64۔ 1 یہ کفار کی اس دعوت کے جواب میں ہے جو وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے کہ اپنے آبائی دین کو اختیار کرلیں، جس میں بتوں کی عبادت تھی۔
[٨١] کفار کے سمجھوتہ کی شکلیں :۔ کفار مکہ نے اسلام کی راہ روکنے کے لئے کئی قسم کے حربے استعمال کئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ عام طریقہ یہ تھا کہ اسلام لانے والوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائے جائیں کہ اگر وہ اپنے دین پر واپس نہ آئیں تو دوسروں کو ضرور عبرت حاصل ہو اور وہ اسلام قبول کرنے کا نام تک نہ لیں۔ ان سختیوں کے باوجود بھی جب اسلام پھیلتا گیا تو پھر اس کے سیاسی حل سوچے جانے لگے اور مذاکرات کے سلسلے شروع ہوئے۔ کبھی ابو طالب کی وساطت سے آپ کو دھمکی دی گئی۔ کبھی لالچ کی راہیں دکھائی گئیں اور کبھی باہمی سمجھوتہ کی۔ پھر باہمی سمجھوتہ کی بھی کئی شکلیں تھیں۔ ایک یہ کہ تم بھی لچک اختیار کرو کچھ ہم کرتے ہیں اور اس شکل کا ذکر سورة القلم کی آیات نمبر ٩ میں مذکور ہے۔ انہیں میں سے ایک شکل یہ تھی کہ زیادہ نہیں تو صرف ایک دفعہ ہی آپ ہمارے بتوں کو سجدہ کردیں تو پھر ہم آپ کی باقی باتیں تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں۔ انہیں مذاکرات کی ایک قسم ایسی بھی تھی جس پر غور کرنے کے لئے آپ آمادہ ہوچلے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے خیال سے بھی آپ کو سختی سے روک دیا اور اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٧٤ میں آیا ہے۔ یہاں بھی آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ ان مشرکوں کو نہایت سختی سے دو ٹوک جواب دے دیں اور کہہ دیں کہ اے نادانو ہم سب کا خالق بھی اللہ ہو، مالک بھی اللہ ہو، رازق بھی اللہ ہو، کائنات میں ہر قسم کے تصرفات پر قبضہ بھی اللہ کا ہو، تو آخر میں کس خوشی میں ان بتوں کی عبادت کروں۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی نادانی کی بات ہوسکتی ہے ؟ یہ تم مجھے کیسا غلط مشورہ دے رہے ہو ؟ علاوہ ازیں مجھ پر بھی یہ وحی آچکی ہے اور سابقہ تمام انبیاء پر بھی اسی قسم کی وحی آئی تھی کہ جو شخص بھی اور اسی طرح اگر میں خود بھی شرک کروں تو میرے تمام تر اعمال برباد ہوجائیں گے۔ پھر بھلا میں تمہارا یہ مشورہ کیسے قبول کرسکتا ہوں ؟
قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ : ” قل “ کے بعد جملہ ” فاء “ سے شروع ہوتا ہے، مگر ہمزہ استفہام چونکہ کلام کی ابتدا میں ہوتا ہے، اس لیے ” فاء “ کو اس کے بعد کردیا ہے، اسی طرح جملہ فعلیہ کا آغاز فعل ” تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ“ سے ہونا تھا اور ” غَیْرَ اللّٰہِ “ کو ” اعبد “ کے بعد ہونا تھا، مگر ” غَیْرَ اللّٰہِ “ کی تحقیر کو نمایاں کرنے کے لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔ یعنی جب ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور وہی ہر چیز پر نگران ہے اور اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں تو پھر کیا اس کے ہوتے ہوئے تم مجھے اس کے غیر کی عبادت کا حکم دیتے ہو، جس کے اختیار میں خود اپنا وجود بھی نہیں ؟- اَيُّهَا الْجٰهِلُوْنَ : جہل کا لفظ حلم کے مقابلے میں آتا ہے اور علم کے مقابلے میں بھی، یہاں علم کے مقابلے میں آیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ” وحدہ لا شریک لہ معبود “ ہونے کے اتنے واضح دلائل اپنے کانوں سے سننے اور آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود پتھروں، قبروں، جانوروں یا اپنے جیسی بےبس اور بےاختیار مخلوق کی عبادت کی پستی میں گرے ہوئے جاہلو جو نہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا کچھ علم رکھتے ہو کہ صرف اسی کی عبادت کرو، نہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان سے واقف ہو کہ انھیں غیر اللہ کی عبادت کی دعوت کی جرأت کر رہے ہو اور نہ ہی اس شرف کا کچھ علم رکھتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں انسان بنا کر عطا کیا ہے کہ اتنی اونچی مخلوق ہو کر اپنے جیسی یا اپنے سے بھی ادنیٰ مخلوق کی عبادت کر رہے ہو۔ اقبال نے کہا ہے - آدم از بےبصری بندگئ آدم کرد - من نہ دیدم کہ سگے پیش سگے سر خم کرد - ” آدمی بےسمجھی کی وجہ سے آدمی کی بندگی کرنے لگا۔ میں نے تو یہ بھی نہیں دیکھا کہ کسی کتے نے کسی کتے کے آگے سر جھکایا ہو۔ “
قُلْ اَفَغَيْرَ اللہِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ اَعْبُدُ اَيُّہَا الْجٰہِلُوْنَ ٦٤- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔
جس وقت یہ مکہ والے آپ سے آبائی دین کے اختیار کرنے کو کہیں تو آپ ان سے فرما دیجیے کہ اے جاہلو کیا پھر بھی تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کرنے کی فرمائش کرتے ہو۔- شان نزول : قُلْ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْۗنِّىْٓ (الخ)- امام بیہقی نے دلائل میں حسن بصری سے روایت کیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ سے کہا کہ اے محمد کیا تم اپنے آباؤ اجداد کو گمراہ بتاتے ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اے جاہلو کیا پھر بھی تم مجھے غیر اللہ کی عبادت کرنے کا حکم کرتے ہو۔
آیت ٦٤ قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَاْمُرُوْٓنِّیْٓ اَعْبُدُ اَیُّہَا الْجٰہِلُوْنَ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہہ دیجئے کہ اے جاہلو کیا تم مجھے بھی یہ مشورہ دے رہے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کروں ؟ “- یہ انداز اس آیت کے علاوہ پورے قرآن میں اور کہیں نہیں پایا جاتا اور یہ خاص اسلوب دراصل مشرکین ِ مکہ کے اس دبائو کا جواب ہے جو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ” کچھ لو اور کچھ دو “ کی پالیسی اختیار کرنے کے لیے ڈال رکھا تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ آپ اپنے موقف میں کچھ نرمی پیدا کریں اور ہمارے معبودوں میں سے کچھ کو تسلیم کرلیں تو اس کے جواب میں ہم بھی آپ کی کچھ باتیں مان لیں گے ‘ بلکہ آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کرلیں گے۔ اس طرح ایک درمیانی راہ نکل آئے گی اور جھگڑا ختم ہوجائے گا۔ چناچہ ان کے اس مطالبے کا جواب بہت سخت انداز میں دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ عربی میں ’ جاہل ‘ اس کو کہتے ہیں جو علم اور عقل کے بجائے جذبات اور خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔