ارشاد ہے کہ مخلوق کی پیدائش عبث اور بیکار نہیں یہ سب عبادت خالق کے لئے پیدا کی گئی ہے پھر ایک وقت آنے والا ہے کہ ماننے والے کی سربلندی کی جائے اور نہ ماننے والوں کو سخت سزا دی جائے ۔ کافروں کا خیال ہے کہ ہم نے انہیں یونہی پیدا کر دیا ہے؟ اور آخرت اور دوسری زندگی کوئی چیز نہیں یہ غلط ہے ۔ ان کافروں کو قیامت کے دن بڑی خرابی ہو گی کیونکہ اس آگ میں انہیں جلنا پڑے گا جو ان کے لئے اللہ کے فرشتوں نے بڑھکا رکھی ہے ۔ یہ ناممکن ہے اور ان ہونی بات ہے کہ مومن و مفسد کو اور پرہیزگار اور بدکار کو ایک جیسا کر دیں ۔ اگر قیامت آنے والی ہی نہ ہو تو یہ دونوں انجام کے لحاظ سے یکساں ہی رہے ۔ حالانکہ یہ خلاف انصاف ہے قیامت ضرور آئے گی نیک کار جنت میں اور گنہگار جہنم میں جائیں گے ۔ پس عقلی اقتضا بھی دار آخرت کے ثبوت کو ہی چاہتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ظالم پاپی اللہ کی درگاہ سے راندہ ہوا دنیا میں خوش وقت ہے مال اولاد فراغت تندرستی سب کچھ اس کے پاس ہے اور ایک مومن متقی پاک دامن ایک ایک پیسے سے تنگ ایک ایک راحت سے دور رہے تو حکمت علیم و حکیم و عادل کا اقتضاء یہ تھا کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ اس نمک حرام سے اس کی نمک حرامی کا بدلہ لیا جائے اور اس صابر و شاکر فرمانبردار کی نیکیوں کا اسے بدلہ دیا جائے اور یہی دار آخرت میں ہونا ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ اس جہان کے بعد ایک جہاں یقینا ہے ۔ چونکہ یہ پاک تعلیم قرآن سے ہی حاصل ہوئی ہے اور اس نیکی کا رہبر یہی ہے اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا کہ یہ مبارک کتاب ہم نے تیری طرف نازل فرمائی ہے تاکہ لوگ اسے سمجھیں اور ذی عقل لوگ اس سے نصیحت حاصل کر سکیں ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جس نے قرآن کے الفاظ حفظ کر لئے اور قرآن پر عمل نہیں کیا اس نے قرآن میں تدبر و غور بھی نہیں کیا لوگ کہتے ہیں ہم نے پورا قرآن پڑھ لیا لیکن قرآن کی ایک نصیحت یا قرآن کے ایک حکم کا نمونہ میں نظر نہیں آتا ایسا نہ چاہئے ۔ اصل غور و خوض اور نصیحت و عبرت عمل ہے ۔
27۔ 1 بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسے بہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت و اطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔
[٣٥] روز جزا پر عقلی دلیل : دنیا کھیل تماشا نہیں : یعنی ہم نے اس کائنات کو محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کردیا جس کا کوئی مقصد، کوئی غرض اور کوئی حکمت نہ ہو اور کسی کے اچھے یا برے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو اور اس کائنات میں انسان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ بےلگام ہو کر جو کچھ جی چاہے کرتا پھرے اور اس سے کوئی باز پرس نہ ہو۔ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے اور جو شخص روز آخرت اور جزاوسزا کا قائل نہیں وہ دراصل اس دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اس کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنا کر اور انسان کو پیدا کرکے نعوذ باللہ ایک عبث فعل کا ارتکاب کیا ہے۔ سو ایسے آخرت کے منکروں کے لئے آگ کا عذاب تیار ہے مرنے کے بعد جب وہ دوزخ میں پڑیں گے اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے پیدا کرنے کی کیا غرض تھی ؟
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا : پچھلی آیت میں خواہش پرستی کا اصل سبب یوم حساب کو بھولنا بتایا ہے، اب یوم حساب کے حق ہونے کی چند دلیلیں ذکر فرمائیں۔ سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا معمولی سا کھیت بھی کسی نوکر کے حوالے کرے تو ممکن نہیں کہ اس سے باز پرس نہ کرے، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنے عظیم الشّان آسمان و زمین اور ان کے مابین کی چیزیں پیدا کیں، پھر زمین پر انسان کو بسایا اور اس کی ہر چیز اس کے لیے پیدا فرمائی، جیسا کہ فرمایا : (ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا) [ البقرۃ : ٢٩ ] ” وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لیے پیدا کیا۔ “ آسمان کو اس کے لیے چھت بنایا، اس کی ہر ضرورت کا بندوبست فرمایا، پھر وہ اس سے اس کی کارکردگی کے متعلق سوال نہ کرے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ سب کچھ اس نے باطل اور بےمقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ سب کچھ محض کھیل ہے جو اللہ تعالیٰ کھیل رہا ہے۔ نہیں تم سب کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی طریقوں سے بیان فرمائی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ) [ المؤمنون : ١١٥ ] ” تو کیا تم نے گمان کرلیا کہ ہم نے تمہیں بےمقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے ؟ “ اور فرمایا : (وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ ۔ مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيْقَاتُهُمْ اَجْمَعِيْنَ ) [ الدخان : ٣٨ تا ٤٠ ] ” اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے نہیں بنایا۔ ہم نے ان دونوں کو حق ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے اور لیکن ان کے اکثر نہیں جانتے۔ یقیناً فیصلے کا دن ان سب کا مقرر وقت ہے۔ “- ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : یعنی اس آسمان و زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کے باطل اور بےمقصد ہونے کا خیال ان لوگوں کا ہے جو توحید و آخرت کے منکر ہیں۔- فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ : یہاں ” فَوَیْلٌ لَّھُمْ “ (تو ان کے لیے بڑی ہلاکت ہے) کہنے کے بجائے ” فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا “ (سو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا آگ کی صورت میں بڑی ہلاکت ہے) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ویل (بڑی ہلاکت) کا باعث ان لوگوں کا کفر ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو چیزیں ان کے درمیان موجود ہیں ان کو خالی از حکمت پیدا نہیں کیا۔ (بلکہ بہت سی حکمتیں ہیں، جن میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ ان سے توحید اور آخرت ثابت ہوتی ہے) یہ (یعنی ان کا خالی از حکمت ہونا) ان لوگوں کا خیال ہے جو کافر ہیں (کیونکہ جب وحید اور آخرت کی جزا و سزا کا انکار کیا تو کائنات کی تخلیق کی سب سے بڑی حکمت کا انکار کیا) سو کافروں کے لئے (آخرت میں) بڑی خرابی ہے۔ یعنی دوزخ (کیونکہ وہ توحید کا انکار کرتے تھے) ہاں (ایک غلطی ان کی یہ ہے کہ قیامت کے منکر ہیں، حالانکہ قیامت میں یہ حکمت ہے کہ نیکوں کو جزا اور مفسدوں کو سزا ملے، اب ان کے انکار قیامت سے لازم آتا ہے کہ اس حکمت کا تحقق نہ ہو بلکہ سب برابر ہیں) تو کیا ہم ان لوگوں کو جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کی برابر کردیں گے جو (کفر وغیرہ کر کے) دنیا میں فساد کرتے پھرتے ہیں یا (بالفاظ دیگر کیا) ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے۔ (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا، لہٰذا قیامت ضرور آئے گی تاکہ نیکوں کو جزا اور بدکاروں کو سزا ملے، اسی طرح توحید اور آخرت کے ساتھ رسالت پر ایمان رکھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ) یہ (قرآن) ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں (یعنی ان کے اعجاز میں بھی اور کثیر النفع مضامین میں بھی) اور تاکہ (غور سے اس کی حقیقت معلوم کر کے اس سے) اہل فہم نصیحت حاصل کریں (یعنی اس پر عمل کریں) ۔- معارف ومسائل - آیات کی لطیف ترتیب :- یہ آیتیں جن میں اسلام کے بنیادی عقائد، خاص طور سے آخرت کا اثبات کیا گیا ہے، حضرت داؤد و سلیمان (علیہما السلام) کے واقعات کے درمیان انتہائی لطیف ترتیب کے ساتھ آئی ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہ سمجھ رہا ہو تو اس سے حکیمانہ طریقہ یہ ہے کہ زیر بحث موضوع چھوڑ کر کوئی غیر متعلق بات شروع کردی جائے۔ اور جب اس کا ذہن پہلی بات سے ہٹ جائے تو باتوں ہی باتوں میں اسے پہلی بات ماننے پر مجبور کردیا جائے۔ یہاں آخرت کے اثبات کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ سے پہلے کفار کی ہٹ دھرمیوں کا ذکر چل رہا تھا جو اس آیت پر ختم ہوا کہ (آیت) وقالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب۔ جس کا یہ حاصل تھا کہ وہ لوگ آخرت کا انکار کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد یہ ارشاد ہوا کہ (آیت) اصبر علیٰ ما یقولون واذکو عبدنا داؤد (ان کی باتوں پر صبر کیجئے اور ہمارے بندے داؤد کو، یاد کیجئے) اس طرح ایک نئی بات شروع کردی گئی، لیکن حضرت داؤد (علیہ السلام) کے واقعہ کو اس بات پر ختم کیا گیا کہ - ” اے داؤد، ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تم لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے رہنا “- اب یہاں سے ایک غیر محسوس طریقہ پر آخرت کا اثبات کردیا گیا کہ جو ذات زمین میں اپنے خلیفہ کو عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دے رہی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدکاروں کو سزا ملے اور نیکوں کو راحت، کیا وہ خود اس کائنات میں عدل و انصاف قائم نہیں کرے گا ؟ یقینا اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اچھے اور برے تمام لوگوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے بدکاروں کو سزا دے، اور نیکو کاروں کو انعام عطا فرمائے، یہی اس کائنات کی تخلیق کا مقصد ہے اور اس کے روبکار آنے کے لئے قیامت و آخرت کا وجود اس کی حکمت کے عین مطابق ہے۔ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ گویا زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ یہ کائنات بےمقصد اور خالی از حکمت پیدا کردی گئی ہے۔ اور اس میں اچھے برے تمام لوگ زندگی گزار کر مر جائیں گے اور پھر ان سے کوئی پوچھنے والا نہ ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ایمان رکھنے والا اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتا۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَہُمَا بَاطِلًا ٠ ۭ ذٰلِكَ ظَنُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ٠ ۚ فَوَيْلٌ لِّــلَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنَ النَّارِ ٢٧ۭ- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - بطل - البَاطِل : نقیض الحق، وهو ما لا ثبات له عند الفحص عنه، قال تعالی: ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔ - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] .- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے گبڑھ گئے تھے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔
ہم نے تمام مخلوقات کو عبث بغیر اوامرو نواہی کے نہیں پیدا کیا یہ ان لوگوں کا انکار ہے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے کے منکر ہیں۔ سو ایسے منکروں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔
آیت ٢٧ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا ” اور ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے ‘ اسے بےکار پیدا نہیں کیا۔ “- یہ مضمون قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے اور سورة آل عمران کی آیت ١٩١ میں تو اسی لفظ (باطل) کے ساتھ آیا ہے : رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ” اے ہمارے ربّ تو نے یہ سب کچھ بےکار پیدا نہیں کیا ‘ تو ُ پاک ہے ‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے “ سورة المو منون میں یوں فرمایا گیا ہے : اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ” کیا تم نے سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا تھا اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے “ مطلب یہ کہ عبث اور بےکار کام کرنا اللہ کی شان سے بہت بعید ہے۔- ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِ ” یہ گمان تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کفر کیا ‘ پس ہلاکت اور بربادی ہے ان کافروں کے لیے آگ کی۔ “
سورة صٓ حاشیہ نمبر :29 یعنی محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کر دیا ہے کہ اس میں کوئی حکمت نہ ہو ، کوئی غرض اور مقصد نہ ہو ، کوئی عدل اور انصاف نہ ہو ، اور کسی اچھے یا برے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو ۔ یہ ارشاد پچھلی تقریر کا ماحصل بھی ہے اور آگے کے مضمون کی تمہید بھی ۔ پچھلی تقریر کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود یہ حقیقت سامعین سے ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان یہاں شتر بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا گیا ہے ، نہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے کہ یہاں جس کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی باز پرس نہ ہو ۔ آگے کے مضمون کی تمہید کے طور پر اس فقرے سے کلام کا آغاز کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جو شخص جزا و سزا کا قائل نہیں ہے اور اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھا رہے کہ نیک و بد سب آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں گے ، کسی سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا ، نہ کسی کو بھلائی یا برائی کا کوئی بدلہ ملے گا ، وہ دراصل دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ خالق کائنات نے دنیا بنا کر اور اس میں انسان کو پیدا کر کے ایک فعل عبث کا ارتکاب کیا ہے ۔ یہی بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ مثلاً فرمایا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُم عَبَثاً وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ( المومنون:115 ) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو فضول پیدا کر دیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے جانے والے نہیں ہو؟ وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ مَا خَلَقْنٰھُمَا اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتُھُمْ اَجْمَعِیْنَ ( الدُّخان: 38 ۔ 40 ) ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور کائنات کو جو ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے ۔ ہم نے ان کو بر حق پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ درحقیقت فیصلے کا دن ان سب کے لیے حاضری کا وقت مقرر ہے ۔