70۔ 1 یعنی اس کو کسی کاتب، حاسب اور گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اعمال نامے اور گواہ صرف بطور حجت اور قطع معذورت کے ہونگے۔
[٨٩] کیا قاضی اپنے ذاتی علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے ؟:۔ اگرچہ اللہ ان کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ پھر بھی ان پر گواہیاں قائم کی جائیں گی۔ حتیٰ کہ یا تو مجرم خود اپنے گناہ کا اقرار کرلے یا پھر اس کے خلاف گواہیوں کی بنا پر الزام پوری طرح ثابت ہوجائے اور ان کی سزا کے لئے اتمام حجت ہوجائے۔- اس آیت سے نیز اسی آیت کی تائید میں بعض احادیث سے شریعت کا ایک نہایت اہم مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ قاضی محض اپنے علم کی بنا پر کسی مقدمہ کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ فیصلہ کا انحصار گواہیوں پر ہونا ضروری ہے۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ اور اسی عدل و انصاف کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ گواہیاں قائم کریں گے۔ بعض علماء نے اس مسئلہ میں اتنی لچک ضرور رکھی ہے کہ اس اصول کا اطلاق حدود و تعزیرات یعنی فوجداری مقدمات پر ہوتا ہے لین دین کے معاملات یا دیوانی مقدمات میں قاضی اپنے علم کی بنا پر فیصلہ دے سکتا ہے لیکن بعض آثار سے اس گنجائش کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ مالی مقدمات میں بھی قاضی اپنے علم کو فیصلہ تو دور کی بات ہے، ایک شہادت کے طور پر بھی استعمال میں نہ لائے۔
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ : ہر جان کو اس کے نیک یا بد عمل کا پورا بدلا دیا جائے گا، ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب عز و جل سے جو کچھ روایت کیا اس میں یہ بھی فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَ السَّیِّءَاتِ ، ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ فَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ، فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلٰی سَبْعِمِاءَۃِ ضِعْفٍ إِلٰی أَضْعَافٍ کَثِیْرَۃٍ ، وَ مَنْ ہَمَّ بِسَیِّءَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ عِنْدَہُ حَسَنَۃً کَامِلَۃً ، فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہُ سَیِّءَۃً وَاحِدَۃً ) [ بخاري، الرقاق، باب من ھم بحسنۃ أو بسیءۃ : ٦٤٩١ ] ” اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دیں، پھر ان کی وضاحت فرما دی، تو جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور عمل نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر وہ اس کا ارادہ کرے اور اسے کر بھی لے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس دس سے سات سو گنا بلکہ بہت گنا تک نیکیاں لکھ لیتا ہے اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا، پھر (اللہ کے خوف سے) اس پر عمل نہ کیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے عوض اپنے پاس ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور اگر اس نے اس کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کرلیا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے لیے ایک برائی لکھ لیتا ہے۔ “- وَهُوَ اَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ : یعنی دنیا میں لوگ جو عمل کر رہے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے، اسے کسی لکھنے والے یا حساب رکھنے والے یا گواہی پیش کرنے والے کی ضرورت نہیں، لیکن اعمال نامہ اس لیے رکھا جائے گا اور پیغمبروں اور گواہوں کو اس لیے لایا جائے گا کہ لوگوں پر حجت تمام ہو۔
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَاَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُوْنَ ٧٠ۧ- وُفِّيَتْ- وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔- اسْتِيفَاؤُهُ :- تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة 281] ، إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] - اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران 185] اور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
اور ایک شخص کو خواہ نیک ہو یا بد اس کے اعمال کا خواہ نیکیاں ہوں یا برائیاں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ سب کاموں کو خوب جانتا ہے۔
آیت ٧٠ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ” اور پورا پورا دے دیا جائے گا ہر جان کو جو کچھ کہ اس نے عمل کیا ہوگا ‘ اور اللہ خوب جانتا ہے جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں۔ “- اس موضوع سے متعلق قرآن کے مختلف مقامات پر جو اشارے ملتے ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میدانِ حشر اسی زمین پر ہوگا۔ اس کے لیے زمین کو کھینچ کر پھیلا دیا جائے گا ‘ جیسا کہ سورة الانشقاق کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے : وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ۔ پھر اسے بالکل ہموار اور چٹیل میدان کی شکل دے دی جائے گی ‘ اس طرح کہ : لَا تَرٰی فِیْہَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا (طٰہٰ ) ” تم نہیں دیکھو گے اس میں کوئی ٹیڑھ اور نہ کوئی ٹیلا “۔ پھر یہیں پر اللہ تعالیٰ کا نزول ہوگا اور یہیں پر فرشتے اتریں گے : وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا (الفجر) اور یہیں پر حساب کتاب ہوگا۔ گویا قصہ زمین برسرزمین چکایا جائے گا۔- فیصلوں کے بعد اہل جنت کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور اہل ِجہنم کو جہنم کی طرف۔ یہ میدانِ حشر کا آخری منظر ہوگا جس کا نقشہ اگلے رکوع میں بڑے ُ پر جلال انداز میں کھینچا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ قرآن کا خاص مقام ہے۔