49۔ 1 یعنی شتر مرغ اپنے پروں کے نیچے چھپائے ہوئے ہوں، جس کی وجہ سے وہ ہوا اور گردو غبار سے محفوظ ہوں گے۔
[٢٨] بیض کی مختلف تعبیریں :۔ اس آیت کی کئی تعبیریں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی رنگت سفید ہوگی یعنی گورے رنگ کی ہوں گی اور جلد بالکل بےداغ ہوگی۔ دوسری یہ کہ یہاں انڈوں سے مراد شتر مرغ کے انڈے ہیں جو نہایت خوش رنگ ہوتے ہیں۔ اور اس تعبیر کی تائید اس آیت سے بھی ہوجاتی ہے (کَأنَّھُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ ) (٥٥: ٥٨) (یعنی اہل جنت کی عورتیں یاقوت اور مرجان کی طرح ہوں گی) اور تیسری تعبیر وہ ہے جو ماثور ہے۔ چناچہ سیدہ ام سلمہ (رض) نے جب اسی آیت کی تفسیر رسول اللہ سے پوچھی تو آپ نے فرمایا : کہ ان کی نرمی و نزاکت اس جھلیّ جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے (ابن جریر) اسی تعبیر کو معتبر سمجھ کر ترجمہ اس کے مطابق درج کیا گیا ہے۔ یہ اہل جنت کی عورتوں کی تیسری صفت ہوئی۔
كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ: ” بَيْضٌ“ ” بَیْضَۃٌ“ کی جمع ہے، انڈے۔ انڈے کا رنگ عموماً سفید سرخی مائل ہوتا ہے، جس میں کچھ زردی کی آمیزش ہوتی ہے۔ یہ رنگ چھپا کر رکھنے سے قائم رہتا ہے، ورنہ اڑجاتا ہے۔ خصوصاً شتر مرغ کے انڈے اس رنگ کے ہوتے ہیں اور شتر مرغ انھیں اپنے ملائم اور نرم پروں کے ریشوں کے فرش پر رکھ کر انھی کے ساتھ ڈھانپ دیتا ہے۔ عرب لوگ عورتوں کے ایسے رنگ کو بہت پسند کرتے ہیں اور انھیں چھپائے ہوئے انڈوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔ اشرف الحواشی میں ہے : ” بعض مفسرین نے ” بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ“ کی تفسیر ” انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی “ سے کی ہے اور اس کی یہی تفسیر ام سلمہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے، اس لیے اس کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ“ کا مطلب دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کی (یعنی جنت کی حوروں کی) نرمی اور نزاکت اس جھلی جیسی ہوگی جو انڈے کے چھلکے سے چپکی ہوتی ہے اور اسے ” غِرْقِیٌّ“ کہا جاتا ہے۔ “ (ابن کثیر، ابن جریر ) قاموس میں ہے : ” غَرْقَأَتِ الدَّجَاجَۃُ بَیْضَتَھَا “ ” مرغی نے سخت چھلکے کے بغیر انڈا دیا۔ “ مگر تفسیر ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے : ” اسے طبری اور طبرانی نے ایک ہی سند اور متن کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کی سند سلیمان بن ابی کریمہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اسے عقیلی اور ابن عدی نے ضعیف کہا ہے۔ “ علاوہ ازیں قرآن میں ان عورتوں کو ” الولوا المکنون “ بھی کہا گیا ہے، اس لیے ” بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ“ اور ” الولوا المکنون “ کی مناسبت مدنظر رہنی چاہیے۔ (واللہ اعلم)
(٨) کانھن بیض مکنون، اس آیت میں جنت کی حوروں کو ” چھپے ہوئے انڈوں “ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اہل عرب کے یہاں یہ تشبیہ مشہور و معروف تھی جو انڈا پروں میں چھپا ہوا ہو اس پر بیرونی گرد و غبار کا اثر نہیں پہنچتا۔ اس لئے وہ نہایت صاف ستھرا ہوتا ہے، اس کے علاوہ اس کا رنگ زردی مائل سفید ہوتا ہے جو اہل عرب کے یہاں عورتوں کے لئے دلکش ترین رنگ شمار ہوتا تھا، اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی۔ اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہاں انڈوں سے تشبیہ نہیں ہے، بلکہ انڈوں کی اس جھلی سے ہے جو چھلکے کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ عورتیں اس جھلی کی طرح نرم و نازک اور گداز ہوں گی۔ (روح المعانی) واللہ سبحانہ اعلم۔
كَاَنَّہُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ٤٩- بيض - البَيَاضُ في الألوان : ضدّ السواد، يقال : ابْيَضَّ يَبْيَضُّ ابْيِضَاضاً وبَيَاضاً ، فهو مُبْيَضٌّ وأَبْيَضُ. قال عزّ وجل : يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذابَ بِما كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] .- والأَبْيَض : عرق سمّي به لکونه أبيض، ولمّا کان البیاض أفضل لون عندهم كما قيل : البیاض أفضل، والسواد أهول، والحمرة أجمل، والصفرة أشكل، عبّر به عن الفضل والکرم بالبیاض، حتی قيل لمن لم يتدنس بمعاب : هو أبيض اللون . وقوله تعالی: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ [ آل عمران 106] ، فابیضاض الوجوه عبارة عن المسرّة، واسودادها عن الغم، وعلی ذلک وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل 58] ، وعلی نحو الابیضاض قوله تعالی:- وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] ، وقوله : وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس 38- 39] . وقیل : أمّك بيضاء من قضاعة«1» وعلی ذلک قوله تعالی: بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ- [ الصافات 46] ، وسمّي البَيْض لبیاضه، الواحدة : بَيْضَة، وكنّي عن المرأة بالبیضة تشبيها بها في اللون، وکونها مصونة تحت الجناح . وبیضة البلد يقال في المدح والذم، أمّا المدح فلمن کان مصونا من بين أهل البلد ورئيسا فيهم، وعلی ذلک قول الشاعر :- کانت قریش بيضة فتفلّقت ... فالمحّ خالصه لعبد مناف وأمّا الذم فلمن کان ذلیلا معرّضا لمن يتناوله كبيضة متروکة بالبلد، أي : العراء والمفازة . وبَيْضَتَا الرجل سمّيتا بذلک تشبيها بها في الهيئة والبیاض، يقال : بَاضَتِ الدجاجة، وباض کذا، أي : تمكّن .- قال الشاعر :- بداء من ذوات الضغن يأوي ... صدورهم فعشش ثمّ باض وبَاضَ الحَرُّ : تمكّن، وبَاضَتْ يد المرأة : إذا ورمت ورما علی هيئة البیض، ويقال : دجاجة بَيُوض، ودجاج بُيُض - ( ب ی ض ) البیاض - سفیدی ۔ یہ سواد کی ضد ہے ۔ کہا جاتا ہے ابیض ، ، ابیضاضا وبیاض فھو مبیض ۔ قرآن میں ہے ؛۔ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ جسدن بہت سے منہ سفید ہونگے اور بہت سے منہ سیاہ ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَتِ اللَّهِ [ آل عمران 106- 107] . اور جن کے منہ سفید ہوں گے ۔ اور ابیض ایک رگ کا نام بھی ہے جو سفید رنگ ہونے کی وجہ سے ابیض کہلاتی ہے ۔۔ اہل عرب کے ہاں چونکہ سفید رنگ تمام رنگوں میں بہتر خیال کیا جاتا ہے جیسے کہا گیا ہے البیاض افضل والسواد اھول والحمرۃ اجمل والصفرۃ اشکل اس لئے بیاض بول کر فضل وکرم مراد لیا جاتا ہے اور جو شخص ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اسے ابیض الوجہ کہا جاتا ہے اس بنا پر آیت مذکورہ میں ابیاض الوجوہ سے مسرت اور اسود الوجوہ سے تم مراد ہوگا جیسے دوسری جگہ فرمایا ؛۔ وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا [ النحل 58] حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( کے پیدا ہونے ) کی خبر ملتی ہے تو اس کا منہ ( غم کے سبب ) کالا پڑجاتا ہے ۔ اور جیسے ابیاض الوجوہ خوشی سے کنایہ ہوتا ہے اسی طرح آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ [ القیامة 22] اس روز بہت سے منہ رونق وار ہوں گے اور آیت ؛۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ [ عبس 38- 39] اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہونگے خوش اور مسرور نظر آئیں گے ۔ میں بھی نضرۃ اور اسفار سے مراد مسرت ہی ہوگی ۔ شاعر نے کہا ہے ( منسرح ) (72) امت بیضاء من قضاعۃ یعنی تم عفیف اور سخٰ سردار ہو ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛۔ بَيْضاءَ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ [ الصافات 46] جو رنگ کی سفید اور پینے والوں کے لئے سراسر ) لذت ہوگئی ۔ البیض یہ بیضۃ کی جمع ہے اور انڈے کے سفید ہونے کی وجہ اسے بیضۃ کہا جاتا ہے ۔ انڈا سفید اور پروں کے نیچے محفوظ رہتا ہے اس لئے تشبیہ کے طور بیضۃ بول کر خوبصورت عورت مراد لی جاتی ہے۔ بیضۃ البلد یہ لفظ تعریف اور مذمت کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب کلمہ تعریفی ہو تو اس سے رئیس شہر مراد ہوتا ہے ۔ اسی بناپر شاعر نے کہا ہے :۔ ( کامل ) (73) کانت قریش بیضۃ فتفلقت فالمخ خالصہ لعبدمناف قریش ایک انڈے کی مثل تھے ۔ جو ٹوٹا تو عبد مناف کے حصہ میں خالص مخ آئی ۔ اور جب مذمت کے لئے استعمال ہو تو اس سے ذلیل آدمی مراد لیا جاتا ہے جسے جنگل میں پڑے ہوئے انڈے کی طرح ہر ایک توڑ سکتا ہے اور شکل ورنگ میں مشابہت کی وجہ سے خصیتین کو بیضا الرجل کہا جاتا ہے ۔ باضت الدجاجۃ مرغی کا انڈے دینا ۔ باض کذا کسی جگہ پر متمکن ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے (74) بدامن ذوات الضغن یآوی صدورھم فعش ثم باضا باض الحر گرمی سخت ہونا ۔ باضت یدا لمرءۃ عورت کے ہاتھ پر انڈے کی طرح درم ہونا ۔ دجاجۃ بیوض انڈے دینے والی مرغی ج بیض ۔- مكن - المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] - ( م ک ن ) المکان - اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔- وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔
(٤٩۔ ٥٠) گویا کہ انڈوں کی طرح صاف ہیں جو پروں کے نیچے سردی و گرمی سے چھپے ہوئے رکھے ہیں پھر جنتی ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر بات چیت کریں گے۔
آیت ٤٩ کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ” گویا وہ انڈے ہوں چھپا کر رکھے گئے۔ “
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :30 اصل الفاظ ہیں کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ۔ گویا وہ چھپے ہوئے یا محفوظ رکھے ہوئے انڈے ہیں ان الفاظ کی مختلف تعبیرات اہل تفسیر نے بیان کی ہیں ۔ مگر صحیح تفسیر وہی ہے جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کا مطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی نرمی و نزاکت اس جھلی جیسی ہو گی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے ( ابن جریر ) ۔