[٧٢] یعنی قیامت تک تو اللہ، اس کے فرشتے، تمام انسان حتیٰ کہ ابلیس کی پیروی کرنے والے بھی اس پر لعنت پھٹکار کرتے رہیں گے پھر اس کے بعد ابدا لآباد ابلیس اور اس کی آل اولاد کو عذاب میں مبتلا رکھا جائے گا۔
وَّاِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِيْٓ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ ٧٨ لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔
آیت ٧٨ وَّاِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ ” اور اب تم پر میری لعنت رہے گی جزا اور سزا کے دن تک ۔ “
سورة صٓ حاشیہ نمبر :67 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یوم الجزاء کے بعد اس پر لعنت نہ ہو گی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوم الجزا تک تو وہ اس نافرمانی کی پاداش میں مبتلائے لعنت رہے گا ، اور یوم الجزاء کے بعد وہ اپنے ان کرتوتوں کی سزا بھگتے گا جو تخلیق آدم کے وقت سے لے کر قیامت تک اس سے سرزد ہوں گے ۔