کفار کی آخری منزل ۔ بدنصیب منکرین حق ، کفار کا انجام بیان ہو رہا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح رسوائی ، ذلت ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکی سے جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے ۔ جیسے اور آیت میں یدعون کا لفظ ہے یعنی دھکے دیئے جائیں گے اور سخت پیاسے ہوں گے ، جیسے اللہ جل و علا نے فرمایا ( یوم نحشر المتقین ) الخ ، جس روز ہم پرہیزگاروں کو رحمان کے مہمان بناکر جمع کریں گے اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے ۔ اس کے علاوہ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہوں گے اور منہ کے بل گھسیٹ کر لائیں گے یہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا جب اس کی آتش دھیمی ہونے لگے ہم اسے اور تیز کردیں گے ۔ یہ قریب پہنچیں گے دروازے کھل جائیں گے تاکہ فوراً ہی عذاب نار شروع ہو جائے ۔ پھر انہیں وہاں کے محافظ فرشتے شرمندہ کرنے کیلئے اور ندامت بڑھانے کیلئے ڈانٹ کر اور گھرک کر کہیں گے کیونکہ ان میں رحم کا تو مادہ ہی نہیں سراسر سختی کرنے والے سخت غصے والے اور بڑی بری طرح مار مارنے والے ہیں کہ کیا تمہارے پاس تمہاری ہی جنس کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے تھے؟ جن سے تم سوال جواب کرسکتے تھے اپنا اطمینان اور تسلی کرسکتے تھے ان کی باتوں کو سمجھ سکتے تھے ان کی صحبت میں بیٹھ سکتے تھے ، انہوں نے اللہ کی آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں اپنے لائے ہوئے سچے دین پر دلیلیں قائم کردیں ۔ تمہیں اس دن کی برائیوں سے آگاہ کردیا ۔ آج کے عذابوں سے ڈرایا ۔ کافر اقرار کریں گے کہ ہاں یہ سچ ہے بیشک اللہ کے پیغمبر ہم میں آئے ۔ انہوں نے دلیلیں بھی قائم کیں ہمیں بہت کچھ کہا سنا بھی ۔ ڈرایا دھمکایا بھی ۔ لیکن ہم نے ان کی ایک نہ مانی بلکہ ان کے خلاف کیا مقابلہ کیا کیونکہ ہماری قسمت میں ہی شقاوت تھی ۔ ازلی بدنصیب ہم تھے ۔ حق سے ہٹ گئے اور باطل کے طرفدار بن گئے ۔ جیسے سورۃ تبارک کی آیت میں ہے جب جہنم میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا ۔ اس سے وہاں کے محافظ پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں آیا تو تھا لیکن ہم نے اس کی تکذیب کی اور کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا تم بڑی بھاری غلطی میں ہو ۔ اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج دوزخیوں میں نہ ہوتے ۔ یعنی اپنے آپ کو آپ ملامت کرنے لگیں گے اپنے گناہ کا خود اقرار کریں گے ۔ اللہ فرمائے گا دوری اور خسارہ ہو ۔ لعنت و پھٹکار ہو اہل دوزخ پر ، کہا جائے گا یعنی ہر وہ شخص جو انہیں دیکھے گا اور ان کی حالت کو معلوم کرے گا وہ صاف کہہ اٹھے گا کہ بیشک یہ اسی لائق ہیں ۔ اسی لئے کہنے والے کا نام نہیں لیا گیا بلکہ اسے مطلق چھوڑا گیا تاکہ اس کا عموم باقی رہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے عدل کی گواہی کامل ہو جائے ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اب جاؤ جہنم میں یہیں ہمیشہ جلتے بھلستے رہنا نہ یہاں سے کسی طرح کسی وقت چھٹکارا ملے نہ تمہیں موت آئے آہ یہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے جس میں دن رات جلنا ہی جلنا ہے ۔ یہ ہے تمہارے تکبر کا اور حق کو نہ ماننے کا بدلہ ۔ جس نے تمہیں ایسی بری جگہ پہنچایا اور یہیں کردیا ۔
71۔ 1 زمر زَمَرَ سے مشتق ہے بمعنی آواز ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا ایک گروہ کے پیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا یوم یدعون الی نار جہنم دعا الطور یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا۔ 71۔ 2 یعنی ان کے پہنچتے ہی فورا جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیئے جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔ 71۔ 3 یعنی جس طرح دنیا میں بحث و تکرار اور جدال و مناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آجانے کے بعد بحث وجدال کی گنجایش ہی باقی نہ رہے گی، اس لئے اعتراف کیے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ 71۔ 4 یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اور مخالفت کی اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا اس مضمون کو سورة الملک میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
[٩٠] اس لئے کہ کفر کی بھی بیسیوں اقسام ہیں۔ اور اسی لحاظ سے ان کافروں کی قیامت کے دن گروہ بندی ہوگی۔ اور ان کی گروہ بندی کرنے کے بعد انہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا۔ جیسے ان مجرموں کو، جو عدالت کے فیصلہ کے بعد واقعی مجرم ثابت ہوجاتے ہیں پابہ زنجیر کرکے جیل خانہ کی طرف لے جایا جاتا ہے اور جس طرح ان مجرموں کے جیل خانہ پہنچنے پر جیل کا پھاٹک کھول دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کافروں کے گروہوں کے جہنم کے پاس پہنچنے پر جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔- [٩١] جہنم کے داروغے اور ان کا سوال :۔ جب یہ گروہ جہنم پر پہنچ جائیں گے تو جہنم کے داروغے یا سپرنٹنڈنٹ ملامت کے طور پر انہیں پوچھیں گے، ارے کم بختو تمہارے پاس اللہ کے رسول تمہیں آج کے حالات سے خبردار کرنے یا ڈرانے کے لئے نہیں پہنچے تھے ؟ مجرم جواب دیں گے : آئے تو تھے مگر ہماری بدبختی اور نالائقی کہ ہم نے انہیں سچا نہ سمجھا جس کے نتیجہ میں آج ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال کی سزا ہمیں مل کر ہی رہے گی۔
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًا ۭ : ” سَاقَ یَسُوْقُ سَوْقًا “ (ن) کسی کو اپنے آگے رکھ کر پیچھے سے ہانکنا، اس میں ہانکے جانے والے کی ذلت کا اظہار ہوتا ہے۔ آگے رہ کر کسی کو اپنے پیچھے چلانے کے لیے ” قَادَ یَقُوْدُ “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ” زُمَرًا “ ” زُمْرَۃٌ“ کی جمع ہے، وہ گروہ جس کے پیچھے اور گروہ ہو۔ ” زُمْرَۃٌ مِنَ النَّاسِ “ اس جماعت کو کہا جاتا ہے جس کے پیچھے اور جماعت آرہی ہو۔ - 3 پچھلی آیات میں قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلے کا ذکر ہے، ان آیات میں اس فیصلے پر عمل کا ذکر ہے۔ چناچہ پہلے عذاب کے مستحق لوگوں کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ مقام ان لوگوں کو نصیحت اور ڈرانے کا ہے جو اتنی نصیحت اور اس قدر دلائل سن کر بھی کفر پر جمے رہے۔ - 3 یعنی جب کافروں کا جرم ثابت ہونے کے بعد فیصلہ کردیا جائے گا تو ٹولیاں بنا کر انھیں زبردستی ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا، جیسا کہ فرمایا : (يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا ) [ الطور : ١٣ ] ” جس دن انھیں جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جائے گا، بری طرح دھکیلا جانا۔ “ مختلف گروہوں میں تقسیم یا تو کفر کی درجہ بندی کے لحاظ سے ہوگی کہ منافق درک اسفل میں ہوں گے اور کچھ وہ بھی ہوں گے جنھیں صرف آگ کا جوتا پہنایا جائے گا، یا زمانے کے لحاظ سے کہ پہلے لوگ پہلے اور بعد کے لوگ بعد میں داخل ہوں گے۔ (دیکھیے اعراف : ٣٨) ایک تقسیم مجرموں کی مختلف اقسام کے لحاظ سے بھی ہوگی، مثلاً چوروں کا گروہ، بدکاروں کا گروہ وغیرہ۔ دیکھیے سورة صافات (٢٢) اور سورة حٰمٓ السجدہ (١٩) ۔- حَتّىٰٓ اِذَا جَاۗءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا : یعنی ان کے آنے پر جہنم کے دروازے، جو پہلے بند تھے، کھولے جائیں گے، جس طرح قید خانے کے دروازے صرف مجرموں کی آمد پر کھولے جاتے ہیں اور پھر ان پر بند کردیے جاتے ہیں، تاکہ وہ وہیں قید رہیں۔- وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَــتُهَآ : ” خَزَنَۃٌ“ ” خَازِنٌ“ کی جمع ہے، جیسا کہ ” طَلَبَۃٌ“ ” طَالِبٌ“ کی جمع ہے۔ دربان کو خازن کہا جاتا ہے، کیونکہ عموماً دربان وہیں ہوتے ہیں جہاں قیمتی چیزوں کا خزانہ ہو۔ جہنم کے دربانوں کی صفت کے لیے دیکھیے سورة تحریم (٦) ۔- اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ ۔۔ : جہنم کے سخت دل، سخت لہجے اور قوت والے فرشتے ان سے یہ بات پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ انھیں ملامت کرنے اور ڈانٹنے کے لیے کہیں گے، جسمانی عذاب کے ساتھ یہ عذاب مزید ہوگا۔ دیکھیے سورة انعام (١٢٠) اور سورة ملک (٨ تا ١١) ۔- قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ ۔۔ : یعنی ہاں آئے تھے اور انھوں نے ڈرایا بھی تھا، مگر ہم ہی ایسے اعمال کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ بات جو اس نے جہنم کو کافر جنوں اور انسانوں سے بھرنے کے متعلق فرمائی تھی (دیکھیے السجدہ : ١٣) وہ ہمارے حق میں سچی ثابت ہوئی۔
وَسِيْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى جَہَنَّمَ زُمَرًا ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَــتُہَآ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَتْلُوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُوْنَكُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ٠ ۭ قَالُوْا بَلٰى وَلٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ٧١- ساق - سَوْقُ الإبل : جلبها وطردها، يقال : سُقْتُهُ فَانْسَاقَ ، والسَّيِّقَةُ : ما يُسَاقُ من الدّوابّ. وسُقْتُ المهر إلى المرأة، وذلک أنّ مهورهم کانت الإبل، وقوله : إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ- [ القیامة 30] ، نحو قوله : وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم 42] ، وقوله : سائِقٌ وَشَهِيدٌ- [ ق 21] ، أي : ملك يَسُوقُهُ ، وآخر يشهد عليه وله، وقیل : هو کقوله : كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] ، وقوله : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] ، قيل : عني التفاف الساقین عند خروج الروح . وقیل : التفافهما عند ما يلفّان في الکفن، وقیل : هو أن يموت فلا تحملانه بعد أن کانتا تقلّانه، وقیل : أراد التفاف البليّة بالبليّة نحو قوله تعالی: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم 42] ، من قولهم : کشفت الحرب عن ساقها، وقال بعضهم في قوله : يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم 42] :إنه إشارة إلى شدّة «2» ، وهو أن يموت الولد في بطن الناقة فيدخل المذمّر يده في رحمها فيأخذ بساقه فيخرجه ميّتا، قال : فهذا هو الکشف عن الساق، فجعل لكلّ أمر فظیع . وقوله : فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] ، قيل : هو جمع ساق نحو : لابة ولوب، وقارة وقور، وعلی هذا : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] ، ورجل أَسْوَقُ ، وامرأة سَوْقَاءُ بيّنة السّوق، أي : عظیمة السّاق، والسُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ - ( س و ق)- سوق الابل کے معنی اونٹ کو سنکانے اور چلانے کے ہیں یہ سفقتہ ( ن) کا مصدر ہے اور انسان ( انفعال ) کے معنی ہنکانے کے بعد چل پڑنے کے ہیں ان جانوروں کو جو ہنکائے جاتے ہیں سیقۃ کہا جاتا ہے ۔ اور عورت کو مہر ادا کرنے کے لئے سقت المھر الی المرءۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب حق مہر میں وعام طور پر ) اونٹ دیا کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة 30] میں امساق سے معنی پروردگار کی طرف چلنا کے ہیں جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم 42] میں ہے یعنی تمہیں اپنے پروردگار کے پاس پہچنا ہے اور آیت سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق 21] اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا اور ایک ( اس کے عملوں کی ) گواہی دینے والا ۔ میں سابق سے وہ فرشتہ مراد ہے جو اسے چلا کر حساب کے لئے پیش کرے گا اور دوسرا فرشتہ شہید بطور گواہ کے اس کے ساتھ ہوگا جو اسکے حق میں یا سکے خلاف گواہی گا بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کیطرف دھکیلے جاتے ہیں کے ہم معنی ہے اور آیت : ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة 29] اور پنڈلی لپٹ جائے گی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبض روح کے وقت پنڈلیوں کا لپٹنا مراد لیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لپٹنے سے مراد موت ہے کہ زندگی میں وہ اس کے بوجھ کو اٹھا کر چلتی تھیں لیکن موت کے بعد وہ اس بار کی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک شدت کا دوسری شدت سے لپٹنا مراد ہے اسی طرح آیت : ۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم 42] جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا ۔ میں پنڈلی سے کپرا ا اٹھانا صعوبت حال سے کنایہ ہے اور یہ کشفت الحرب عن ساقھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی لڑائی کے سخت ہوجانے ہیں ۔ بعض نے اس کی اصل یہ بیان کی ہے کہ جب اونٹنی کے پیٹ میں بچہ مرجاتا ہے تو مزمر ( جنوانے والا ) اس کے رحم کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے : ۔ اور اسے پنڈلیوں سے پکڑ کر ذور سے باہر نکالتا ہے ۔ اور یہ کشف عن الناق کے اصل معنی ہیں پھر ہر ہولناک امر کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوناے لگا ہے تو یہاں بھی شدت حال سے کنایہ ہے اور آیت : ۔ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح 29] اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سوق ساق کی جمع ہے جیسے لابۃ کی جمع لوب اور فارۃ کی جمع فور آتی ہے ۔ اور اسی طرح آیت : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ میں بھی سوق صیغہ جمع ہے اور رجل اسوق کر معنی بڑی پنڈلیوں والے آدمی کے ہیں اسکی مؤنث سوقاء آتی ہے اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ السویق کے معنی ستو کے ہیں کیونکہ وہ بغیر جائے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - زمر - قال : وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] ، جمع زُمْرَةٍ ، وهي الجماعة القلیلة، ومنه قيل : شاة زَمِرَةٌ: قلیلة الشّعر، ورجل زَمِرٌ: قلیل المروءة، وزَمَرَتِ النّعامة تَزْمِرُ زمَاراً ، وعنه اشتقّ الزَّمْرُ ، والزَّمَّارَةُ كناية عن الفاجرة .- ( ز م ر ) زمرۃ کے معنی چھوٹی سی جماعت کے ہیں اس کی جمع زمر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر 73] اور جہنوں نے اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیا وہ بہشت کی طرف گروہ گروہ کر کے چلے جائینگے اور اسی سے شاۃ زمرۃ ہے جس کے معنی کم اون والی بھیڑ کے ہیں اور بےمروت آدمی کو رمز کہا جاتا ہے اور زمرت النعامۃ تزمر زمارا کے معنی ہیں شتر مرغ نے سیٹی بجائی اور اسی سے کنایہ کے طور پر فاجرہ عورت کو زمرۃ و زمارۃ کہا جاتا ہے ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - باب - البَاب يقال لمدخل الشیء، وأصل ذلک : مداخل الأمكنة، کباب المدینة والدار والبیت، وجمعه : أَبْوَاب . قال تعالی: وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] ، وقال تعالی: لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ، ومنه يقال في العلم : باب کذا، وهذا العلم باب إلى علم کذا، أي : به يتوصل إليه . وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا مدینة العلم وعليّ بابها» «1» . أي : به يتوصّل، قال الشاعر : أتيت المروءة من بابها«2» وقال تعالی: فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، وقال عزّ وجل : بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] وقد يقال : أبواب الجنّة وأبواب جهنم للأشياء التي بها يتوصّل إليهما . قال تعالی: فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] ، وقال تعالی: حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] ، وربما قيل : هذا من بَابَة كذا، أي : ممّا يصلح له، وجمعه : بابات، وقال الخلیل : بابة «3» في الحدود، وبَوَّبْتُ بابا، أي : عملت، وأبواب مُبَوَّبَة، والبَوَّاب حافظ البیت، وتَبَوَّبْتُ بوابا : اتخذته، وأصل باب : بوب .- الباب ہر چیز میں داخل ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔ دراصل امکنہ جیسے شہر ، مکان ، گھر وغیرہ میں داخل ہونے کی جگہ کو باب کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ابواب ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيا سَيِّدَها لَدَى الْبابِ [يوسف 25] اور دونوں دروازون کی طرف بھاگے اور عورت نے ان کا کرتہ پیچھے سے ( پکڑ کر جو کھینچا تو ) چھاڑ ڈالا ۔ اور دونوں کو دروازں کے پاس عورت کا خاوند مل گیا ۔ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوابٍ مُتَفَرِّقَةٍ [يوسف 67] ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدادروازوں سے داخل ہونا ۔ اور اسی سے ( مجازا ) علم میں باب کذا کا محاورہ ہے ۔ نیز کہا جاتا ہے کہ یعنی یہ علم فلاں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ۔ ایک حدیث میں آنحضرت نے فرمایا : ۔ یعنی میں علم کا شہرہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ۔ کسی شاعر نے کہا ہے ( رجہ ) تم نے جو انمردی کو اسی کی جگہ سے حاصل کیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ [ الحدید 13] جس میں ایک دروازہ ہوگا جو اس کی جانب اندرونی ہے اس میں تو رحمت ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابواب جنۃ اور ابوب جہنم سے مراد وہ باتیں ہیں جو ان تک پہنچنے کا ذریعے بنتی ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَادْخُلُوا أَبْوابَ جَهَنَّمَ [ النحل 29] کہ دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ۔ حَتَّى إِذا جاؤُها وَفُتِحَتْ أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ [ الزمر 73] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو اسکے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اسکے دراغہ ان سے کہیں کے کم تم پر سلام ۔ اور جو چیز کسی کام کے لئے صلاحیت رکھتی ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے ۔ کہ یہ اس کے مناسب ہے اس کی جمع بابت ہے خلیل کا قول ہے کہ بابۃ کا لفظ حدود ( اور حساب میں ) استعمال ہوتا ہے بوبت بابا : میں نے دروازہ بنایا ۔ نے بنے ہوئے دروازے قائم کئے ہوئے دروازے ۔ البواب دربان تبوبت بابا میں نے دروازہ بنایا ۔ باب اصل میں بوب ہے اور اس میں الف واؤ سے مبدل ہے ۔- خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
کافروں کو گروہوں کی صورت میں ترتیب وار دوزخ کی طرف ہانکا جائے گا۔- اور جب یہ دوزخ کے قریب پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیے جائیں گے جو اس سے پہلے کھلے ہوئے نہیں تھے اور ان سے وہاں کے داروغہ اور محافظ کہیں گے کہ اے گروہ کفار کیا تمہارے پاس تم ہی لوگوں میں سے پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمہیں تمہارے پروردگار کی آیتیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے اور تمہیں اس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے، کافر کہیں گے بیشک ہمارے پاس رسول آئے لیکن عذاب کا وعدہ ہمارے اعمال کی وجہ سے پورا ہو کر رہا۔
آیت ٧١ وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا ” اور ہانک کرلے جائے جائیں گے کافر جہنم کی طرف گروہ در گروہ۔ “- اس طرح کہ ایک امت کے بعد دوسری امت اور پھر تیسری اُمت۔ غرض تمام امتوں کے مجرم لوگ اپنے اپنے لیڈروں کی قیادت میں جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ سورة ہود میں فرعون اور اس کی قوم کے حوالے سے ایک نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے : یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَط وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ ۔ ” قیامت کے دن وہ آئے گا آگے چلتا ہوا اپنی قوم کے ‘ پھر وہ آگ کے گھاٹ پر انہیں اتار دے گا۔ اور وہ بہت ہی برا گھاٹ ہے جس پر وہ اتارے جائیں گے “۔ تو یوں اہل جہنم کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا۔- حَتّٰٓی اِذَا جَآئُ وْہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا ” یہاں تک کہ جب وہ پہنچ جائیں گے جہنم پر تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے “- جیسے جیل کے دروازے صرف نئے قیدیوں کے داخلے کے لیے ہی کھولے جاتے ہیں ‘ اسی طرح جہنم کے بند دروازے بھی مجرموں کی آمد پر ہی کھولے جائیں گے۔ - وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَآ ” اور اس کے داروغہ ان سے کہیں گے “- ان مجرمین کی آمد پر جہنم پر مامور فرشتے ان سے پوچھیں گے :- اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا ” کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول ( علیہ السلام) نہیں آئے تھے جو تمہیں سناتے تھے تمہارے رب کی آیات اور تمہیں خبردار کرتے تھے تمہاری آج کے دن کی اس ملاقات سے “- قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ” وہ کہیں گے کیوں نہیں لیکن کافروں پر عذاب کا حکم ثابت ہو کررہا۔ “ - یعنی پیغمبروں نے تو دعوت و تبلیغ کا حق ادا کردیا ‘ لیکن یہ لوگ انکار اور کفر پر اڑے رہے اور یوں انہوں نے خود کو عذاب کا مستحق ثابت کر دکھایا۔
سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :81 یعنی جہنم کے دروازے پہلے سے کھلے نہ ہوں گے بلکہ ان کے پہنچنے پر کھولے جائیں گے ، جس طرح مجرموں کے پہنچنے پر جیل کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور ان کے داخل ہوتے ہی بند کر دیا جاتا ہے ۔