[٢٣] شرک سے سمجھوتہ ناممکن ہے :۔ آپ کو حکم یہ ہوتا تھا کہ خالصتاً اللہ اکیلے کی عبادت کریں۔ جبکہ کفار مکہ پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ آپ سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ اور وہ سمجھوتہ اس بات پر چاہتے تھے کہ ہم آپ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتے بشرطیکہ آپ ہمارے معبودوں کو برا بھلا نہ کہیں۔ بالفاظ دیگر آپ لا الہ الا اللہ نہ کہیں کیونکہ یہی کلمہ ان کے بتوں کو ناکارہ ثابت کرتا تھا جسے وہ اپنی، اپنے آباء واجداد کی اور اپنے بتوں کی توہین سمجھتے تھے۔ اور اس کلمہ سے انکار ہی اللہ کی سب سے بڑی نافرمانی تھی۔ لہذا آپ کی زبان سے اس کا جواب یہ دلوایا گیا کہ مجھے تو حکم ہی یہی ہے کہ اکیلے اللہ کے سوا کسی بھی معبود کو تسلیم نہ کروں۔ اور اگر میں اس حکم کی نافرمانی کروں تو میں بھی اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ لہذا میں ایسا کام کسی قیمت پر نہیں کرسکتا۔
قُلِ اللّٰهَ اَعْبُدُ ۔۔ : لفظ ” اللہ “ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا، یعنی کہہ دے میں تو صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں، کسی اور کی عبادت نہ اسے اصل سمجھ کر کرتا ہوں نہ سفارشی یا واسطہ سمجھ کر۔ پچھلی آیت : (قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَاللہ ۔۔ ) میں ایک اللہ کی عبادت کے امر کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس آیت میں اس پر اپنے عمل کے اعلان کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے تکرار نہیں ہے۔
قُلِ اللہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِيْنِيْ ١٤ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔
آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں تو عبادت و توحید کو اسی کے لیے خالص رکھتا ہوں۔
آیت ١٤ قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِیْنِیْ ” کہہ دیجیے کہ میں تو اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ “- نوٹ کیجیے اس مضمون کو یہاں بار بار دہرایا جا رہا ہے۔ اور ہر بار پڑھنے سے اس میں ایک نیا حسن نظر آتا ہے اور ایک نئی تاثیر کا احساس ہوتا ہے۔ جب کہ ہم انسانوں کی دنیا میں کسی عبارت کے اندر الفاظ یا مضمون کی تکرار ‘ اس تحریر یا تصنیف کا بہت بڑا عیب بن جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی فصاحت و بلاغت کا معجزہ ہے کہ اس کے ہاں تکرار سے کلام کا حسن اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہاں اس مضمون کی غیر معمولی تکرار کی غرض وغایت کو سمجھنے اور اس اسلوبِ خاص میں تاکید ( ) کی شدت کو محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سورت کے آغاز سے لے کر آیت زیر مطالعہ تک مذکورہ مضمون سے متعلقہ آیات کو ایک مرتبہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ آغاز میں فرمایا گیا : اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ۔ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُط ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے آپ پر یہ کتاب اتاری ہے حق کے ساتھ ‘ پس بندگی کرو اللہ کی اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ آگاہ ہو جائو کہ اطاعت ِخالص اللہ ہی کا حق ہے “۔ اس کے بعد آیت ١١ ملاحظہ کیجیے : قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّـہُ الدِّیْنَ ۔ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجیے مجھے حکم ہوا ہے کہ میں بندگی کروں اللہ کی اس کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے “۔ اور اب زیرمطالعہ آیت کا مضمون دیکھئے : قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّہٗ دِیْنِیْ ۔ ” کہہ دیجیے کہ میں تو اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں اس کے لیے اپنی اطاعت کو خالص کرتے ہوئے “۔ گویا تکرار پر تکرار ہے ‘ اصرار پر اصرار ہے اور تاکید پر تاکید ہے۔