Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] جن آپ کے حکم کے تحت بلند وبالا عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔ دریاؤں میں غوطہ لگا کر ان سے ہیرے جواہرات موتی وغیرہ نکالتے تھے۔ دوسرے کام جو عام انسانوں کی طاقت سے زیادہ ہوتے تھے وہ آپ جنوں سے لیا کرتے تھے۔ مزید تفصیل کے لئے سورة انبیاء آیت نمبر ٨٢ اور سورة سبا آیت نمبر ١٢ کے حواشی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ : ” بَنَّاۗءٍ “ اور ” وَّغَوَّاصٍ “ مبالغہ کے صیغے ہیں، اس لیے ان کا ترجمہ ماہر معمار اور ماہر غوطہ خور کیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالشَّيٰطِيْنَ كُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ۝ ٣٧ۙ- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - غوص - الغَوْصُ : الدّخول تحت الماء، وإخراج شيء منه، ويقال لكلّ من انهجم علی غامض فأخرجه له : غَائِصٌ ، عينا کان أو علما . والغَوَّاصُ : الذي يكثر منه ذلك، قال تعالی: وَالشَّياطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ [ ص 37] ، وَمِنَ الشَّياطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ [ الأنبیاء 82] ، أي : يستخرجون له الأعمال الغریبة والأفعال البدیعة، ولیس يعني استنباط الدّرّ من الماء فقط .- ( غ و ص ) الغوص کے معنی پانی میں غوطہ لگا کر کوئی چیز نکال لانے کے ہیں اور جو شخص کسی پیچیدہ مسئلہ کی تہ تک پہنچ جائے یا نیچے کی تہ سے کوئی چیز نکال لائے اسے غائص کہاجاتا ہے اسی سے عواص صیغہ مبالغہ ہے جس کے معنی غوطہ خور کے ہیں ۔ وَالشَّياطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ [ ص 37] اور شیطان کو بھی ( ان کی زیر فرمان کیا ) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے۔ وَمِنَ الشَّياطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ [ الأنبیاء 82] اور شیاطین ( کی جماعت کو بھی ان کے تابع کردیا تھا کہ ان ) میں سے بعض انکے لئے غوطے مارتے تھی ۔ میں پانی کے اندر سے موتی نکالنے والے غوطہ خوری مراد نہیں ہیں بلکہ نادر کام کرنے والے اور عجیب و غریب صنعتیں ایجاد کرنے والے بھی ان میں داخل ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٧۔ ٣٨) اور دوسرے جنات کو بھی جو لوہے کی زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے یہ سرکش اور فسادی جنات تھے کہ جو کام بھی ان کے سپرد ہوتا تھا اس سے بھاگ جاتے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ وَالشَّیٰطِیْنَ کُلَّ بَنَّآئٍ وَّغَوَّاصٍ ” اور سرکش ِجنات ّکو بھی (ہم نے مسخر کردیا تھا) سب کے سب عمارتیں بنانے والوں اور غوطہ خوروں کو۔ “- حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے یہ جنات بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے اور سمندر کی تہہ سے موتی اور دیگر اشیاء نکالتے تھے ۔ - ۔ - ۔ - ۔ - بَنَّـائ کے معنی معمار کے ہیں۔ حسن البناء شہید بھی اسی وجہ سے ” البناء “ کہلاتے تھے کہ ان کا تعلق ایک معمار خاندان سے تھا۔ عرب معاشرے میں کسی بھی پیشے کو حقیر یا باعث عار نہیں سمجھا جاتا۔ بقول غالب ع ” پیشے کو عیب نہیں ‘ رکھیے نہ فرہاد کو نام “ چناچہ عربوں کے ہاں اگر کسی شخص کے آباء و اَجداد حرم میں لوگوں کو پانی پلایا کرتے تھے تو وہ آج بھی ” سقّاء “ کہلاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کا تعلق نانبائیوں کے خاندان سے ہے تو وہ ” خباز “ کہلوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani