شراب میں پائی جانے والی خرابیوں میں سے اس کے بدرنگ، بد ذائقہ اور بدبو دار ہونے کی نفی تو ”ۙبَيْضَاۗءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ “ سے ہوگئی تھی، اب اس میں پائی جانے والی مزید خرابیوں کی بھی نفی فرما دی۔ دنیا کی شراب پینے کے بعد الٹیاں آتی ہیں، خمار کی صورت میں سر، پیٹ اور سارے جسم میں درد ہوتا ہے جو بعض اوقات ہلاکت تک پہنچا دیتا ہے اور عقل جو انسان کا شرف ہے، جاتی رہتی ہے۔ جنت کی شراب ایسی ہر خرابی سے پاک ہوگی، نہ اس میں سر درد یا کوئی اور خرابی ہوگی اور نہ ہی اس کی وجہ سے ان کی عقل ماری جائے گی۔ البتہ شراب کی وہ خوبیاں جن کی وجہ سے لوگ اتنی خرابیوں کے باوجود اسے پیتے ہیں، وہ سب بدرجہ اتم موجود ہوں گی، مثلاً کھانے کی رغبت پیدا کرنا، سرور لانا اور قوت و شہوت کو ابھارنا وغیرہ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(٦) (آیت) لا فیھا غول، غول کے معنی کسی نے ” درد سر “ بیان کئے ہیں۔ کسی نے ” پیٹ کا درد “ کسی نے ” بدبو دار گندگی “ اور کسی نے ” عقل کا بہک جانا “ درحقیقت لفظ ” غول “ ان سبھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور حافظ ابن جریر فرماتے ہیں کہ یہاں ” غول “ آفت کے معنی میں ہے، اور مطلب یہ ہے کہ جنت کی شراب میں ایسی کوئی آفت نہیں ہوگی جیسی دنیا کی شرابوں میں پائی جاتی ہے، نہ درد سر ہوگا نہ درد شکم نہ بدبو کا بھبکارہ، نہ عقل کا بہک جانا (تفسیر ابن جریر )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا فِيْہَا غَوْلٌ وَّلَا ہُمْ عَنْہَا يُنْزَفُوْنَ۝ ٤٧- غول - الغَوْلُ : إهلاک الشیء من حيث لا يحسّ به، يقال : غَالَ يَغُولُ غَوْلًا، واغْتَالَهُ اغْتِيَالًا، ومنه سمّي السّعلاة غُولًا . قال في صفة خمر الجنّة : لا فِيها غَوْلٌ [ الصافات 47] ، نفیا لكلّ ما نبّه عليه بقوله : وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] ، وبقوله : رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ فَاجْتَنِبُوهُ [ المائدة 90] .- ( غ ول ) الغول کسی کو اس طرح ہلاک کردینا کہ اس کا پتہ بھی نہ چل سکے غال یغول غولا واغتالہ اغتیالا اس نے اسے ہلاک کردیا اسی سے سعلاۃ ( چڑیل ) کو غول کہاجاتا ہے ( غول درد سر سے مستی ) قرآن پاکنے جنت کی شراب کی صفت بیان کرتے ہوئے لا فِيها غَوْلٌ [ الصافات 47] نہ اس سے دردسر ہوگا ۔ کہ اس سے ہر اس عیب کی نفی کردی ہے جس کی طرف آیت : وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219]( ان میں نقصان بڑے ہیں ۔ اور آیت ؛رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ فَاجْتَنِبُوهُ [ المائدة 90] ناپاک اعمال شیطان سے ہیں سو ان سے بچتے رہنا ۔ میں اشارہ فرمایا ہے ۔- نزف - نَزَفَ الماء : نَزَحَهُ كلَّه من البئر شيئا بعدَ شيء، وبئر نَزُوفٌ: نُزِفَ ماؤه، والنُّزْفَة : الغَرْفة، والجمع النُّزَف، ونُزِفَ دَمُهُ ، أو دَمْعُهُ. أي : نُزِعَ كلّه، ومنه قيل : سَكْران نَزِيفٌ: نُزِفَ فَهْمُهُ بسُكْره . قال تعالی: لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة 19] وقرئ : ينزفون من قولهم : أَنْزَفُوا : إذا نَزَفَ شرابُهم، أو نُزِعَتْ عقولُهم . وأصله من قولهم : أَنْزَفُوا . أي : نَزَفَ ماءُ بئرهم، وأَنْزَفْتُ الشیءَ : أبلغُ من نَزَفْتُهُ ، ونَزَفَ الرجلُ في الخصومةِ : انقطعت حُجَّتُه، وفي مَثَلٍ : هو أَجْبَنُ مِنَ المَنْزُوفِ ضَرِطاً - ( ن ز ف ) نزف المآء کے معنی کنویں سے تدریجا سارا پانی کھینچ لینے کے ہیں اور بئر نزوف اس کنویں کو کہتے ہیں جس کا پانی خشک ہوگیا ہو ۔ نزفۃ چلو بھر پانی ۔ اس کی جمع نزف آتی ہے ۔ نزف دمہ او دمعۃ خون یا آنسوؤں کا کلیہ نکل جانا اسی سے سکران نزیف ہے جس کے معنی بد مست کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يُصَدَّعُونَ عَنْها وَلا يُنْزِفُونَ [ الواقعة 19] اس سے نہ تو سر میں درد ہوگا اور نہ ان کی عقلیں ضائع ہوں گی ۔ ایک قراءت میں ینزفون ہے جو کہ انزفوا افعال ) سے ہے جس کے معنی شراب کے ختم ہونے یا عقل کے ضائع ہوجانے کے ہیں اصل میں یہ انزفوا سے ہے جس کے معنی کنویں کا پانی ختم ہوجانے کے ہیں اور انزلت الشئی میں نز فتہ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔ نزف الرجل فی الخصو مہ جھگڑے میں دلیل سے خاموش ہوجانا مثل مشہور ہے ۔ ھو اجبن من المنزوف ضر طا وہ منزوف سے بھیزیادہ بزدلی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ لَا فِیْہَا غَوْلٌ وَّلَا ہُمْ عَنْہَا یُنْزَفُوْنَ ” اس میں نہ تو سرگرانی (کی کیفیت) ہوگی اور نہ ہی وہ اس سے بہکیں گے۔ “- اس مشروب کو پی کر ایک سرور کی کیفیت تو ہوگی مگر نہ تو اس سے سر بھاری ہوگا اور نہ ہی وہ مدہوشی لائے گا اور فتورِ عقل کا باعث ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :27 یعنی وہ شراب ان دونوں قسم کی خرابیوں سے خالی ہو گی جو دنیا کی شراب میں ہوتی ہیں ۔ دنیا کی شراب میں ایک قسم کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ آدمی کے قریب آتے ہی پہلے تو اس کی بدبو اور سڑاند ناک میں پہنچتی ہے پھر اس کا مزا آدمی کے ذائقے کو تلخ کرتا ہے ۔ پھر حلق سے اترتے ہی وہ پیٹ پکڑ لیتی ہے ۔ پھر وہ دماغ کو چڑھتی ہے اور دوران سر لاحق ہوتا ہے ۔ پھر وہ جگر کو متاثر کرتی ہے اور آدمی کی صحت پر اس کے برے اثرات مترتب ہوتے ہیں ۔ پھر جب اس کا نشہ اترتا ہے تو آدمی خمار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ یہ سب جسمانی ضرر ہیں ۔ دوسری قسم کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اسے پی کر آدمی بہکتا ہے ، اَول فَول بکتا ہے اور عَزْبدہ کرتا ہے ۔ یہ شراب کے عقلی نقصانات ہیں ۔ دنیا میں انسان صرف سرور کی خاطر شراب کے یہ سارے نقصانات برداشت کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت کی شراب میں سرور تو پوری طرح ہو گا ( لذّۃ للشاربین ) لیکن ان دونوں قسم کی خرابیوں میں سے کوئی خرابی بھی اس میں نہ ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani