Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کا صبر ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کے صبر اور امتحان میں پاس ہونے کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ مال برباد ہو گیا اولادیں مر گئیں جسم مریض ہو گیا یہاں تک کہ سوئی کے ناکے کے برابر سارے جسم میں ایسی جگہ نہ تھی جہاں بیماری نہ ہو صرف دل سلامت رہ گیا اور پھر فقیری اور مفلسی کا یہ حال تھا کہ ایک وقت کا کھانا پاس نہ تھا کوئی نہ تھا جو خبر گیر ہوتا سوائے ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے جن کے دل میں خوف اللہ تھا اور اپنے خاوند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تھی ۔ لوگوں کا کام کاج کر کے اپنا اور اپنے میاں کا پیٹ پالتی تھیں آٹھ سال تک یہی حال رہا حالانکہ اس سے پہلے ان سے بڑھ کر مالدار کوئی نہ تھا ۔ اولاد بھی بکثرت تھی اور دنیا کی ہر راحت موجود تھی ۔ اب ہر چیز چھین لی گئی تھی اور شہر کا کوڑا کرکٹ جہاں ڈالا جاتا تھا وہں آپ کو لا بٹھایا تھا ۔ اسی حال میں ایک دو دن نہیں سال دو سال نہیں آٹھ سال کامل گذارے اپنے اور غیر سب نے منہ پھیر لیا تھا ۔ خیریت پوچھنے والا بھی کوئی نہ تھا ۔ صرف آپ کی یہی ایک بیوی صاحبہ تھیں جو ہر وقت دن اور رات آپ کی خدمت میں کمر بستہ تھیں ۔ ہاں پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کے وقت آپ کے پاس سے چلی جاتی تھیں یہاں تک کہ دن پھرے اور اچھا وقت آ گیا تو رب العالمین الہ المرسلین کی طرف تضرع و زاری کی اور کپکپاتے ہوئے کلیجے سے دل سے دعا کی کہ اے میرے پالنہار اللہ مجھے دکھ نے تڑپا دیا ہے اور تو ارحم الراحمین ہے یہاں جو دعا ہے اس میں جسمانی تکلیف اور مال و اولاد کے دکھ درد کا ذکر کیا ۔ اسی وقت رحیم و کریم اللہ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور حکم ہوا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو ۔ پاؤں کے لگتے ہی وہاں ایک چشمہ ابلنے لگا حکم ہوا کہ اس پانی سے غسل کر لو ۔ غسل کرتے ہی بدن کی تمام بیماری اس طرح جاتی رہی گویا تھی ہی نہیں ۔ پھر حکم ہوا کہ اور جگہ ایڑی لگاؤ وہاں پاؤں مارتے ہی دوسرا چشمہ جاری ہو گیا حکم ہوا کہ اس کا پانی پی لو اس پانی کے پیتے ہی اندرونی بیماریاں بھی جاتی رہیں اور ظاہر و باطن کی عافیت اور کامل تندرستی حاصل ہو گئی ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اٹھارہ سال تک اللہ کے یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دکھ درد میں مبتلا رہے اپنے اور غیر سب نے چھوڑ دیا ہاں آپ کے مخلص دوست صبح شام خیریت خبر کے لئے آ جایا کرتے تھے ایک مرتبہ ایک نے دوسرے سے کہا میرا خیال یہ ہے کہ ایوب نے اللہ کی کوئی بڑی نافرمانی کی ہے کہ اٹھارہ سال سے اس بلا میں پڑا ہوا ہے اور اللہ اس پر رحم کرے اس دوسرے شخص نے شام کو حضرت ایوب علیہ السلام سے اس کی یہ بات ذکر کر دی ۔ آپ کو سخت رنج ہوا اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔ اللہ خوب جانتا ہے میری یہ حالت تھی کہ جب دو شخصوں کو آپس میں جھگڑتے دیکھا اور دونوں اللہ کو بیچ میں لاتے تو مجھ سے یہ نہ دیکھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے عزیز نام کی اس طرح یاد کی جائے کیونکہ دو میں سے ایک تو ضرور مجرم ہو گا اور دونوں اللہ کا نام لے رہے ہیں تو میں اپنے پاس سے دے دلا کر ان کے جھگڑے کو ختم کر دیتا کہ نام اللہ کی بے ادبی نہ ہو ۔ آپ سے اس وقت چلا بھرا بلکہ اٹھا بیٹھا بھی نہیں جاتا تھا پاخانے کے بعد آپ کی بیوی صاحبہ آپ کو اٹھا کر لاتی تھیں ۔ ایک مرتبہ وہ نہیں تھیں آپ کو بہت تکلیف ہوئی اور دعا کی اور اللہ کی طرف سے وحی ہوئی کہ زمین پر لات مار دو ۔ بہت دیر کے بعد جب آپ کی بیوی صاحبہ آئیں تو دیکھا کہ مریض تو ہے نہیں کوئی اور شخص تندرست نورانی چہرے والا بیٹھا ہوا ہے پہچان نہ سکیں اور دریافت کرنے لگیں کہ اے اللہ کے نیک بندے یہاں اللہ کے ایک نبی جو درد دکھ میں مبتلا تھے انہیں دیکھا ہے؟ واللہ کہ جب وہ تندرست تھے تو قریب قریب تم جیسے ہی تھے ، تب آپ نے فرمایا وہ میں ہی ہوں ۔ راوی کہتا ہے آپ کی دو کوٹھیاں تھیں ایک گیہوں کیلئے اور ایک جو کے لئے ۔ اللہ تعالیٰ نے دو ابر بھیجے ایک میں سونا برسا اور ایک کوٹھی اناج کی اس سے بھر گئی دوسرے میں سے بھی سونا برسا اور دوسری کوٹھی اس سے بھر گئی ( ابن جریر ) صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر نہا رہے تھے جو آسمان سے سونے کی ٹٹڈیاں برسنے لگیں آپ نے جلدی جلدی انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنی شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے ایوب کیا میں نے تمہیں غنی اور بےپرواہ نہیں کر رکھا ؟ آپ نے جواب دیا ہاں الٰہی بیشک تو نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے میں سب سے غنی اور بےنیاز ہوں لیکن تیری رحمت سے بےنیاز نہیں ہوں بلکہ اس کا تو پورا محتاج ہوں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس صابر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک بدلہ اور بہتر جزائیں عطا فرمائیں ۔ اولاد بھی دی اور اسی کے مثل اور بھی دی بلکہ حضرت حسن اور قتادہ سے منقول ہے کہ مردہ اولاد اللہ نے زندہ کر دی اور اتنی ہی اور نئی دی ۔ یہ تھا اللہ کا رحم جو ان کے صبر و استقلال رجوع الی اللہ تواضع اور انکساری کے بدلے اللہ نے انہیں دیا اور عقلمندوں کے لئے نصیحت و عبرت ہے وہ جان لیتے ہیں کہ صبر کا انجام کشادگی ہے اور رحمت و راحت ہے ۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام اپنی بیوی کے کسی کام کی وجہ سے ان پر ناراض ہو گئے تھے بعض کہتے ہیں وہ اپنے بالوں کی ایک لٹ بیچ کر ان کے لئے کھانا لائی تھیں اس پر آپ ناراض ہوئے تھے اور قسم کھائی تھی کہ شفا کے بعد سو کوڑے ماریں گے دوسروں نے وجہ ناراضگی اور بیان کی ہے ۔ جبکہ آپ تندرست اور صحیح سالم ہوگئے تو ارادہ کیا کہ اپنی قسم کو پورا کریں لیکن ایسی نیک صفت عورت اس سزا کے لائق نہ تھیں جو حضرت ایوب نے طے کر رکھی تھی جس عورت نے اس وقت خدمت کی جبکہ کوئی ساتھ نہ تھا اسی لئے رب العالمین ارحم الراحمین نے ان پر رحم کیا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ قسم پوری کرنے کے لئے کھجور کا ایک خوشہ لے لو جس میں ایک سو سیخیں ہوں اور ایک انہیں مار دو اس صورت میں قسم کا خلاف نہ ہو گا اور ایک ایسی صابرہ شاکرہ نیک بیوی پر سزا بھی نہ ہو گی ۔ یہی دستور الٰہی ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو جو اس سے ڈرتے رہتے ہیں برائیوں اور بدیوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت ایوب کی ثناء و صفت بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صابر و ضابط پایا وہ بڑا نیک اور اچھا بندہ ثابت ہوا ۔ اس کے دل میں ہماری سچی محبت تھی وہ ہماری ہی طرف جھکتا رہا اور ہمیں سے لو لگائے رہا ، اسی لئے فرمان اللہ ہے کہ جو اللہ سے ڈرتا رہتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی صورت نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جو اس کے خیال میں بھی نہ ہو ۔ اللہ پر توکل رکھنے والوں کو اللہ کافی ہے ۔ اللہ اپنے کام میں پورا اترتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ سمجھدار علماء کرام نے اس آیت سے بہت سے ایمانی مسائل اخذ کئے ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اہل و مال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتٰی کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح شام ان کی خدمت کرتی اور ان کو کہیں کام کاج کرکے بقدر کفالت رزق کا انتظام بھی کرتی۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئی ہے درآں حالیکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے، کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جس پر یہ آزمائش آئی یا پھر بطور ادب کے ہے کہ خیر کا اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی یا شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] برے ایمان کی نسبت شیطان کی طرف :۔ ہر مسلمان کے عقیدہ میں یہ بات شامل اور اس کے ایمان بالغیب کا ایک جزء ہے کہ رنج ہو یا راحت، برائی ہو یا بھلائی سب کچھ اللہ کی مشیئت کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن اس مشیئت کا انحصار بھی بعض دفعہ انسان کے اپنے قصور یا شیطانی وساوس سے کسی نہ کسی درجہ میں ضرور ہوتا ہے۔ اور قرآن کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن امور میں کوئی پہلو شر کا یا ایذا یا کسی صحیح مقصد کے فوت ہوجانے کا ہو ان کو اللہ کے مقرب بندے ادب کے نقطہ نظر اور تواضع کی خاطر کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ اسے اپنے نفس یا شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جیسے سیدنا ابراہیم نے اپنے مرض کو اپنی طرف منسوب کیا۔ سیدنا موسیٰ کے ساتھ یوشع بن نون نے مچھلی کے سمندر میں چلے جانے کی بات کو شیطان کی طرف منسوب کیا، اسی طرح ایوب نے بھی اپنی بیماری اور تکلیف کو شیطان کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کا مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ سیدنا ایوب طویل بیماری اور تکلیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی صحیح طور پر عبادت گزاری سے قاصر رہے تھے تو اس قصور کا باعث شیطانی وساوس کو قرار دیا ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَيُّوْبَ : اس کا عطف اس سے پہلے پر ہے۔ لفظ ” عَبْدَنَآ “ میں اللہ تعالیٰ کے ان سے تعلق کا اظہار ہو رہا ہے۔ اس سورت میں مذکور قصّوں میں سے یہ تیسرا قصّہ ہے کہ داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور دونوں کی آزمائش کا ذکر فرمایا اور ایوب (علیہ السلام) پر آنے والی مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور انھیں دور کرنے کی نعمت کا ذکر فرمایا، مقصد سب سے عبرت دلانا ہے۔- اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ : ” نُصْبٌ“ تھکاوٹ اور مشقت کو کہتے ہیں اور ” وَّعَذَابٍ “ شدید بدنی تکلیف کو۔ یعنی مجھے دو قسم کی تکلیف پہنچی ہے، ایک شدید دکھ جو مال و اولاد اور عافیت نہ رہنے کی وجہ سے تھا اور دوسری جسمانی تکلیف جو بیماری کی وجہ سے تھی۔- اس دعا میں ایوب (علیہ السلام) کا حسن ادب دیکھیے کہ انھوں نے دکھ اور تکلیف کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی بلکہ شیطان کی طرف کی ہے۔ حالانکہ رنج ہو یا راحت، برائی ہو یا بھلائی، سب اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے تحت ہے اور وہی سب کا خالق ہے، مگر چونکہ اکثر ان کا تعلق کسی قریب یا بعید وجہ سے شیطان کے ساتھ ہوتا ہے، اس لیے اللہ کے مقرّب بندے شر کی نسبت اپنی طرف کرتے ہیں یا شیطان کی طرف، اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کرتے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مرض کی نسبت اپنی طرف اور شفا کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی، فرمایا : (وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ ) [ الشعرآء : ٨٠ ] ” اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ “ اور موسیٰ اور خضر (علیہ السلام) کے قصے میں یوشع بن نون (علیہ السلام) نے بھلانے کی نسبت شیطان کی طرف کی، فرمایا : (وَمَآ اَنْسٰنِيْهُ اِلَّا الشَّيْطٰنُ اَنْ اَذْكُرَهٗ ) [ الکہف : ٦٣ ] ” اور مجھے وہ نہیں بھلائی مگر شیطان نے کہ میں اس کا ذکر کروں۔ “ صحیح مسلم میں نماز کے شروع میں پڑھی جانے والی ایک لمبی دعا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے، جو ” وَجَّہْتُ وَجْہِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ “ سے شروع ہوتی ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں : ( لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَ الْخَیْرُ کُلُّہُ فِيْ یَدَیْکَ وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ ) [ مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الدعاء في صلاۃ اللیل و قیامہ : ٧٧١، عن علي بن أبي طالب (رض) ] ” حاضر ہوں اور حاضر ہوں اور خیر ساری تیرے ہاتھ میں ہے اور شر تیری طرف نہیں ہے۔ “- ایوب (علیہ السلام) کی اس دعا میں اور سورة انبیاء (٨٣) میں مذکور دعا : (اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ) (بےشک میں، مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے) میں ایوب (علیہ السلام) کے دعا کے سلیقے کا اظہار ہو رہا ہے کہ انھوں نے صریح لفظوں میں اپنے مقصد کے اظہار کے بجائے اپنی حالت زار اور رب تعالیٰ کی مہربانی کا ذکر ایسے لفظوں میں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان پر رحم فرما کر شفا دے دی۔ - ان چاروں آیات کی مفصّل تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انبیاء کی آیت (٨٣، ٨٤) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور آپ ہمارے بندہ ایوب (علیہ السلام) کو یاد کیجئے جبکہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے۔ اور یہ رنج و آزار بعض مفسرین کے مطابق وہ ہے جو امام احمد نے کتاب الزہد میں ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری کے زمانے میں ایک بار شیطان ایک طبیب کی شکل میں حضرت ایوب کی بیوی کو ملا تھا۔ اسے انہوں نے طبیب سمجھ کر علاج کی درخواست کی، اس نے کہا اس شرط سے کہ اگر ان کو شفا ہوجائے تو یوں کہہ دینا کہ تو نے ان کو شفا دی، میں اور کچھ نذرانہ نہیں چاہتا۔ انہوں نے ایوب (علیہ السلام) سے ذکر کیا، انہوں نے فرمایا کہ بھلی مانس وہ تو شیطان تھا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو شفا دے دے تو میں تجھ کو سو قمچیاں ماروں گا۔ پس آپ کو سخت رنج پہنچا اس سے کہ میری بیماری کی بدولت شیطان کا یہاں تک حوصلہ بڑھا کہ خاص میری بیوی سے ایسے کلمات کہلوانا چاہتا ہے۔ جو ظاہراً موجب شرک ہیں۔ گو تاویل سے شرک نہ ہوں اگرچہ حضرت ایوب ازالہ مرض کے لئے پہلے بھی دعا کرچکے تھے۔ مگر اس واقعہ سے اور زیادہ ابہال اور تضرع سے دعا کی، پس ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور حکم دیا کہ) اپنا پاؤں (زمین پر) مارو۔ (چنانچہ انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو وہاں سے ایک چشمہ پیدا ہوگیا۔ (رواہ احمد) - پس ہم نے ان سے کہا کہ۔ یہ (تمہارے لئے) نہانے کا ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کا۔ (یعنی اس میں غسل کرو اور پیو بھی۔ چناچہ نہائے اور پیا بھی، اور بالکل اچھے ہوگئے) اور ہم نے ان کو ان کا کنبہ عطا فرمایا اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور اہل عقل کے لئے یادگار رہنے کے سبب سے (یعنی اہل عقل یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ صابروں کو کیسی جزا دیتے ہیں اور اب ایوب (علیہ السلام) نے اپنی قسم پوری کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر چونکہ ان کی بیوی نے ایوب (علیہ السلام) کی خدمت بہت کی تھی۔ اور ان سے کوئی گناہ بھی صادر نہ ہوا تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے لئے ایک تخفیف فرمائی) اور (ارشاد فرمایا کہ اے ایوب) تم اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا سینکوں کا لو ( جس میں سو سینکیں ہوں) اور (اپنی بیوی کو) اس سے مار لو اور (اپنی) قسم نہ توڑو (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آگے ایوب (علیہ السلام) کی تعریف کی ہے کہ) بیشک ہم نے ان کو (بڑا) صابر پایا، اچھے بندے تھے کہ (خدا کی طرف) بہت رجوع ہوتے تھے۔- معارف و مسائل - حضرت ایوب (علیہ السلام) کا واقعہ یہاں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کرنے کے لئے لایا گیا ہے یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے، یہاں چند باتیں قابل ذکر ہیں۔- مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ۔ (شیطان نے مجھ کو رنج اور آزار پہنچایا ہے) بعض حضرات نے شیطان کے رنج و آزار پہنچانے کی تفصیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) جس بیماری میں مبتلا ہوئے وہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے آئی تھی۔ اور ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ فرشتوں نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بہت تعریف کی جس پر شیطان کو سخت حسد ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان کے جسم اور مال واولاد پر ایسا تسلط عطا کردیا جائے جس سے میں ان کے ساتھ جو چاہوں سو کروں، اللہ تعالیٰ کو بھی حضرت ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش مقصود تھی، اس لئے شیطان کو یہ حق دے دیا گیا اور اس نے آپ کو اس بیماری میں مبتلا کردیا۔- لیکن محقق مفسرین نے اس قصے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق انبیاء (علیہ السلام) پر شیطان کو تسلط حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نے آپ کو بیمار ڈال دیا ہو۔ - بعض حضرات نے شیطان کے رنج وآزار پہنچانے کی یہ تشریح کی ہے کہ بیماری کی حالت میں شیطان حضرت ایوب (علیہ السلام) کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالا کرتا تھا، اس سے آپ کو اور زیادہ تکلیف ہوتی تھی، یہاں آپ نے اسی کا ذکر فرمایا ہے۔ لیکن اس آیت کی سب سے بہتر تشریح وہ ہے جو حضرت تھانوی نے بیان القرآن میں اختیار کی ہے اور جو خلاصہ تفسیر میں اوپر لکھی گئی ہے۔ - حضرت ایوب کے مرض کی نوعیت :- قرآن کریم میں اتنا تو بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہوگیا تھا، لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا۔ لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر بیماریاں تو آسکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری بھی ایسی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی بیماری تھی، لہٰذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا، روایةً ودرایةً قابل اعتماد نہیں ہیں۔- (مخلص از روح المعانی و احکام القرآن)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَيُّوْبَ۝ ٠ ۘ اِذْ نَادٰى رَبَّہٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ۝ ٤١ۭ- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - نصب ( تعب)- والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی:- عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] .- ( ن ص ب ) نصب - اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ کفار مکہ کے سامنے ہمارے بندہ ایوب کا واقعہ بیان کیجیے کہ جس وقت انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ آپ نے مجھ پر شیطان مسلط کردیا ہے اس نے مجھے تکلیف اور بیماری میں مبتلا کردیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ ٧ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ ” اور ذرا یاد کیجیے ہمارے بندے ایوب ( علیہ السلام) کو ‘ جبکہ اس نے پکارا اپنے رب کو کہ مجھے شیطان نے شدید بیماری اور تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ “- حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور ان کا صبر مشہور ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کسی جلدی مرض میں مبتلا ہوگئے تھے جس کی وجہ سے آپ ( علیہ السلام) کا سارا جسم گل گیا تھا۔ مال و دولت بھی سب جاتا رہا ‘ اعزہ و اقرباء منہ موڑ گئے ‘ آل و اولاد میں سے کچھ فوت ہوگئے اور کچھ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر کار ایک بیوی ساتھ رہ گئی تھی جو اس بیماری سے اکتانے لگی۔ (واضح رہے کہ شر یا ایذاوغیرہ کو شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ مراد نہیں کہ شیطان کو تکلیف پہنچانے کی قدرت حاصل ہے۔ ) آپ ( علیہ السلام) نے انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مذکورہ بالا دعا کی تو جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة صٓ حاشیہ نمبر :41 یہ چوتھا مقام ہے جہاں حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر قرآن میں آیا ہے ۔ اس سے پہلے سورہ نساء آیت 163 ، سورہ انعام آیت 84 ، سورہ انبیاء آیات 83 ۔ 84 میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم تفسیر سورہ انبیاء میں ان کے حالات کی تفصیل بیان کر چکے ہیں ۔ ( تفہیم القرآن ، جلد سوم ، صفحات 178 تا 181 ) سورة صٓ حاشیہ نمبر :42 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت ، مال و دولت کے ضیاع ، اور اعزہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں اس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھے تنگ کر رہا ہے ، وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے ، مجھے اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے ، اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں ۔ حضرت ایوب کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے ، ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی طاقت عطا فرمائی ہے ، یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار ڈال دے اور انہیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے ۔ دوسرے یہ کہ سورہ انبیاء میں جہاں حضرت ایوب علی السلام اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ، مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گذر چکا ہے، حضرت ایوب (علیہ السلام) کو ایک طویل بیماری لاحق ہوگئی تھی۔ وہ صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے جس کے بعد انہیں شفا حاصل ہوئی۔ آیت نمبر 42 میں شفا کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ وہ اپنا پاؤں زمین پر ماریں۔ انہوں نے زمین پر پاؤں مارا تو وہاں سے ایک چشمہ پھوٹ نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ اس پانی سے نہائیں، اور اسی کو پئیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو ان کی بیماری جاتی رہی۔