Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 یعنی اتنی قبیح حرکت کرنے کے باوجود کیا تم پر ناراض نہیں ہوگا اور تمہیں سزا نہیں دے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] سیدنا ابراہیم کی ستارہ پرست قوم :۔ سیدنا ابراہیم کا اصل وطن عراق کا شہر بابل تھا۔ یہ لوگ ستارہ پرست تھے۔ اور بالخصوص سات مشہور سیاروں سورج، چاند، زہرہ، عطارد، مشتری، مریخ اور زحل کی چال سے خوب واقف تھے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کے بھی سختی سے قائل تھے۔ انہیں سیاروں کے الگ الگ مندر تعمیر کر رکھے تھے۔ ، جن میں ان سیاروں کے خیالی مجسمے یا بت رکھے جاتے تھے۔ وہ خود ہی زائچے تیار کرتے اور اس کے مطابق ان سیاروں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کے مجسموں کے سامنے نذریں نیازیں پیش کی جاتی تھیں۔ انہیں زائچوں کے ذریعہ وہ آئندہ سے متعلق اپنی اپنی قسمت کا حال معلوم کرتے تھے۔۔ ان کے ستاروں کے اثرات پر اعتقاد کا یہ حال تھا کہ ان میں ہر شخص زائچہ تیار کرنے کے بغیر بھی سیاروں کی چال پر غور کرکے اپنا پروگرام بناتا تھا۔ اس قدر مشرک تھی یہ قوم جس میں سیدنا ابراہیم مبعوث ہوئے تھے۔ انہوں نے جب بالکل خالی الذہن ہو کر اور یکسو ہو کر اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے حوالہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔ اور سیدنا ابراہیم کو اپنی مکمل فرمانروائی اور ان سیاروں اور ان کے مجسموں کے بالکل بےاختیار اور مجبور محض ہونے کی حقیقت واضح کردی۔ - خ دعوت توحید کا آغاز اپنے باپ سے :۔ چناچہ آپ نے توحید کی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ سب سے پہلے باپ کو اس حقیقت سے روشناس کرایا وہ خود شاہی مندر کا پروہت، بت تراش اور بت فروش تھا وہ آپ کی اس نصیحت پر بگڑ بیٹھا تو آپ اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ کا اپنے باپ اور اپنی قوم سے سوال یہ تھا کہ تم یہ بت اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو پھر خود ہی انہیں خدائی اختیارات بانٹ دیتے ہو کہ فلاں سیارہ کی روح یا مجسمہ اگر ہم سے خوش رہے تو ہمیں مال و دولت زیادہ ملے گا۔ فلاں کی عبادت کی جائے تو علم نصیب ہوگا۔ اور فلاں کو خوش کیا جائے تو فصل بہت اچھی ہوگی۔ یہ سب اختیارات تو تم نے ان میں تقسیم کردیئے۔ اب بتاؤ کہ جس ہستی نے اس کائنات اور ان سیاروں کو پیدا کیا ہے اور اس کا ان پر کنٹرول ہے اس کے پاس بھی کوئی اختیار تم نے چھوڑا ہے یا نہیں ؟ کیا اب وہ بالکل بےبس ہوچکا ہے ؟ آخر اس کے متعلق تم کیا سمجھتے ہو ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : یعنی رب العالمین جو پوری کائنات کا مالک ہے اور تمام جہانوں کے ایک ایک ذرے کی پرورش کر رہا ہے، اس کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے ؟ کیا تم نے اس میں کوئی نقص یا عیب پایا کہ اپنے گھڑے ہوئے معبودوں کی عبادت کرنے لگے اور اس کی گرفت سے بالکل بےخوف ہوگئے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٨٧- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، وقیل : إنما جمع هذا الجمع لأنه عني به أصناف الخلائق من الملائكة والجنّ والإنس دون غيرها . وقد روي هذا عن ابن عبّاس «2» . وقال جعفر بن محمد : عني به النّاس وجعل کلّ واحد منهم عالما «3» ، وقال «4» : العَالَمُ عالمان الکبير وهو الفلک بما فيه، والصّغير وهو الإنسان لأنه مخلوق علی هيئة العالم، وقد أوجد اللہ تعالیٰ فيه كلّ ما هو موجود في العالم الکبير، قال تعالی: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، وقوله تعالی: وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] ، قيل : أراد عالمي زمانهم . وقیل : أراد فضلاء زمانهم الذین يجري كلّ واحد منهم مجری كلّ عالم لما أعطاهم ومكّنهم منه، وتسمیتهم بذلک کتسمية إبراهيم عليه السلام بأمّة في قوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] ، وقوله : أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] .- العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ چونکہ لفظ عالم سے خلائق کی خاص قسم یعنی فرشتے جن اور انسان ہی مراد ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے ۔ اس لئے اس کی جمع واؤنون کے ساتھ لائی گئی ہے امام جعفر بن محمد کا قول ہے کہ عالیمین سے صرف انسان مراد ہیں اور ہر فرد بشر کو ایک عالم قرار دے کر اسے جمع لایا گیا ہے ۔ نیز انہوں نے کہا ہے کہ عالم دو قسم پر ہے ( 1 ) العالم الکبیر بمعنی فلک دمافیہ ( 2 ) العالم اصغیر یعنی انسان کیونکہ انسان کی تخلیق بھی ایک مستقل عالم کی حیثیت سے کی گئی ہے اور اس کے اندر قدرت کے وہ دلائل موجود ہیں جا عالم کبیر میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعالَمِينَ [ الحجر 70] کیا ہم نے تم کو سارے جہاں ( کی حمایت وطر فداری سے ) منع نہیں کیا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو تمام مخلوقات کو پروردگار ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعالَمِينَ [ البقرة 47] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تم یعنی بنی اسرائیل کو ان کی ہمعصراز قوام پر فضیلت دی اور بعض نے اس دور کے فضلا مراد لئے ہیں جن میں سے ہر ایک نواز شات الہٰی کی بدولت بمنزلہ ایک عالم کے تھا اور ان کو عالم سے موسم کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً [ النحل 120] بیشک حضرت ابراہیم ایک امہ تھے میں حضرت ابراہیم کو امۃ کہا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ فَمَا ظَنُّکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ” تو تمہارا کیا گمان ہے ربّ العالمین کے بارے میں ؟ “- اس ہستی کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے ؟ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :46 یعنی اللہ تعالیٰ کو آخر تم نے کیا سمجھ رکھا ہے ۔ کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ لکڑی پتھر کے معبود اس کے ہم جنس ہو سکتے ہیں ؟ یا اس کی صفات اور اس کے اختیارات میں شریک ہو سکتے ہیں ؟ اور کیا تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اس کے ساتھ اتنی بڑی گستاخی کر کے تم اس کی پکڑ سے بچے رہ جاؤ گے ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani