Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن حکیم کی تاثیر ۔ اللہ تعالیٰ اپنی اس کتاب قرآن کریم کی تعریف میں فرماتا ہے کہ اس بہترین کتاب کو اس نے نازل فرمایا ہے جو سب کی سب متشابہ ہیں اور جس کی آیتیں مکرر ہیں تاکہ فہم سے قریب تر ہو جائے ۔ ایک آیت دوسری کے مشابہ اور ایک حرف دوسرے سے ملتا جلتا ۔ اس سورت کی آیتیں اس سورت سے اور اس کی اس سے ملی جلی ۔ ایک ایک ذکر کئی کئی جگہ اور پھر بے اختلاف بعض آیتیں ایک ہی بیان میں بعض میں جو مذکور ہے اس کی ضد کا ذکر بھی انہیں کے ساتھ ہے مثلاً مومنوں کے ذکر کے ساتھ ہی کافروں کا ذکر جنت کے ساتھ ہی دوزخ کا بیان وغیرہ ۔ دیکھئے ابرار کے ذکر کے ساتھ ہی فجار کا بیان ہے ۔ سجین کے ساتھ ہی علیین کا بیان ہے ۔ متقین کے ساتھ ہی طاعین کا بیان ہے ۔ ذکر جنت کے ساتھ ہی تذکرہ جہنم ہے ۔ یعنی معنی ہیں مثانی کے اور متشابہ ان آیتوں کو کہتے ہیں وہ تو یہ ہے اور ( ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ Ċ۝ ) 3-آل عمران:7 ) میں اور ہی معنی ہیں ۔ اس کی پاک اور بااثر آیتوں کا مومنوں کے دل پر نور پڑتا ہے وہ انہیں سنتے ہی خوفزدہ ہو جاتے ہیں سزاؤں اور دھمکیوں کو سن کر ان کا کلیجہ کپکپانے لگتا ہے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انتہائی عاجزی اور بہت ہی بڑی گریہ و زاری سے ان کے دل اللہ کی طرف جھک جاتے ہیں اس کی رحمت و لطف پر نظریں ڈال کر امیدیں بندھ جاتی ہیں ۔ ان کا حال سیاہ دلوں سے بالکل جداگانہ ہے ۔ یہ رب کے کلام کو نیکیوں سے سنتے ہیں ۔ وہ گانے بجانے پر سر دھنستے ہیں ۔ یہ آیات قرآنی سے ایمان میں بڑھتے ہیں ۔ وہ انہیں سن کر اور کفر کے زینے پر چڑھتے ہیں یہ روتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے اکڑتے ہیں ۔ فرمان قرآن ہے ( اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ Ą۝ښ ) 8- الانفال:2 ) ، یعنی یاد الٰہی مومنوں کے دلوں کو دہلا دیتی ہے ، وہ ایمان و توکل میں بڑھ جاتے ہیں ، نماز و زکوٰۃ و خیرات کا خیال رکھتے ہیں ، سچے با ایمان یہی ہیں ، درجے ، مغفرت اور بہترین روزیاں یہی پائیں گے اور آیت میں ہے یعنی بھلے لوگ آیات قرآنیہ کو بہروں اندھوں کی طرح نہیں سنتے پڑھتے کہ ان کی طرف نہ تو صحیح توجہ ہو نہ ارادہ عمل ہو بلکہ یہ کان لگا کر سنتے ہیں دل لگا کر سمجھتے ہیں غور و فکر سے معانی اور مطلب تک رسائی حاصل کرتے ہیں ۔ اب توفیق ہاتھ آتی ہے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور تعمیل کے لئے کمربستہ ہو جاتے ہیں ۔ یہ خود اپنی سمجھ سے کام کرنے والے ہوتے ہیں دوسروں کی دیکھا دیکھی جہالت کے پیچھے پڑے نہیں رہتے ۔ تیسرا وصف ان میں برخلاف دوسروں کے یہ ہے کہ قرآن کے سننے کے وقت با ادب رہتے ہیں ۔ حضور علیہ السلام کی تلاوت سن کر صحابہ کرام کے جسم و روح ذکر اللہ کی طرف جھک آتے تھے ان میں خشوع و خضوع پیدا ہو جاتا تھا لیکن یہ نہ تھا کہ چیخنے چلانے اور ہاہڑک کرنے لگیں اور اپنی صوفیت جتائیں بلکہ ثبات سکون ادب اور خشیت کے ساتھ کلام اللہ سنتے دل جمعی اور سکون حاصل کرتے اسی وجہ سے مستحق تعریف اور سزا وار توصیف ہوئے رضی اللہ عنہم ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں اولیاء اللہ کی صفت یہی ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل موم ہو جائیں اور ذکر اللہ کی طرف وہ جھک جائیں ان کے دل ڈر جائیں ان کی آنکھیں آنسو بہائیں اور طبیعت میں سکون پیدا ہو جائے ۔ یہ نہیں کہ عقل جاتی رہے حالت طاری ہو جائے ۔ نیک و بد کا ہوش نہ رہے ۔ یہ بدعتیوں کے افعال ہیں کہ ہا ہو کرنے لگتے ہیں اور کودتے اچھلتے اور پکڑے پھاڑتے ہیں یہ شیطانی حرکت ہے ۔ ذکر اللہ سے مراد وعدہ اللہ بھی بیان کیا گیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے یہ ہیں صفتیں ان لوگوں کی جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ۔ ان کے خلاف جنہیں پاؤ سمجھ لو کہ اللہ نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور یقین رکھو کہ رب جنہیں ہدایت دینا چاہئے انہیں کوئی راہ راست نہیں دکھا سکتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ سے مراد قرآن مجید ہے، ملتی جلتی کا مطلب، اس کے سارے حصے حسن کلام، اعجاز و بلاغت صحت معانی وغیرہ خوبیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا یہ بھی سابقہ کتب آسمانی سے ملتا ہے یعنی ان کے مشابہ ہے مثانی، جس میں قصص و واقعات اور مواعظ و احکام کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ 23۔ 2 کیونکہ وہ ان وعیدوں کو اور تخویف و تہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لئے اس میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٦] قرآن بہترین کلام کیسے ہے ؟:۔ قرآن بہترین کلام اس لحاظ سے ہے کہ اس کی آیات ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ اس کا انداز بیان دلنشین ہے۔ اس کے دلائل عام فہم ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی بھی ایسے ہی مستفید ہوسکتا ہے جیسے ایک جید عالم، اور اس کے احکام و فرامین دنیا میں بہترین زندگی گزارنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ نیز اس کے احکام محض نظریاتی نہیں بلکہ سب قابل عمل ہیں اور اگر ان پر عمل کیا جائے تو اخروی فلاح کے ضامن ہیں۔ اور یہ سب خوبیاں اللہ کے کلام کے علاوہ دوسرے کسی کے کلام میں نہیں ہوسکتیں۔- [٣٧] ملتی جلتی آیات سے مراد ؟ یعنی قرآن میں ایک مضمون اگر بیس مقامات پر آیا ہے تو بھی اس میں اختلاف اور تضاد واقع نہیں ہوتا۔ اندازِبیان اور اختلاف الفاظ کے باوجود ایک جگہ کا مضمون دوسری جگہ کے مضمون کی تائید و توثیق ہی کرتا ہے۔ جس سے بات پوری طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ (إنَّ الْقُرْآنَ یُفَسِّرُ بَعَضَہ بَعْضًا) یہ تو ممکن ہے کہ ایک جگہ اجمال ہو اور دوسری جگہ تفصیل۔ مگر اختلاف اور تضاد واقع نہیں ہوتا۔ مثلاً قرآن نے ایک حکم دیا ہے کہ کسی غیرمسلم کو اپنا دلی دوست اور راز دار نہ بناؤ، تو کسی جگہ آپ کو یہ بات نہیں ملے گی کہ سیاست میں کوئی بات یا کوئی اصول حرف آخر نہیں ہوتا۔- [٣٨] مثانی سے مراد کیسی آیات ہیں :۔ مثانی سے مراد ایک تو ایسی آیات ہیں جو بار بار پڑھی اور دہرائی جاتی ہیں۔ اسی لحاظ سے سورة فاتحہ کو سبع من المثانیکہا گیا ہے کہ یہ سورت کم از کم نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔ پھر نماز کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔ دوسری مراد وہ آیات ہیں جو قرآن میں بہ تکرار وارد ہیں۔ مثلاً (وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ ) یا (وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآن للذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ ) یا (فَبِایِّ اٰلاَءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ) اور ایسی آیات جو دو دو یا تین بار وارد ہیں وہ بہت ہیں۔ تیسری مراد اقوام سابقہ کے انجام سے خبردار کرنے والی آیات یا انبیاء کے قصص ہیں جو قرآن میں بار بار مختلف پیرایوں میں مذکور ہوئے ہیں۔ ایسے ہی شرک کے ابطال اور توحید کے دلائل ہر سورة کی بیشمار آیات میں مذکور ہیں۔ جو سب ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں اور چوتھی مراد ایسی آیات ہیں جن میں نوعی تقابل پایا جاتا ہے۔ مثلاً جہاں اہل جنت کا ذکر ہے وہاں اہل دوزخ کا ذکر بھی آجاتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ جہاں رات کا ذکر ہے وہاں دن کا بھی ذکر ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی صفت قہار کا ذکر ہے تو اگلی آیت میں صفت غفار یا غفور کا بھی ذکر آگیا ہے۔- [٣٩] قرآن سننے پر حال پڑنا محض ریاکاری ہے :۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر نے اپنی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر (رض) سے پوچھا کہ جب قرآن پڑھا جاتا تو رسول اللہ کے صحابہ کا کیا حال ہوتا تھا۔ وہ کہنے لگیں کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے عبداللہ بن زبیر کہنے لگے کہ ہمارے زمانہ میں تو بعض لوگ ایسے ہیں کہ قرآن سننے سے ان کو غش آجاتا ہے سیدہ اسماء نے کہا اللہ کی پناہ شیطان مردود سے اور جلدوں اور دلوں کے نرم پڑنے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑی خوش دلی اور رغبت کے ساتھ اللہ کی عبادت بجا لاتے ہیں۔ یہ تو صحابہ کرام (رض) اور ان لوگوں کی صفات ہیں جو فی الواقع قرآن کی تاثیر قبول کرتے ہیں۔ پھر کچھ لوگوں نے تصنع سے ایسے طریقے ایجاد کر لئے کہ قرآن سننے سے غش آجائے اور وہ گرپڑیں جسے ہماری زبان میں حال پڑنا یا حال کھیلنا کہتے ہیں۔ ریا کار اور مصنوعی پیر قسم کے لوگ عام لوگوں پر اپنی بزرگی کی دھاک بٹھانے کے لئے ایسے کام کرتے ہیں۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) عراق کے ایک ایسے شخص پر سے گزرے جو مدہوش گرا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا : اسے کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا : جب یہ قرآن سنتا ہے تو اس کا یہی حال ہوجاتا ہے سیدنا عبداللہ کہنے لگے : ہم بھی اللہ سے ڈرتے ہیں مگر گرتے نہیں اور ایسے لوگوں کے پیٹ میں شیطان ہوتا ہے۔ رسول اللہ کے اصحاب کا یہ طریقہ نہ تھا اور ابن سیرین سے کسی نے پوچھا : کچھ لوگ قرآن سن کر گرجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا : ایسے لوگوں کو ایک چھت پر اس طرح بٹھاؤ کہ وہ نیچے کی طرف دیوار کے ساتھ پاؤں لٹکائے ہوئے ہوں پھر انہیں قرآن سناؤ۔ اگر وہ نیچے گرپڑیں تب وہ سچے ہیں ورنہ وہ جھوٹے اور ریاکار ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ ۔۔ :” نَزَّلَ “ کے مفہوم میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا پایا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا ) [ بني إسرائیل : ١٠٦ ] ” اور عظیم قرآن، ہم نے اس کو جدا جدا کرکے (نازل) کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔ “ ” اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ “ سے مراد اللہ کا کلام ہے، کیونکہ مخلوق کا کلام کبھی بھی خالق کے کلام جیسے حسن والا نہیں ہوسکتا اور نہ مخلوق اس کی مثال پیش کرسکتی ہے۔ (دیکھیے سورة بقرہ : ٢٣، ٢٤) الحدیث۔ کا معنی ” نئی “ ہے، چونکہ بات بھی نئی ہوتی ہے، اس لیے اسے ” حدیث “ کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اور اس کا کلام حدیث اور محدث (نیا) ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورة انبیاء : ٢۔ شعراء : ٥) بعض لوگوں نے یونانی فلسفیوں کا یہ قاعدہ تسلیم کرلیا کہ ہر محل حوادث حادث ہوتا ہے، یعنی جس سے کوئی نئی چیز صادر ہو وہ ہمیشہ سے موجود ہستی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سننے، دیکھنے، اترنے چڑھنے، کلام کرنے، ہنسنے، غرض بیشمار صفات کا انکار کردیا، یا ان کی تاویل کی، حالانکہ یہ قاعدہ قرآن کریم کے صریح خلاف ہے۔ قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کے باوجود وہ سمیع بھی ہے بصیر بھی، خالق بھی ہے رزاق بھی، خوش بھی ہوتا ہے ناراض بھی اور کلام بھی کرتا ہے اور ظاہر ہے کلام الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے، جن میں ترتیب اور حدوث پایا جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر آن نئی سے نئی حالت اور نئی سے نئی شان میں ہے، فرمایا : (يَسْـَٔـلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “- یونانی فلسفی چونکہ آسمانی ہدایت کی روشنی سے محروم تھے، اس لیے ان کا فلسفہ قرآن و حدیث سے متصادم ہے اور ان کے ماننے والے قرآن و حدیث پر ایمان کے دعوے کے باوجود ان میں مذکور صفات الٰہی کو ماننے سے دل میں شدید تنگی محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جو صریح تحریف ہیں۔ مزید دیکھیے سورة اعراف (١٤٣) ، توبہ (٦) ، کہف (١٠٩) ، انبیاء (٢) اور سورة شعراء (٥) ۔- كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا : اس مقام پر پورے قرآن کو ” كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا “ کہا گیا ہے، یعنی قرآن مجید کی تمام آیات مضامین و معانی میں، تمام خبروں کے سچا ہونے اور تمام احکام کے حق ہونے میں ایک دوسری سے ملتی جلتی اور ایک دوسری کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ اگر ایک جگہ بات مختصر ہے تو دوسری جگہ مفصل ہے، کہیں بھی کوئی اختلاف یا تناقض نہیں ہے، فرمایا : ( ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ) [ النساء : ٨٢ ] ” اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔ “ اسی طرح فصاحت و بلاغت اور حسن و خوبی میں بھی سب ایک جیسی ہیں۔ تیئیس (٢٣) سالوں کے طویل عرصہ میں تھوڑی تھوڑی آیات نازل ہونے کے باوجود کسی بھی مقام پر نہ ان کی حسن و خوبی اور فصاحت و بلاغت میں کوئی تفاوت ہے اور نہ کہیں اس کے جلال اور دبدبے میں کوئی کمی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء (٨٢) دوسرے مقام پر قرآن کی بعض آیات کو محکم اور بعض کو متشابہ کہا گیا ہے، اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورة آل عمران (٧) ۔- مَّثَانِيَ “ ” ثَنٰی یَثْنِيْ “ (رَمٰی یَرْمِيْ ) کے اسم مفعول ” مَثْنِیَّۃٌ“ بروزن ” مَرْمِیَّۃٌ“ کی جمع ہے، معنی دوہرا کرنا یا دہرانا ہے۔ یعنی اس کتاب کی آیات بار بار دہرائی جانے والی ہیں، جنھیں عقائد، احکام، قَصص اور ترغیب و ترہیب کو ذہن نشین کرانے کے لیے بار بار، کہیں ایک ہی طرح اور کہیں مختلف انداز میں دہرایا گیا ہے، تاکہ خوب ذہن نشین ہوجائیں اور اگر ایک جگہ بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئے تو دوسری جگہ خوب واضح ہوجائے۔ لطف یہ کہ نہ اس کے مختلف مضامین بار بار دہرانے سے طبیعت اکتاتی ہے اور نہ ہی کوئی ایک سورت یا آیت بار بار پڑھنے سے دل سیر ہوتا ہے۔ ” مَّثَانِيَ “ کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ عموماً کسی بات کے ذکر کے ساتھ اس کے مقابل کا بھی ذکر ہے، مثلاً ایمان و کفر، جنت و جہنم، ابرار و فجار، ترغیب و ترہیب اور رحمت و عذاب وغیرہ۔- تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۔۔ : یعنی جب ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے جلال و قہر کا، یا اس کے عذاب کا ذکر ہوتا ہے تو خوف کی وجہ سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر جب اس کی رحمت و مغفرت کا ذکر آتا ہے تو ان کے چمڑے اور دل امید کی بدولت نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف جھک جاتے ہیں۔ ” تَلِيْنُ “ کے ضمن میں ” تَمِیْلُ “ کا معنی ہونے کی وجہ سے اسے ” اِلیٰ “ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کیفیت کے لیے دیکھیے سورة انفال (٢ تا ٤) ، مومنون (٥ تا ١٦) اور سورة مائدہ (٨٣، ٨٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ کے مقبول بندوں کا یہ حال ذکر کیا گیا تھا کہ (آیت) یستمعون القول فیتبعون احسنہ، اس آیت میں بتلا دیا کہ پورا قرآن ہی احسن الحدیث ہے۔ حدیث کے لفظی معنی اس کلام یا قصے کے ہیں جو بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن کو احسن الحدیث فرمانے کا حاصل یہ ہے کہ انسان جو کچھ کہتا بولتا ہے اس سب میں احسن الکلام قرآن ہے۔ آگے قرآن کی چند صفات ذکر فرمائی ہیں۔ ایک کتاباً متشابہاً ۔ متشابہ سے مراد اس جگہ متماثل ہے۔ یعنی مضامین قرآنیہ ایک دوسرے سے مربوط اور مماثل ہیں کہ ایک آیت کی تشریح و تصدیق دوسری آیت سے ہوجاتی ہے۔ اس کلام میں تضاد وتعارض کا نام نہیں ہے۔ دوسری صفت مثانی ہے جو مثنیٰ کی جمع ہے جس کے معنی مکرر کے ہیں۔ مطلب یہ کہ قرآن کریم میں ایک مضمون کو ذہن نشین کرنے کے لئے بار بار دہرایا جاتا ہے تیسری صفت یہ بیان فرمائی کہ (آیت) تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ۔ یعنی اللہ کی عظمت سے متاثر ہو کر ڈرنے والوں کا قرآن پڑھ کر خشیت وہیبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان کے بدن پر بال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ (آیت) ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ۔ یعنی تلاوت قرآن کا اثر کبھی عذاب کی وعید سن کر یہ ہوتا ہے کہ بدن کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں اور کبھی رحمت و مغفرت کی آیات سن کر یہ حال ہوتا ہے کہ بدن اور قلب سب اللہ کی یاد میں نرم ہوجاتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر فرماتی ہیں کہ صحابہ کرام کا عام حال یہی تھا کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن پر بال کھڑے ہوجاتے۔ (قرطبی)- حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس بندے کے بدن پر اللہ کے خوف سے بال کھڑے ہوجاویں تو اللہ تعالیٰ اس کے بدن کو آگ پر حرام کردیتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِيَ۝ ٠ ۤۖ تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ۝ ٠ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللہِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝ ٢٣- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - شبه - الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ : حقیقتها في المماثلة من جهة الكيفيّة، کاللّون والطّعم، وکالعدالة والظّلم، والشُّبْهَةُ : هو أن لا يتميّز أحد الشّيئين من الآخر لما بينهما من التّشابه، عينا کان أو معنی، قال : وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، أي : يشبه بعضه بعضا لونا لا طعما وحقیقة، - ( ش ب ہ )- الشیبۃ والشبۃ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلا لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل ظلم میں اور دو چیزوں کا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں شبھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ : ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے میں متشابھا کے معنی یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے - ثنی( مثاني)- الثُّنْوَى والثَّنَاء : ما يذكر في محامد الناس، فيثنی حالا فحالا ذكره، يقال : أثني عليه . وتَثَنَّى في مشیته نحو : تبختر، وسمیت سور القرآن مثاني في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر 87] لأنها تثنی علی مرور الأوقات وتکرّر فلا تدرس ولا تنقطع دروس سائر الأشياء التي تضمحل وتبطل علی مرور الأيام، وعلی ذلک قوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر 23] ، ويصح أنه قيل للقرآن : مثاني، لما يثنی ويتجدّد حالا فحالا من فوائده، كما روي في الخبر في صفته : «لا يعوجّ فيقوّم ولا يزيغ فيستعتب، ولا تنقضي عجائبه» «1» .- ويصح أن يكون ذلک من الثناء، تنبيها علی أنه أبدا يظهر منه ما يدعو إلى الثناء عليه وعلی من يتلوه، ويعلمه ويعمل به، وعلی هذا الوجه وصفه بالکرم في قوله تعالی: إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وبالمجد في قوله :- بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج 21] .- ( ث ن ی ) مثاني - تثنی ٰ ( تفعل ) فی مشیتہ تکبر سے لڑکھڑا کر چلنا ۔ اور آیت کریمہ :َ ۔ وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [ الحجر 87] اوہم نے تم کو سات مثانی ( سورتیں ) عطاکیں ۔ میں قرآن کی سورتوں کو مثانی کہا ہے ۔ کیونکہ مرور ایام کے ساتھ باربار ان کا ذکر اور اعادہ ہوتا رہیگا ۔ لیکن زمانہ کے گزرنے کے ساتھ نہ تو ان میں کسی قسم کا تغیر آئے گا اور نہ ہی دوسری اشیاء کی طرح یہ زوال پذیر ہیں ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ [ الزمر 23] خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دوہرائی جاتی ہیں ۔ اور قرآن کو مثانی کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ بار بار اعادہ سے اس کے عجائب وغرائب منقطع نہیں ہوتے اور ہر بار نئے حقائق سامنے آتے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے وصف میں ایک روایت مروی ہے (53) لایعوج فیقوم ولا یزیغ فیستعتب ولا تنقضی عجائبہ ۔ کہ اس میں کچی نہیں آئے گی کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے اور اس میں زیغ پیدا ہوگا کہ اس کا ازالہ کرنا پڑے اور اس کے عجائب وغرائب کبھی منقطع نہیں ہوں گے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مثافی ثناء سے مشتق ہو تو اس اسے اس امر پر متنبہ کیا ہے کہ قرآن پاک سے ہمیشہ ایسے مضامین ظاہر ہوتے رہیں گے جو اس کی ، اس کو پڑھنے والوں ، اس کا علم حاصل کرنے والوں ، اور اس پر عمل کرنے والوں ، کی تعریف کا موجب ہوں گے اور اسی معنی میں قرآن کو آیت :۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے :۔ میں کرم کے ساتھ متصف کیا ہے اور آیت :۔ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [ البروج 21] بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے ۔ اس کے وصف میں مجید کا لفظ ذکر کیا ہے ۔- قشعر - قال اللہ تعالی: تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ [ الزمر 23] أي : يعلوها قَشْعَرِيرَةٌ.- ( ق ش ع ر ) القشعر رونگٹے گھڑے ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ [ الزمر 23] جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اس سے ان کے بدنوں پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔- جلد - الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] .- والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور 4] .- والجَلَد :- الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد .- وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة .- ( ج ل د ) الجلد - کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ - جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلدت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - لين - اللِّينُ : ضدّ الخشونة، ويستعمل ذلک في الأجسام، ثمّ يستعار للخلق وغیره من المعاني، فيقال : فلان لَيِّنٌ ، وفلان خشن، وكلّ واحد منهما يمدح به طورا، ويذمّ به طورا بحسب اختلاف المواقع . قال تعالی: فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] فإشارة إلى إذعانهم للحقّ وقبولهم له بعد تأبّيهم منه، وإنكارهم إيّاه، وقوله : ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] أي : من نخلة ناعمة، ومخرجه مخرج فعلة نحو : حنطة، ولا يختصّ بنوع منه دون نوع .- ( ل ی ن ) اللین - کے معنی نر می کے ہیں اور یہ خشونت کی ضد ہے اصل میں تو یہ اجسام کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر استعارہ اخلاق وغیرہ یعنیمعافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ چناچہ فلان لین یا خشن کے معنی ہیں فلاں نرم یا د رشت مزاج ہے اور یہ دونوں لفظ حسب موقع ومحل کبھی مدح کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور کبھی مذمت کے لئے آتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ [ آل عمران 159]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) خدا کی مہر بانی سے تمہاری افتاد ومزاج ان لوگوں کے لئے نرم واقع ہوئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر 23] پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل نرم ہو کر خدا کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ میں اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ اباء اور انکار کے بعد وہ حق کے سامنے سر نگوں ہوجاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ما قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ [ الحشر 5] مومنوں کجھور کے جو در خت تم نے کاٹ ڈالے میں لینۃ کے معنی نرم ونازک کھجور کا درخت ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جیسے حنطۃ تاہم یہ مخلتف انواع میں سے ایک نوع کے لئے مخصو ص نہیں ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] ، وقوله :- هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] ، أي :- شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] ، أي : الکتب المتقدّمة .- وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه .- وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) .- ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ- [ الكهف 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] ، وقوله :- فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته،- ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام یعنی قرآن حکیم نازل فرمایا کہ اس کے مضامین ایک دوسرے کے ساتھ ملتے جلتے ہیں یعنی وعدہ کامیابی رحمت و مغفرت عفو کی آیتیں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں اور اسی وعید عذاب کے خوف میں یہ آیات ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور یہ آیات بار بار دہرائی گئی ہیں اور دوہری ہیں کہ رحمت و عذاب وعدہ وعید امر و نہی ناسخ و منسوخ یا یہ کہ مکرر ہیں۔- کہ آیات عذاب و وعید سے ان لوگوں کے بدن جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں کانپ اٹھتے ہیں اور پھر ان کے بدن آیات رحمت سے نرم ہو کر اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ قرآن بیان خداوندی ہے جس کو چاہتا ہے اس کے ذریعے سے اپنے دین کی ہدایت فرماتا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ اپنے دین سے گمراہ کردے اسے کوئی اس کے دین پر لانے والا نہیں۔- شان نزول : اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ (الخ)- اس آیت کریمہ کا شان نزول سورة یوسف میں ملاحظہ فرمائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰـبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ” اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے کتاب کی صورت میں ‘ جس کے مضامین باہم مشابہ ہیں اور بار بار دہرائے گئے ہیں “- ہمارے ہاں لوگ عام طور پر لفظ ” حدیث “ کے صرف ایک ہی مفہوم سے آشنا ہیں جو کہ اس لفظ کا اصطلاحی مفہوم ہے ‘ یعنی فرمانِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصطلاحاً حدیث کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس لفظ کے لغوی معنی بات یا کلام کے ہیں اور قرآن میں لفظ ” حدیث “ اسی مفہوم میں آیا ہے۔ جیسے سورة المرسلات میں فرمایا گیا : فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ ۔ کہ اس قرآن کے بعد اب یہ لوگ بھلا اور کس بات پر ایمان لائیں گے ؟ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کا مطلب ہے : بہترین کلام۔- مُّتَشَابِہًا سے مراد قرآن کے الفاظ ‘ اس کی آیات اور اس کے مضامین کا باہم مشابہ ہونا ہے۔ یہ مشابہت قرآن کے اہم مضامین کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ قصہ آدم ( علیہ السلام) و ابلیس قرآن میں سات مقامات پر مذکور ہے۔ بظاہر سب مقامات پر یہ قصہ ایک سا معلوم ہوتا ہے مگر ہر جگہ سیاق وسباق کے حوالے سے اس میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔ اگر ایک شخص اپنے معمول کے مطابق سات روز میں قرآن مجید ختم کرتا ہو تو وہ ہر روز کہیں نہ کہیں اس قصے کی تلاوت کرے گا۔ اس لحاظ سے اس قصے کی تفصیلات ‘ متعلقہ آیات اور ان آیات کے الفاظ اسے باہم مشابہ محسوس ہوں گے۔ اسی طرح بعض سورتوں کی بھی آپس میں گہری مشابہت ہے اور اسی مشابہت کی بنا پر انہیں جوڑوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ - ۔ - مَثَانِیَکا معنی ہے دہرائی ہوئی یا جوڑوں کی صورت میں۔ - تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ” اس (کی تلاوت) سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ “- متقی لوگ جب قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو ان پر اللہ کا خوف طاری ہوجاتا ہے اور اس خوف کی وجہ سے ان کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے۔- ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ” پھر ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے نرم پڑجاتے ہیں۔ “- یعنی ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف جھک پڑتے ہیں۔- ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ ” یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ ہدایت بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ “- وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ ” اور جس کو اللہ گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ “- جس کی گمراہی پر اللہ ہی کی طرف سے مہر ثبت ہوچکی ہو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے ؟

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :43 یعنی ان میں کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے ۔ پوری کتاب اول سے لے کر آخر تک ایک ہی مدعا ، ایک ہی عقیدہ اور ایک ہی نظام فکر و عمل پیش کرتی ہے ۔ اس کا ہر جز دوسرے جز کی اور ہر مضمون دوسرے مضمون کی تصدیق و تائید اور توضیح و تشریح کرتا ہے ۔ اور معنی و بیان دونوں کے لحاظ سے اس میں کامل یکسانی ( ) پائی جاتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani