نبی علیہ السلام کا خواب ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ کافروں سے کہہ دو کہ میری نسبت تمہارے خیالات محض غلط ہیں میں تو تمہیں ڈر کی خبر پہچانے والا ہوں ۔ اللہ وحدہ لا شریک لہ کے سوا اور کوئی قابل پرستش نہیں وہ اکیلا ہے وہ ہر چیز پر غالب ہے ، ہر چیز اس کے ماتحت ہے ۔ وہ زمین و آسمان اور ہر چیز کا مالک ہے اور سب تصرفات اسی کے قبضے میں ہیں ۔ وہ عزتوں والا ہے اور باوجود اس عظمت و عزت کے بڑا بخشنے والا ہے ۔ یہ بہت بڑی چیز ہے یعنی میرا رسول بن کر تمہاری طرف آنا پھر تم اے غافلو اس سے اعراض کر رہے ہو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بڑی چیز ہے یعنی قرآن کریم ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرشتوں میں جو کچھ اختلاف ہوا اگر رب کی وحی میرے پاس نہ آئی ہوتی تو مجھے اس کی بابت کیا علم ہوتا ؟ ابلیس کا آپ کو سجدہ کرنے سے منکر ہونا اور رب کے سامنے اس کی مخالفت کرنا اور اپنی بڑائی جتانا وغیرہ ان سب باتوں کو میں کیا جانوں؟ مسند احمد میں ہے ایک دن صبح کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت دیر لگا دی یہاں تک کہ سورج طلوع ہونے کا وقت آ گیا پھر بہت جلدی کرتے ہوئے آئے تکبیر کہی گئی اور آپ نے ہلکی نماز پڑھائی ۔ پھر ہم سے فرمایا ذرا دیر ٹھہرے رہو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا رات کو میں تہجد کی نماز پڑھ رہا تھا جو مجھے اونگھ آنے لگی یہاں تک کہ میں جاگا میں نے دیکھا کہ گویا میں اپنے رب کے پاس ہوں میں نے اپنے پروردگار کو بہرتین عمدہ صورت میں دیکھا مجھ سے جناب باری نے دریافت فرمایا جانتے ہو عالم بالا کے فرشتے اس وقت کس امر میں گفتگو اور سوال و جواب کر رہے ہیں؟ میں نے کہا میرے رب مجھے کیا خبر؟ تین مرتبہ کے سوال جواب کے بعد میں میں نے دیکھا کہ میرے دونوں مونڈھوں کے درمیان اللہ عزوجل نے اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ انگلیوں کی ٹھنڈک مجھے میرے سینے میں محسوس ہوئی اور مجھ پر ہر ایک چیز روشن ہو گئی پھر مجھ سے سوال کیا اب بتاؤ ملاء اعلیٰ میں کیا بات چیت ہو رہی ہے؟ میں نے کہا گناہوں کے کفارے کی ۔ فرمایا پھر تم بتاؤ کفارے کیا کیا ہیں؟ میں نے کہا نماز با جماعت کے لئے قدم اٹھا کر جانا ۔ نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھے رہنا اور دل کے نہ چاہئے پر بھی کامل وضو کرنا ۔ پھر مجھ سے میرے اللہ نے پوچھا درجے کیا ہیں؟ میں نے کہا کھانا کھلانا ۔ نرم کلامی کرنا اور راتوں کو جب لوگ سوئے پڑے ہوں نماز پڑھنا ۔ اب مجھ سے میرے رب نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے؟ میں نے کہا میں نیکیوں کا کرنا برائیوں کا چھوڑنا مسکینوں سے محبت رکھنا اور تیری بخشش ، تیرا رحم اور تیرا ارادہ جب کسی قوم کی آزمائش کا فتنے کے ساتھ ہو تو اسے فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلے موت ، تیری محبت اور تجھ سے محبت رکھنے والوں کی محبت اور ان کاموں کی چاہت جو تیری محبت سے قریب کرنے والے ہوں مانگتا ہوں اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سراسر حق ہے اسے پڑھو پڑھاؤ سیکھو سکھاؤ ۔ یہ حدیث خواب کی ہے اور مشہور بھی یہی ہے بعض نے کہا ہے یہ جاگتے کا واقعہ ہے لیکن یہ غلط ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ خواب کا ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ قرآن میں فرشتوں کی جس بات کا رد و بدل کرنا اس آیت میں مذکور ہے وہ یہ نہیں جو اس حدیث میں ہے بلکہ یہ سوال تو وہ ہے جس کا ذکر اس کے بعد ہی ہے ملاحظہ ہوں اگلی آیتیں ۔
[٦٥] یعنی میرا کام صرف تمہیں تمہارے برے انجام سے آگاہ کردینا اور سمجھا دینا ہے۔ تمہیں زبردستی پکڑ کر راہ راست پر لے آنا میرا کام نہیں۔ اگر میری بات مان لوگے تو اس میں تمہارا فائدہ ہے اور نہ مانو گے تو اپنا انجام خود دیکھ لو گے اور یاد رکھو کہ حقیقی الٰہ صرف اللہ اکیلا ہے جو تمہیں سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌ: سورت کی ابتدا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ایک معبود برحق ہونے پر کفار کے تعجب اور انکار کا ذکر تھا اور ان کے یہ کہنے کا کہ کیا یہ ہمیں ہمارے اتنے معبودوں کے بجائے ایک ہی معبود کی عبادت کی دعوت دیتا ہے اور یہ کہ ہم تمام سرداروں کے ہوتے ہوئے اس پر وحی کیسے نازل ہوگئی ؟ بلکہ یہ ساحر اور کذّاب ہے۔ کفار کی ان باتوں اور ان کے قیامت کے جھٹلانے اور اس کا مذاق اڑانے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا۔ اب سورت کے آخر میں پھر اسی مضمون کو دہرایا جا رہا ہے کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میں تو بس ایک ڈرانے والا ہوں، نہ ساحر ہوں، نہ کذّاب، نہ کچھ اور۔ صرف ڈرانے والا اس لیے کہ بشارت ماننے والوں کے لیے ہوتی ہے، منکروں کو ڈرایا ہی جاتا ہے۔- وَّمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ : عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لفظ ” اللّٰهُ “ میں اگرچہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات آجاتی ہیں، کیونکہ یہ معبود برحق کا علم (نام) ہے، مگر یہاں اس کے واحد معبود ہونے کی دلیل کے طور پر اس کی پانچ صفات کا خاص طور پر ذکر فرمایا، پہلی صفت ” الْوَاحِدُ “ ہے، یعنی اس کے علاوہ ہر چیز جوڑا ہے، اکیلا وہی ہے۔ ” الْقَهَّارُ “ بڑے دبدبے والا، کوئی اس کے قہر کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔
خلاصہ تفسیر - آپ کہہ دیجئے کہ (تم جو رسالت اور توحید کے مسئلہ میں تکذیب و انکار کرتے ہو تو تمہارا ہی نقصان ہے میرا کچھ ضرر نہیں، کیونکہ) میں تو (تم کو صرف عذاب خداوندی سے) ڈرانے والا (پیغمبر) ہوں۔ اور (جیسے میرا رسول اور منذر ہونا واقعی ہے اسی طرح توحید بھی برحق ہے، یعنی) بجز اللہ واحد غالب کے کوئی لائق عبادت کے نہیں ہے، وہ پروردگار ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان چیزوں کا جو ان کے درمیان میں ہیں (اور وہ) زبردست (اور گناہوں کا) بڑا بخشنے والا ہے۔ (اور چونکہ توحید کو تو کسی درجہ میں وہ لوگ مانتے بھی تھے اور رسالت کے بالکل ہی منکر تھے، اس لئے رسالت کی مزید تحقیق کے لئے ارشاد ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے کہ یہ (یعنی اللہ تعالیٰ کا مجھ کو توحید اور احکام شریعت کی تعلیم کے لئے رسول بنانا) ایک عظیم الشان مضمون ہے جس (کا تم کو بڑا اہتمام چاہئے تھا، مگر افسوس کہ اس) سے تم (بالکل ہی) بےپروا ہو رہے ہو (اور اس کے عظیم الشان مضمون ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا اعتقاد رکھے بغیر حقیقی سعادت کا حصول ناممکن ہے۔ آگے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت ثابت کرنے کی ایک دلیل ہے۔ وہ یہ کہ) مجھ کو عالم بالا (کی بحث و گفتگو) کی (کسی ذریعہ سے) کچھ بھی خبر نہ تھی جبکہ وہ (تخلیق آدم کے بارے میں جس کی تفصیل آگے آتی ہے، اللہ تعالیٰ سے) گفتگو کر رہے تھے (اب میں جو اس گفتگو کا واقعہ بتارہا ہوں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ واقعہ کہاں سے معلوم ہوا ؟ میں نے بچشم خود تو اسے دیکھا نہیں، اہل کتاب سے بھی میرا ایسا میل جول نہیں کہ ان سے معلوم کرلیتا، یقینا مجھے یہ علم وحی کے ذریعہ ہی حاصل ہوا ہے، لہٰذا ثابت ہوگیا کہ) میرے پاس (جو) وحی (آتی ہے جس سے عالم بالا کے احوال بھی معلوم ہوتے ہیں، تو) محض اس سبب سے آتی ہے کہ میں (منجانب اللہ) صاف صاف ڈرانے والا (کر کے بھیجا گیا) ہوں (یعنی چونکہ مجھے پیغمبری ملی ہے، اس لئے وحی نازل ہوتی ہے۔ پس واجب ہے کہ تم میری رسالت کی تصدیق کرو۔ اور عالم بالا کی اللہ تعالیٰ سے گفتگو جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے اس وقت ہوئی تھی) جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں گارے سے ایک انسان کو (یعنی اس کے پتلے کو) بنانے والا ہوں، سو میں جب اس کو (یعنی اس کے جسمانی اعضاء کو) پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی (طرف سے) جان ڈالوں تو تم سب اس کے روبرو سجدہ میں گر پڑنا، سو (جب اللہ تعالیٰ نے اس کو بنا لیا تو) سارے کے سارے فرشتوں نے (آدم (علیہ السلام) کو) سجدہ کیا، مگر ابلیس نے کہ وہ غرور میں آ گیا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابلیس جس چیز کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا (یعنی جس چیز کو وجود میں لانے کے لئے خاص عنایت ربانی متوجہ ہوئی، پھر اس کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو) اس کو سجدہ کرنے سے تجھ کو کون سی چیز مانع ہوئی، کیا تو غرور میں آ گیا ؟ (اور واقع میں بڑا نہیں ہے) یا یہ کہ تو (واقع میں ایسے) بڑے درجہ والوں میں سے ہے (جس کو سجدہ کا حکم کرنا ہی زیبا نہیں) کہنے لگا کہ (دوسری بات صحیح ہے، یعنی) میں آدم سے بہتر ہوں (کیونکہ) آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے۔ اور اس (آدم) کو خاک سے پیدا کیا ہے (پس مجھ کو حکم دینا کہ اس کے سامنے سجدہ کروں حکمت کے خلاف ہے) ارشاد ہوا تو (اچھا پھر) آسمان سے نکل کیونکہ بیشک تو (اس حرکت سے) مردود ہوگیا اور بیشک تجھ پر میری لعنت رہے گی قیامت کے دن تک (اور اس کے بعد مورد رحمت ہونے کا احتمال نہیں ہے) کہنے لگا (کہ اگر مجھ کو آدم کی وجہ سے مردود کیا ہے) تو پھر مجھ کو (مرنے سے) مہلت دیجئے قیامت کے دن تک (تاکہ ان سے اور ان کی اولاد سے خوب بدلہ لوں) ارشاد ہوا (جب تو مہلت مانگتا ہے) تو (جا) تجھ کو معین وقت کی تاریخ تک مہلت دی گئی، کہنے لگا (جب مجھ کو مہلت مل گئی) تو (مجھ کو بھی) تیری (ہی) عزت کی قسم (ہے) کہ میں ان سب کو گمراہ کروں گا بجز آپ کے ان بندوں کے جو ان میں منتخب کئے گئے ہیں (یعنی آپ نے ان کو میرے اثر سے محفوظ رکھا ہے) ارشاد ہوا کہ میں سچ کہتا ہوں اور میں تو (ہمیشہ) سچ ہی کہا کرتا ہوں کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیرا ساتھ دے ان سب سے دوزخ بھر دوں گا۔- (سورت کی ابتدائی آیات سے واضح ہے کہ اس سورت کا بنیادی مقصد آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات ہے۔ اس موضوع پر دلائل تو دیئے جا چکے، اب ناصحانہ طریقہ پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے) آپ (بطور اتمام حجت کے) کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (قرآن کی تبلیغ) پر نہ کچھ معاوضہ چاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں (کہ بناوٹ کی راہ سے نبوت کا دعویٰ کیا ہو، اور غیر قرآن کو قرآن کہہ دیا ہو۔ یعنی اگر جھوٹ بولتا تو اس کا منشاء یا تو کوئی مادی نفع ہوتا جیسے معاوضہ، یا کوئی طبعی عادت ہوتی جیسے تکلف، سو یہ دونوں باتیں نہیں بلکہ فی الواقع) یہ قرآن تو (اللہ کا کلام اور) دنیا جہان والوں کے لئے بس ایک نصیحت ہے (جس کی تبلیغ کے لئے مجھ کو نبوت ملی ہے اور جس میں سراسر تمہارا ہی نفع ہے) اور (اگر حق کے واضح ہونے کے باوجود بھی تم نہیں مانتے تو) تھوڑے دنوں پیچھے تم کو اس کا حال معلوم ہوجاوے گا (یعنی مرنے کے ساتھ ہی حقیقت کھل جائے گی کہ یہ حق تھا اور اس کا انکار باطل تھا، مگر اس وقت معلوم ہونے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا)- معارف ومسائل - خلاصہ مضامین سورت :- (آیت) قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌ۔ سورت کے شروع میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ اس سورت کا اصل مقصد آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اثبات اور کفار کی تردید ہے، اسی ضمن میں انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات دو وجہ سے ذکر کئے گئے تھے۔ ایک یہ کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہو اور سابقہ انبیاء (علیہم السلام) کی طرح آپ بھی کفار کی بےہودہ باتوں پر صبر فرمائیں۔ دوسرے یہ کہ ان واقعات سے خود وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو ایک نبی برحق کی رسالت کا انکار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور طریقے سے کفار کو دعوت اسلام دی گئی اور وہ اس طرح کہ مومنوں کی نیک انجامی اور کافروں کے عذاب شدید کا نقشہ کھینچا گیا۔ اور اس بات پر تنبیہ کی گئی کہ جن لوگوں کی اتباع میں تم آج افضل الرسل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہو، آخرت کے دن وہی لوگ تمہاری مدد سے دستبردار ہوجائیں گے، وہ تمہیں برا بھلا کہیں گے اور تم ان پر لعنت بھیجو گے۔- ان تمام مضامین کے بعد آخر میں پھر اصل مدعا یعنی اثبات رسالت کا بیان کیا گیا ہے، اور دلائل پیش کرنے کے ساتھ ناصحانہ انداز میں دعوت بھی دی گئی ہے۔
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌ ٠ ۤۖ وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ ٦٥ۚ- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] - ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔
آپ مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ میں تو صرف ڈرانے والا پیغمبر ہوں اور سوائے اللہ تعالیٰ کے جو کہ تمام مخلوق پر غالب ہے کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
آیت ٦٥ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا مُنْذِرٌق وَّمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) کہہ دیجیے کہ میں تو بس ایک خبردار کرنے والا ہوں ‘ اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے ‘ وہ اکیلا ہے اور ہرچیز پر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ “
سورة صٓ حاشیہ نمبر :56 اب کلام کا رخ پھر اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جس سے تقریر کا آغاز ہوا تھا ۔ اس حصے کو پڑھتے ہوئے پہلے رکوع سے مقابلہ کرتے جائیے ، تاکہ بات پوری سمجھ میں آ سکے ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :57 آیت نمبر 4 میں فرمایا گیا تھا کہ یہ لوگ اس بات پر بڑے اچنبھے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک خبردار کرنے والا خود ان کے درمیان سے اٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ان سے کہو میرا کام بس تمہیں خبردار کر دینا ہے ۔ یعنی میں کوئی فوجدار نہیں ہوں کہ زبردستی تمہیں غلط راستے سے ہٹا کر سیدھے راستے کی طرف کھینچوں ۔ میرے سمجھانے سے اگر تم نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے ۔ بے خبر ہی رہنا اگر تمہیں پسند ہے تو اپنی غفلت میں سرشار پڑے رہو ، اپنا انجام خود دیکھ لو گے ۔