Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

63۔ 1 مقالید، مقلید اور مقلاد کی جمع ہے فتح القدیر بعض نے اس کا ترجمہ چابیاں اور بعض نے خزانے کیا ہے مطلب دونوں میں ایک ہی ہے تمام معاملات کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ 63۔ 2 یعنی کامل خسارہ کیونکہ اس کفر کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلے گئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ:” مَقَالِيْدُ “ ” مِقْلَدٌ“ یا ” مِقْلَادٌ“ کی جمع ہے، جس طرح قلادہ (ہار یا پٹا) گردن کے ساتھ ہوتا ہے اسی طرح چابی تالے کے ساتھ ہوتی ہے۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ ”إِقْلِیْدٌ“ کی جمع ہے اور عام قاعدے کے خلاف ہے۔ ”إِقْلِیْدٌ“ دراصل فارسی لفظ ” کلید “ سے عربی بنایا گیا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کے خزانوں کی کنجیاں بھی اسی کے پاس ہیں، کسی اور کے پاس کچھ ہے ہی نہیں، تو اسے پکارنے اور اس سے فریاد کرنے کا کیا فائدہ ؟ یہ اکیلے اللہ کے مستحق عبادت ہونے کی تیسری دلیل ہے۔- وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ۔۔ : یہاں ایک سوال ہے کہ ” واؤ “ کے ساتھ عطف کس جملے پر ڈالا گیا ہے ؟ زمخشری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس کا عطف ” وَيُنَجِّي اللّٰهُ الَّذِيْنَ اتَّــقَوْا “ پر ہے اور درمیان کے جملے معترضہ ہیں۔ مگر اتنی دور عطف محل نظر ہے۔ بقاعی نے فرمایا، اس کا عطف ایک مقدر جملے پر ہے جو سیاق سے ظاہر ہو رہا ہے : ” أَيْ فَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَ تَقَبَّلُوْا آیَاتِہِ أُوْلٰءِکَ ھُمُ الْفَاءِزُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بآیَات اللّٰہِ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ “ ” تو جو لوگ ایمان لے آئے اور اس کی آیات کو قبول کرلیا یہی لوگ کامیاب ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ “ ” ھم “ ضمیر فصل کی وجہ سے اور ” الخاسرون “ خبر پر الف لام کی وجہ سے کلام میں تاکید اور حصر پیدا ہوگیا، یعنی خسارہ اٹھانے والے صرف وہ ہیں جنھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کردیا۔ گویا اس کے علاوہ اگر کوئی خسارہ ہے بھی تو فی الحقیقت خسارہ نہیں ہے، کیونکہ وہ عارضی خسارہ ہے۔ اسی طرح حقیقی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے، کیونکہ وہی دائمی اور پائیدار کامیابی ہے، فرمایا : (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۭ ) [ آل عمران : ١٨٥ ] ” پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔ “ ” اللہ کی آیات “ سے مراد اس کے وجود اور وحدانیت کے دلائل ہیں جو گزشتہ آیات، خصوصاً اس سے پہلے تین جملوں میں بیان ہوئے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔ مقالید جمع مقلاد یا مقلید کی ہے جو قفل کی کنجی کے لئے بولا جاتا ہے۔ اور بعض حضرات نے کہا دراصل یہ لفظ فارسی زبان سے معرب کیا گیا ہے۔ فارسی میں کنجی کو کلید کتے ہیں۔ معرب کر کے اس کو اقلید بنایا گیا پھر اس کی جمع مقالید لائی گئی (روح) کنجیوں کا کسی کے ہاتھ ہونا اس کے مالک و متصرف ہونے کی علامت ہے، اس لئے مراد آیت کی یہ ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو خزانے نعمتوں کے مستور ہیں، ان سب کی کنجیاں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہی ان کا محافظ ہے اور وہی متصرف ہے۔ کہ جب چاہے جس کو چاہے جس قدر چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے۔- اور بعض روایات حدیث میں کلمہ سوم یعنی سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر لاحول ولا قوة الا باللہ العلیٰ العظیم کو مقالید السموٰت والارض فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص صبح و شام یہ کلمہ پڑھتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے خزانوں کی نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ ان روایات کو ابن جوزی نے موضوع کہہ دیا ہے، مگر دوسرے محدثین نے احادیث ضعیفہ قرار دیا ہے جن کا فضائل اعمال میں اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ (روح المعانی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝ ٦٣ۧ- قلد - الْقَلْدُ : الفتل . يقال قَلَدْتُ الحبل فهو قَلِيدٌ ومَقْلُودٌ ، والْقِلَادَةُ : المفتولة التي تجعل في العنق من خيط وفضّة وغیرهما، وبها شبّه كلّ ما يتطوّق، وكلّ ما يحيط بشیء . يقال : تَقَلَّدَ سيفه تشبيها بالقِلادة، کقوله : توشّح به تشبيها بالوشاح، وقَلَّدْتُهُ سيفا يقال تارة إذا وشّحته به، وتارة إذا ضربت عنقه . وقَلَّدْتُهُ عملا : ألزمته . وقَلَّدْتُهُ هجاء : ألزمته، وقوله : لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر 63] أي : ما يحيط بها، وقیل : خزائنها، وقیل : مفاتحها والإشارة بكلّها إلى معنی واحد، وهو قدرته تعالیٰ عليها وحفظه لها .- ( ق ل د ) القلد کے معنی رسی وغیرہ کو بل دینے کے ہیں ۔ جیسے قلدت الحبل ( میں نے رسی بٹی ) اور بٹی ہوئی رسی کو قلید یامقلود کہاجاتا ہے اور تلاوۃ اس بٹی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جو گردن میں ڈالی جاتی ہے جیسے ڈور اور چاندی وغیرہ کی زنجیر اور مجازا تشبیہ کے طور پر ہر اس چیز کو جو گردن میں ڈال جائے یا کسی چیز کا احاطہ کرے قلاوۃ کہاجاتا ہے اور اسی تقلد سیفہ کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ وہ بھی قلاوۃ کی طرح گردن میں ڈال کر لٹکائی جاتی ہے ۔ جیسے وشاح ( ہار) سے توشح بہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور قلدتہ سیفا کے معنی کسی کی گردن میں تلوار یا باندھنے باتلوار سے اس کی گردن مارنے کے ہیں ۔ قلدتہ عملا کوئی کام کسی کے ذمہ لگا دینا ؛ قلدتہ ھجاء کسی پر ہجوم کو لازم کردینا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَهُ مَقالِيدُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الزمر 63] اس کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں ۔ میں مقالید سے مراد وہ چیز ہے جو ساری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ بعض نے اس سے خزانے اور بعض نے کنجیاں مراد لی ہیں لیکن ان سب سے اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور حفاظت کی طرف اشارہ ہے جو تمام کائنات پر محیط ہے ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اسی کے اختیار میں آسمان و زمین کے خزانے یعنی بارش اور ہر قسم کی پیداوار ہے اور جو لوگ رسول اکرم اور قرآن کریم کو نہیں مانتے وہ آخرت میں سزا کی وجہ سے بڑے خسارے میں رہیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٣ لَہٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” اسی کے لیے ہیں تمام کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی۔ “- وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ ” اور جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی ہیں گھاٹے میں رہنے والے۔ “- اب اس سورت کے آخری دو رکوع ہمارے زیر مطالعہ ہوں گے۔ یہ دونوں رکوع اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ ان میں توحید فی العبادت کا مضمون بہت ُ پر جلال انداز میں بیان ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani