تمام جاندار اور بےجان چیزوں کا خالق مالک رب اور متصرف اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے ۔ ہر چیز اس کی ماتحتی میں اس کے قبضے اور اس کی تدبیر میں ہے ۔ سب کا کارساز اور وکیل وہی ہے ۔ تمام کاموں کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے زمین و آسمان کی کنجیوں اور ان کے خزانوں کا وہی تنہا مالک ہے حمد و ستائش کے قابل اور ہر چیز پر قادر وہی ہے ۔ کفر و انکار کرنے والے بڑے ہی گھاٹے اور نقصان میں ہیں ۔ امام ابن ابی حاتم نے یہاں ایک حدیث وارد کی ہے گو سند کے لحاظ سے وہ بہت ہی غریب ہے بلکہ صحت میں بھی کلام ہے لیکن تاہم ہم بھی اسے یہاں ذکر کردیتے ہیں ۔ اس میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا اے عثمان تم سے پہلے کسی نے مجھ سے اس آیت کا مطلب دریافت نہیں کیا ۔ اس کی تفسیر یہ کلمات ہیں ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ وبحمدہ استغفر اللہ ولا قوۃ الا باللہ الاول والاخر والظاہر والباطن بیدہ الخیر یحیی و یمیت وھو علی کل شئی قدیر ۔ ) اے عثمان جو شخص اسے صبح کو دس بار پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے چھ فضائل عطا فرماتا ہے اول تو وہ شیطان اور اس کے لشکر سے بچ جاتا ہے ، دوم اسے ایک قنطار اجر ملتا ہے ، تیسرے اس کا ایک درجہ جنت میں بلند ہوتا ہے ، چوتھی اسکا حورعین سے نکاح کرا دیا جاتا ہے ، پانچویں اس کے پاس بارہ فرشتے آتے ہیں ، چھٹے اسے اتنا ثواب دیا جاتا ہے جیسے کسی نے قرآن اور توراۃ اور انجیل و زبور پڑھی ۔ پھر اس ساتھ ہی اسے ایک قبول شدہ حج اور ایک مقبول عمرے کا ثواب ملتا ہے اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا درجہ ملتا ہے ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے اور اس میں بڑی نکارت ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مشرکین نے آپ سے کہا کہ آؤ تم ہمارے معبودوں کی پوجا کرو اور ہم تمہارے رب کی پرستش کریں گے اس پر آیت ( قل افغیر اللہ سے من الخاسرین ) تک نازل ہوئی ۔ یہی مضمون اس آیت میں بھی ہے ۔ ( وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 88 ) 6- الانعام:88 ) اوپر انبیاء علیہم السلام کا ذکر ہے پھر فرمایا ہے اگر بالفرض یہ انبیاء بھی شرک کریں تو ان کے تمام اعمال اکارت اور ضائع ہو جائیں یہاں بھی فرمایا کہ تیری طرف اور تجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کی طرف ہم نے یہ وحی بھیج دی ہے کہ جو بھی شرک کرے اس کا عمل غارت ۔ اور وہ نقصان یافتہ اور زیاں کار ، پس تجھے چاہیے کہ تو خلوص کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں لگا رہ اور اس کا شکر گزار رہ ۔ تو بھی اور تیرے ماننے والے مسلمان بھی ۔
یعنی ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اور مالک بھی وہی وہ جس طرح چاہے تصرف اور تدبیر کرے ہر چیز اس کے ماتحت اور زیر تصرف ہے کسی کو سرتابی یا انکار کی مجال نہیں وکیل بمعنی محافظ اور مدبر ہر چیز اس کے سپرد ہے اور وہ بغیر کسی کی مشارکت کے ان کی حفاظت اور تدبیر کر رہا ہے۔
[٨٠] یعنی اللہ تعالیٰ ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں بلکہ ہر آن ہر چیز کی نگرانی بھی کررہا ہے۔ جس سے یہ نظام کائنات باقاعدگی سے چل رہا ہے۔ اس نظام کائنات کی باقاعدگی سے تمام جانداروں کا رزق وابستہ ہے۔ بارش سے زمین نباتات اگاتی ہے۔ نیز ہر طرح کی معدنیات اور دوسرے خزانے جو زمین میں مدفون ہیں سب اللہ ہی کے علم اور تصرف میں ہیں۔ آج بھی اس کے تصرف میں ہیں اور کل بھی اسی کے تصرف میں ہوں گے۔ نیز جنت اور دوزخ بھی اسی کے تصرف میں ہے۔ لہذا جو شخص اللہ کی آیات کا منکر اور اس کا باغی ہے وہ کیسے فلاح کی امید رکھ سکتا ہے ایسے لوگ یقیناً خسارہ میں ہی رہیں گے۔
اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۔۔ : اہل توحید کے لیے وعدے اور مشرکین کے لیے وعید کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور رد شرک کے دلائل کا ذکر شروع فرمایا۔ ابن عاشور نے فرمایا : ” وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ“ اور اس کے بعد والے دو جملے ” قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ “ کی تمہید ہیں اور اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دلیل ہیں۔ پہلا جملہ ” اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۡ“ ہے، ظاہر ہے کہ جب ہر چیز پیدا اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود برحق ہونے کی دلیل کے طور پر اپنے ہر چیز کے خالق ہونے کو جا بجا بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٠٢) ، رعد (١٦) ، فاطر (٣) ، مومن (٦٢) اور سورة حج (٧٣) ۔- وَّهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ : ” وَکَلَ یَکِلُ “ (ض) سپرد کرنا۔ ” وکیل “ جس کے سپرد کوئی چیز کی جائے کہ وہ اس کی حفاظت اور نگرانی کرے اور اس میں جو چاہے کرے۔ یہ اکیلے اللہ کی عبادت کی دوسری دلیل ہے، یعنی جس طرح ہر چیز کو پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اسی طرح ہر چیز کی تدبیر و حفاظت کرنے والا بھی صرف اللہ تعالیٰ ہے، نہ کسی چیز کے پیدا کرنے میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اس کی حفاظت و تدبیر میں۔ اس لیے اپنی ہر چیز اور ہر کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے کا حکم قرآن میں بار بار آیا ہے، فرمایا : (وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ) [ آل عمران : ١٢٢ ] ” اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔ “ اور فرمایا : ( وَعَلَي اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ ) [ إبراہیم : ١٢ ] ” اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ بھروسا کرنے والے بھروسا کریں۔ “
خلاصہ تفسیر - اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے ہر چیز کا اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے، اسی کے اختیار میں کنجیاں ہیں آسمان و زمین کی۔ یعنی ان سب چیزوں کا موجد و خالق بھی وہی ہے اور ان کو باقی رکھنے والا، حفاظت کرنے والا بھی وہی ہے۔ جو مفہوم ہے لفظ وکیل کا۔ اور ان سب مخلوقات میں تصرفات و انقلابات بھی اسی کا کام ہے۔ یہ مفہوم ہے (آیت) لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا۔ کیونکہ جس کے ہاتھ میں خزانوں کی کنجیاں ہوتی ہیں، وہ ہی عادتاً ان میں تصرفات کا مالک ہوتا ہے۔ اور جب ساری کائنات کا خالق بھی بلاشرکت غیرے وہی ہے، محافظ بھی وہی ہے، مالک تصرفات کا بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہئے اور سزا وجزا کا مالک بھی وہی ہونا چاہئے جو خلاصہ ہے توحید کا۔ اور چونکہ ان سب مقدمات کو یہ مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے تو ان پر لازم تھا کہ عقیدہ توحید کو بھی تسلیم کریں، اس لئے فرمایا) جو لوگ (اس پر بھی) اللہ کی آیتوں کو (جو توحید اور جزا و سزاء کے مضمون پر مشتمل ہیں) نہیں مانتے وہ بڑے خسارے میں رہیں گے (اور یہ لوگ خود تو کفر و شرک میں ملوث تھے ہی اب ان کا حوصلہ یہاں تک بڑھا کہ آپ کو بھی اپنے طریقہ پر لانے کے لئے فرمائش کرتے ہیں سو) آپ کہہ دیجئے کہ اے جاہلو (مذکورہ دلائل سے توحید کا مکمل ثبوت اور کفر و شرک کا ابطال ہوجانے کے بعد) پھر بھی تم مجھ کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کے لئے کہتے ہو (اور آپ سے کفر و شرک کا صادر ہونا کیسے ممکن ہے جبکہ) آپ کی طرف بھی اور جو پیغمبر آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ (ہر امتی کو پہنچا دیں) اگر تو شرک کرے گا تو تیرا کیا کرایا کام سب غارت ہوجاوے گا اور تو خسارہ میں پڑے گا۔ (اس لئے تو کبھی شرک کے پاس نہ جانا) بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرنا اور (اسی کا) شکر گزار رہنا (اور جب انبیاء (علیہم السلام) کو جن میں آپ بھی داخل ہیں توحید کا حق ہونا اور کفر و شرک کا باطل ہونا بذریعہ وحی ثابت ہوچکا اور وہ اس پر مامور کئے گئے کہ دوسرے کو بھی اس عقیدے کی ہدایت کریں تو ان مشرکین کا آپ سے کفر و شرک کی توقع رکھنا بجز حماقت کے اور کیا ہوسکتا ہے) اور (افسوس ہے کہ) ان لوگوں نے خدائے تعالیٰ کی عظمت وقدر نہ پہچانی جیسا کہ پہچاننا چاہئے تھا، حالانکہ ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوئے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں، وہ پاک اور برتر ہے ان کے شرک سے۔
اَللہُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ٠ۡوَّہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ ٦٢- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے
اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ ہی ہر ایک کو روزی پہنچانے کا ذمہ دار ہے یا یہ کہ وہ ہر ایک کے اعمال کا نگہبان ہے۔
آیت ٦٢ اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍز وَّہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ ” اللہ ہی ہر شے کا خالق ہے ‘ اور وہی ہرچیز پر نگہبان ہے۔ “
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :73 یعنی اس نے دنیا کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا ہے ، بلکہ وہی ہر چیز کی خبر گیری اور نگہبانی کر رہا ہے ۔ دنیا کی تمام چیزیں جس طرح اس کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہیں اسی طرح وہ اس کے باقی رکھنے سے باقی ہیں ، اس کے پرورش کرنے سے پھل پھول رہی ہیں ، اور اس کی حفاظت و نگرانی میں کام کر رہی ہیں ۔