Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 یعنی شیطان نے یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر (ہم جنس یا قریب قریب ایک ہی درجے میں) ہیں۔ اس میں سے کسی کو دوسرے پر شرف کسی عارض (خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم (علیہ السلام) کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف و عظمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کردینا، جب کہ مٹی اس کے برعکس انواع و اقسام کی پیداوار کا مأخذ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْہُ۝ ٠ ۭ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِيْنٍ۝ ٧٦- خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - طين - الطِّينُ : التّراب والماء المختلط، وقد يسمّى بذلک وإن زال عنه قوّة الماء قال تعالی: مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] ، يقال : طِنْتُ كذا، وطَيَّنْتُهُ. قال تعالی: خَلَقْتَنِي مِنْ نارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] ، وقوله تعالی: فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] .- ( ط ی ن ) الطین - ۔ پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں گو اس سے پانی کا اثر زائل ہی کیوں نہ ہوجائے اور طنت کذا وطینتہ کے معنی دیوار وغیرہ کو گارے سے لینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ طِينٍ لازِبٍ [ الصافات 11] چپکنے والی مٹی سے ۔ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ [ ص 76] اور اسے مٹی سے بنایا ۔ فَأَوْقِدْ لِي يا هامانُ عَلَى الطِّينِ [ القصص 38] ہامان امیر لئے گارے کو آگ لگو اکر اینٹیں تیار کرواؤ

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

کہنے لگا میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور آگ مٹی کو کھا جاتی ہے اسی وجہ سے میں نے آدم کو سجدہ نہیں کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ” اس نے کہا : میں اس سے بہتر ہوں “- اس نے کہا ہاں یہ بات صحیح ہے کہ میں اس سے بہتر اور برتر ہوں۔ دراصل شیطان کا یہ دعویٰ اس کے مشاہدے کی بنیاد پر تھا۔ اس کے پیش نظر صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کا جسد ِخاکی تھا۔ اس کے اندر پھونکی گئی روح کا اسے علم نہیں تھا۔ چناچہ اس کا یہ دعویٰ کہ ” میں اس خاکی وجود سے بہتر ہوں “ اس کے مشاہدے کے اعتبار سے کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔- خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ” مجھے بنایا تو نے آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani