Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

توبہ تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ ۔ اس آیت میں تمام نافرمانوں کو گو وہ مشرک و کافر بھی ہوں توبہ کی دعوت دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کی ذات غفور و رحیم ہے ۔ وہ ہر تائب کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ ہر جھکنے والی کی طرف متوجہ ہوتا ہے توبہ کرنے والے کے اگلے گناہ بھی معاف فرما دیتا ہے گو وہ کیسے ہی ہوں کتنے ہی ہوں کبھی کے ہوں ۔ اس آیت کو بغیر توبہ کے گناہوں کی بخشش کے معنی میں لینا صحیح نہیں اس لئے کہ شرک بغیر توبہ کے بخشا نہیں جاتا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ بعض مشکرین جو قتل و زنا کے بھی مرتکب تھے حاضر خدمت نبوی ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یہ آپ کی باتیں اور آپ کا دین ہمیں ہر لحاظ سے اچھا اور سچا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن یہ بڑے بڑے گناہ جو ہم سے ہوچکے ہیں ان کا کفارہ کیا ہوگا ؟ اس پر آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25- الفرقان:68 ) ، یہ اور آیت نازل ہوئی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں مجھے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوئی جتنی اس آیت کے نازل ہونے سے ہوئی ہے ۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جس نے شرک کیا ہو؟ آپ نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فرمایا خبردار رہو جس نے شرک بھی کیا ہو تین مرتبہ یہی فرمایا ۔ مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک بوڑھا بڑا شخص لکڑی ٹکاتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میرے چھوٹے موٹے گناہ بہت سارے ہیں کیا مجھے بھی بخشا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کیا تو اللہ کی توحید کی گواہی نہیں دیتا ؟ اس نے کہا ہاں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی بھی دیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرے چھوٹے موٹے گناہ معاف ہیں ، ابو داؤد ترمذی وغیرہ میں ہے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ اس آیت کی تلاوت اسی طرح فرما رہے تھے ( اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ 46؀ ) 11-ھود:46 ) اور اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) پس ان تمام احادیث سے ثابت ہو رہا ہے کہ توبہ سے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ بندے کو رحمت رب سے مایوس نہ ہونا چاہئے ۔ گو گناہ کتنے ہی بڑے اور کتنے ہی کثرت سے ہوں ۔ توبہ اور رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا رہتا ہے اور وہ بہت ہی وسیع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ( الم یعلموا ان اللہ ھو یقبل التوبتہ عن عبادہ ) کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔ اور فرمایا ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١١٠؁ ) 4- النسآء:110 ) جو برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ سے استغفار کرے وہ اللہ کو بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا پائے گا ۔ منافقوں کی سزا جو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگی اسے بیان فرما کر بھی فرمایا ( اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ١٦٠؁ ) 2- البقرة:160 ) یعنی ان سے وہ مستثنیٰ ہیں جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں ۔ مشرکین نصاریٰ کے اس شرک کا کہ وہ اللہ کو تین میں کا تیسرا مانتے ہیں ذکر کرکے ان کی سزاؤں کے بیان سے پہلے فرما دیا ( وَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 73؀ ) 5- المآئدہ:73 ) کہ اگر یہ اپنے قول سے باز نہ آئے تو ۔ پھر اللہ تعالیٰ عظمت و کبریائی جلال و شان والے نے فرمایا یہ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے اور کیوں اس سے استغفار نہیں کرتے؟ وہ تو بڑا ہی غفور و رحیم ہے ۔ ان لوگوں کا جنہوں نے خندقیں کھود کر مسلمانوں کو آگ میں ڈالا تھا ذکر کرتے ہوئے بھی فرمایا ہے کہ جو مسلمان مرد عورتوں کو تکلیف پہنچا کر پھر بھی توبہ نہ کریں ان کیلئے عذاب جہنم اور عذاب نار ہے ۔ امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے کرم و جود کو دیکھو کہ اپنے دوستوں کے قاتلوں کو بھی توبہ اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں اس شخص کا واقعہ بھی مذکور ہے جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا تھا ۔ پھر بنی اسرائیل کے ایک عابد سے پوچھا کہ کیا اس کیلئے بھی توبہ ہے؟ اس نے انکار کیا اس نے اسے بھی قتل کردیا ۔ پھر ایک عالم سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ تجھ میں اور توبہ میں کوئی روک نہیں اور حکم دیا کہ موحدوں کی بستی میں چلا جا چنانچہ یہ اس گاؤں کی طرف چلا لیکن راستے میں ہی موت آگئی ۔ رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں آپس میں اختلاف ہوا ۔ اللہ عزوجل نے زمین کے ناپنے کا حکم دیا تو ایک بالشت بھر نیک لوگوں کی بستی جس طرف وہ ہجرت کرکے جا رہا تھا قریب نکلی اور یہ انہی کے ساتھ ملا دیا گیا اور رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ وہ موت کے وقت سینے کے بل اس طرف گھسیٹتا ہوا چلا تھا ۔ اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ نیک لوگوں کی بستی کے قریب ہو جانے کا اور برے لوگوں کی بستی کے دور ہو جانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا ۔ یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ ، پوری حدیث اپنی جگہ بیان ہوچکی ہے ۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے تمام بندوں کو اپنی مغفرت کی طرف بلایا ہے انہیں بھی جو حضرت مسیح کو اللہ کہتے تھے انہیں بھی جو آپ کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے انہیں بھی جو حضرت عزیز کو اللہ کا بیٹا بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ کو فقیر کہتے تھے انہیں بھی جو اللہ کے ہاتھوں کو بند بتاتے تھے انہیں بھی جو اللہ تعالیٰ کو تین میں کا تیسرا کہتے تھے اللہ تعالیٰ ان سب سے فرماتا ہے کہ یہ کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں اس سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں چاہتے؟ اللہ تو بڑی بخشش والا اور بہت ہی رحم و کرم والا ہے ۔ پھر توبہ کی دعوت اللہ تعالیٰ نے اسے دی جس کا قول ان سب سے بڑھ چڑھ کر تھا ۔ جس نے دعویٰ کیا تھا کہ میں تمہارا بلند و بالا رب ہوں ۔ جو کہتا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ تمہارا کوئی معبود میرے سوا ہو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی جو شخص اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے ۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا منکر ہے ۔ لیکن اسے سمجھ لو کہ جب تک اللہ کسی بندے پر اپنی مہربانی سے رجوع نہ فرمائے اسے توبہ نصیب نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ کتاب اللہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت آیت الکرسی ہے اور خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 90؀ ) 16- النحل:90 ) ہے اور سارے قرآن میں سب سے زیادہ خوشی کی آیت سورۃ زمر کی ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀ ) 39- الزمر:53 ) ہے اور سب سے زیادہ ڈھارس دینے والی آیت ( من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب ) ہے یعنی اللہ سے ڈرتے رہنے والوں کی مخلصی خود اللہ کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں کا اسے خیال و گمان بھی نہ ہو ۔ حضرت مسروق نے یہ سن کر فرمایا کہ بیشک آپ سچے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جا رہے تھے کہ آپ نے ایک واعظ کو دیکھا جو لوگوں کو نصیحتیں کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا ۔ تو کیوں لوگوں کو مایوس کر رہا ہے؟ پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ( ابن ابی حاتم ) ان احادیث کا بیان جن میں ناامیدی اور مایوسی کی ممانعت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم خطائیں کرتے کرتے زمین و آسمان پر کردو پھر اللہ سے استغفار کرو تو یقینا وہ تمہیں بخش دے گا ۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کرکے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کرکے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے ۔ ( مسند امام احمد ) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے انتقال کے وقت فرماتے ہیں ۔ ایک حدیث میں نے تم سے آج تک بیان نہیں کی تھی اب بیان کردیتا ہوں ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا اگر تم گناہ ہی نہ کرتے تو اللہ عزوجل ایسی قوم کو پیدا کرتا جو گناہ کرتی پھر اللہ انہیں بخشتا ۔ ( صحیح مسلم وغیرہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں گناہ کا کفارہ ندامت اور شرمساری ہے اور آپ نے فرمایا اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لاتا جو گناہ کریں پھر وہ انہیں بخشے ( مسند احمد ) آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو کامل یقین رکھنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو ( مسند احمد ) حضرت عبداللہ بن عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ابلیس ملعون نے کہا اے میرے رب تونے مجھے آدم کی وجہ سے جنت سے نکالا ہے اور میں اس پر اس کے بغیر کہ تو مجھے اس پر غلبہ دے غالب نہیں آسکتا ۔ جناب باری نے فرمایا جا تو ان پر مسلط ہے ۔ اس نے کہا اللہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عطا فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا بنی آدم میں جتنی اولاد پیدا ہوگی اتنی ہی تیرے ہاں بھی ہوگی ۔ اس نے پھر التجا کی باری تعالیٰ کچھ اور بھی مجھے زیادتی دے ۔ پروردگار عالم نے فرمایا بنی آدم کے سینے میں تیرے لئے مسکن بنادوں گا اور تم ان کے جسم میں خون کی جگہ پھرو گے اس نے پھر کہا کہ کچھ اور بھی مجھے زیادتی عنایت فرما ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا تو ان پر اپنے سوار اور پیادے دوڑا ۔ اور ان کے مال و اولاد میں اپنا ساجھا کر اور انہیں امنگیں دلا ۔ گو حقیقتاً تیرا امنگیں دلانا اور وعدے کرنا سراسر دھوکے کی ٹٹی ہیں ۔ اس وقت حضرت آدم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار تونے اسے مجھ پر مسلط کردیا اب میں اس سے تیرے بچائے بغیر بچ نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سنو تمہارے ہاں جو اولاد ہوگی اس کے ساتھ میں ایک محافظ مقرر کردوں گا جو شیطانی پنجے سے محفوظ رکھے ۔ حضرت آدم نے اور زیادتی طلب کی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نیکی کو دس گنا کرکے دوں گا بلکہ دس سے بھی زیادہ ۔ اور برائی اسی کے برابر رہے گی یا معاف کردوں گا ۔ آپ نے پھر بھی اپنی یہی دعا جاری رکھی ۔ رب العزت نے فرمایا توبہ کا دروازہ تمہارے لئے اس وقت تک کھلا ہے جب تک روح جسم میں ہے ، حضرت آدم نے دعا کی اللہ مجھے اور زیادتی بھی عطا فرما ۔ اب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی کہ میرے گنہگار بندوں سے کہہ دو وہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جو لوگ بوجہ اپنی کمزوری کے کفار کی تکلیفیں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے اپنے دین میں فتنے میں پڑگئے ہم اس کی نسبت آپس میں کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی نیکی اور توبہ قبول نہ فرمائے گا ان لوگوں نے اللہ کو پہچان کر پھر کفر کو لے لیا اور کافروں کی سختی کو برداشت نہ کیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ہمارے اس قول کی تردید کردی اور ( یا عبادی الذین اسرفوا سے لا تشعرون ) تک آیتیں نازل ہوئیں ۔ حضرت عمر فرماتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے ان آیتوں کو لکھا اور ہشام بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیج دیا ، حضرت ہشام فرماتے ہیں میں اس وقت ذی طویٰ میں تھا میں انہیں پڑھ رہا تھا اور بار بار پڑھتا جاتا تھا اور خوب غور و خوض کر رہا تھا لیکن اصلی مطلب تک ذہن رسائی نہیں کرتا تھا ۔ آخر میں نے دعا کی کہ پروردگار ان آیتوں کا صحیح مطلب اور ان کو میری طرف بھیجے جانے کا صحیح مقصد مجھ پر واضح کردے ۔ چنانچہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالا گیا کہ ان آیتوں سے مراد ہم ہی ہیں یہ ہمارے بارے میں ہیں اور ہمیں جو خیال تھا کہ اب ہماری توبہ قبول نہیں ہوسکتی اسی بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ اسی وقت میں واپس مڑا اپنا اونٹ لیا اس پر سواری کی اور سیدھا مدینے میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ۔ ( سیرۃ ابن اسحاق ) بندوں کی مایوسی کو توڑ کر انہیں بخشش کی امید دلا کر پھر حکم دیا اور رغبت دلائی کہ وہ توبہ اور نیک عمل کی طرف سبقت اور جلدی کریں ایسا نہ ہو کہ اللہ کے عذاب آپڑیں ۔ جس وقت کہ کسی کی مدد کچھ نہیں آتی اور انہیں چاہئے کہ عظمت والے قرآن کریم کی تابعداری اور ماتحتی میں مشغول ہو جائیں اس سے پہلے کہ اچانک عذاب آئیں اور یہ بےخبری میں ہی ہوں ، اس وقت قیامت کے دن بےتوبہ مرنے والے اور اللہ کی عبادت میں کمی لانے والے بڑی حسرت اور بہت افسوس کریں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش کہ ہم خلوص کے ساتھ احکام اللہ بجا لاتے ۔ افسوس کہ ہم تو بےیقین رہے ۔ اللہ کی باتوں کی تصدیق ہی نہ کی بلکہ ہنسی مذاق ہی سمجھتے رہے اور کہیں گے کہ اگر ہم بھی ہدایت پالیتے تو یقینا رب کی نافرمانیوں سے دنیا میں اور اللہ کے عذاب سے آخرت میں بچ جاتے اور عذاب کو دیکھ کر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ اگر اب دوبارہ دنیا کی طرف جانا ہو جائے تو دل کھول کر نیکیاں کرلیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بندے کیا عمل کریں گے اور کیا کچھ وہ کہیں گے ۔ انکے عمل اور ان کے قول سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دیدی اور فی الواقع اس سے زیادہ باخبر کون ہوسکتا ہے؟ نہ اس سے زیادہ سچی خبر کوئی دے سکتا ہے ۔ بدکاروں کے یہ تینوں قول بیان فرمائے اور دوسری جگہ یہ خبر دیدی کہ اگر یہ واپس دنیا میں بھیجے جائیں تو بھی ہدایت کو اختیار نہ کریں گے ۔ بلکہ جن کاموں سے روکے گئے ہیں انہی کو کرنے لگیں گے اور یہاں جو کہتے ہیں سب جھوٹ نکلے گا ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے ہر جہنمی کو اس کی جنت کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کاش کہ اللہ مجھے ہدایت دیتا ۔ یہ اس لئے کہ اسے حسرت و افسوس ہو ۔ اور اسی طرح ہر جنتی کو اس کی جہنم کی جگہ دکھائی جاتی ہے اس وقت وہ کہتا ہے کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دیتا تو وہ جنت میں نہ آسکتا ۔ یہ اس لئے کہ وہ شکر اور احسان کے ماننے میں اور بڑھ جائے ، جب گنہگار لوگ دنیا کی طرف لوٹنے کی آرزو کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہ کرنے کی حسرت کریں گے اور اللہ کے رسولوں کو نہ ماننے پر کڑھنے لگیں گے تو اللہ سبحان و تعالیٰ فرمائے گا کہ اب ندامت لاحاصل ہے پچھتاوا بےسود ہے دنیا میں ہی میں تو اپنی آیتیں اتار چکا تھا ۔ اپنی دلیلیں قائم کرچکا تھا ، لیکن تو انہیں جھٹلاتا رہا اور ان کی تابعداری سے تکبر کرتا رہا ، ان کا منکر رہا ۔ کفر اختیار کیا ، اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا توبہ و استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کئے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا ؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبہ کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا وہ سب معاف ہوجائیں گے جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ صحیح بخاری، تفسیر سورة زمر۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ اس کے احکام و فرائض کی مطلق پروا نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بےدردی سے پامال کرو اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عزیز ذو انتقام بھی ہے چناچہ قرآن کریم میں منعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا مثلا نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم (الحجر) غالبا یہی توبہ کر کے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جائے گا اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں گے تو معاف فرما دے گا وہ اپنے بندوں کے لیے یقینا غفور رحیم ہے جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کی توبہ کا واقعہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧١] اسلام لانے سے پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں :۔ اس آیت کے انداز سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور ان لوگوں کے لئے پیغام امید لے کر آئی ہے جو دور جاہلیت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف نہ ہوسکیں گے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- ١۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ مشرکوں نے بہت خون کئے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے، وہ آپ کے پاس آکر کہنے لگے : آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس دین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ اچھا ہے۔ کیا اچھا ہو اگر آپ ہمیں یہ بتادیں کہ ہمارا اسلام لانا ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ؟ اس وقت ( سورة فرقان کی) یہ آیت ( وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا 68؀ۙ ) 25 ۔ الفرقان :68) تاآخر اور ( سورة زمر کی) یہ آیت (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ 53؀) 39 ۔ الزمر :53) تاآخر نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ آپ نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندو تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں تم مجھ ہی سے معافی مانگو۔ میں معاف کردوں گا (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظلم)- خ تحریف معنوی کی ایک مثال :۔ اس آیت کی بعض لوگوں نے بہت عجیب سی تاویل کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہہ رہا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو یعنی بندے اللہ کے نہیں بلکہ رسول اللہ کے ہیں۔ یہ تاویل دراصل تاویل نہیں بلکہ بدترین قسم کی تحریف ہے۔ کیونکہ یہ تاویل قرآن کی ساری تعلیم کے برخلاف ہے۔ نیز اس سے رسول اللہ کی شان بڑھتی نہیں بلکہ ان پر سخت الزام آتا ہے۔ آپ اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ سب لوگوں کو دوسرے معبودوں کی بندگی سے ہٹاکر خالص اللہ کے بندے بنائیں۔ نہ یہ کہ اپنے ہی بندے بنانا شروع کردیں۔ آپ خود بھی اللہ کے بندے تھے اور اس بندگی کا اقرار کرنے سے ہی ایک شخص اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اس بندگی کا اقرار ہم سب نمازوں میں کئی بار کرتے ہیں۔ اس تاویل کو دیکھ کر بےاختیار ڈاکٹر اقبال (رح) کے یہ شعر یاد آجاتے ہیں :- زمن برصوفی و ملا سلامے۔۔ کہ پیغام خدا گفتند مار اولے تاویل شان در حیرت انداخت۔۔ خدا و جبرئیل ومصطفی را - (ترجمہ : میری طرف سے صوفی و ملا کو سلام ہو جنہوں نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ لیکن ان کی تاویل نے اللہ، جبرئیل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کو حیرت میں ڈال دیا (کہ ہم نے کیا کہا تھا اور ان لوگوں نے اس کا کیا مطلب لے لیا ہے)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ ۔۔ : سورت کی ابتدا سے یہاں تک مختلف طریقوں سے شرک کی تردید اور مشرکین کو وعید کا ایک لمبا سلسلہ چلا آ رہا ہے، جس کی پروا بظاہر کافر و مشرک لوگ نہیں کرتے، مگر اللہ تعالیٰ کے اس قدر پرزور کلام سے ان کے دلوں میں خوف کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے، جو حد سے بڑھ جائے تو نتیجہ یاس اور ناامیدی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہر جگہ ڈرانے کے ساتھ بشارت کا بیان بھی ضرور فرماتا ہے، تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کے بندے ناامید ہو کر اس کی جناب میں آنے کی جرأت ہی نہ کریں، اور بشارت اور ترغیب کے ساتھ ترہیب اور ڈرانے کا بیان بھی فرماتا ہے، تاکہ وہ بےخوف نہ ہوجائیں، جیسا کہ جراح نشتر بھی لگاتا ہے اور مرہم بھی رکھتا ہے، پھر پرہیز کی تاکید کرتا ہے اور بد پرہیزی کے انجام سے ڈراتا ہے، فرمایا : (نَبِّئْ عِبَادِيْٓ اَنِّىْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ وَاَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ ) [ الحجر : ٤٩، ٥٠ ] ” میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بیشک میں ہی بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہوں۔ اور یہ بھی کہ بیشک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔ “ اور فرمایا : (وَاِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰي ظُلْمِهِمْ ۚ ) [ الرعد : ٦ ] ” اور بیشک تیرا رب یقیناً لوگوں کے لیے ان کے ظلم کے باوجود بڑی بخشش والا ہے اور بلاشبہ تیرا رب یقیناً بہت سخت سزا والا ہے۔ “ یہاں بھی وعید کے لمبے سلسلے کے بعد اپنے بندوں کو ” لَا تَقْنَطُوْا “ کے ساتھ اپنی رحمت کی امید دلائی اور بعد کی آیات میں انھیں جلد از جلد توبہ کی تلقین فرما کر وقت ہاتھ سے نکلنے سے ڈرایا ہے۔- يٰعِبَادِيَ : بندے مومن ہوں یا کافر، سب اللہ کے بندے ہیں، اس لیے قرآن مجید میں ” عِبَادِيْ “ کا لفظ دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ مومن و کافر دونوں فریقوں کو اپنے بندے قرار دیا : (اِنَّهٗ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْ عِبَادِيْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا) [ المؤمنون : ١٠٩ ] ” بیشک حقیقت یہ ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے اے ہمارے رب ہم ایمان لے آئے۔ “ اور کفار کو اپنے بندے کہا : (وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ ) [ الفرقان : ١٧ ] ” اور جس دن وہ انھیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے، اکٹھا کرے گا، پھر کہے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا وہ خود راستے سے بھٹک گئے تھے ؟ “ اور دیکھیے سورة زمر (١٦) مگر اس کا اکثر استعمال اللہ کے مخلص اور مومن بندوں کے لیے ہوا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ ) [ الحجر : ٤٢ ] ” بیشک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں۔ “- الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ : اس آیت میں ” يٰعِبَادِيَ “ سے مراد قرآن مجید کے اکثر استعمال کے خلاف کفار و مشرکین ہیں، اس کی دلیل اس کے بعد کی آیات ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَاَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ ) [ الزمر : ٥٤ ] ” اور اس کے مطیع ہوجاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے، پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ “ اور ان کا یہ کہنا : ( وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ ) [ الزمر : ٥٦ ] ” اور بیشک میں تو مذاق کرنے والوں سے تھا۔ “ اور یہ آیت : (بَلٰى قَدْ جَاۗءَتْكَ اٰيٰتِيْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ) [ الزمر : ٥٩ ] ” کیوں نہیں، بیشک تیرے پاس میری آیات آئیں تو تو نے انھیں جھٹلایا اور تکبرّ کیا اور تو انکار کرنے والوں میں سے تھا۔ “- صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیات کچھ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئیں، چناچہ انھوں نے فرمایا : ( أَنَّ نَاسًا مِنْ أَہْلِ الشِّرْکِ کَانُوْا قَدْ قَتَلُوْا وَ أَکْثَرُوْا، وَ زَنَوْا وَ أَکْثَرُوْا، فَأَتَوْا مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقَالُوْا إِنَّ الَّذِيْ تَقُوْلُ وَ تَدْعُوْ إِلَیْہِ لَحَسَنٌ لَوْ تُخْبِرُنَا أَنَّ لِمَا عَمِلْنَا کَفَّارَۃً ، فَنَزَلَ : (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ) [ الفرقان : ٦٨ ] وَ نَزَلَ : (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) [ الزمر : ٥٣ ] ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : (یا عبادی الذین أسرفوا۔۔ ) : ٤٨١٠ ] ” مشرکین میں سے کچھ لوگ جنھوں نے قتل کیے تھے اور بہت کیے تھے اور زنا کیا تھا اور بہت کیا تھا، پھر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے : ” آپ جو بات کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں یقیناً وہ بہت اچھی ہے، اگر آپ ہمیں بتائیں کہ ہم نے جو کچھ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے ؟ “ تو یہ آیت اتری : (وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ ) [ الفرقان : ٦٨ ] ” اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں۔ “ [ یعنی اس کے بعد کی آیات میں ہے : ( اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَـيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) [ الفرقان : ٧٠ ] ” مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا نیک عمل، تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ سے بیحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ “] اور یہ آیت اتری : (قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) ” کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ۔ “- ” اسراف “ کا معنی کسی بھی چیز میں حد سے گزرنا ہے، عموماً اس کا استعمال خرچ کرنے میں ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا) [ الفرقان : ٦٧ ] ” اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں۔ “ یہاں اس سے مراد کفر و شرک کرکے اپنی جانوں پر ظلم و زیادتی ہے۔ ” عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ “ کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری زیادتی کا نقصان تم ہی کو ہے، اللہ تعالیٰ کو یا کسی اور کو نہیں، اس لیے اس زیادتی کے مداوے کی فکر بھی تمھی کو ہونی چاہیے، جیسا کہ فرمایا : (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ) [ یونس : ٢٣ ] ” اے لوگو تمہاری سرکشی تمہاری جانوں ہی پر ہے۔ “- لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ : ” قَنِطَ یَقْنَطُ قُنُوْطًا “ (ع، ض) ناامید ہونا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کئی طرح سے گناہوں کی بخشش کی امید دلائی ہے۔ تفسیر رازی نے وہ دس وجہیں بیان کی ہیں :- 1 ” يٰعِبَادِيَ “ (اے میرے بندو ) بندہ غلام کو کہتے ہیں۔ غلام بےچارہ مسکین، عاجز اور محتاج ہوتا ہے، اس کی مسکنت اور بےچارگی اسے مالک کے رحم و کرم کا حق دار بناتی ہے۔- 2 اللہ تعالیٰ نے ” يٰعِبَادِيَ ‘ (اے میرے بندو ) کہہ کر ان کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور جسے اللہ تعالیٰ اپنا کہہ دے اس کے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔- اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ “ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے جو گناہ کیے ان کا نقصان انھی کو ہے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کچھ نہیں بگڑا، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ وہ ان کی توبہ قبول نہ کرے۔- لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ “ میں صریح الفاظ کے ساتھ ناامید ہونے سے منع فرمایا۔- 5 ” يٰعِبَادِيَ “ (اے میرے بندو ) کے ساتھ خطاب کے بعد کلام کا تقاضا یہ تھا کہ کہا جاتا : ” لَا تَقْنَطُْوْا مِنْ رَّحْمَتِيْ “ (کہ میری رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ) مگر ” مِنْ رَّحْمَتِيْ “ کے بجائے فرمایا : ” مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ“ (اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ) کیونکہ لفظ ” اللہ “ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سب سے بڑا اور اس کی تمام صفات کا جامع نام ہے۔ تمام صفات کمال کی جامع ہستی سے ناامید ہونا کسی طرح بھی جائز نہیں۔- 6 اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ : کہنا تو یہ تھا کہ ”إِنَّہُ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ “ ( بیشک وہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) مگر دوبارہ اپنا نام لے کر فرمایا : ” اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ “ (کہ بیشک اللہ تعالیٰ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) دوبارہ اپنا گرامی قدر نام ذکر کرنے اور ” ان ‘ کے ساتھ اس کی تاکید سے مغفرت کے وعدے میں مبالغے کا اظہار ہو رہا ہے۔- 7 جَمِيْعًا ‘ میں الف لام استغراق کے لیے ہے، اس لیے تمام گناہوں کی مغفرت کے وعدے کے لیے ” الذُّنُوْبَ “ ہی کافی تھا، مگر ” جَمِيْعًا “ کے ساتھ مزید تاکید فرما دی کہ اللہ تعالیٰ توبہ کے ساتھ تمام گناہ، حتیٰ کہ شرک جیسے اکبر الکبائر کو بھی بخش دیتا ہے، جیسا کہ اگلی آیت میں ” اَنِيْبُوْٓا “ اور ” اَسْلِمُوْا “ وغیرہ الفاظ کے ساتھ وضاحت آرہی ہے۔- 8 اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ ‘ ” غَفَرَ یَغْفِرُ “ کا اصل معنی پردہ ڈالنا ہے اور ” الْغَفُوْرُ “ اس سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بندوں کے گناہوں پر بہت زیادہ پردہ ڈالنے والا ہے۔ یہ عذاب کا باعث بننے والی چیزوں کو دور کرنے کی طرف اشارہ ہے۔- 9 ” الرَّحِيْمُ “ ” رُحْمٌ“ سے مبالغے کا صیغہ ہے کہ وہ بیحد رحم کرنے والا ہے۔ یہ مغفرت کے بعد مزید رحمت کے نتیجے میں عطا ہونے والی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان دونوں کا فرق شعراوی نے ایک مقام پر ایک مثال کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اگرچہ یہ مکمل نہیں ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی چور کو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیتا ہے، اب وہ اسے سزا دے یا دلوا سکتا ہے، مگر وہ اس کی منتوں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کے وعدے کی وجہ سے اس کی چوری پر پردہ ڈال دیتا ہے اور کسی کو اس کی اطلاع نہیں دیتا، یہ مغفرت ہے۔ پھر وہ اس کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے اسے کچھ رقم دے کر کاروبار میں کھڑا کردیتا ہے، یہ اس پر رحم ہے۔- اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘ میں ” ھو “ ضمیر فصل اور خبر ” الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ “ پر الف لام کی وجہ سے کلام میں تاکید اور حصر پیدا ہوگیا۔ یعنی اس کے سوا کوئی نہ غفور ہے نہ رحیم، اس سے اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ تمام وجوہ اللہ تعالیٰ کی کمال مغفرت و رحمت پر اور بندوں کے اس سے کسی حال میں بھی ناامید نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان میں سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ (آمین)- اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۔۔ : ” وَاَنِيْبُوْٓا اِلٰى رَبِّكُمْ “ اور بعد کی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ وعدہ صرف ان لوگوں سے ہے جو توبہ کریں۔ ابن کثیر (رض) نے بھی یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے، کیونکہ اگر وہ کافر و مشرک ہے تو کفر و شرک سے توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کے بغیر اس کی بخشش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر وہ مسلمان ہے تو اس کے تمام گناہوں کی معافی کا وعدہ توبہ یا اس کے قائم مقام اعمال کے ساتھ ہے، ورنہ اس کی بخشش اللہ تعالیٰ کی مشیّت پر موقوف ہے، وہ جسے چاہے گا بخش دے گا، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ) [ النساء : ١١٦ ] ” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ ہر مسلمان کے تمام گناہ توبہ کے بغیر معاف ہوجائیں گے تو شریعت کے احکام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ البتہ اس بات میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس مسلمان کے گناہ چاہے گا سزا دیے بغیر معاف کر دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا، مگر آخر کار ہر موحّد مسلمان کو جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ اس وقت کفار خواہش کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے، خواہ کسی درجے کے ہوتے، کیونکہ کفار پر اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتیں حرام کردی ہیں۔ دیکھیے سورة حجر کی آیت (٢) کی تفسیر۔ اگر بخشش کا یہ معنی کیا جائے کہ آخر کار تمام مسلمان جنت میں جائیں گے تو ” اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا “ (بےشک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے) سے صرف کافر مستثنیٰ ہوں گے کہ ان کے گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔- 3 اس آیت اور بعد کی آیات سے اللہ تعالیٰ کی بےانتہا رحمت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ کرنے والوں کو کس قدر معاف فرمانے والا ہے۔ سورة فرقان (٦٩، ٧٠) میں شرک، قتل ناحق اور زنا کرنے والوں کے ساتھ توبہ، ایمان اور عمل صالح کے بعد ان کی گزشتہ برائیوں کو نیکیوں میں بدل دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لیے کسی بندے کو اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے، خواہ اس کے گناہوں سے زمین و آسمان بھرے ہوئے ہوں۔ صرف اللہ کی طرف پلٹنے اور اس کے سامنے اعتراف کے بعد توبہ کی ضرورت ہے، وہ سب گناہ معاف فرما دے گا، کیونکہ اسے اپنے بندوں کی توبہ بہت ہی محبوب ہے۔ چناچہ ارشاد ہے : (اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ ھُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ ) [ التوبۃ : ١٠٤ ] ” کیا انھوں نے نہیں جانا کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) [ النساء : ١١٠ ] ” اور جو بھی کوئی برا کام کرے، یا اپنی جان پر ظلم کرے، پھر اللہ سے بخشش مانگے وہ اللہ کو بیحد بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا۔ “ منافقین کے متعلق فرمایا : (اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِيْرًا اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا ) [ النساء : ١٤٥، ١٤٦ ] ” بیشک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی۔ “ اور فرمایا : (لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ ۘوَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭوَاِنْ لَّمْ يَنْتَھُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ) [ المائدۃ : ٧٣ ] ” بلاشبہ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا بیشک اللہ تین میں سے تیسرا ہے، حالانکہ کوئی بھی معبود نہیں مگر ایک معبود، اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو یقیناً ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انھیں ضرور درد ناک عذاب پہنچے گا۔ “ پھر انھی کے متعلق فرمایا : اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) [ المائدۃ : ٧٤ ] ” تو کیا وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ بیحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ - ابن کثیر (رض) نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے ” قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ“ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی مغفرت کی دعوت دی جنھوں نے کہا مسیح خود اللہ ہے اور جنھوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے اور جنھوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور جنھوں نے کہا اللہ فقیر ہے اور جنھوں نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے اور جنھوں نے کہا اللہ تین میں تیسرا ہے، ان سب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ) [ المائدۃ : ٧٤ ] ” تو کیا وہ اللہ کی طرف توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے، اور اللہ بیحد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ پھر اسے بھی توبہ کی دعوت دی جس نے ان سے بھی بڑی بات کہی : ( فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى ) [ النازعات : ٢٤ ] ” میں تمہارا سب سے اونچا رب ہوں۔ “ اور جس نے کہا : (مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ ) [ القصص : ٣٨ ] ” میں نے اپنے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں جانا۔ “ چناچہ فرمایا : (وَاِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى ) [ طٰہٰ : ٨٢ ] ” اور بیشک میں یقیناً اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔ “ ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” جو شخص اس کے بعد بھی اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کرے اس نے اللہ کی کتاب کا انکار کیا، لیکن بندہ توبہ نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس پر مہربانی فرمائے۔ “ مسلمانوں کو آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں ڈالنے والوں (اصحاب الاخدود) کے متعلق فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ ) [ البروج : ١٠ ] ” یقیناً وہ لوگ جنھوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو آزمائش میں ڈالا، پھر انھوں نے توبہ نہیں کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ہے۔ “ حسن بصری (رض) نے فرمایا : ” اس جود و کرم کو دیکھو ان لوگوں نے اس کے دوستوں کو قتل کیا اور وہ انھیں توبہ اور مغفرت کی دعوت دے رہا ہے۔ “ (ابن کثیر) - قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کی بہت سی آیات ہیں۔ احادیث صحیحہ میں ننانوے آدمیوں کے بعد سوویں آدمی کے قاتل کی توبہ کا ذکر معروف ہے، جسے نیک لوگوں کی بستی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں موت آگئی۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل، إن کثر قتلہ : ٢٧٦٦ ] اسی طرح اللہ تعالیٰ کا بندے کی توبہ پر اس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہونے کا ذکر ہے جو اپنی گم شدہ اونٹنی ملنے پر خوشی کی شدت میں اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے بےاختیار کہہ اٹھتا ہے : ” یا اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب “ اور خوشی کی شدت میں خطا کرجاتا ہے۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب في الحض علی التوبۃ والفرح بھا : ٢٧٤٧ ] اسی طرح اس بندے کا ذکر ہے جس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ وہ اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر اس کی راکھ کچھ پانی میں بہا دیں اور کچھ ہوا میں اڑا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کرکے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ تو اس نے کہا : ” یا اللہ تیرے ڈر سے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ [ دیکھیے مسلم، التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ ۔۔ : ٢٧٥٦ ] پھر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی کرم ہے کہ بندہ جتنی بار بھی گناہ کرے، پھر اس کے بعد جتنی بار توبہ کرے وہ معاف فرما دیتا ہے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَال اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ یَأْخُذُ بالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی عَبْدِيْ أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ یَأْخُذُ بالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ أَيْ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ فَقَالَ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی أَذْنَبَ عَبْدِيْ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَہُ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَ یَأْخُذُ بالذَّنْبِ اعْمَلْ مَا شِءْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ ) [ مسلم، التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب۔۔ : ٢٧٥٨ ] ” ایک بندے نے گناہ کیا، پھر اس نے کہا : ” اے میرے رب مجھے میرا گناہ بخش دے۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” میرے بندے نے ایک گناہ کیا، پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔ “ پھر اس نے دوبارہ گناہ کیا اور کہا : ” اے میرے رب مجھے میرا گناہ بخش دے۔ “ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ” میرے بندے نے ایک گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔ “ پھر ایک بار اور اس نے گناہ کیا اور کہا : ” اے میرے رب مجھے میرا گناہ بخش دے۔ “ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ” میرے بندے نے گناہ کیا پھر جان لیا کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور گناہ پر پکڑتا ہے۔ (میرے بندے ) تو جو چاہے کر، میں نے تجھے بخش دیا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ (ان سوال کرنے والوں کے جواب میں میری طرف سے) کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے (کفر و شرک کر کے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خدا کی رحمت سے ناامید مت ہو (اور خیال نہ کرو کہ ایمان لانے کے بعد گزشتہ کفر و شرک پر مواخذہ ہوگا سو یہ بات نہیں بلکہ) بالیقین اللہ تعالیٰ (اسلام کی برکت سے) تمام (گزشتہ) گناہوں کو (گو کفر و شرک ہی کیوں نہ ہو) معاف فرما دے گا واقعی وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے اور (چونکہ اس معافی کی شرط اور طریقہ کفر سے توبہ کرنا اور اسلام لانا ہے، اس لئے) تم (کفر سے توبہ کرنے کے لئے) اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور (اسلام قبول کرنے میں) اس کی فرمانبرداری کرو قبل اس کے کہ (اسلام نہ لانے کی صورت میں) تم پر عذاب (الٰہی) واقع ہونے لگے (اور) پھر (اس وقت کسی کی طرف سے) تمہاری کوئی مدد نہ کی جاوے (یعنی جیسا اسلام لانے کی صورت میں سب کفر و شرک معاف ہوجاوے گا، اسی طرح اسلام نہ لانے کی صورت میں اس کفر و شرک پر عذاب ہوگا جس کا کوئی دفعیہ نہیں) اور (جب یہ بات ہے کہ اسلام نہ لانے کا یہ انجام ہے تو) تم (کو چاہئے کہ) اپنے رب کے پاس سے آئے ہوئے اچھے اچھے حکموں پر چلو قبل اس کہ کہ تم پر اچانک عذاب آ پڑے اور تم کو (اس کا) خیال بھی نہ ہو (مراد اس سے عذاب آخرت ہے بقرینہ مابعدہ اور اچانک یا تو اس لئے کہا کہ نفخہ اولیٰ میں سب ارواح مدہوش ہوجاویں گی، پھر نفخہ ثانیہ کے بعد ادراک عذاب نازل اچانک ہونے لگے گا اور یا اس لئے کہ جیسا عذاب واقع ہوگا قبل وقوع اس کی حقیقت کا ادراک نہ تھا اور ویسا گمان نہ تھا، گمان کے خلاف واقعہ سامنے آنے کو اچانک سے تعبیر کیا گیا، اور یہ انابت واسلام و اتباع کا حکم اس لئے دیا جاتا ہے کہ) کبھی (کل قیامت کے روز) کوئی شخص کہنے لگا کہ افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے خدا کی جناب میں کی (یعنی اس کی اطاعت میں جو مجھ سے تقصیر ہوئی) اور میں تو احکام خداوندی پر ہنستا ہی رہا یا کوئی یوں کہنے لگے کہ اگر اللہ تعالیٰ (دنیا میں) مجھ کو ہدایت کرتا تو میں بھی پرہیزگاروں میں سے ہوتا (مگر ہدایت ہی سے محروم رہا اس لئے یہ تمام تر تقصیر و کوتاہی ہوئی جس میں معذور ہوں) یا کوئی عذاب کو دیکھ کر یوں کہنے لگے کہ کاش میرا (دنیا میں) پھرجانا ہو وے پھر میں نیک بندوں میں ہوجاؤں۔ (اور دوسرے قول میں جو یہ کہا گیا تھا کہ اگر مجھے ہدایت کی جاتی تو میں بھی متقی ہوجاتا۔ آگے اس کے جواب میں فرمایا ہے) ہاں بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچی تھیں سو تو نے ان کو جھٹلایا اور (جھٹلانا کسی شبہ سے نہ تھا بلکہ) تو نے تکبر کیا اور (یہ بھی نہ ہوا کہ دوسرے وقت دماغ درست ہوجاتا بلکہ) کافروں میں (ہمیشہ) شامل رہا (اور اس لئے تیرا یہ کہنا غلط ہے کہ مجھے ہدایت نہیں پہنچی اور (آگے مصر علی الکفر و تائب عن الکفر کی سزا و جزا کا مختصراً ذکر فرماتے ہیں کہ اے پیغمبر) آپ قیامت کے روز ان لوگوں کے چہرے سیاہ دیکھیں گے۔ جنہوں نے خدا پر جھوٹ بولا تھا۔ (اس میں دو امر آگئے جو بات خدا نے کہی مثل شرک وغیرہ اس کو یہ کہنا کہ خدا نے کہی ہے اور جو بات خدا نے کہی، جیسے قرآن اس کو یہ کہنا کہ خدا نے نہیں کہی ہے) کیا ان متکبرین کا ٹھکانہ جہنم میں نہیں ہے۔ (جو کہ عناداً واستکباراً تکذیب کریں) اور جو لوگ (شرک و کفر سے) بچتے تھے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کامیابی کے ساتھ (جہنم سے) نجات دے گا ان کو (ذرا) تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ وہ غمگین ہوں گے (کیونکہ جنت میں غم نہیں ہے) ۔- معارف و مسائل - (آیت) قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا الایہ۔ سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے قتل ناحق کئے اور بہت کئے اور زنا کا ارتکاب کیا اور بہت کیا، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ جس دین کی طرف آپ دعوت دیتے ہیں وہ ہے تو بہت اچھا لیکن فکر یہ ہے کہ جب ہم اتنے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرچکے اب اگر مسلمان بھی ہوگئے تو کیا ہماری توبہ قبول ہو سکے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مذکورہ نازل فرمائی۔ (ذکرہ البخاری بمعناہ۔ قرطبی)- اس لئے خلاصہ آیت کے مضمون کا یہ ہوا کہ مرنے سے پہلے پہلے ہر بڑے سے بڑے گناہ یہاں تک کہ کفر و شرک سے بھی جو توبہ کرلے قبول ہوجاتی ہے۔ اور سچی توبہ سے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کسی کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے۔- حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ یہ آیت گناہ گاروں کے لئے قرآن کی سب آیتوں سے زیادہ امید افزاء ہے۔ مگر حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ سب سے زیادہ رجاء وامید کی یہ آیت ہے :- (آیت) ان ربک لذو مغفرہ للناس علیٰ ظلھم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 3- قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۝ ٥٣- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- سرف - السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً- [ النساء 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] ، أي :- المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة .- ( س ر ف ) السرف - کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - قنط - القُنُوطُ : اليأس من الخیر . يقال : قَنَطَ يَقْنِطُ قُنُوطاً ، وقَنِطَ يَقْنَطُ «3» . قال تعالی: فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر 55] ، قال : وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر 56] ، وقال : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر 53] ، وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت 49] ، إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم 36] . - ( ق ن ط ) القنوط - ( مصدر ) کے معنی بھلائی سے مایوس ہونے کے ہیں اور یہ قنط ( ض ) وقنط ( س ) قناطا یعنی ہر دو ابواب سے استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَلا تَكُنْ مِنَ الْقانِطِينَ [ الحجر 55] آپ مایوس نہ ہوجئے ۔ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ [ الحجر 56] خدا کی رحمت سے ( میں مایوس کیوں ہونے لگا ۔ اس سے ) مایوس ہونا گمراہوں کا کام ہے ۔ يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ [ الزمر 53] اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ وَإِنْ مَسَّهُ الشَّرُّ فَيَؤُسٌ قَنُوطٌ [ فصلت 49] اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو ناامید ہوجاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور کبھی قنط کا لفظ طرٖد کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِذا هُمْ يَقْنَطُونَ [ الروم 36] تو ناامید ہوکر رہ جاتے ہیں ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ فرما دیجیے کہ اے میرے بندو جنہوں نے کفر و شرک کر کے اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی مغفرت سے مایوس مت ہو اللہ اس شخص کے تمام گناہوں کو جو کفر سے توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے معاف فرمائے گا وہ توبہ کی حالت میں مرنے والے پر بڑی رحمت فرمانے والا ہے۔- شان نزول : قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ (الخ)- بخاری و مسلم کی حدیث اس آیت کے بارے میں سورة فرقان میں گزر چکی ہے۔ ابن ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ کے مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- اور طبرانی اور حاکم نے حضرت ابن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ فرماتے ہیں کہ ہم کہا کرتے تھے کہ فساد پھیلانے والے کے لیے کوئی توبہ نہیں جبکہ وہ اسلام لانے اور اسلام کی معرفت حاصل ہوجانے کے بعد اس کو چھوڑ دے۔ چناچہ جب رسول اکرم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ میرے بنو جنہوں نے خود پر زیادتیاں کی ہیں تم اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو اور طبرانی نے ایسی سند کے ساتھ جس میں ضعف ہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے حضرت حمزہ کے قاتل کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے قاصد بھیجا تو اس نے جواب میں کہلا کر بھیجا کہ آپ مجھے کیسے دعوت دے رہے ہیں جبکہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ جس نے زنا کیا یا قتل کیا یا شرک کیا یلق اثاما (الخ) وہ گناہ کا بوجھ اٹھائے گا اور قیامت کے دن اس کے عذاب میں زیادتی ہوگی اور وہ دوزخ میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ رہے گا اور میں نے تو یہ سب کام کیے ہیں تو کیا اب بھی آپ میرے لیے کچھ اجازت پاتے ہیں۔ اس پر آیت مبارکہ کا یہ حصہ نازل ہوا۔ الا من تاب وامن وعمل صالحا اس پر قاتل نے کہا کہ یہ شرط تو سخت ہے کہ جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اعمال صالحہ کرے تو ممکن ہے کہ ان کو پورا کرنے کی میرے اندر قدرت نہ ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء۔- یعنی اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ اور دوسرے گناہ جس کے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے۔- اس پر وہ کہنے لگے کہ اس آیت کے بعد تو ارادہ کرتا ہوں مگر یہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بخشش ہوگی یا نہیں تو اس کے علاوہ بھی اور کوئی آیت ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت قل یا عبادی الذین اسرفوا نازل فرمائی تب وہ کہنے لگے ہاں بیشک اس سے امید ہے چناچہ وہ مشرف بااسلام ہوئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے “- قُلْ یٰعِبَادِیْکا اندازِ تخاطب اس سورت میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہے۔ اس سے پہلے آیت ١٠ میں ارشاد ہوا : قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو “۔ اب یہاں گویا پھر سے یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ اب تک کی زندگی اگر تم لوگوں نے غفلت میں گزار دی ہے تو اب بھی وقت ہے ‘ اب بھی ہوش میں آ جائو اور اگر تم نے اب تک اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو :- لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ” اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ‘ یقینا اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ “ ٭- لیکن اس معافی کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کے حضور خلوص دل سے توبہ کرو ‘ حرام خوری چھوڑ دو ‘ معصیت کی روش ترک کر دو اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کو درست کرلو۔ ایسی توبہ کا انعام اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ملے گا کہ تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ سورة الفرقان میں اس بارے میں بہت واضح حکم موجود ہے : اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًارَّحِیْمًا۔ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا۔ ” سوائے اس کے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیے ‘ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ‘ اور اللہ غفور ہے ‘ رحیم ہے۔ اور جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے تو یہی شخص توبہ کرتا ہے اللہ کی جناب میں جیسا کہ توبہ کرنے کا حق ہے “۔ چناچہ سابقہ گناہوں کی معافی توبہ سے ممکن ہے ‘ لیکن توبہ وہی قبول ہوگی جس کے بعد انسان کے اعمال درست ہوجائیں اور اگر ایسا نہ ہوا تو رسمی اور زبانی توبہ بےمعنی ہے۔ - اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ” یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :70 بعض لوگوں نے ان الفاظ کی یہ عجیب تاویل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اے میرے بندو کہہ کر لوگوں سے خطاب کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے ہیں ۔ یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بد ترین معنوی تحریف اور اللہ کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیے ۔ جاہل عقیدت مندوں کا کوئی گروہ تو اس نکتے کو سن کر جھوم اٹھے گا ، لیکن یہ تاویل اگر صحیح ہو تو پھر پورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے ، کیونکہ قرآن تو از اول تا آخر انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ قرار دیتا ہے ، اور اسکی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود بندے تھے ۔ ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا ۔ اور اس لیے بھیجا تھا کہ خود بھی اسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی سکھائیں ۔ آخر کسی صاحب عقل آدمی کے دماغ میں یہ بات کیسے سما سکتی ہے کہ مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یکایک یہ اعلان کر دیا ہو گا کہ تم عبدالعزّیٰ اور عبد شمس کے بجائے دراصل عبدِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہو ، اعاذنا اللہ من ذالک ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :71 یہ خطاب تمام انسانوں سے ہے ، صرف اہل ایمان کو مخاطب قرار دینے کے لیے کوئی وزنی دلیل نہیں ہے ۔ اور جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے ، عام انسانوں کو مخاطب کر کے یہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر توبہ و انابت کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے ، بلکہ بعد والی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی وضاحت فرما دی ہے کہ گناہوں کی معافی کو صورت بندگی و اطاعت کی طرف پلٹ آنا اور اللہ کے نازل کیے ہوئے پیغام کی پیروی اختیار کر لینا ہے ۔ دراصل یہ آیت ان لوگوں کے لیے پیغام امید لے کر آئی تھی جو جاہلیت میں قتل ، زنا ، چوری ، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے ، اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف ہو سکیں گے ۔ ان سے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ ، جو کچھ بھی تم کر چکے ہو اس کے بعد اب اگر اپنے رب کی اطاعت کی طرف پلٹ آؤ تو سب کچھ معاف ہو جائے گا ۔ اس آیت کی تاویل ابن عباس ، قتادہ ، مجاہد اور ابن زید نے بیان کی ہے ( ابن جریر ، بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ) ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، ص 466 تا 468 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: یعنی اگر کسی شخص نے ساری زندگی کفر، شرک یا گناہوں میں گزاری ہے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اب اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے جس وقت بھی انسان اپنی اصلاح کا پختہ ارادہ کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنی پچھلی زندگی کی معافی مانگے اور توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔