65۔ 1 اگر تو نے شرک کیا مطلب ہے، اگر موت شرک پر آئی اور اس سے توبہ نہ کی۔ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے جو شرک سے پاک بھی تھے اور آئندہ کے لئے محفوظ بھی۔ کیونکہ پیغمبر اللہ کی حفاظت و عصمت میں ہوتا ہے ان سے ارتکاب شرک کا کوئی امکان نہیں تھا، لیکن دراصل امت کے لئے تعریض اور اس کو سمجھانا مقصود ہے۔
[٨٢] واضح رہے کہ انبیاء سے شرک کا صدور محال ہے۔ کیونکہ وہ جن مقاصد کے لئے مبعوث کئے جاتے ہیں ان میں اولین مقصد شرک کی بیخ کنی اور توحید کی ترویج ہوتا ہے۔ اسی بات پر وہ خود قائم رہتے اور دوسروں کو دعوت دیتے ہیں۔ یہاں جو آپ کو مخاطب کرکے یہ بات کہی گئی ہے۔ تو اس سے شرک کی انتہائی مذمت مقصود ہے۔
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ ۔۔ : سلیمان الجمل نے فرمایا : ” ولقد “ اور ” لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ “ دونوں میں لام کے بعد قسم مقدر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ بات قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ فرمائی ہے۔ “ ” لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ “ (اگر تو نے شرک کیا) کے مخاطب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہیں اور پہلے پیغمبروں میں سے ہر ایک پیغمبر بھی۔ یعنی آپ کو اور آپ سے پہلے ایک ایک پیغمبر کو مخاطب کرکے وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا توُ تو نے جو بھی اچھا کام کیا ہوگا یقیناً سب ضائع ہوجائے گا اور یقیناً تو خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائے گا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٨٨) ۔- 3 یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم تھا کہ کوئی نبی شرک نہیں کرے گا، پھر انھیں یہ وحی کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس سے شرک کی شامت اور برائی بیان کرنا مقصود ہے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کے اتنے مقرب بندے شرک کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کا عمل ضائع ہوجائے گا، تو پھر دوسرے لوگوں کی کیا حیثیت ہے۔ گویا پیغمبروں کو سنا کر ان کی قوموں کو ڈرایا گیا ہے۔- 3 شرک کے ساتھ تمام اعمال ضائع ہونے کی یہ وعید ان لوگوں کے لیے ہے جن کی موت کفر و شرک کی حالت میں واقع ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَھُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ) [ البقرۃ : ٢١٧ ]” اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے۔ “ توبہ کرلینے والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔ دیکھیے سورة فرقان (٦٨ تا ٧٠) ۔
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ٠ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ٦٥- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- حبط - وحَبْط العمل علی أضرب :- أحدها :- أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] - والثاني :- أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي :- «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» .- والثالث :- أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان .- وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات .- ( ح ب ط ) الحبط - حبط عمل کی تین صورتیں ہیں - ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں - اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ - ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو - لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔- ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے - لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
کیونکہ آپ کی طرف بھی قرآن کریم میں اور جو پیغمبر آپ سے پہلے گزرے ہیں ان کی طرف بھی یہ وحی بھیجی جاچکی ہے کہ اے عام مخاطب اگر تو شرک کرے گا تو حالت شرک میں تیرا سب کیا برباد ہوجائے گ اور تو سزا کے اعتبار سے نقصان اٹھائے گا۔
آیت ٦٥ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کی طرف تو وحی کی جا چکی ہے اور جو (رسول) آپ سے پہلے تھے ان کی طرف بھی (وحی کردی گئی تھی) “- آگے اس وحی کا ُ لب ّلباب بیان کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے :- لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ” اگر آپ بھی (بالفرض) شرک کریں گے تو آپ کے سارے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے اور آپ بھی نہایت خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ “- یہ سخت اسلوب دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نہیں بلکہ مشرکین کے لیے ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے دراصل انہیں سنانا مقصود ہے کہ قانونِ خداوندی اس سلسلے میں بہت واضح اور اٹل ہے۔ شرک جو کوئی بھی کرے گا اسے اس کی سزا ضرور ملے گی ‘ کسے باشد اللہ کا قانون کسی کے لیے تبدیل نہیں کیا جاتا : وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔ ( الاحزاب) ” اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے طریقے میں کوئی تبدیلی “
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :74 یعنی شرک کے ساتھ کسی عمل کو عمل صالح قرار نہیں دیا جائے گا ، اور جو شخص بھی مشرک رہتے ہوئے اپنے نزدیک بہت سے کاموں کو نیک کام سمجھتے ہوئے کرے گا ان پر وہ کسی اجر کا مستحق نہ ہو گا اور اس کی پوری زندگی سراسر زیاں کاری بن کر رہ جائے گی ۔