63۔ 1 یعنی دنیا میں، جہاں ہم غلطی پر تھے ؟ 63۔ 2 یا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی یہیں کہیں ہیں، ہماری نظریں انہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔
[٦٣] یعنی چودھری اور سردار قسم کے لوگ آپس میں کہیں گے کہ جن لوگوں کو ہم حقیر اور کمتر درجہ کے لوگ سمجھا کرتے تھے کیا بات ہے وہ ہمیں آج کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ اب اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ شاید وہ یہیں کہیں ہوں اور ہماری نظروں سے اوجھل ہوں اور دوسری یہ کہ ممکن ہے کہ ہم غلطی پر ہوں جو انہیں حقیر سمجھ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اور وہ حقیقتًا اچھے لوگ ہوں اور وہ اس عذاب سے بچ گئے ہوں۔
اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِيًّا : یعنی اب دو ہی صورتیں ہیں، یا تو ہم غلطی پر تھے کہ انھیں ناحق مذاق کا نشانہ بناتے رہے، یا وہ بھی یہیں کہیں جہنم میں ہیں، مگر ہماری نگاہیں ان سے پھر گئی ہیں، جو وہ ہمیں نظر نہیں آ رہے۔
اَتَّخَذْنٰہُمْ سِخْرِيًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْہُمُ الْاَبْصَارُ ٦٣- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- سخر - التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] - ( س خ ر ) التسخیر - ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔- زيغ - الزَّيْغُ : المیل عن الاستقامة، والتَّزَايُغُ : التمایل، ورجل زَائِغٌ ، وقوم زَاغَةٌ ، وزائغون، وزاغت الشمس، وزَاغَ البصر، وقال تعالی: وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى ما يداخلهم من الخوف حتی اظلمّت أبصارهم، ويصحّ أن يكون إشارة إلى ما قال : يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] ، وقال : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] ، مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] ، فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ- [ الصف 5] ، لمّا فارقوا الاستقامة عاملهم بذلک .- ( ز ی غ ) الزیغ کے معنی حالت استقامت سے ایک جانب مائل ہوجانا کے ہیں اور التزایغ کے معنی تمایل یعنی بہت زیادہ مائل ہوجانا ایک دوسرے سے مائل ہونا رجل زائغ مائل ہونے والا ۔ اس کی جمع زاغۃ وزائغون آتی ہے ۔ زاغت الشمس ۔ سورج مائل بزوال ہوگیا زاغ البصر نگاہ نے غلطی کی ، ایک طرف ہٹ گئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَإِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ خوف و ہراس کی وجہ سے انہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور یہ بھی کہ یہ آیت :۔ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ [ آل عمران 13] کے ہم معنی ہو یعنی نگاہیں صحیح طور پر کسی چیز کا ادارک نہیں کرسکیں گی ۔ نیز فرمایا : ما زاغ الْبَصَرُ وَما طَغى [ النجم 17] نظر نہ تو حقیقت سے ایک طرف ہٹی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا ۔ مِنْ بَعْدِ ما کادَ يَزِيغُ [ التوبة 117] اس کے بعد کہ ۔۔۔۔ پھرجانے کو تھے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا زاغُوا أَزاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ [ الصف 5] کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ از خود صحیح راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں کو اسی طرف جھکا دیا ۔
(٦٣۔ ٦٤) کیا ہم نے دنیا میں ناحق ان کا مذاق اڑایا تھا یا ان کے دیکھنے سے ہماری نگاہیں چکرا رہی ہیں کہ وہ ہمیں یہاں نظر نہیں آرہے یہ دوزخیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا بالکل سچی بات ہے۔
آیت ٦٣ اَتَّخَذْنٰہُمْ سِخْرِیًّا ” کیا ہم نے انہیں خواہ مخواہ ہنسی مذاق بنا لیا تھا “- یعنی کیا ہم نے انہیں غلط سمجھا تھا ؟ اور ہم ان کا جو مذاق اڑایا کرتے تھے کیا وہ سب بلاوجہ اور بےمحل تھا ؟ اور کیا اصل میں وہ برے لوگ نہیں تھے ؟- اَمْ زَاغَتْ عَنْہُمُ الْاَبْصَارُ ” یا ہماری نگاہیں ان سے چوک رہی ہیں ؟ “- یعنی کیا وہ لوگ یہاں جہنم میں موجود ہی نہیں یا پھر ہم انہیں دیکھ نہیں پا رہے۔ اہل جہنم کی یہ ساری گفتگو اہل ِایمان کے بارے میں ہوگی جو اس وقت جنت کی نعمتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے۔