قیامت کی ہولناکی کا بیان ۔ قیامت کی ہولناکی اور دہشت و وحشت کا ذکر ہو رہا ہے کہ صور پھونکا جائے گا ۔ یہ دوسرا صور ہوگا جس سے ہر زندہ مردہ ہو جائے گا خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں ۔ مگر جسے اللہ چاہے ۔ صور کی مشہور حدیث میں ہے کہ پھر باقی والوں کی روحیں قبض کی جائیں گی یہاں تک کہ سب سے آخر خود ملک الموت کی روح بھی قبض کی جائے گی اور صرف اللہ تعالیٰ ہی باقی رہ جائے گا جو حی و قیوم ہے جو اول سے تھا اور آخر میں دوام کے ساتھ رہ جائے گا ۔ پھر فرمائے گا کہ آج کس کا راج پاٹ ہے؟ تین مرتبہ یہی فرمائے گا پھر خود آپ ہی اپنے آپ کو جواب دے گا کہ اللہ واحد و قہار کا ، میں ہی اکیلا ہوں جس نے ہر چیز کو اپنی ماتحتی میں کر رکھا ہے آج میں نے سب کو فنا کا حکم دیدیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا ۔ سب سے پہلے حضرت اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کرے گا اور انہیں حکم دے گا کہ دوبارہ نفخہ پھونکیں یہ تیسرا صور ہوگا جس سے ساری مخلوق جو مردہ تھی زندہ ہو جائے گی جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اور نفخہ پھونکا جائے گا اور سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور نظریں دوڑانے لگیں گیے ۔ یعنی قیامت کی دل دوز حالت دیکھنے لگیں گے ، جیسے فرمان ہے ( فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ 13ۙ ) 79- النازعات:13 ) یعنی وہ تو صرف ایک ہی سخت آواز ہوگی جس سے سب لوگ فوراً ہی ایک میدان میں آموجود ہوں گے ۔ اور آیت میں ہے ( يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52ۧ ) 17- الإسراء:52 ) ، یعنی جس دن اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا تو سب اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کو مان لو گے اور دنیا کی زندگی کو کم سمجھنے لگو گے ۔ اللہ جل و علا کا اور جگہ ارشاد ہے ( وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ ۭ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً ڰ مِّنَ الْاَرْضِ ڰ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ 25 ) 30- الروم:25 ) اس کی نشانیوں میں سے زمین آسمان کا اس کے حکم سے قائم رہنا ہے پھر جب وہ تمہیں زمین میں سے پکار کر بلائے گا تو تم سب یکبارگی نکل پکڑو گے ۔ مسند احمد ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں اتنے اتنے وقت تک قیامت آ جائے گی ۔ آپ نے ناراض ہو کر فرمایا جی تو چاہتا ہے کہ تم سے کوئی بات بیان ہی نہ کروں ۔ میں نے تو کہا تھا کہ بہت تھوڑی مدت میں تم اہم امر دیکھو گے پھر فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے میری امت میں دجال آئے گا اور وہ چالیس سال تک رہے گا میں نہیں جانتا کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال یا چالیس راتیں پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہا السلام کو بھیجے گا ۔ وہ بالکل صورت شکل میں حضرت عروہ بن مسعود ثقفی جیسے ہوں گے اللہ آپ کو غالب کرے گا اور دجال آپ کے ہاتھوں ہلاک ہوگا پھر سات سال تک لوگ اس طرح ملے جلے رہیں گے کہ ساری دنیا میں دو شخصوں کے درمیان بھی آپس میں رنجش و عداوت نہ ہوگی ۔ پھر پروردگار عالم شام کی طرف ایک ہلکی ٹھنڈی ہوا چلائے گا ۔ جس سے تمام ایمان والوں کی روح قبض کرلی جائے گی یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا وہ بھی ختم ہو جائے گا ۔ یہ خواہ کہیں بھی ہو ۔ یہاں تک کہ اگر کسی پہاڑی کی کھوہ میں بھی کوئی مسلمان ہوگا تو یہ ہوا وہاں بھی پہنچے گی ۔ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ پھر تو بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جو اپنے کمینہ پن میں مثل پرندوں کے ہلکے اور اپنی بیوقوفی میں مثل درندوں کے بیوقوف ہوں گے نہ اچھائی اچھائی کو سمجھیں گے نہ برائی کو برائی جانیں گے ۔ ان پر شیطان ظاہر ہوگا اور کہے گا شرماتے نہیں کہ تم نے بت پرستی چھوڑ رکھی ہے چنانچہ وہ اس کے بہکاوے میں آکر بت پرستی شروع کردیں گے اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کی روزی اور معاش میں کشادگی عطا فرمائے ہوئے ہوگا ۔ پھر صور پھونک دیا جائے گا جس کے کان میں اس کی آواز جائے گی وہ ادھر گرے گا ادھر کھڑا ہوگا پھر گرے گا ۔ سب سے پہلے اس کی آواز جس کے کان میں پڑے گی ۔ یہ وہ شخص ہوگا جو اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا فوراً بیہوش ہو کر زمین پر گرپڑے گا ۔ پھر تو ہر شخص بیہوش اور خود فراموش ہو جائے گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا جو شبنم کی طرح ہوگی اس سے لوگوں کے جسم اگ نکلیں گے ، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ کھڑے ہو جائیں گے اور دیکھنے لگیں گے ۔ پھر کہا جائے گا اے لوگو اپنے رب کی طرف چلو ۔ انہیں ٹھہرالو ان سے سوالات کئے جائیں گے پھر فرمایا جائے گا کہ جہنم کا حصہ نکال لو پوچھا جائے گا کس قدر ۔ جواب ملے گا ہر ہزار سے نو سو نناوے ۔ یہ دن ہوگا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور یہی دن ہوگا جس میں پنڈلی کھولی جائے گی ۔ ( صحیح مسلم ) صحیح بخاری میں ہے دونوں نفحوں کے درمیان چالیس ہوں گے راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ کیا چالیس دن؟ فرمایا میں اس کا جواب نہیں دوں گا کہ کہا گیا چالیس ماہ؟ فرمایا میں اس کا بھی انکار کرتا ہوں ۔ انسان کی سب چیز گل سڑ جائے گی مگر ریڑھ کی ہڈی اسی سے مخلوق ترتیب دی جائے گی ۔ ابو یعلی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریاف کیا کہ اس آیت میں جو استثناء ہے یعنی جسے اللہ چاہے اس سے کون لوگ مراد ہیں؟ فرمایا شہداء ۔ یہ اپنی تلواریں لٹکائے اللہ کے عرش کے اردگرد ہوں گے فرشتے اپنے جھرمٹ میں انہیں محشر کی طرف لے جائیں گے ۔ یاقوت کی اونٹنیوں پر وہ سوار ہوں گے جن کی گدیاں ریشم سے بھی زیادہ نرم ہوں گی ۔ انسان کی نگاہ جہاں تک کام کرتی ہے اس کا ایک قدم ہوگا یہ جنت میں خوش وقت ہوں گے وہاں عیش و عشرت میں ہوں گے پھر ان کے دل میں آئے گا کہ چلو دیکھیں اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے کر رہا ہوگا چنانچہ ان کی طرف دیکھ کر الہ العالمین ہنس دے گا ۔ اور اس جگہ جسے دیکھ کر رب ہنس دے اس پر حساب کتاب نہیں ہے ۔ اس کے کل راوی ثقہ ہیں مگر اسماعیل بن عیاش کے استاد غیر معروف ہیں ۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم ۔ قیامت کے دن جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے فیصلے کیلئے آئے گا اس وقت اس کے نور سے ساری زمین روشن ہو جائے گی ۔ نامہ اعمال لائے جائیں گے ۔ نبیوں کو پیش کیا جائے گا جو گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی امتوں کو تبلیغ کردی تھی ۔ اور بندوں کے نیک و بد اعمال کے محافظ فرشتے لائے جائیں گے ۔ اور عدل و انصاف کے ساتھ مخلوق کے فیصلے کئے جائیں گے ۔ اور کسی پر کسی قسم کا ظلم وستم نہ کیا جائے گا ۔ جیسے فرمایا ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا 47 ) 21- الأنبياء:47 ) ، یعنی قیامت کے دن ہم میزان عدل قائم کریں گے اور کسی پر بالکل ظلم نہ ہوگا گو رائی کے دانے کے برابر عمل ہو ہم اسے بھی موجود کردیں گے ۔ اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں ۔ اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ بہ قدر ذرے کے بھی ظلم نہیں کرتا وہ نیکیوں کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے ۔ اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہو رہا ہے ہر شخص کو اس کے بھلے برے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ وہ ہر شخص کے اعمال سے باخبر ہے ۔
6 8۔ 1 بعض کے نزدیک نفخہ فزع کے بعد یہ نفخہ ثانیہ یعنی نفخہ صعق ہے جس سے سب کی موت واقع ہوجائے گی بعض نے ان نفحات کی ترتیب اس طرح بیان کی ہے پہلا نفخۃ الفناء دوسرا نفخۃ البعث تیسرا نفخۃ الصعق چوتھا نفخۃ القیام لرب العالمین۔ (ایسر التفاسیر) بعض کے نزدیک صرف دو ہی نفخے ہیں نفخہ الموت اور نفخہ نفخۃ البعث اور بعض کے نزدیک تین واللہ اعلم۔ 68۔ 2 یعنی جن کو اللہ چاہے گا ان کو موت نہیں آئے گی جیسے جبرائیل میکائیل اور اسرافیل بعض کہتے ہیں رضوان فرشتہ حملۃ العرش عرش اٹھانے والے فرشتے اور جنت و جہنم پر مقرر داروغے۔ فتح القدیر 68۔ 3 چار نفقوں کے قائلین کے نزدیک یہ چوتھا، تین کے قائلین کے نزدیک تیسرا اور دو کے قائلین کے نزدیک یہ دوسرا نفخہ ہے۔ بہرحال اس نفخے سے سب زندہ ہو کر میدان محشر میں رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوجائیں گے، جہاں حساب کتاب ہوگا۔
[٨٥] نفخہ ئصور کی بےہوشی سے کون مستثنیٰ ہوگا ؟:۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہوگی جو بےہوش نہیں ہوگی۔ بعض نے اس استثناء سے چاروں بزرگ فرشتے یعنی جبرائیل، میکائیکل، اسرافیل اور عزرائیل مرادلیے ہیں۔ بعض نے ان میں حاملین عرش کو بھی شامل کیا ہے اور بعض نے انبیاء صلحاء اور شہداء کو بھی۔ لیکن اگلے حاشیہ میں مندرج حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے کوئی بھی اس بےہوشی سے نہ بچے گا۔ جب رسول اللہ بھی بےہوش ہوں گے تو دوسرے کیسے بچے رہ سکتے ہیں۔ البتہ موسیٰ کو آپ نے مستثنیٰ کیا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے ہوں یا بےہوش ہوئے ہی نہ ہوں۔ اس لئے کہ وہ دنیا میں ایک بار بےہوش ہوچکے۔- [٨٦] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صور دو بار پھونکا جائے گا۔ درج ذیل احادیث اسی آیت کی تفسیر پیش کرتی ہیں :- خ نفخہ صور دو بار یا تین بار :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : کہ دونوں نفخہ ئصور میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے پوچھا : ابوہریرہ (رض) کیا چالیس دن کا ؟ انہوں نے کہا : یہ میں نہیں کہہ سکتا پھر لوگوں نے کہا : کیا چالیس برس کا ؟ کہنے لگے یہ میں نہیں کہہ سکتا پھر لوگوں نے کہا : کیا چالیس ماہ کا ؟ کہنے لگے : یہ میں نہیں کہہ سکتا اور آپ نے فرمایا : کہ انسان کا سارا جسم (مٹی میں) گھل جاتا ہے ماسوائے ریڑھ کی ہڈی کے سرے کے۔ (جورائی کے دانہ برابر ہوتی ہے) اسی سے تمام خلقت کو ترکیب دے کر اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : دوسری دفعہ صور پھونکنے پر سب سے پہلے میں سر اٹھاؤں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ عرش تھامے لٹک رہے ہیں۔ اب میں نہیں جانتا کہ وہ پہلے صور پر بےہوش ہی نہ ہوں گے یا دوسرے صور پر مجھ سے پہلے ہوش میں آجائینگے۔ (کیونکہ دنیا میں وہ ایک دفعہ بےہوش ہوچکے) لیکن سورة نمل کی آیت ٨٧ میں ایک اور نفخہ کا بھی ذکر آیا ہے۔ جسے سن کر زمین و آسمان کی ساری مخلوق دہشت زدہ ہوجائے گی۔ پھر اس کی بعض احادیث سے بھی تائید ہوجاتی ہے اسی لئے بعض علماء کہتے ہیں کہ نفخہ صور تین بار ہوگا۔ پہلے نفخہ پر صرف گھبراہٹ واقع ہوگی دوسرے نفخہ پر لوگ بےہوش ہو کر گرپڑیں گے اور مرجائیں گے۔ اور تیسرے نفخہ پر سب انسان جی اٹھیں گے اور اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کے حضور چل کھڑے ہوں گے۔
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ ۔۔ : اس کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورة نمل کی آیت (٨٧) کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - اور (قیامت کے روز جس کا اوپر ذکر آیا ہے) صور میں پھونک ماری جاویگی جس سے تمام آسمان اور زمین والوں کے ہوش اڑ جاویں گے (پھر زندہ تو مر جاویں گے اور مردوں کی روحیں بےہوش ہوجاویں گی) مگر جس کو خدا چاہے (وہ اس بےہوشی اور موت سے محفوظ رے گا) پھر اس (صور) میں دوبارہ پھونک ماری جاویگی تو دفعتاً سب کے سب (ہوش میں آ کر ارواح کا تعلق ابدان سے ہو کر قبروں سے نکل) کھڑے ہوجاویں گے۔ (اور) چاروں طرف دیکھنے لگیں گے (جیسا کہ حادثہ غریبہ کے وقوع کے وقت عادت طبعی ہے) اور (پھر حق تعالیٰ حساب کے لئے زمین پر اپنی شان کے مناسب نزول و تجلی فرما دیں گے اور) زمین اپنے رب کے نور (بےکیف) سے روشن ہوجاوے گی اور (سب کا) نامہ اعمال (ہر ایک کے سامنے) رکھ دیا جاوے گا۔ اور پیغمبر اور گواہ حاضر کئے جاویں گے (گواہ کا مفہوم عام ہے جس میں پیغمبر بھی داخل ہے اور فرشتے بھی اور امت محمدیہ بھی اور اعضاء وجوارح بھی، جس کی تفصیل آگے معارف کے ضمن میں آتی ہے) اور سب (مکلفین) میں (حسب اعمال) ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جاوے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا (کہ کوئی نیک عمل جو بشرائطہ واقع ہوا ہو چھپا لیا جائے یا کوئی بدعمل بڑھا دیا جاوے) اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جاوے گا (اعمال نیک میں بدلہ کے پورا ہونے سے مقصود کمی کی نفی ہے اور اعمال بد میں پورا ہونے سے مقصود زیادتی کی نفی ہے) اور وہ سب کے کاموں کو خوب جانتا ہے (پس اس کو ہر ایک کے موافق جزا دے دینا کچھ مشکل نہیں) اور (بیان اس بدلہ کا جو نتیجہ فیصلہ کا ہے یہ ہے کہ) جو کافر ہیں وہ جہنم کی طرف گروہ گروہ بنا کر (دھکے دے کر ذلت و خواری کے ساتھ) ہانکے جاویں گے (گروہ گروہ اس لئے کہ اقسام و مراتب کفر کے جدا جدا ہیں۔ پس ایک ایک طرح کے کفار کا ایک ایک گروہ ہوگا) یہاں تک کہ جب دوزخ کے پاس پہنچیں گے تو (اس وقت) اس کے دروازے کھول دیئے جاویں گے اور ان سے دوزخ کے محافظ (فرشتے بطور ملامت کے) کہیں گے کیا تمہارے پاس تم ہی لوگوں سے (جن سے استفادہ تمہارے لئے مشکل نہ تھا) پیغمبر نہ آئے تھے جو تم کو تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے اور تم کو تمہارے اس دن کے پیش آنے سے ڈرایا کرتے تھے وہ کافر کہیں گے کہ ہاں (رسول بھی آئے تھے اور انہوں نے ڈرایا بھی) لیکن عذاب کا وعدہ کافروں پر (جن میں ہم بھی داخل ہیں) پورا ہو کر رہا (یہ اعتذار نہیں بلکہ اعتراف ہے کہ باوجود ابلاغ کے ہم نے کفر کیا اور کافروں کے لئے جو عذاب موعود تھا وہ ہمارے سامنے آیا واقعی ہم مجرم ہیں، پھر ان سے) کہا جاوے گا (یعنی وہ فرشتے کہیں گے) کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہو (اور) ہمیشہ اس میں رہا کرو غرض (خدا کے احکام سے) تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانہ ہے۔ (پھر اس کے بعد وہ جہنم میں داخل کئے جاویں گے اور دروازے بند کردیئے جاویں گے۔ کما قال تعالیٰ (آیت) انھا علیھم موءصدة، یہ تو کفار کا حال ہوا) اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے (جس کا ابتدائی مرتبہ ایمان ہے پھر آگے اس کے مختلف درجات ہیں) وہ گروہ گروہ ہو کر (کہ جس مرتبہ کا تقویٰ ہوگا اس مرتبہ کے متقی ایک جگہ کردیئے جائیں گے اور) جنت کی طرف (شوق دلا کر جلدی) روانہ کئے جاویں گے یہاں تک کہ جب اس (جنت) کے پاس پہنچیں گے اور اس کے دروازے (پہلے سے) کھلے ہوئے ہوں گے (تا کہ ذرا بھی دیر نہ لگے اور نیز اہل اکرام کے لئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسا مہمان کے لئے عادت ہے کہ پہلے سے دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ کماقال تعالیٰ (آیت) مفتحة لھم الابواب) اور وہاں کے فرشتے (فرشتے) ان سے (بطور اکرام وثناء کے) کہیں گے کہ السلام علیکم تم مزہ میں رہو سو اس (جنت) میں ہمیشہ رہنے کے لئے داخل ہوجاؤ (اس وقت اس میں داخل ہوجاویں گے) اور (داخل ہو کر) کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہم کو اس سر زمین کا مالک بنادیا کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں (یعنی ہر شخص کو خوب فراغت کی جگہ ملی ہے خوب کھیل کھیل کر چلیں پھریں، بیٹھیں، اٹھیں قیام کے طور پر تو اپنی ہی جگہ میں اور سیر کے طور پر دوسرے جنتی کے درجہ میں بھی) غرض (نیک) عمل کرنے والوں کا اچھا بدلہ ہے (یہ جملہ خود اہل جنت کا ہو یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو دونوں امکان میں) اور (آگے اجلاس سے اخیر فیصلہ تک کے اسی مضمون کو مختصر اور پرشوکت الفاظ میں بطور تلخیص کے فرماتے ہیں کہ) آپ فرشتوں کو دیکھیں گے کہ (نزول اجلاس للحساب کے وقت) عرش کے گردا گردا حلقہ باندھے ہوں گے اور) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے ہوں گے اور تمام بندوں میں ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جاوے گا اور (اس فیصلہ کے ٹھیک ہونے پر ہر طرف سے جوش کے ساتھ یہی خروش ہوگا اور) کہا جاوے گا کہ ساری خوبیاں خدا کو زیبا ہیں جو تمام عالم کا پروردگار ہے (جس نے ایسا عمدہ فیصلہ کیا پھر اس نعرہ تحسین پر دربار برخاست ہوجاوے گا)- معارف و مسائل - (آیت) فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۔ صعق کے لفظی معنے بےہوش ہونے کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ اول بےہوش ہوجائیں گے پھر سب مر جائیں گے اور جو پہلے مر چکے ہیں ان کی روحیں بےہوش ہوجائیں گی۔ (کمانی بیان القرآن من سورة النمل۔ عند ابن کثیر مثلہ)- اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۔ میں درمنثور کی روایات کے مطابق چار فرشتے جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت ہیں اور بعض روایات میں جملة العرش بھی اس میں داخل ہے۔ ان کے استثناء کا مطلب یہ ہے کہ نفخ صور کے اثر سے ان کو موت نہیں آئے گی مگر اس کے بعد ان کو بھی موت آجائے گی اور سوائے ایک ذات حق سبحانہ وتعالیٰ کے کوئی اس وقت زندہ نہیں رہے گا۔ ابن کثیر نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان سب میں بھی سب سے آخر میں ملک الموت کو موت آوے گی۔ سورة نمل میں بھی ایک آیت اسی کی مثل گزری ہے۔ اس میں صعق کے بجائے فزع کا لفظ آیا ہے وہاں بھی اس کی کچھ تفصیل گزری ہے۔
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللہُ ٠ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْہِ اُخْرٰى فَاِذَا ہُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ ٦٨- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔- صعق - الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام - الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة :- الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه :- 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ- [ الزمر 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] .- 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] .- 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها .- ( ص ع ق ) الصاعقۃ - اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے - اول بمعنی موت اور ہلاکت - جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔- دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔- أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ - سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک )- جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
اور صورت میں پھونک ماری جائے گی تو آسمان و زمین والے مرجائیں گے مگر جنت و دوزخ والے اور کہا گیا ہے کہ حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت وہ پہلی صورت پھونکے جانے پر نہیں مریں گے بلکہ اس کے بعد مریں گے اور پھر مردوں کو زندہ کرنے کے لیے دوبارہ صورت میں پھونک ماری جائے گی اور ان دونوں صوروں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہوگا اور پھر آسمان سے باریک بارش کی بوندیں گریں گے پھر اس صورت کے بعد اچانک لوگ قبروں سے کھڑے ہوجائیں گے اور چاروں طرف دیکھیں گے کہ ان سے کیا کہا جارہا ہے۔
آیت ٦٨ وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللّٰہُ ” اور صور میں پھونکا جائے گا تو بےہوش ہوجائیں گے جو کوئی بھی ہیں آسمانوں میں اور زمین میں ‘ سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا۔ “- یہ منظر بہت دہشت ناک ہوگا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ فرشتوں کے علاوہ باقی تمام فرشتے بھی صور کی اس آواز سے بےہوش ہو کر گرپڑیں گے۔ دراصل یہ تین نفخے ہوں گے۔ پہلا نفخہ وہ ہوگا جسے قرآن میں ” السَّاعۃ “ بھی کہا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید زلزلے ‘ ہلچل اور طوفان کی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ سورج اور چاند آپس میں ٹکرا جائیں گے۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں گے۔ پھر دوسرا نفخہ ہوگا جس کے نتیجے میں تمام جانداروں پر موت طاری ہوجائے گی۔ اس آیت میں اسی دوسرے نفخہ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد نفخہ ثالثہ کی کیفیت یوں ہوگی :- ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ ” پھر اس (صور ) میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ سب کے سب کھڑے ہوجائیں گے دیکھتے ہوئے۔ “- اس تیسرے نفخے کے نتیجے میں تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ یہ گویا بعث بعد الموت کا نفخہ ہوگا اور اسی کا نام قیامت (کھڑے ہونا) ہے۔
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :78 صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، ص 552 ۔ جلد دوم ، ص 493 ۔ جلد سوم ، صفحات 48 ۔ 122 ۔ 123 199 ۔ 300 ۔ 606 ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :79 یہاں صرف دو مرتبہ صور پھونکے جانے کا ذکر ہے ۔ ان کے علاوہ سورہ نمل میں ان دونوں سے پہلے ایک اور نفخ صور واقع ہونے کا ذکر آیا ہے ، جسے سن کر زمین و آسمان کی ساری مخلوق دہشت زدہ ہو جائے گی ( آیت 87 ) ۔ اسی بنا پر احادیث میں تین مرتبہ نفخ صور واقع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک نفخۃ الفَزَع ، یعنی گھبرا دینے والا صور ۔ دوسرا نفخۃ الصَّعق ، یعنی مار گرانے والا صور ۔ تیسرا نفخۃ القیام لرَبّ العالمین ، یعنی وہ صور جسے پھونکتے ہی تمام انسان جی اٹھیں گے اور اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنے مرقدوں سے نکل آئیں گے ۔