48۔ 1 یسع (علیہ السلام) کہتے ہیں، حضرت الیاس (علیہ السلام) کے جانشین تھے، ال تعریف کے لئے ہے اور عجمی نام ہے ذوالکفل کے لئے دیکھئے (وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِدْرِيْسَ وَذَا الْكِفْلِ ۭ كُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِيْنَ ) 21 ۔ الانبیاء :85) کا حاشیہ۔
[٥٤] الیسع اور ذوالکفل کا ذکر :۔ سیدنا اسماعیل تو معروف ہیں اور ان کا ذکر قرآن میں بہت جگہ آیا ہے۔ الیسع سیدنا الیاس کے نائب اور خلیفہ تھے ان کا سلسلہ نسب چوتھی پشت پر جاکر سیدنا یوسف سے جا ملتا ہے۔ بعد میں آپ کو نبوت بھی عطا ہوئی تھی۔ آپ کا حلقہ تبلیغ شام کا علاقہ تھا۔ اور ذوالکفل ان کے خلیفہ کا لقب ہے نام نہیں۔ اور ذوالکفل کا معنی صاحب نصیب ہے۔ آپ کا نام بشیر ہے اور سیدنا ایوب کے بیٹے تھے۔ آپ الیسع کے خلیفہ تھے بعد میں نبی ہوئے شام کا علاقہ ہی آپ کی تبلیغ کا مرکز رہا۔ عمالقہ شاہ وقت بنی اسرائیل کا سخت دشمن تھا۔ آپ نے اس سے بنی اسرائیل کو آزاد کرایا پھر وہ بادشاہ بھی مسلمان ہوگیا اور حکومت آپ کے سپرد کی جس کے نتیجہ میں شام کے علاقہ میں پھر ایک دفعہ اسلام خوب پھیلا۔- اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ سب ہی بہترین لوگ تھے۔ قرآن نے ان انبیاء کا اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر فرمایا ہے اور ہر مقام پر قرآن انبیاء کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ جبکہ بائیبل نے بہت سے اولوالعزم انبیاء پر اتہام لگائے اور ان کی کردار کشی کی ہے۔ جن انبیاء پر بائیبل میں اتہام لگائے گئے ہیں وہ یہ ہیں : سیدنا نوح، سیدنا لوط، سیدنا یعقوب، سیدنا ہارون، سیدنا داؤد، سیدنا سلیمان اور سیدنا عیسیٰ (علیہم السلام) تفصیل کے لئے دیکھئے سورة انعام کی آیت نمبر ٨٦ پر حاشیہ نمبر ٨٧۔ الف)
حضرت الیسع (علیہ السلام) :- والیسع (اور الیسع (علیہ السلام) کو یاد کرو) حضرت الیسع (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے انبیاء (علیہم السلام) میں سے ہیں اور قرآن کریم میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے۔ ایک سورة انعام میں اور دوسرے یہاں۔ دونوں میں سے کسی جگہ آپ کے تفصیلی حالات مذکور نہیں بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کی فہرست میں صرف آپ کا اسم گرامی شمار کرایا گیا ہے۔- تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے کہ آپ حضرت الیاس (علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی ہیں اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کے نائب اور خلیفہ تھے، انہی کی رفاقت میں رہتے تھے، ان کے بعد آپ کو نبوت عطا کی گئی۔ بائبل کی کتاب سلاطین اول باب ٩١ اور سلاطین دوم باب ٢ وغیرہ میں آپ کے تفصیلی حالات بیان کئے گئے ہیں۔ وہاں آپ کا اسم گرامی الیشع بن ساقط مذکور ہے۔
وَاذْكُرْ اِسْمٰعِيْلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ٠ ۭ وَكُلٌّ مِّنَ الْاَخْيَارِ ٤٨ۭ- ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- كفل - الْكَفَالَةُ : الضّمان، تقول : تَكَفَّلَتْ بکذا، وكَفَّلْتُهُ فلانا، وقرئ : وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا - [ آل عمران 37] «3» أي : كفّلها اللہ تعالی، ومن خفّف «4» جعل الفعل لزکريّا، المعنی: تضمّنها . قال تعالی: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] ، والْكَفِيلُ : الحظّ الذي فيه الکفاية، كأنّه تَكَفَّلَ بأمره . نحو قوله تعالی: فَقالَ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] أي : اجعلني کفلا لها، والکِفْلُ : الكفيل، قال : يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] أي : كفيلين من نعمته في الدّنيا والآخرة، وهما المرغوب إلى اللہ تعالیٰ فيهما بقوله : رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201]- ( ک ف ل ) الکفالۃ - ضمانت کو کہتے ہیں اور تکفلت بکذا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں ۔ اور کفلتہ فلانا کے معنی ہیں میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَّلَها زَكَرِيَّا[ آل عمران 37] اور زکریا کو اس کا متکفل بنایا ۔ بعض نے کفل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں اس کا فاعل زکریا (علیہ السلام) ہوں گے یعنی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو پانی کفالت میں لے لیا ۔ اکفلھا زیدا اسے زید کی کفالت میں دیدیا ) قرآن میں ہے : ۔ أَكْفِلْنِيها[ ص 23] یہ بھی میری کفالت مٰن دے دو میرے سپرد کر دو الکفیل اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں ۔ گویا وہ انسان کی ضرورت کا ضامن ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا[ النحل 91] اور تم خدا کو اپنا کفیل بنا چکے ہو ۔ اور الکفل کے معنی بھی الکفیل یعنی حصہ کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ [ الحدید 28] وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائیگا ۔ یعنی دنیا اور عقبیی دونون جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوزے گا ۔ اور یہی دوقسم کی نعمیتں ہیں جن کے لئے آیت رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً [ البقرة 201
(٤٨۔ ٥١) اور اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل کو بھی یاد کیجیے ذوالکفل ان کو اس لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک قوم کی ذمہ داری اور ضمانت لے لی تھی پھر اس کو پورا کیا یا یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ایک چیز کا عہد کرلیا تھا پھر اس کو پورا کیا اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے سو انبیاء کرام کی ذمہ داری لے لی تھی ان کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل سے نجات دی اور یہ نیک آدمی تھے نبی نہیں تھے یہ سب اللہ کے نزدیک پسندیدہ لوگوں میں سے تھے نیک لوگوں کا تذکرہ تو ہوچکا یا یہ مطلب ہے کہ اس قرآن کریم میں اولین و آخرین کا ذکر ہے اور کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والوں کے لیے آخرت میں اچھا ٹھکانا ہے۔- اب ان کے ٹھکانے کی کیفیت بیان فرماتے ہیں کہ انبیاء اور صالحین کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں جن کے دروازے قیامت کے دن ان کے لیے کھلے ہوں گے اور وہ جنت کے ان باغوں میں خوشی کے ساتھ مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے اور وہ جنت میں قسم قسم کے میوے اور پینے کی چیزیں منگوائیں گے۔
آیت ٤٨ وَاذْکُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَذَا الْکِفْلِط وَکُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ ” اور ذکرکیجیے اسماعیل (علیہ السلام) الیسع (علیہ السلام) اور ذوالکفل (علیہ السلام) کا ‘ یہ سب بھی بہت عمدہ لوگوں میں سے تھے۔ “- حضرت الیسع اور حضرت ذوالکفل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آج ہمیں یقینی معلومات میسر نہیں۔ سورة الانبیاء (آیت ٨٥) کی تشریح کے ذیل میں مولانا مناظر احسن گیلانی (رح) کا یہ خیال نقل کیا گیا تھا (اور مجھے اس سے کسی حد تک اتفاق ہے) کہ قرآن میں ذو الکفل (علیہ السلام) کے نام سے جس پیغمبر کا ذکر ہوا ہے وہ دراصل گوتم بدھ تھے۔ ان کا اصل نام سدھارتا تھا۔ ” گوتم بدھ “ یا ” گو تمابدھا “ ان کا لقب تھا جو بعد میں مشہور ہوا۔ آپ ریاست ” کپل وستو “ کے ولی عہد تھے۔ چناچہ جن محققین کا خیال ہے کہ قرآن میں ذوالکفل کے نام سے گوتم بدھ ہی کا ذکر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ” کفل “ دراصل ” کپل “ ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ یعنی ہندی ” پ “ کی جگہ عربی کی ” ف “ نے لے لی ہے اور اس طرح گویا ذوالکفل کے معنی ہیں ” کپل (ریاست) والا۔ “ ٭
سورة صٓ حاشیہ نمبر :50 قرآن مجید میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انعام آیت 86 میں ۔ دوسرے اس جگہ ۔ اور دونوں مقامات پر کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ صرف انبیائے کرام کے سلسلے میں ان کا نام لیا گیا ہے ۔ وہ بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء میں سے تھے ۔ دریائے اُردُن کے کنارے ایک مقام ایبل محولہ ( ) کے رہنے والے تھے ۔ یہودی اور عیسائی ان کو اِلِیشَع ( ) کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ حضرت الیاس علیہ السلام جس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا میں پناہ گزیں تھے ، ان کو چند اہم کاموں کے لیے شام و فلسطین کی طرف واپس آنے کا حکم دیا گیا ، جن میں سے ایک کام یہ تھا یہ حضرت الیسع کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کریں ۔ اس فرمان کے مطابق جب حضرت الیاس ان کی بستی پر پہنچے تو دیکھا کہ یہ بارہ جوڑی بیل آگے لیے زمین جوت رہے ہیں اور خود بارہویں جوڑی کے ساتھ ہیں ۔ انہوں نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر ساتھ ہولیے ( سلاطین ، باب 19 ، فقرات 15 ۔ تا ۔ 21 ) ۔ تقریباً دس بارہ سال یہ ان کے زیر تربیت رہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا تو یہ انکی جگہ مقرر ہوئے ۔ ( 2 سلاطین ، باب 2 ) ۔ بائیبل کی کتاب 2 سلاطین میں باب 2 سے 13 تک ان کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی فلسطین کی اسرائیلی سلطنت جب شرک و بت پرستی اور اخلاقی نجاستوں میں غرق ہوتی چلی گئی تو آخر کار انہوں نے یاہو بن یہوسفط بن نمسی کو اس خانوادہ شاہی کے خلاف کھڑا کیا جس کے کرتوتوں سے اسرائیل میں یہ برائیاں پھیلی تھیں ، اور اس نے نہ صرف بعل پرستی کا خاتمہ کیا ، بلکہ اس بدکردار خاندان کے بچے بچے کو قتل کر دیا ۔ لیکن اس اصلاحی انقلاب سے بھی وہ برائیاں پوری طرح نہ مٹ سکیں جو اسرائیل کی رگ رگ میں اتر چکی تھیں ، اور حضرت الیسع کی وفات کے بعد تو انہوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی ، یہاں تک کہ سامریہ پر اشوریوں کے پے در پے حملے شروع ہو گئے ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، ص 597 ۔ اور تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ نمبر 70 ۔ 71 ) سورة صٓ حاشیہ نمبر :51 حضرت ذوالکفل کا ذکر بھی قرآن مجید میں دو ہی جگہ آیا ہے ۔ ایک سورہ انبیاء ۔ دوسرے یہ مقام ۔ ان کے متعلق ہم اپنی تحقیق سورہ انبیاء میں بیان کر چکے ہیں ۔ ( تفہیم القرآن : جلد سوم ، ص 181 ، 182 )
24: حضرت الیسع (علیہ السلام) کا ذکر قرآن کریم میں صرف دو جگہ آیا ہے، ایک یہاں اور ایک سورۂ انعام : 86 میں۔ دونوں جگہ آپ کا صرف نام مذکور ہے، کوئی مفصل واقعہ بیان نہیں فرمایا گیا۔ تاریخی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بنو اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے، اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی تھے۔ بائبل کی کتاب سلاطین اول باب 19 میں آپ کا واقعہ مذکور ہے۔ اسی طرح حضرت ذوالکفل (علیہ السلام) کا بھی دو جگہ صرف ذکر آیا ہے، ایک یہاں اور دوسرے سورۂ انبیاء : 85 میں۔ بعض مفسرین نے انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ قرار دیا ہے، اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نبی نہیں تھے، ولی اللہ تھے۔