Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نیک لوگوں کے نام زندہ رہتے ہیں ۔ اوپر کی آیتوں میں پہلے لوگوں کی گمراہی کا اجمالاً ذکر تھا ۔ ان آیتوں میں تفصیلی بیان ہے ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک رہے اور ہر وقت انہیں سمجھاتے بجھاتے رہے لیکن تاہم قوم گمراہی پر جمی رہی سوائے چند پاک باز لوگوں کے کوئی ایمان نہ لایا ۔ بلکہ ستاتے اور تکلیفیں دیتے رہے ، آخر کار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آکر رب سے دعا کی کہ اللہ میں عاجز آگیا تو میری مدد کر ۔ اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور تمام کفار کو تہ آب اور غرق کردیا ۔ تو فرماتا ہے کہ نوح نے تنگ آکر ہمارے جناب میں دعا کی ۔ ہم تو ہیں ہی بہترین طور پر دعاؤں کے قبول کرنے والے فوراً ان کی دعا قبول فرما لی ۔ اور اس تکذیب وایذاء سے جو انہیں کفار سے روز مرہ پہنچ رہی تھی ہم نے بچالیا ۔ اور انہی کی اولاد سے پھر دنیا بسی ، کیونکہ وہی باقی بچے تھے ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تمام لوگ حضرت نوح کی اولاد میں سے ہیں ۔ ترمذی کی مرفوع حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ سام حام اور یافث کی پھر اولاد پھیلی اور باقی رہی ۔ مسند میں یہ بھی ہے کہ سام سارے عرب کے باپ ہیں اور حام تمام حبش کے اور یافث تمام روم کے ۔ اس حدیث میں رومیوں سے مراد روم اول یعنی یونانی ہیں ۔ جو رومی بن لیطی بن یوناں بن یافث بن نوح کی طرف منسوب ہیں ۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ حضرت نوح کے ایک لڑکے سام کی اولاد عرب ، فارس اور رومی ہیں اور یافث کی اولاد ترک ، صقالبہ اور یاجوج ماجوج ہیں اور حام کی اولاد قبطی ، سوڈانی اور بربری ہیں واللہ اعلم ۔ حضرت نوح کی بھلائی اور ان کا ذکر خیر ان کے بعد کے لوگوں میں اللہ کی طرف سے زندہ رہا ۔ تمام انبیاء کی حق گوئی کا نتیجہ یہی ہوتا ہے ہمیشہ ان پر لوگ سلام بھیجتے رہیں گے اور ان کی تعریفیں بیان کرتے رہیں گے ۔ حضرت نوح علیہ السلام پر سلام ہو ۔ یہ گویا اگلے جملے کی تفسیر ہے یعنی ان کا ذکر بھلائی سے باقی رہنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر امت ان پر سلام بھیجتی رہتی ہے ۔ ہماری یہ عادت ہے کہ جو شخص خلوص کے ساتھ ہماری عبادت و اطاعت پر جم جائے ہم بھی اس کا ذکر جمیل بعد والوں میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھتے ہیں ۔ حضرت نوح یقین و ایمان رکھنے والوں توحید پر جم جانے والوں میں سے تھے ۔ نوح اور نوح والوں کا تو یہ واقعہ ہوا ۔ لیکن نوح کے مخالفین غارت اور غرق کر دئیے گئے ۔ ایک آنکھ جھپکنے والی ان میں باقی نہ بچی ، ایک خبر رساں زندہ نہ رہا ، نشان تک باقی نہ بچا ۔ ہاں ان کی ہڈیاں اور برائیاں رہ گئیں جن کی وجہ سے مخلوق کی زبان پر ان کے یہ بدترین افسانے چڑھ گئے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

75۔ 1 یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کو جھٹلایا تو انہوں نے محسوس کرلیا کہ ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے تو اپنے رب کو پکارا (فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ) 54 ۔ القمر :10) یا اللہ میں مغلوب ہوں میری مدد فرما، چناچہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کردیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] نوح کی بددعا اور اس کی قبولیت :۔ سیدنا نوح نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم سے سر کھپایا۔ ان کو دلائل سے سمجھایا اور مختلف پیرایوں میں سمجھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ مگر ان لوگوں نے ان کی ایک نہ مانی۔ الٹا ان کا مذاق اڑاتے اور ایذائیں پہنچاتے رہے۔ اس طویل عرصہ میں معدودے چند آدمی آپ پر ایمان لائے۔ پھر جب آپ اپنی قوم سے قطعی طور پر مایوس ہوگئے کہ اب باقی لوگوں میں سے کوئی بھی ایمان لانے والا نظر نہیں آتا اور سب میرے اور میرے ساتھیوں کے درپے آزار ہیں تو اس وقت آپ نے اللہ کے حضور فریاد کی کہ یا اللہ مجھے ان لوگوں نے دبا لیا ہے اب تو ہی ان سے بدلہ لے اور مجھے ان ظالموں سے نجات دے۔- [٤٤] یعنی ہم نے سیدنا نوح کی فریاد سنی تو ان کی فریاد رسی کردی۔ ان کی مصیبت کا ازالہ کردیا، انہیں ظالموں سے نجات دے دی۔ کیونکہ یہ بات ہمارے ذمہ ہے کہ حق و باطل کے معرکہ میں ہم ایمانداروں کی فریاد رسی کیا کرتے ہیں۔ اور انہیں ظالموں سے بچا لیتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ : پکارنے سے مراد وہ دعا ہے جو نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نوسو سال تک صبرو استقامت کے ساتھ دعوت دینے کے بعد اس وقت کی جب اللہ تعالیٰ نے انھیں آگاہ کیا کہ اب تمہاری قوم میں سے ان کے سوا کوئی ایمان نہیں لائے گا جو ایمان لا چکے۔ اس دعا کا ذکر سورة قمر (١٠) اور سورة نوح (٢٦) میں ہے۔- فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ : یہاں اس کے بعد مخصوص بالمدح ” نَحْنُ “ محذوف ہے، یعنی یقیناً ہم اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) کی دعا کی قبولیت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ہود (٣٦ تا ٤٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم کو نوح (علیہ السلام) نے (نصرت کے لئے) پکارا (یعنی دعا کی) سو (ہم نے ان کی فریاد رسی کی اور) ہم خوب فریاد سننے والے ہیں اور ہم نے ان کو اور ان کے تابعین کو بڑے بھاری غم سے (جو کفار کی تکذیب اور ایذاء رسانی سے پیش آیا تھا) نجات دی (کہ طوفان سے کفار کو غرق کردیا اور ان کے تابعین کو بچا لیا) اور ہم نے باقی انہی کی اولاد کو رہنے دیا (اور کسی کی نسل نہیں چلی) اور ہم نے ان کے لئے پیچھے آنے والے لوگوں میں یہ بات (مدت دراز کے لئے) رہنے دی کہ نوح پر سلام ہو عالم والوں میں (یعنی خدا کرے اپنے تمام اہل عالم جن و انس و ملائکہ سلام بھیجا کریں) ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں تھے، پھر ہم نے دوسرے (طریق کے) لوگوں کو (یعنی کافروں کو) غرق کردیا۔- معارف و مسائل - پچھلی آیت میں تذکرہ کیا گیا تھا کہ ہم نے پہلی امتوں کے پاس بھی ڈرانے والے پیغمبر بھیجے تھے، لیکن اکثر لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی، اس لئے ان کا انجام بہت برا ہوا۔ اب یہاں سے اسی اجمال کی کچھ تفصیل بیان کی جا رہی ہے، اور اس ضمن میں کئی انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا گیا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورة ہود میں گزر چکا ہے، یہاں چند باتیں جو خاص طور سے انہی آیات کی تفسیر سے متعلق ہیں درج ذیل کی جاتی ہیں :- (آیت) ولقد نادانا نوح میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ہمیں آواز دی تھی۔ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق اس سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی وہ دعا ہے جو سورة نوح میں مذکور ہے یعنی (آیت) رب لا تذر علیٰ الارض من الکفرین دیاراً (اے میرے پروردگار زمین پر کافروں میں سے ایک باشندہ بھی مت چھوڑ) یا جو سورة قمر میں مذکور ہے یعنی (آیت) انی مغلوب فانتصر (میں مغلوب ہوں، میری مدد کیجئے) یہ دعا حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی مسلسل سرکشی اور نافرمانی کے بعد اس وقت کی تھی جبکہ آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلانے پر اکتفا کرنے کے بجائے الٹا آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ۝ ٧٥ۡۖ- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- نعم ( مدح)- و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - جوب - والجواب يقال في مقابلة السؤال، - والسؤال علی ضربین :- طلب مقال، وجوابه المقال .- وطلب نوال، وجوابه النّوال .- فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] ،- وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما .- ( ج و ب ) الجوب - جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے - اور سوال دو قسم پر ہے - ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٥۔ ٧٩) نوح نے اپنی قوم کی ہلات کے لیے دعا کی کہ رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا۔ ہم ان کی خوب فریاد سننے والے ہیں۔ چناچہ ہم نے ان کو اور ان کے پیروکاروں کو غرق ہونے سے بچا لیا اور قیامت تک ہم نے باقی ان ہی کی اولاد کو رہنے دیا، کیونکہ حضرت نوح کے تین لڑکے تھے، سام، حام، یافث سام تو ابو العرب ہیں اور تمام عربوں کے جزیروں میں رہنے والوں کے باپ ہیں اور حام حبش بر بر اور سندھ والوں کے باپ ہیں اور یافث تو تمام لوگوں کے باپ ہیں۔- اور ہم نے نوح کے لیے ان کے بعد والوں میں یہ بات رہنے دی کہ ہماری طرف سے نوح پر سلام ہو تمام جہانوں والوں میں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٥ وَلَقَدْ نَادٰٹنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ ” اور ہمیں پکارا تھا نوح ( علیہ السلام) نے ‘ تو ہم کیا ہی اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں “- حضرت نوح کی اس دعا کا ذکر سورة القمر میں ان الفاظ میں ہوا ہے : فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ یعنی اس نے ربّ سے فریاد کی کہ میں مغلوب ہوگیا ہوں ‘ انہوں نے مجھے دبا لیا ہے ‘ اب ُ تو ہی میری مدد فرما اور تو ہی ان سے میرا بدلہ لے چناچہ اللہ کی مدد آگئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :39 اس مضمون کا تعلق پچھلے رکوع کے آخری فقروں سے ہے ۔ ان پر غور کرنے سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ قصے یہاں کسی غرض سے سنائے جا رہے ہیں ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :40 اس سے مراد وہ فریاد ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے مدتہائے دراز تک اپنی قوم کو دعوت دین حق دینے کے بعد آخر کار مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے کی تھی ۔ اس فریاد کے الفاظ سورہ قمر میں اس طرح آئے ہیں فَدَعَا رَبَّہ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ ، اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہو گیا ہوں ، اب تو میری مدد کو پہنچ ( آیت 10 )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani