اب بھی سنبھل جاؤ ۔ ابراہیم علیہ السلام بھی نوح کے دین پر تھے ، انہی کے طریقے اور چال چلن پر تھے ۔ اپنے رب کے پاس سلامت دل لے گئے یعنی توحید والا جو اللہ کو حق جانتا ہو ۔ قیامت کو آنے والی مانتا ہو ۔ مردوں کو دوبارہ جینے والا سمجھتا ہو ۔ شرک وکفر سے بیزار ہو ، دوسروں پر لعن طعن کرنے والا نہ ہو ۔ خلیل اللہ نے اپنی تمام قوم سے اور اپنے سگے باپ سے صاف فرمایا کہ یہ تم کس کی پوجا پاٹ کررہے ہو؟ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت چھوڑ دو اپنے ان جھوٹ موٹھ کے معبودوں کی عبادت چھوڑ دو ۔ ورنہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا کچھ نہ کریگا اور تمہیں کیسی کچھ سخت ترین سزائیں دیگا ؟
83۔ 1 شِیْۃً کے معنی گروہ اور پیروکار کے ہیں۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) بھی اہل دین و اہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح (علیہ السلام) ہی کی طرح قائم مقام الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی۔
[٤٧] شیعہ کا لغوی مفہوم :۔ یہاں لفظ شیعہ استعمال ہوا ہے۔ شیعہ ایسے فرقہ یا پارٹی کو کہتے ہیں جن کے عقائد آپس میں ملتے جلتے ہوں مگر دوسروں سے مختلف ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ توحید اور معاد کے بارے میں سیدنا ابراہیم کے بھی وہی عقائد تھے جو سیدنا نوح کے تھے۔ اور یہ تو واضح سی بات ہے کہ تمام انبیاء کی اصولی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ اور اسی اصولی تعلیم کا نام دین ہے۔
وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ : ” شِیْعَۃٌ“ ” شَاعَ یَشِیْعُ شِیَاعًا “ (ض) سے مشتق ہے، جس کا معنی ساتھ دینا ہے، ایسی جماعت جو کسی کا ساتھ دے۔ یعنی نوح (علیہ السلام) کا ساتھ دینے والے گروہ میں سے ابراہیم (علیہ السلام) بھی ہیں، کیونکہ وہ بھی توحید، آخرت اور دین کی تمام بنیادی چیزوں کے متعلق وہی عقائد و اعمال رکھتے تھے جو نوح (علیہ السلام) کے تھے، بلکہ تمام انبیاء کا اصل دین ایک ہی ہے جس کا نام اسلام ہے اور سب کی امتیں ایک امت ہیں جس کا نام امت مسلمہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ ) [ المؤمنون : ٥٢ ] ” اور بیشک یہ تمہاری امت ہے، جو ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو مجھ سے ڈرو۔ “
خلاصہ تفسیر - اور نوح (علیہ السلام) کے طریقہ والوں میں سے (یعنی ان لوگوں میں سے جو اصولی عقائد میں نوح (علیہ السلام) کے ساتھ متفق تھے) ابراہیم بھی تھے (ان کا وہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے) جب کہ وہ اپنے رب کی طرف صاف دل سے متوجہ ہوئے (صاف دل کا مطلب یہ کہ ان کا دل بد عقیدگی اور دکھلاوے کے جذبہ سے پاک تھا) جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے (جو بت پرست تھی) فرمایا کہ تم کس (واہیات) چیز کی عبادت کیا کرتے ہو ؟ کیا جھوٹ موٹ کے معبودوں کو اللہ کے سوا (معبود بنانا) چاہتے ہو تو تمہارا رب العالمین کے ساتھ کیا خیال ہے، (یعنی تم نے جو اس کی عبادت ترک کر رکھی ہے تو کیا اس کے معبود ہونے میں کوئی شبہ ہے ؟ یعنی اول تو ایسا نہ ہونا چاہئے اور اگر کوئی شبہ ہے تو اسے رفع کرلو۔ غرض یوں ہی بحث و مباحثہ ہوتا رہتا تھا، ایک بار کا واقعہ ہے کہ ان کا کوئی تہوار آیا، قوم نے ان سے بھی درخواست کی کہ ہمارے میلہ میں چلو) سو ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کو ایک نگاہ بھر کر دیکھا اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہونے کو ہوں (اس لئے میلہ میں نہیں جاسکتا) غرض وہ لوگ (ان کا یہ عذر سن کر) ان کو چھوڑ کر چلے گئے (کہ ناحق بیماری میں ان کو اور ان کی وجہ سے اوروں کو تکلیف ہوگی) تو یہ (یعنی ابراہیم علیہ السلام) ان کے بتوں میں جا گھسے اور (استہزاء کے طور پر ان سے) کہنے لگے کیا تم (یہ چڑھاوے جو تمہارے سامنے رکھے ہیں) کھاتے نہیں ہو (اور) تم کو کیا ہوا تم بولتے بھی نہیں ؟ پھر ان پر قوت کے ساتھ جا پڑے اور مارنے لگے (اور کلہاڑی وغیرہ سے ان کو توڑ پھوڑ دیا) سو (ان لوگوں کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو) وہ لوگ ان کے پاس دوڑتے ہوئے (گھبرائے ہوئے غصہ میں) آئے اور (گفتگو شروع ہوئی) ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم ان چیزوں کو پوجتے ہو جن کو خود (اپنے ہاتھ سے) تراشتے ہو (تو جو تمہارا محتاج ہو وہ خدا کیا ہوگا ؟ ) حالانکہ تم کو اور تمہاری بنائی ہوئی ان چیزوں کو (سب کو) اللہ ہی نے پیدا کیا ہے (سو عبادت اسی کی کرنا چاہئے) وہ لوگ (جب مناظرہ میں مغلوب ہوئے تو جھلا کر باہم) کہنے لگے کہ ابراہیم کے لئے ایک آتش خانہ تعمیر کرو (اور اس میں آگ دہکا کر) ان کو اس دہکتی آگ میں ڈال دو ، غرض ان لوگوں نے ابراہیم کے ساتھ برائی کرنی چاہی تھی (کہ یہ ہلاک ہوجائیں گے) سو ہم نے انہی کو نیچا دکھایا (جس کا قصہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے) ۔- معارف ومسائل - حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے دو واقعے ذکر کئے ہیں، دونوں واقعے ایسے ہیں جن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے محض اللہ کے واسطے عظیم قربانیاں پیش کیں۔ ان میں سے پہلا واقعہ جو مذکورہ آیات میں بیان کیا گیا ہے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کا واقعہ ہے، اور اس کی تفصیلات سورة انبیاء میں گزر چکی ہیں، البتہ یہاں جس انداز میں اس کو بیان کیا گیا ہے اس میں چند باتیں تشریح طلب ہیں۔- وان من شیعتہ لابرھیم، شیعة عربی زبان میں اس گروہ یا جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد بنیادی نظریات اور طور طریق میں یکساں ہوں۔ اور یہاں ظاہر یہی ہے کہ شیعتہ کی ضمیر حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پیش رو نبی حضرت نوح (علیہ السلام) کے طریقے پر تھے، اور بنیادی اصول دین میں دونوں کا مکمل اتفاق تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کی شریعتیں بھی یکساں یا ملتی جلتی ہوں۔ واضح رہے کہ بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہما السلام) کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس سال کا وقفہ ہے، اور دونوں کے درمیان حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہما السلام) کے سوا کوئی اور نبی نہیں ہوا۔ (کشاف، ص ٨٤ ج ٤)
وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِہٖ لَاِبْرٰہِيْمَ ٨٣ۘ- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع ) الشیاع - کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم : قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب : ایندھن ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی نوح (علیہ السلام) کے پیرؤں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔
آیت ٨٣ وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰہِیْمَ ” اور اسی کی جماعت میں سے ابراہیم (علیہ السلام) بھی تھا۔ “- یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسی دین حق اور نظریہ توحید کے پیروکار تھے جس پر حضرت نوح (علیہ السلام) کاربند تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت سام کی نسل سے تھا۔ اسی طرح قوم عاد اور قوم ثمود بھی سامی النسل تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش شہر اُر میں ہوئی جو موجودہ عراق کے جنوبی علاقے میں اپنے وقت کا مشہور شہر تھا۔ اس شہر کے کھنڈرات دریافت ہوچکے ہیں۔