فرماتا ہے کہ ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے اور اللہ سب سے بےنیاز ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرمان قرآن میں منقول ہے کہ اگر تم اور روئے زمین کے سب جاندار اللہ سے کفر کرو تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں وہ ساری مخلوق سے بےپرواہ اور پوری تعریفوں والا ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اے میرے بندو تمہارے سب اول و آخر انسان و جن مل ملا کر بدترین شخص کا سا دل بنا لو تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ہاں اللہ تمہاری ناشکری سے خوش نہیں نہ وہ اس کا تمہیں حکم دیتا ہے اور اگر تم اس کی شکر گزاری کرو گے تو وہ اس پر تم سے رضامند ہو جائے گا اور تمہیں اپنی اور نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ ہر شخص وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو ایک کے بدلے دوسرا پکڑا نہ جائے گا اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا 67 ) 17- الإسراء:67 ) ، یعنی جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا ۔ پس فرماتا ہے کہ جہاں دکھ درد ٹل گیا پھر تو ایسا ہو جاتا ہے گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا اس دعا اور گریہ و زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِيْبًا اِلَيْهِ Ď ) 39- الزمر:8 ) ، یعنی تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتارہتا ہے لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔ بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے ۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے کفر سے گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں ۔ اس میں ڈانٹ ہے اور سخت دھمکی ہے جیسے فرمایا کہدیجیے کہ فائدہ حاصل کر لو آخری جگہ تو تمہاری جہنم ہی ہے اور فرمان ہے ہم انہیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بےبس کر دیں گے ۔
7۔ 1 اس کی تشریح کے لئے دیکھئے (وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنْ تَكْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ حَمِيْدٌ) 14 ۔ ابراہیم :8) کا حاشیہ۔
[١٥] شکر کے فائدے :۔ اللہ تعالیٰ کے تم پر بےبہا انعامات کے باوجود بھی اگر تم کفران نعمت کرو گے اور اس کا حق عبادت دوسروں کو دیتے رہو گے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ تمہارا اپنا ہی نقصان ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تمہارے کفران نعمت یا ایسی نمک حرامی کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے ہاں پسندیدہ بات یہی ہے کہ تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اسے بھی وہ تمہارے ہی فائدے کے لیے پسند کرتا ہے۔ شکر کا تمہیں فائدہ یہ پہنچے گا کہ ایک تو تمہارا پروردگار خوش ہوگا دوسرے تمہیں اور بھی زیادہ نعمتیں عطا فرمائے گا۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٧ کا حاشیہ۔- [١٦] یعنی اگر آج تم کسی کو راضی رکھنے کے لئے یا اس کی ناراضگی سے بچنے کے لئے کفر یا گمراہی کی راہ اختیار کرو گے تو قیامت کے دن وہ تمہارا بوجھ اٹھا نہیں لے گا۔ اس کے تو اپنے گناہوں کا بوجھ اس کے لئے وبال جان بنا ہوگا وہ تمہارا بوجھ کیسے اٹھائے گا۔ ؟ لہذا اللہ سے شرک اور کفران نعمت کے بارے میں انتہائی محتاط روش اختیار کرو۔ دوسروں کے بہکاوے میں نہ آؤ۔ اور خود سیدھی سی بات اور سیدھی راہ کو پہچاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو۔ جن لوگوں کو آج تم نے اپنا پیشوا سمجھ رکھا ہے وہ کل تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔
اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ : کفر کا معنی ناشکری بھی ہے اور انکار بھی، یعنی اگر تم اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرو، جن کا اوپر ذکر ہوا ہے، یا ایمان کے بجائے کفر اختیار کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بےپروا ہے، وہ تمہارا کسی طرح بھی محتاج نہیں، نہ اسے تمہارے شکر یا ایمان کا کوئی فائدہ ہے اور نہ تمہاری نا شکری یا کفر کا کوئی نقصان، تم ہی ہر طرح سے اس کے محتاج ہو۔ مزید دیکھیے سورة ابراہیم (٨) ۔- وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۚ : ہاں، وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ ” وَلَا یَرْضٰی لَکُمُ الْکُفْرَ “ (وہ تمہارے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا) یہ فرمایا کہ وہ اپنے عباد (بندوں) کے لیے ناشکری کو پسند نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مالک اپنے غلاموں کی ناشکری کو پسند نہیں کرتا، تم اپنے متعلق سوچ لو، کیا تم اپنے کسی غلام کی ناشکری اور بغاوت کو پسند کرو گے، حالانکہ غلام تمہارے جیسے انسان ہیں، تو اللہ اپنے غلاموں کی ناشکری اور کفر کو کیسے پسند فرمائے گا، جب کہ وہ اس کے پیدا کیے ہوئے اور ہر طرح سے اس کے محتاج ہیں ؟- 3 یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور ارادہ اور چیز ہے اور اس کی رضا اور پسند دوسری چیز ہے۔ دنیا میں کوئی بھی کام اس کی مشیّت اور ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا، مگر اس نے انسانوں کو اور جنوں کو ایک حد تک اختیار دیا ہے، وہ چاہیں تو اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر ایمان لائیں اور اس کے احکام پر عمل کریں، یا چاہیں تو ناشکری کرتے ہوئے اس کے ساتھ کفر کریں اور اس کے احکام کی نافرمانی کریں۔ یہ اختیار دینے میں اس کی بیشمار حکمتیں ہیں، جن میں سے ایک بندوں کی آزمائش ہے، مگر وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بندے ہو کر وہ اس کی ناشکری اور نافرمانی کریں۔ مثلاً ابلیس اور تمام کفار کا کفر اس کی مشیّت اور ارادے کے ساتھ ہی ہے، وہ اللہ سے زبردست ہو کر نہیں بلکہ اس کے دیے ہوئے اختیار ہی کی وجہ سے کفر کر رہے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کو ان کا کفر کرنا پسند نہیں ہے۔- وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَهُ لَكُمْ ۭ“ اصل میں ” یَرْضَاہُ “ ہے، ” ان تَشْكُرُوْ “ شرط کی جزا ہونے کی وجہ سے اس پر جزم آئی، جس سے ” الف “ گرگیا۔ ” ہٗ “ ضمیر ” تَشْكُرُوْ “ کے ضمن میں پائے جانے والے شکر کی طرف جا رہی ہے، یعنی اگر تم شکر کرو تو اللہ تعالیٰ اس شکر کو تمہارے لیے پسند فرمائے گا۔- وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى : یعنی تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، کسی دوسرے شخص کے کہنے پر یا اسے راضی رکھنے کے لیے اگر کفر اختیار کرے گا تو کوئی اس کے کفر کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ” وَازِرَةٌ‘ کے مؤنث ہونے کی وجہ جاننے اور مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة فاطر کی آیت (١٨) کی تفسیر۔- ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ ۔۔ : یعنی دنیا میں تمہیں شکر یا کفر کا اختیار ہے، مگر آخر کار تم سب کو واپس اللہ کے پاس جانا ہے، جس نے تمہیں شروع میں پیدا فرمایا۔ وہ تمہیں تمہارے انھی اعمال کی خبر اور جزا دے گا جو تم کرتے رہے، یہ نہیں ہوگا کہ کسی اور کے عمل تمہارے ذمے ڈال دیے جائیں، یا تمہارے نیک یا بد اعمال غائب کردیے جائیں۔- اِنَّهٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ : یہ اس سے پہلے جملے کی علت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو تم میں سے ہر شخص کے اعمال اس کے سامنے پیش کرنا کچھ مشکل نہیں، کیونکہ وہ تو سینوں کی باتوں تک کو پوری طرح جاننے والا ہے، پھر کوئی قول یا عمل اس سے کس طرح مخفی رہ سکتا ہے ؟
خلاصہ تفسیر - (اے لوگو تم نے کفر و شرک کا بطلان سن لیا، اس کے بعد) اگر تم کفر کرو گے (جس میں شرک بھی داخل ہے) تو خدا تعالیٰ (کا کوئی ضرر نہیں کیونکہ وہ) تمہارا (اور تمہاری عبادت کا) حاجت مند نہیں (کہ تمہارے عبادت و توحید اختیار نہ کرنے سے کچھ اس کو ضرر پہنچے) اور (یہ بات ضرور ہے کہ) وہ اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا (کیونکہ کفر سے بندوں کو ضرر پہنچتا ہے) اور اگر تم شکر کرو گے (جس کی فرد اعظم ایمان ہے) تو (اس کو کوئی نفع نہیں مگر چونکہ تمہارا نفع ہے اس لئے وہ) اس کو تمہارے لئے پسند کرتا ہے اور (چونکہ ہمارے یہاں قاعدہ مقرر ہے کہ) کوئی کسی کا بوجھ (گناہ) کا نہیں اٹھاتا (اس لئے کفر کر کے یوں بھی نہ سمجھنا کہ ہمارا کفر دوسرے کے نامہ اعمال میں کسی وجہ سے درج ہوجاوے گا اور ہم بری ہوجاویں گے خواہ اس وجہ سے کہ ہم دوسروں کے متبع ہیں معاصرین کے یا آباء اقدمین کے خواہ اس وجہ سے کہ دوسرے وعدہ اس بوجھ کے اٹھا لینے کا کرتے ہیں۔ جیسا بعض کفار کہا کرتے تھے۔ (آیت) ولنحمل خطیکم۔ غرض یہ نہ ہوگا بلکہ تمہارا کفر تمہارے جرائم میں لکھا جاوے گا) پھر اپنے پروردگار کے پاس تم کو لوٹ کر جانا ہوگا۔ سو وہ تمہارے سب اعمال تم کو جتلا دے گا (اور سزادے گا پس یہ گمان بھی غلط ہے کہ ان کے اعمال کی پیشی کا وقت نہ آوے گا۔ اور) وہ دلوں تک کی باتوں کو جاننے والا ہے۔ (پس یہ گمان بھی مت کرنا کہ ہمارے کفر کی شاید اس کو اطلاع نہ ہو جیسا کہ حدیثوں میں ہے کہ بعض لوگوں میں گفتگو ہوئی کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ ہماری باتیں سنتا ہے یا نہیں، کسی نے کچھ جواب دیا کسی نے کچھ جواب دیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (آیت) وما کنتم تستترون ان یشھد الخ) اور (مشرک) آدمی (کی حالت یہ ہے کہ اس) کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب (حقیقی) کو اسی کی طرف رجوع ہو کر پکارنے لگتا ہے اور سب معبودوں کو بھول جاتا ہے) پھر جب اللہ تعالیٰ اس کو اپنے پاس سے نعمت (امن و آسائش کی) عطا فرما دیتا ہے تو جس (تکلیف کے دفع کرنے) کے لئے پہلے سے (خدا کو) پکار رہا تھا اس کو بھول جاتا ہے (اور غافل ہوجاتا ہے) اور خدا کے شریک بنانے لگتا ہے جس کا اثر (علاوہ اپنے گمراہ ہونے کے) یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ سے دوسروں کو (بھی) گمراہ کرتا ہے (اور اگر اس مصیبت کو پیش نظر رکھے تو توحید میں اخلاص کو قائم رکھتا۔ یہ مشرک کی مذمت ہوگئی، آگے عذاب سے ڈرانا ہے کہ) آپ (ایسے شخص سے) کہہ دیجئے کہ اپنے کفر کی بہار تھوڑے دنوں اور لوٹ لے (پھر آخر کار) تو دوزخیوں میں سے ہونے والا ہے۔ (آگے اہل توحید کی مدح و بشارت ہے یعنی) بھلا جو شخص (برعکس حال مشرک مذکور کے) اوقات شب میں (جو عموماً غفلت کا وقت ہوتا ہے) سجدہ و قیام (یعنی نماز) کی حالت میں عبادت کر رہا ہو (یہ تو اس کا ظاہر ہے اور باطن یہ کہ) آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید (بھی) کر رہا ہو۔ (کیا ایسا شخص اور مشرک مذکور برابر ہو سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ قانت جو عبادت پر مداومت کرنے والا اور اللہ سے ڈرنے والا بھی ہے اور اس سے امید عفو وکرم رکھنے والا بھی، یہ محمود ہے اور مشرک جو مطلب نکال لینے کے بعد اخلاص کو چھوڑ دیتا ہے مذموم ہے اور چونکہ ان عبادات کے ترک کو کفار مذموم نہ سمجھتے تھے، اس لئے اس تفاوت کی بناء پر محمودیت ومذمولیت کے حکم میں ان کو شبہ ہوسکتا تھا، اس لئے آگے اس سے زیادہ واضح اور مسلم عنوانوں سے اس حکم کا اثبات فرماتے ہیں یعنی اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان سے بایں عنوان) کہیئے کہ علم والے اور جہل والے (کہیں) برابر ہوتے ہیں (چونکہ جہل کو ہر شخص برا سمجھتا ہے اس کے جواب میں ان کی طرف سے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ اہل جہل مذموم ہیں آگے یہ ثابت کرنا رہ جاوے گا، کہ صاحب عمل صاحب علم ہے اور عمل سے اعراض کرنے والا صاحب جہل ہے۔ سو یہ امر ذرا تامل سے ثابت ہے اور ہرچند کہ اس بیان سے کفر واہل کفر کا مذموم اور ایمان واہل ایمان کا محمود ہونا ثابت ہوگیا لیکن پھر بھی) وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل (سلیم) ہیں اور (جب اہل اطاعت کا عند اللہ محمود ہونا معلوم ہوگیا تو اطاعت کی ترغیب دینے کے لئے) آپ (مومنین کو میری طرف سے) کہہ دیجئے کہ اے میرے ایمان والے بندو تم اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو (یعنی مداوم علی الطاعات ومحترز عن المعاصی رہو کہ یہ سب فرع ہیں تقویٰ کے آگے اس کا ثمرہ ہے کہ) جو لوگ اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک صلہ ہے (آخرت میں تو ضرور اور دنیا میں بھی باطنی راحت تو ضرور اور کبھی ظاہرا بھی) اور (اگر وطن میں کوئی نیکی کرنے سے مانع ہو تو ہجرت کر کے دوسری جگہ چلے جاؤ کیونکہ) اللہ کی زمین فراخ ہے (اور اگر ترک وطن میں کچھ تکلیف پہنچے تو استقلال رکھو کیونکہ دین میں) مستقل رہنے والوں کو ان کا صلہ بیشمار ہی ملے گا (پس اس سے ترغیب اطاعت کی ہوگئی)- معارف ومسائل - (آیت) اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۔ یعنی نہ تمہارے ایمان سے اللہ تعالیٰ کا اپنا کوئی فائدہ نہ تمہارے کفر سے کوئی نقصان۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ” اے میرے بندے اگر تمہارے اولین اور آخرین اور تمہارے انسان اور جن سب کے سبب انتہائی فسق و فجور میں مبتلا ہوجائیں تو میرے ملک و سلطنت میں ذرا بھی کمی نہیں آتی۔ (ابن کثیر)- (آیت) وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کفر سے راضی نہیں۔ رضا سے مراد محبت ہے یا کسی کام کا ارادہ کرنا بغیر اعتراض کے۔ اس کا مقابل لفظ سحظ آتا ہے جس کے معنی کسی چیز کو مبغوض رکھنا یا کسی چیز کو قابل اعتراض قرار دینا اگرچہ اس کے ساتھ ارادہ بھی متعلق ہو۔ - مسئلہ :- اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی اچھا یا برا کام ایمان یا کفر اللہ تعالیٰ کی مشیت یا ارادہ کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ اس لئے ہر چیز کے وجود میں آنے کے لئے اللہ جل شانہ، کا ارادہ شرط ہے۔ البتہ رضا اور پسندیدگی حق تعالیٰ کی صرف ایمان اور اچھے کاموں سے متعلق ہوتی ہے۔ کفر و شرک اور معاصی اس کو پسند نہیں۔ شیخ الاسلام نووی نے اپنی کتاب الاصول و الضوابط میں لکھا ہے :۔- ” مذہب اہل حق کا تقدیر پر ایمان لانا ہے اور یہ کہ تمام کائنات اچھی ہوں یا بری سب اللہ تعالیٰ کے حکم و تقدیر سے وجود میں آتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق کا ارادہ بھی کرتا ہے مگر وہ معاصی کو مکروہ و ناپسند سمجھتا ہے۔ اگرچہ ان کی تخلیق کا ارادہ کسی حکمت و مصلحت سے ہوتا ہے جس کو وہ خود ہی جانتا ہے “
اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ اللہَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ٠ ۣ وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْكُفْرَ ٠ ۚ وَاِنْ تَشْكُرُوْا يَرْضَہُ لَكُمْ ٠ ۭ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ٠ ۭ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٠ ۭ اِنَّہٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ٧- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- غنی - وغَنَى في مکان کذا : إذا طال مقامه فيه مستغنیا به عن غيره بغنی، قال : كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف 92] - ( غ ن ی ) الغنیٰ- غنی فی مکان کذا ۔ کسی جگہ مدت دراز تک اقامت کرنا گویا وہ دوسری جگہوں سے بےنیاز ہے ۔ قرآن میں ہے : كَأ َ نْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا[ الأعراف 92] گویا وہ ان میں کبھی آبادہی نہیں ہوئے تھے ۔- رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- وزر - الوَزَرُ : الملجأ الذي يلتجأ إليه من الجبل .- قال تعالی: كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] والوِزْرُ : الثّقلُ تشبيها بِوَزْرِ الجبلِ ، ويعبّر بذلک عن الإثم کما يعبّر عنه بالثقل . قال تعالی:- لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ- [ النحل 25] ، کقوله : وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] وحمل وِزْر الغیرِ في الحقیقة هو علی نحو ما أشار إليه صلّى اللہ عليه وسلم بقوله : «من سنّ سنّة حسنة کان له أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجره شيء، ومن سنّ سنّة سيّئة کان له وِزْرُهَا ووِزْرُ من عمل بها» «4» أي : مثل وِزْرِ مَن عمل بها . - ( و ز ر ) الوزر - ۔ پہاڑ میں جائے پناہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَلَّا لا وَزَرَ إِلى رَبِّكَ [ القیامة 11] بیشک کہیں پناہ نہیں اس روز پروردگار ہی کے پاس جانا ہے ۔ الوزر ۔ کے معنی بار گراں کے ہیں اور یہ معنی وزر سے لیا گیا ہے جس کے معنی پہاڑ میں جائے پناہ کے ہیں اور جس طرح مجازا اس کے معنی بوجھ کے آتے ہیں اسی طرح وزر بمعنی گناہ بھی آتا ہے ۔ ( اسی کی جمع اوزار ہے ) جیسے فرمایا : ۔ لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً (يَوْمَ الْقِيامَةِ ) وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلا ساءَ ما يَزِرُونَ [ النحل 25]( اے پیغمبر ان کو بکنے دو ) یہ قیامت کے دن اپنے ( اعمال کے ) پورے سے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی ( اٹھائیں گے ) جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقالَهُمْ وَأَثْقالًا مَعَ أَثْقالِهِمْ [ العنکبوت 13] اور یہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور بوجھ بھی ۔ اور دوسروں کو بوجھ اٹھانے کے حقیقت کیطرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا من سن سنتہ حسنتہ کان لہ اجرھا واجر من عمل بھا من غیران ینقض من اجرہ شیئ ومن سن سنتہ سیئتہ کان لہ وزرھا ووزر من عمل بھا کی جس شخص نے اچھا طریقہ جاری کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے بدوں اس کے کہ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی ہو اور جس نے بری رسم جاری کی اس کا بوجھ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے ۔ تویہاں ان لوگوں کے اجر یا بوجھ سے ان کی مثل اجر یا بوجھ مراد ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔
مکہ والو اگر تم رسول اکرم اور قرآن حکیم کا انکار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کا محتاج نہیں کیونکہ وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ چیز اس کے شایان نہیں اور اگر تم اس پر ایمان لے آؤ گے تو وہ تمہارے ایمان کو قبول فرمائے گا کیونکہ وہ اس کا پسندیدہ طریقہ ہے اور کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ یعنی کسی شخص کی دوسرے کے گناہ میں پکڑ نہیں ہوتی ہر ایک اپنے گناہوں کا ذمہ دار ہے یا یہ کہ کسی کو بغیر گناہ کے عذاب نہیں دیا جاتا۔- اور پھر تمہیں اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے وہ تمہیں تمہارے افعال و اقوال قیامت کے دن جتائے گا اور وہ دلوں میں جو کچھ نیکیاں اور برائیاں ہیں سب کا جاننے والا ہے۔
آیت ٧ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ قف ” اگر تم کفر کرتے ہو تو یقینا اللہ تم سے بےنیاز ہے۔ “- وہ غنی ہے ‘ اسے تمہاری کوئی احتیاج نہیں ‘ تمہاری طرف سے انکار یا کفرانِ نعمت کی صورت میں اس کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔- وَلَا یَرْضٰی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ ” لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر پر راضی نہیں ہے “- اگرچہ اس نے انسان کو اختیار دے رکھا ہے : اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا۔ ( الدھر) کہ تم چاہو تو شکرگزار بندے بنو اور چاہو تو کفرانِ نعمت کی روش اختیار کرو۔ یہ تمہارا اپنا فیصلہ ہے ‘ مگر یہ جان رکھو کہ اسے اپنے بندوں کی طرف سے کفر کا رویہ ہرگز پسند نہیں ہے۔ - وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ ” اور اگر تم شکر کرو تو وہ تم سے راضی ہوگا۔ “- اگر تم اس کا شکر ادا کرتے رہو ‘ اس کی حمد و ثنا کے ترانے گاتے رہو اور اس کی بندگی کی روش اختیار کیے رکھو تو وہ تم سے خوش رہے گا۔ وہ اسی طرزعمل کو پسند کرتا ہے۔- وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ” اور نہیں اٹھائے گی بوجھ اٹھانے والی کوئی جان کسی دوسرے کے بوجھ کو۔ “- ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ ” پھر تمہارا لوٹنا ہے تمہارے رب ہی کی طرف “- فَیُـنَـبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ” پھر وہ تمہیں بتادے گا جو کچھ کہ تم کرتے رہے تھے۔ “- اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ” یقینا وہ جاننے والا ہے سینوں کے اندر چھپی ہوئی باتوں کا۔ “- جو راز تمہارے سینوں کے اندر مخفی ہیں وہ ان سے بھی باخبر ہے۔
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :19 یعنی تمہارے کفر سے اس کی خدائی ذرا برابر بھی کمی نہیں آسکتی ۔ تم مانو گے تب بھی وہ خدا ہے ، اور نہ مانو گے تب بھی وہ خدا ہے اور رہے گا ۔ اس کی فرمانروائی اپنے زور پر چل رہی ہے ، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یا عبادی لو ان اولکم و اٰخرکم و انسکم و جنکم کانوا علیٰ افجر قلب رجل منکم ما نقص من ملکی شیئاً ۔ اے میرے بندو ، اگر تم سب کے سب اگلے اور پچھلے انسان اور جن اپنے میں سے کسی فاجر سے فاجر شخص کے دل کی طرح ہو جاؤ تب بھی میری بادشاہی میں کچھ بھی کمی نہ ہو گی ۔ ( مسلم ) سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :20 یعنی وہ اپنے کسی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ خود بندوں کے مفاد کی خاطر یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ کفر کریں ، کیونکہ کفر خود انہی کے لیے نقصان دہ ہے ۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور رضا دوسری چیز ۔ دنیا میں کوئی کام بھی اللہ کی مشیت کے خلاف نہیں ہو سکتا ، مگر اس کی رضا کے خلاف بہت سے کام ہو سکتے ہیں اور رات دن ہوتے رہتے ہیں ۔ مثلاً دنیا میں جباروں اور ظالموں کا حکمراں ہونا ، چوروں اور ڈاکوؤں کا پایا جانا ، قاتلوں اور زانیوں کا موجود ہونا اسی لیے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بنائے ہوئے نظام قدرت میں ان برائیوں کے ظہور اور ان اشرار کے وجود کی گنجائش رکھی ہے ۔ پھر ان کو بدی کے ارتکاب کے مواقع بھی دیتا ہے اور اسی طرح دیتا ہے جس طرح نیکوں کو نیکی کے موقع دیتا ہے ۔ اگر وہ سرے سے ان کاموں کی گنجائش ہی نہ رکھتا اور ان کے کرنے والوں کو مواقع ہی نہ دیتا تو دنیا میں کبھی کوئی برائی ظاہر نہ ہوتی ۔ یہ سب کچھ بر بنائے مشیت ہے ۔ لیکن مشیت کے تحت کسی فعل کا صدور یہ معنی نہیں رکھتا کہ اللہ کی رضا بھی اس کو حاصل ہے ۔ مثال کے طور پر اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص اگر حرام خوری ہی کے ذریعہ سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اسی ذریعہ سے اس کو رزق دے دیتا ہے ۔ یہ ہے اس کی مشیت ۔ مگر مشیت کے تحت چور یا ڈاکو یا رشوت خوار کو رزق دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چوری ، ڈاکے اور رشوت کو اللہ پسند بھی کرتا ہے ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہا ہے کہ تم کفر کرنا چاہو تو کرو ، ہم تمہیں زبردستی اس سے روک کر مومن نہیں بنائیں گے ۔ مگر ہمیں یہ پسند نہیں ہے کہ تم بندے ہو کر اپنے خالق و پروردگار سے کفر کرو ، کیونکہ یہ تمہارے ہی لیے نقصان دہ ہے ، ہماری خدائی کا اس سے کچھ بھی نہیں بگڑتا ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :21 کفر کے مقابلے میں یہاں ایمان کے بجائے شکر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ کفر در حقیقت احسان فراموشی و نمک حرامی ہے ، اور ایمان فی الحقیقت شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے ۔ جس شخص میں اللہ جلّ شانہ کے احسانات کا کچھ بھی احساس ہو وہ ایمان کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کر سکتا ۔ اس لیے شکر اور ایمان ایسے لازم و ملزوم ہیں کہ جہاں شکر ہو گا وہاں ایمان ضرور ہو گا ۔ اور اس کے برعکس جہاں کفر ہو گا وہاں شکر کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ کفر کے ساتھ شکر کے معنی نہیں ہیں ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :22 مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ کوئی شخص اگر دوسروں کو راضی رکھنے کے لیے یا ان کی ناراضی سے بچنے کی خاطر کفر اختیار کرے گا تو وہ دوسرے لوگ اس کے کفر کا وبال اپنے اوپر نہیں اٹھا لیں گے بلکہ اسے آپ ہی اپنا وبال بھگتنے کے لیے چھوڑ دیں گے ۔ لہٰذا جس پر بھی کفر کا غلط اور ایمان کا صحیح ہونا واضح ہو جائے اس کو چاہیے کہ غلط رویہ چھوڑ کر صحیح رویہ اختیار کر لے اور اپنے خاندان یا برادری یا قوم کے ساتھ لگ کر اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق نہ بنائے ۔