Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مصائب گناہوں کا کفارہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا کہ اہل کتاب اور مسلمان میں چرچہ ہونے لگا اہل کتاب تو یہ کہ کر اپنی فضلیت جتا رہے تھے کہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے کے ہیں اور ہماری کتاب بھی تمہاری کتاب سے پہلے کی ہے اور مسلمان کہہ رہے تھے کہ ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب تمام اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اس پر یہ آیتیں اتریں اور مسلمانوں کی سابقہ دین والوں پر فضلیت بیان ہوئی ، مجاہد سے مروی ہے کہ عرب نے کہا نہ تو ہم مرنے کے بعد جئیں گے نہ ہمیں عذاب ہو گا یہودیوں نے کہا صرف ہم ہی جنتی ہیں ، یہی قول نصرانیوں کا بھی تھا اور کہتے تھے آگ ہمیں صرف چند دن ستائے گی ، آیت کا مضمون یہ ہے کہ صرف اظہار کرنے اور دعویٰ کرنے سے صداقت و حقانیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ایماندار وہ ہے جس کا دل صاف ہو اور عمل شاہد ہوں اور اللہ تعالیٰ کی دلیل اس کے ہاتھوں میں ہو ، تمہاری خواہشیں اور زبانی دعوے کوئی وقعت نہیں رکھتے نہ اہل کتاب کی تمنائیں اور بلند باتیں ، نجات کا مدار ہیں بلکہ وقار و نجات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی فرماں برداری اور رسولوں کی تابعداری میں ہے ، برائی کرنے والے کسی نسبت کی وجہ سے اس برائی کے خمیازے سے چھوٹ جائیں ناممکن ہے بلکہ رتی رتی بھلائی اور برائی قیامت کے دن اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیں گے ، یہ آیت صحابہ پر بہت گراں گذری تھی اور حضرت صدیق نے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اب نجات کیسے ہو گی؟ جبکہ ایک ایک عمل کا بدلہ ضروری ہے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے بخشے ابو بکر یہ سزا وہی ہے جو کبھی تیری بیماری کی صورت میں ہوتی ہے کبھی تکلیف کی صورت میں کبھی صدمے اور غم و رنج کی صورت میں اور کبھی بلا و مصیبت کی شکل میں ( مسند احمد ) اور روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر برائی کرنے والا دنیا میں بدلہ پالے گا ۔ ابن مردویہ میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنے غلام سے فرمایا دیکھو جس جگہ حضرت عبداللہ بن زبیر کو سولی دی گئی ہے وہاں تم نہ چلنا ، غلام بھول گیا ، اب حضرت عبداللہ کی نظر ابن زبیر پر پڑی تو فرمانے لگے واللہ جہاں تک میری معلومات ہیں میری گواہی ہے کہ تو روزے دار اور نمازی اور رشتے ناتے جوڑے والا تھا مجھے اللہ سے امید ہے کہ جو لغزشیں تجھ سے ہوگئیں ان کا بدلہ دنیا میں ہی مکمل ہو اب تجھے اللہ کوئی عذاب نہیں دے گا پھر حضرت مجاہد کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے میں نے حضرت ابو بکر سے سنا ہے وہ فرماتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا جو شخص برائی کرتا ہے اس کا بدلہ دنیا میں ہی پالیتا ہے ، دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عمر نے حضرت ابن زبیر کو سولی پر دیکھ کر فرمایا اے ابو حبیب اللہ تجھ پر رحم کرے میں نے تیرے والد کی زبان سے یہ حدیث سنی ہے ، ابن مردویہ غم ناک ہوگئے انہیں یہ معلوم ہونے لگا کہ گویا ہر ہر عمل کا بدلہ ہی ملنا جب ٹھہرا تو نجات مشکل ہو جائے گی آپ نے فرمایا سنو صدیق تم اور تمہارے ساتھی یعنی مومن تو دنیا میں ہی بدلہ دے دئیے جاؤ گے اور ان مصیبتوں کے باعث تمہارے گناہ معاف ہو جائیں گے قیامت کے دن پاک صاف اٹھو گے ہاں اور لوگ کی برائیاں جمع ہوتی جاتی ہیں اور قیامت کے دن انہیں سزا دی جائے گی ، یہ حدیث ترمذی نے بھی روایت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کاراوی موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہے اور دوسرا راوی مولی بن سباع مجہول ہے اور بھی بہت سے طریق سے اس روایت کا ماحصل مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے ، حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت سب سے زیادہ ہم پر بھاری پڑتی ہے تو آپ نے فرمایا مومن کا یہ بدلہ وہی ہے جو مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکلیفوں کی صورت میں اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا یہاں تک کہ مومن اپنی نقدی جیب میں رکھ لے پھر ضرورت کے وقت تلاش کرے تھوڑی دیر نہ ملے پھر جیب میں ہاتھ ڈالنے سے نکل آئے تو اتنی دیر میں جو اسے صدمہ ہوا اس سے بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور یہ بھی اس کی برائیوں کا بدلہ ہو جاتا ہے یونہی مصائب دنیا اسے کندن بنا دیتے ہیں کہ قیامت کا کوئی بوجھ اس پر نہیں رہتا جس طرح سونا بھٹی میں تپا کر نکال لیا جائے اس طرں دنیا میں پاک صاف ہو کر اللہ کے پاس جاتا ہے ، ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا مومن کو ہر چیز میں اجر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ موت کی سختی کا بھی ، مسند احمد میں ہے جب بندے کے گناہ زیادہ ہو جاتے ہیں اور انہیں دور کرنے والے بکثرت نیک اعمال ہوتے ہیں تو اللہ اس پر کوئی غم ڈال دیتا ہے جس سے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، سعید بن منصور لائے ہیں کہ جب صحابہ پر اس آیت کا مضمون گراں گذرا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو اور ملے جلے رہو مسلمان کی ہر تکلیف اس کے گناہ کا کفارہ ہے یہاں تک کہ کانٹے کا لگنا بھی اس سے کم تکلیف بھی روایت میں ہے کہ جب صحابہ رو رہے تھے اور رنج میں تھے اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا ، ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہماری ان بیماریوں میں ہمیں کیا ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں اسے سن کر حضرت کعب بن عجزہ نے دعا مانگی کہ یا اللہ مرتے دم تک مجھ سے بخار جدا نہ ہو لیکن حج وعمرہ جہاد اور نماز با جماعت سے محروم نہ ہوں ان کی یہ دعا قبول ہوئی جب ان کے جسم پر ہاتھ لگایا جاتا تو بخار چڑھا رہتا ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( مسند ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا کہ کیا ہر برائی کا بدلہ دیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، اسی جیسا اور اسی جتنا لیکن ہر بھلائی کا بدلہ دس گنا کرکے دیا جائیگا پس اس پر افسوس ہے جس کی اکائیاں دہائیوں سے بڑھ جائیں ، ( ابن مردویہ ) حضرت حسن فرماتے ہیں اس سے مراد کافر ہیں جیسے اور آیت میں ہے ( وَهَلْ نُجٰزِيْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ ) 24 ۔ سبأ:17 ) ابن عباس اور سعید بن جبیر فرماتے ہیں یہاں برائی سے مراد شرک ہے ۔ یہ شخص اللہ کے سوا اپنا کوئی ولی اور مددگار نہ پائے گا ، ہاں یہ اور بات ہے کہ توبہ کر لے ، امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک بات یہی ہے کہ ہر برائی کو یہ آیت شامل ہے جیسے کہ احادیث گذر چکیں واللہ اعلم ۔ بدعملیوں کی سزا کا ذکر کرکے اب نیک اعمال کی جزا کا بیان فرما رہا ہے بدی کی سزا یا تو دنیا میں ہی ہو جاتی ہے اور بندے کے لئے یہی اچھا یا آخرت میں ہوتی ہے اللہ اس سے محفوظ رکھے ، ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دونوں جہان کی عافیت عطا فرمائے اور مہربانی اور درگذر کرے اور اپنی پکڑ اور ناراضگی سے بچالے ، اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور اپنے احسان و کرم و رحم سے انہیں قبول کرتا ہے کسی مرد عورت کے کسی نیک عمل کو وہ ضائع نہیں کرتا ہاں یہ شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو ، ان نیک لوگوں کو وہ اپنی جنت میں داخل کرے گا اور ان کی حسنات میں کوئی کمی نہیں آنے دے گا ، فتیل کہتے ہیں اس گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے اس کو مگر یہ دونوں تو کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور قطمیر کہتے ہیں اس بیج کے اوپر کے لفافے کو اور یہ تینوں لفظ اس موقعہ پر قرآن میں آئے ہیں ۔ پھر فرمایا اس سے اچھے دین والا کون ہے؟ جو نیک نیتی کے ساتھ اس کے فرمان کے مطابق اس کے احکام بجا لائے اور ہو بھی وہ محسن یعنی شریعت کا پابند دین حق اور ہدایت پر چلنے والا رسول کی حدیث پر عمل کرنے والا ہر نیک عمل کی قبولیت کے لئے یہ دونوں باتیں شرط ہیں یعنی خلوص اور وحی کے مطابق ہونا ، خلوص سے یہ مطلب کہ فقط اللہ کی رضامندی مطلوب ہو اور ٹھیک ہونا یہ ہے کہ شرعیت کی ماتحتی میں ہو ، پس ظاہر تو قرآن حدیث کے موافق ہونے سے ٹھیک ہو جاتا ہے اور باطن نیک نیتی سے سنور جاتا ہے ، اگر ان دو باتوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل فاسد ہوتا ہے ، اخلاص نہ ہونے سے منافقت آجاتی ہے لوگوں کی رضا جوئی اور انہیں کھانا مقصود ہو جاتا ہے اور عمل قابل قبول نہیں رہتا سنت کے موافق نہ ہونے سے ضلالت وجہالت کا مجموعہ ہو جاتا ہے اور اس سے بھی عمل پایہ قبولیت سے گر جاتا ہے اور چونکہ مومن کا عمل ریاکاری اور شرعیت کے مخالفت سے بچا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس کا عمل سب سے اچھا عمل ہو جاتا ہے جو اللہ کو پسند آتا ہے اور اس کی جزا کا بلکہ اور گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے ۔ اعزاز خلیل کیوں اور کیسے ملا ؟ اسی لئے اس کے بعد ہی فرمایا ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کرو یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے قدم بہ قدم چلنے والوں کی بھی قیامت تک ہوں ، جیسے اور آیت میں ہے ( آیت ان اولی الناس بابراھیم الخ ، ) یعنی ابراہیم علیہ السلام سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہے اور نبی ہوئے ۔ دوسری آیت میں فرمایا ( ثُمَّ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ) 16 ۔ النحل:123 ) پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرک نہ تھے ، حنیف کہتے ہیں قصداً شرک سے بیزار اور پوری طرح حق کی طرف متوجہ ہونے والا جسے کوئی روکنے والا روک نہ سکے اور کوئی ہٹانے والا ہٹا نہ سکے ۔ پھر حضرت خلیل اللہ کی اتباع کی تاکید اور ترغیب کے لئے ان کا وصف بیان کیا کہ وہ اللہ کے دوست ہیں ، یعنی بندہ ترقی کرکے جس اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک پہنچ سکتا ہے اس تک وہ پہنچ گئے خلت کے درجے سے کوئی بڑا درجہ نہیں محبت کا یہ اعلیٰ تر مقام ہے اور یہاں تک حضرت ابراہیم عروج کر گئے ہیں اس کی وجہ کی کامل اطاعت ہے جیسے فرمان ہے ( وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّيٰٓ ) 53 ۔ النجم:37 ) یعنی ابراہیم کو جو حکم ملا وہ اسے بخوشی بجالائے ، کبھی اللہ کی مرضی سے منہ نہ موڑا ، کبھی عبادت سے نہ اکتائے کوئی چیز انہیں عبادت الہیہ سے مانع نہ ہوئی اور آیت میں ہے ( وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّهُنَّ ۭ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۭ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:124 ) جب جب جس جس طرح اللہ عزاسمہ نے ان کی آزمائش لی وہ پورے اترے جو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہوں نے کر دکھایا ۔ فرمان ہے کہ ابراہیم مکمل یکسوئی سے توحید کے رنگ میں شرک سے بچتا ہوا ہمارا تابع فرمان بنا رہا ۔ حضرت معاذ نے یمن میں صبح کی نماز میں جب یہ آیت پڑھی تو ایک شخص نے کہا لقدقررت عین ام ابراہیم ابراہیم کی ماں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیل اللہ لقب کی یہ وجہ ہوئی کہ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر آپ اپنے ایک دوست کے پاس مصر میں یا موصل میں گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج غلہ لے آئیں یہاں کچھ نہ ملا خالی ہاتھ لوٹے جب اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا آؤ اس ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلو تاکہ گھر والوں کو قدرے تسکین ہو جائے چنانچہ بھر لیں اور جانوروں پر لاد کے لے چلے ، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گئی آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ رہے تھکے ہارے تو تھے ہی آنکھ لگ گئی گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھرا ہوا پایا آٹا گوندھا روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا ؟ جو تم نے روٹیاں پکائیں انہوں نے کہا آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا ہاں یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں پس اللہ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور خلیل اللہ نام رکھ دیا ، لیکن اس کی صحت اور اس واقعہ میں ذرا تامل ہے ، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی روایت ہو جسے ہم سچا نہیں کہہ سکتے گو جھٹلا بھی نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ آپ کو یہ لقب اس لئے ملا کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت حد درجہ کی تھی کامل اطاعت شعاری اور فرمانبرداری تھی اپنی عبادتوں سے اللہ تعالیٰ کو خوش کر لیا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا ، لوگو اگر میں زمین والوں میں سے کسی کو خلیل اور ولی دوست بنانے والا ہوتا تو ابو بکر بن ابو قحافہ کو بناتا بلکہ تمہارے ساتھی اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں ، ( بخاری مسلم ) اور روایت میں ہے اللہ اعلیٰ واکرم نے جس طرح ابراہیم کو خلیل بنا لیا تھا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل کر لیا ہے ، ایک مرتبہ اصحاب رسول آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے آپس میں ذکر تذکرے کر رہے تھے ایک کہہ رہا تھا تعجب ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا دوسرے نے کہا اس سے بھی بڑھ کر مہربانی یہ کہ حضرت موسیٰ سے خود باتیں کیں اور انہیں کلیم بنایا ، ایک نے کہا اور عیسیٰ تو روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہے ، ایک نے کہا آدم صفی اللہ اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر تشریف لائے سلام کیا اور یہ باتیں سنیں تو فرمایا بیشک تمہارا قول صحیح ہے ، ابراہیم خلیل اللہ ہیں اور موسیٰ کلیم اللہ ہیں اور عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں اور آدم صفی اللہ ہیں اور اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، مگر میں حقیقت بیان کرتا ہوں کچھ فخر کے طور پر نہیں کہتا کہ میں حبیب اللہ ہو ، میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا جانے والا ہوں اور سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دینے والا ہوں اللہ میرے لئے جنت کو کھول دے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ مومن فقراء ہوں گے قیامت کے دن تمام اگلوں پچھلوں سے زیادہ اکرام و عزت والا ہوں یہ بطور فخر کے نہیں بلکہ بطور سچائی کو معلوم کرانے کیلئے میں تم سے کہہ رہا ہوں ، یہ حدیث اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض کے شاہد موجود ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کیا تم اس سے تعجب کرتے ہو کہ خلت صرف حضرت ابراہیم کے لئے تھی اور کلام حضرت موسیٰ کے لئے تھا اور دیدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین ( مستدرک حاکم ) اسی طرح کی روایت حضرت انس بن مالک اور بہت سے صحابہ تابعین اور سلف وخلف سے مروی ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ مہانوں کیساتھ کھائیں ۔ ایک دن آپ مہمان کی جستجو میں نکلے لیکن کوئی نہ ملا واپس آئے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے پوچھااے اللہ کے بندے تجھے میرے گھر میں آنے کی اجازت کس نے دی؟ اس نے کہا اس مکان کے حقیقی مالک نے ، پوچھا تم کون ہو؟ کہا میں ملک الموت ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں اسے یہ بشارت سنا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا خلیل بنا لیا ہے ، یہ سن کر حضرت نے کہا پھر تو مجھے ضرور بتائیے کہ وہ بزرگ کون ہیں؟ اللہ عزوجل کی قسم اگر وہ زمین کے کسی دور کے گوشے میں بھی ہوں گے میں ضرور جاکر ان سے ملاقات کروں گا پھر اپنی باقی زندگی ان کے قدموں میں ہی گزاروں گا یہ سن کر حضرت ملک الموت نے کہ وہ شخص خود آپ ہیں ۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کیا سچ مچ میں ہی ہوں؟ فرشتے نے کہا ہاں آپ ہی ہیں ۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ آپ مجھے یہ بھی بتائیں گے کہ کس بنا پر کن کاموں پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ؟ فرشتے نے فرمایا اس لئے کہ تم ہر ایک کو دیتے رہتے ہو اور خود کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے اور روایت میں ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خلیل اللہ کے ممتاز اور مبارک لقب سے اللہ نے ملقب کیا تب سے تو ان کے دل میں اس قدر خوف رب اور ہیبت رب سما گئی کہ ان کے دل کا اچھلنا دور سے اس طرح سنا جاتا تھا جس طرح فضا میں پرند کے پرواز کی آواز ۔ صحیح حدیث میں جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی وارد ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آپ پر غالب آجاتا تھا تو آپ کے رونے کی آواز جسے آپ ضبط کرتے جاتے تھے اس طرح دور و نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی جیسے کسی ہنڈیا کے کھولنے کی آواز ہو ۔ پھر فرمایا کہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت میں اور اس کی غلامی میں اور اسی کا پیدا کیا ہوا ہے ۔ جس طرح جب جو تصرف ان میں وہ کرنا چاہتا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے بلامشورہ غیرے اور بغیر کسی کی شراکت اور مدد کے کر گذرتا ہے کوئی نہیں جو اس کے ارادے سے اسے باز رکھ سکے کوئی نہیں جو اس کے حکم میں حائل ہو سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی کو بدل سکے وہ عظمتوں اور قدرتوں والا وہ عدل وحکمت والا وہ لطف و رحم والا واحد وصمد اللہ ہے ۔ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، مخفی سے مخفی اور چھوٹی سے چھوٹی اور دور سے دور والی چیز بھی اس پر پوشیدہ نہیں ، ہماری نگاہوں سے جو پوشیدہ نہیں ، ہماری نگاہوں سے جو پوشیدہ ہیں اس کے علم میں سب ظاہر ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٣] سستی نجات کا عقیدہ :۔ شیطان جن راہوں سے انسان کو گمراہ کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر سستی نجات کا عقیدہ ہے۔ تو اس میدان میں مسلمان یہود و نصاریٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہی ہوں گے جنہوں نے پیروں کی سفارش کے علاوہ اس دنیا میں بھی بہشتی دروازے بنا رکھے ہیں کہ جو شخص اس دروازے سے اس پیر کے عرس کے دن گزر گیا وہ بہشتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خرافات کی تردید کرتے ہوئے نجات کی صحیح راہ بیان فرمائی اور وہ راہ اللہ تعالیٰ کا قانون جزا و سزا ہے۔ یہ قانون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس قانون کی قابل ذکر دفعات یہ ہیں :- (١) قانون جزاء وسزاء کی دفعات :۔ ہر انسان کو صرف وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، برے عمل کا بدلہ برا ہوگا اور اچھے عمل کا اچھا۔ (٢) جزا و سزا کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں (٣) اگر کسی نے چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی کی ہوگی تو بھی اس کا اسے ضرور بدلہ ملے گا اللہ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی نظر انداز نہیں فرمائے گا۔ کسی کی ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔ (٤) قیامت کے دن کوئی بھی شخص خواہ وہ اس کا پیر ہو یا کوئی قریبی رشتہ دار ہو دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (٥) یہ ناممکن ہے کہ زید کے گناہ کا بار بکر کے سر ڈال دیا جائے (٦) شفاعت کے مستحق صرف گناہگار موحدین ہوں گے وہ بھی ان شرائط کے ساتھ کہ اللہ جس کے حق میں خود سفارش چاہے گا اسی کے حق میں کی جاسکے گی اور جس شخص کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا صرف وہی سفارش کرسکے گا۔ اس قانون کے علاوہ نجات کی جتنی راہیں انسان نے سوچ رکھی ہیں، وہ سب شیطان کی بتلائی ہوئی راہیں ہیں۔ ان کا کچھ فائدہ نہ ہوگا البتہ یہ نقصان ضرور ہوگا کہ انسان ایسی امیدوں کے سہارے دنیا میں گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوجاتا ہے۔- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ قیامت کے دن لوگوں کے ایسے من گھڑت سہارے کسی کام نہ آسکیں گے جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ ۔۔ : اہل کتاب کا خیال تھا کہ ہم خاص بندے ہیں، جن گناہوں پر لوگ پکڑے جائیں گے ہم نہیں پکڑے جائیں گے، ہمارے پیغمبر ہماری حمایت کریں گے، ہم صرف چند دن جہنم میں رہیں گے۔ ( دیکھیے البقرۃ : ٨٠) جنت میں صرف ہم جائیں گے۔ ( البقرۃ : ١١١) آج کل کچھ نادان مسلمان بھی اپنے حق میں یہ خیال رکھتے ہیں، سو اللہ نے فرمایا کہ برا جو کرے گا، کوئی ہو، سزا پائے گا، کسی کی حمایت کام نہیں آئے گی۔ اللہ کا پکڑا وہی چھوڑے تو چھوٹے۔ دنیا کی مصیبت پر آدمی قیاس کرلے۔ - مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِهٖ ۙ ۔۔ : خوش فہمیاں اور خام خیالیاں سزا کو دفع نہیں کرسکتیں، سزا ضرور ملے گی، خواہ دنیا میں ملے یا آخرت میں، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کی وجہ سے، یا کسی نیک عمل کی وجہ سے، یا دنیا میں آنے والی مصیبتوں کی وجہ سے، معاف فرما دے۔ خلاصہ یہ کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہاں اسے کوئی اپنے زور سے چھڑوا لے گا : ( وَلَا يَجِدْ لَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا ) ” اور وہ اللہ کے سوا اپنے لیے نہ کوئی دوست پائے گا اور نہ کوئی مدد گار “ ہاں، اللہ تعالیٰ خود ہی دنیا کی تکلیفوں کو اس کے لیے کفارہ بنا دے، یا اس کے توحید و سنت پر گامزن ہونے کی وجہ سے اس سے درگزر کر دے تو وہ مالک و مختار ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ایک مفاخرانہ گفتگو :- لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب الخ ان آیات میں پہلے ایک مکالمہ اور گفتگو کا ذکر ہے جو مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان ہوئی ہے اور پھر اس مکالمہ پر محاکمہ کیا گیا ہے، فریقین کو صحیح راہ ہدایت بتلائی گئی، آخر میں اللہ کے نزدیک مقبول اور افضل و اعلی ہونے کا ایک معیار بتلا دیا گیا جس کو سامنے رکھا جائے تو کبھی انسان غلطی اور گمراہی کا شکار نہ ہو۔ - حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کچھ مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان مفاخرت کی گفتگو ہونے لگی، اہل کتاب نے کہا کہ ہم تم سے افضل و اشرف ہیں، کیونکہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے، مسلمانوں نے کہا کہ ہم تم سب سے افضل ہیں، اس لئے کہ ہمارے نبی خاتم النبین ہیں اور ہماری کتاب آخری کتاب ہے جس نے پہلی سب کتابوں کو منسوخ کردیا ہے اس پر یہاں یہ آیت نازل ہوئی : لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب الخ یعنی یہ تفاخر اور تعلق کسی کے لئے زیبا نہیں اور محض خیالات اور تمناؤں اور دعوؤں سے کوئی کسی پر افضل نہیں ہوتا، بلکہ مدار اعمال پر ہے کسی کا نبی اور کتاب کتنی ہی افضل و اشرف ہو اگر وہ عمل غلط کرے گا تو اس کی ایسی سزا پائے گا کہ اس سے بچانے والا اس کو کوئی نہ ملے گا۔- یہ آیت جب نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر بہت شاق ہوئی، امام مسلم، ترمذی، نسائی اور امام احمد رحمہم اللہ نے حضرت ابوہریرہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی من تعمل سوء ا یجزبہ ” یعنی جو کوئی کچھ برائی کرے گا اس کی سزا دی جائے گی۔ “ تو ہم سخت رنج و غم اور فکر میں پڑگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اس آیت نے تو کچھ چھوڑا ہی نہیں، ذرا سی برائی بھی ہوگی تو اس کو جزا ملے گی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فکر میں نہ پڑو اپنی طاقت وقدرت کے مطابق عمل کرتے رہو، کیونکہ (جس سزا کا یہاں ذکر ہے ضروری نہیں کہ وہ جہنم ہی کی سزا ہو بلکہ) تمہیں دنیا میں جو بھی کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آتی ہے یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ اور برائی کی جزا ہوتی ہے، یہاں تک کہ اگر کسی کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو وہ بھی کفارہ گناہ ہے۔- اور ایک روایت میں ہے کہ مسلمان کو دنیا میں جو بھی کوئی غم یا تکلیف یا بیماری یا فکر لاحق ہوتی ہے وہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے۔- جامع ترمذی اور تفسیر ابن جریر وغیرہ نے حضرت صدیق اکبر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت من یعمل سوء یجزبہ ان کو سنائی تو ان پر یہ اثر یہ ہوا جیسے کمر ٹوٹ گئی ہو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اثر یکھ کر فرمایا کیا بات ہے ؟ تو صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے کوئی برائی نہیں کی اور جب ہر برائی کی جزا ملنی ہے تو ہم میں سے کون بچے گا ؟ آپ نے فرمایا اے ابوبکر آپ اور آپ کے مومن بھائی کوئی فکر نہ کریں، کیونکہ دنیا کی تکالیف کے ذریعہ آپ لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیگا۔- ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کیا آپ بیمار نہیں ہوتے ؟ کیا آپ کو کوئی مصیبت اور غم نہیں پہونچتا ؟ صدیق اکبر نے عرض کیا بیشک سب چیزیں پہنچتی ہیں آپ نے فرمایا بس یہی جزاء ہے تمہارے سیات کی۔- اور حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک حدیث میں ہے جس کو ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ بندہ کو بخار یا تکلیف پہونچتی ہے یا کانٹا لگتا ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز ایک جیب میں تلاش کرے مگر دوسری جیب میں ملے، اتنی مشقت بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت نے مسلمانوں کو بھی یہ ہدایت دی ہے کہ محض دعوؤں اور تمناؤں میں نہ لگیں، بلکہ عمل کی فکر کریں کیونکہ کامیابی صرف اس سے نہیں کہ تم فلاں نبی یا فلاں کتاب کے نام لینے والے ہو، بلکہ اصل فلاح اس میں ہے کہ اس پر صحیح ایمان اور اس کے مطابق اعمال صالح کے پابند رہو،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ وَلَآ اَمَانِيِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ۝ ٠ۭ مَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا يُّجْزَ بِہٖ۝ ٠ۙ وَلَا يَجِدْ لَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝ ١٢٣- تَّمَنِّي :- تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] - والأُمْنِيَّةُ- : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ- [ الحج 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ- [ النساء 119] .- ۔ التمنی - کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ - الامنیۃ - کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں - امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٣) اے گروہ مسلمین نہ تمہاری خواہشوں سے کام چلتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد کسی گناہ پر مواخذہ ہوگا اور نہ اہل کتاب کی خواہشوں سے کہ ہم دن میں جو گناہ کرتے ہیں وہ رات کو معاف ہوجاتے ہیں اور رات کو جو گناہ کرتے ہیں وہ دن میں معاف کردیے جاتے ہیں۔- بلکہ مسلمانوں میں سے جو برائی کا کام کرے گا، اسے دنیا میں یا مرنے کے بعد جنت میں داخل ہونے سے پہلے اس کا بدلا دیا جائے گا اور کافر کو آخرت میں دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے یا دوزخ میں داخل ہونے کے بعد اس کا بدلا مل جائے گا اور اسے عذاب الہی سے کوئی یار و مددگار نجات دلانے والا نہیں ملے گا۔- شان نزول : لیس بامانیکم “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت نق کی ہے کہ یہود ونصاری نے کہا جنت میں ہمارے علاوہ اور کوئی نہیں جائے گا اور قریش نے کہا کہ ہم دو بار زندہ نہیں کیے جائیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے بیان حقیقت کے طور پر یہ آیت نازل فرمائی کہ نہ تمہاری آرزوئیں اور نہ اہل کتاب کی آرزوئیں کارگر ہوں گی۔- اور ابن جریر (رح) نے مسروق سے روایت کیا ہے کہ نصاری اور مسلمانوں نے باہم فخر کیا مسلمانوں نے کہا کہ ہم تم سے افضل ہیں اور نصاری نے کہا کہ ہم تم سے افضل ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٣ (لَیْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَلَآ اَمَانِیِّ اَہْلِ الْکِتٰبِ ط) ۔- تنبیہہ آگئی کہ تمہارے اندر بھی بلا جواز اور بےبنیاد خواہشات پیدا ہوجائیں گی۔ یہود و نصاریٰ کی طرح تم لوگ بھی بڑی دل خوش کن آرزوؤں ( ) کے عادی ہوجاؤ گے ‘ شفاعت کی امید پر تم بھی حرام خوریاں کرو گے ‘ اللہ کی نا فرمانیاں جیسی کچھ انہوں نے کی تھیں تم بھی کرو گے۔ لیکن جان لو کہ اللہ کا قانون اٹل ہے ‘ بدلے گا نہیں۔ تمہاری خواہشات سے ‘ تمہاری آرزوؤں سے اور تمہاری تمناؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے اہل کتاب کی خواہشات سے کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ :- (مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا یُّجْزَ بِہٖلا) - اگرچہ اللہ کے ہاں اس قانون میں نرمی کا ایک پہلو موجود ہے ‘ لیکن اپنی جگہ یہ بہت سخت الفاظ ہیں۔ بعض اوقات بدی کی جگہ پر نیکی اس کے منفی اثرات کو دھو دیتی ہے ‘ لیکن اس آیت کی رو سے برائی کا حساب تو ہو کر رہنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان سے جس بدی کا ارتکاب ہوتا ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے ‘ اس کا احتساب ہو کر رہے گا۔ اگر کسی کی نیکی نے اس کی بدی کو چھپا بھی لیا ‘ کسی نے غلطی کی اور پھر صدق دل سے توبہ کرلی تو اس کے سبب اس کی بدی کے اثرات جاتے رہے ‘ لیکن معاملہ ضرور ہوگا۔ توبہ کو دیکھا جائے گا ‘ کہ آیا توبہ واقعتا سچی تھی ؟ توبہ کرنے والا اپنے کیے پر نادم ہوا تھا ؟ واقعی اس نے عادت بد کو چھوڑ دیا تھا ؟ یا صرف زبان سے اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِکی گردان ہو رہی تھی اور ساتھ نافرمانی اور حرام خوری بھی جوں کی توں چل رہی تھی۔ تو احتساب کے کٹہرے میں ہر شخص اور ہر معاملے کو لایا جائے گا اور کھرا کھوٹا دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ پھر جو مجرم پایا گیا ‘ اسے اس کے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani