Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

125۔ 1 یہاں کامیابی کا ایک معیار اور اس کا ایک نمونہ بیان کیا جا رہا ہے۔ معیار یہ ہے کہ اپنے کو اللہ کے سپرد کر دے محسن بن جائے اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرے اور نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا۔ خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہوجائے کہ کسی اور کے لئے اس میں جگہ نہ رہے۔ خلیل (بروزن فعیل) بمعنی فاعل ہے جیسے علیم بمعنی عالم اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے۔ جیسے حبیب بمعنی محبوب اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقینا اللہ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی (علیہ السلام) (فتح القدیر) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، اللہ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا "۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٦٤] دین ابراہیم کی صفات :۔ سیدنا ابراہیم کے دین کی قابل ذکر صفات دو ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے مقابلہ میں انہوں نے تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی۔ تقلید آباء کا انکار کیا، بت پرستی اور نجوم پرستی سے ٹکر لی۔ نمرود کی خدائی کا انکار کیا اور چونکہ انہوں نے اپنے وقت کی تمام طاغوتی طاقتوں سے ٹکر لی اور ان کا مقابلہ کرتے ہوئے صرف ایک اللہ کے دامن میں پناہ لی۔ لہذا وہ حنیف کہلائے اور حنیف کا یہی معنیٰ ہے اور دوسری صفت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے تمام تر احکام کے سامنے برضا ورغبت اپنا سر تسلیم خم کردیا تھا۔ یہ نہیں کیا کہ جو بات آسان یا نفس کو مرغوب تھی اسے تو قبول کرلیا اور جو مشکل یا ناپسند تھی اسے چھوڑ دیا، یا اس کی حسب پسند تاویل کر کے اسی کے مطابق عمل کرلیا۔ یہی دو صفات تھیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کو مختلف تجربوں اور آزمائشوں سے گزارنے کے بعد اپنا دوست بنا لیا تھا - اب جو شخص ملت ابراہیم کی پیروی کا دعویٰ کرتا ہے اسے انہی دو صفات کو کسوٹی بنا کر دیکھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے دعویٰ میں کس حد تک سچا ہے، اس سے غرض نہیں کہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ہو یا مسلمان ہو یا کوئی اور ہو۔ سیدنا ابراہیم کا دین ہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سب دینوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اسی دین کا نام اسلام ہے جو سب انبیاء کا شیوہ رہا ہے۔ اور اس دین کے اہم اجزاء دو ہیں (١) اللہ کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا (٢) اچھے اعمال بجا لانا اور ان دو اجزاء کا مفہوم اس قدر وسیع ہے جس میں پوری کی پوری شریعت سما جاتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل کی قبولیت کے معیار مقرر فرمائے ہیں، پہلا یہ کہ اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کے تابع کر دے۔ دوسرا یہ کہ وہ محسن ہو، تیسرا ملت ابراہیم کی پیروی کرے، جو حنیف تھے۔ چہرہ تابع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے سپرد کر دے، اپنی مرضی ختم کر کے اس کی مرضی پر چلے، یہ ایمان ہے۔ محسن ہونے کا مطلب ہے کہ ہر عمل خالص اللہ کے لیے کرے، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کے بارے میں فرمایا : ( اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ) [ بخاری، الایمان، باب سؤال جبریل النبیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٥٠ ] اور ملت ابراہیم کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پوری طرح فرماں بردار ہوجائے، کیونکہ اب قیامت تک ملت ابراہیم پر قائم صرف امت مسلمہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ) [ آل عمران : ٦٨ ] ” بیشک سب لوگوں سے ابراہیم کے قریب یقیناً وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔ “ اور دیکھیے سورة نحل (١٢٣) اگر ایمان نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں، احسان و خلوص نہیں تو ریا ہے، جو شرک ہے اور نبی کے طریقے پر نہیں تو سنت نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ - 2 خَلِيْلًا : جس کی دوستی دل کے درمیان پہنچ جائے اور اس میں کسی پہلو سے بھی کوئی خامی نہ رہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا۔ “ [ مسلم، المساجد، باب النھی عن بناء المساجد علی القبور۔۔ : ٥٢٨ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ارشاد فرمایا : ومن احسن دیناً ممن اسلم وجھہ للہ وھو محسن و اتبع ملتہ ابراہیم حنیفاً یعنی اس شخص سے بہتر کسی کا طریقہ نہیں ہوسکتا جس میں دو باتیں پائی جائیں، ایک اسلم وجھہ للہ یعنی اپنی ذات کو اللہ کے سپرد کر دے، ریا کاری یا دنیا سازی کے لئے نہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے عمل کرے۔- دوسرے وھومحسن یعنی وہ عمل بھی درست طریقہ پر کرے امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ درست طریقہ پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل محض خود ساختہ طرز پر نہ ہو، بلکہ شریعت مطہر کے بتلائے ہوئے طریقہ پر ہو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم کے مطابق ہو۔ - اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں ایک اخلاص اور دوسرے عمل کا درس یعنی مطابق شریعت و سنت ہونا، ان دو شرطوں میں سے پہلی شرط اخلاق کا تعلق انسان کے باطن یعنی قلب سے ہے اور دوسری شرط یعنی موافقت شرع کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے، جب یہ دونوں شرطیں کسی شخص نے پوری کرلیں تو اس کا ظاہر و باطن درست ہوگیا اور جب ان میں سے کوئی شرط مفقود ہوئی تو عمل فاسد ہوگیا، اخلاص نہ رہا تو عملی منافق ہوگیا اور اتباع شریعت فوت ہوگیا تو گمراہ ہوگیا۔- قوموں کی گمراہی کا سبب اخلاص یا صحت عمل کا فقدان ہے :۔ - قوموں اور مذاہب کی تاریخ پر نظر ڈالتے تو معلوم ہوگا کہ جتنے بےراہ فرقے اور قومیں دنیا میں ہیں کسی میں اخلاص نہیں اور کسی میں عمل صحیح نہیں، یہی دو گروہ ہیں جن کا ذکر سورة فاتحہ میں صراط مستقیم سے ہٹ جانے والوں کے سلسلہ میں مغضوب علیھم اور ضآلین کے لفظوں سے بیان کیا گیا ہے، مغضوب علیھم وہ لوگ ہیں جن میں اخلاص نہیں، اور ضالین وہ جن کا عمل درست نہیں، پہلا گروہ شہوات کا شکار ہے اور دو سرا شبہات کا۔- پہلی شرط، یعنی اخلاص کی ضرورت اور اس کے نہ ہونے کی صورت میں عمل کا بےکا رہنا تو عام طور پر سب سمجھتے ہیں لیکن محسن عملی یعنی اتباع شریعت کی شرط پر بہت سے مسلمان بھی نہیں دھیان دیتے یوں سمجھتے ہیں کہ نیک عمل کو جس طرح چاہو کرلو، حالانکہ قرآن و سنت نے پوری طرح واضح کردیا ہے کہ حسن عمل صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات اور اتباع سنت پر موقوف ہے، اس سے کم کرنا بھی جرم ہے اور اس سے بڑھانا بھی جرم ہے، جس طرح ظہر کی چار کے بجائے تین رکعات پڑھنا جرم ہے، اسی طرح پانچ پڑھنا بھی ویسا ہی جرم و گناہ ہے کسی عبادت میں جو شرط اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لگائی ہو اس میں اپنی طرف سے شرطوں کا اضافہ یا آپ کی بتائی ہوئی ہیبت سے مختلف صورت اختیار کرنا یہ سب ناجائز اور حسن عمل کے خلاف ہے خواہ دیکھنے میں وہ کتنے ہی خوبصورت عمل نظر آئیں، بدعات اور محدثات جن کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمراہی قرار دیا اور ان سے بچنے کی تاکیدی ہدایتیں فرمائیں، وہ سب اسی قسم سے ہیں، جاہل آدمی اس کو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشنودی اور عبادت وثواب جان کر کرتے ہیں، مگر شرع محمدی میں اس کا یہ عمل ضائع بلکہ موجب گناہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم نے بار بار حسن عمل یعنی اتباع سنت کی تاکید فرمائی، سورة ملک میں ہے، لیبلوکم ایکم احسن عملاً یہاں پر احسن عملاً فرمایا اکثر عملاً نہیں فرمایا، یعنی کثرت عمل کا ذکر نہیں، بلکہ اچھا عمل کرنے کا ذکر ہے، اور اچھا عمل وہی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق ہو۔ - قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اسی حسن عمل اور اتباع سنت مصطفوی کو ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے ومن ارادالاخرة وسعی لھا سعیھا یعنی سعی و عمل ان لوگوں کا مقبول ہے جنہوں نے نیت بھی خالص آخرت کی رکھی ہو اور اس کے لئے سعی بھی کر رہے ہوں، اور جو سعی کر رہے ہیں وہ سعی مناسب بھی ہو اور سعی مناسب وہی ہے جو رسل کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول عمل سے امت کو بتلائی، اس سے ہٹ کر خواہ سعی میں کمی کی جائے یا زیادتی، دونوں چیزیں سعی مناسب نہیں ہیں اور سعی مناسب وہی ہے جس کا دوسرا نام حسن عمل ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کسی عمل کے مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں :- اخلاص اور حسن عمل اور حسن عمل نام ہے اتباع سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس لئے اخلاص کے ساتھ حسن عمل کرنے والوں کا یہ بھی فرض ہے کہ عمل کرنے سے پہلے یہ معلوم کریں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عمل کو کس طرح کیا ہے اور اس کے متعلق کیا ہدایتیں دی ہیں، ہمارا جو عمل سنت کے طریقہ سے ہٹے گا نامقبول ہوگا نماز روزہ حج زکوة صدقات و خیرات اور ذکر اللہ اور درد وسلام سب میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عمل کو کس طرح انجام دیا اور کس طرح کرنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے آخر آیت میں اخلاص اور حسن عمل کی ایک مثال حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوة والسلام کی پیش کر کے ان کے اتباع کا حکم دیا گیا اور واتخذاللہ ابراہیم خلیلاً فرما کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ حضرت خلیل کے اس مقام بلند کا سبب یہی ہے کہ وہ مخلص بھی اعلی درجے کے تھے اور ان کا عمل بھی باشارت خداوندی صحیح اور درست تھا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلہِ وَھُوَمُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّــۃَ اِبْرٰہِيْمَ حَنِيْفًا۝ ٠ۭ وَاتَّخَذَ اللہُ اِبْرٰہِيْمَ خَلِيْلًا۝ ١٢٥- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- ملل - المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها،- ( م ل ل ) الملۃ - ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ - حنف - الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] - ( ح ن ف ) الحنف - کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- خلیل - : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) - والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، - الخلت - دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا مین داخل ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کا معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ( واتبع ملۃ ابراہیم حنیفا و اتحذ اللہ ابراہیم خلیل اور یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی۔ اس ابراہیم کے طریقہ کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا) یہ آیت اس قول باری کی نظیر ہے ( ثم اوحینا الیک ان اتبع ملۃ ابراہیم حنیفا پھر ہم نے تمہیں وحی کی یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو) یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مدت کی جو باتیں ثابت شدہ ہوں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے یہ بات ضروری ہوتی جاتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت وہی ہوجائے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت تھی۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابراہہیم علیہ لسلام کی شریعت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں داخل ہے۔- ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لائی ہوئی شریعت دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت پر اضافے کی صورت ہے۔ اسی بنا پر شریعت ابراہیمی کا اتباع واجب ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں داخل ہے اس لیے جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کا متبع ہوگا وہ ملت ابراہیمی کا بھی متبع کہلائے گا۔ حنیف کے مفہوم کے بارے مییں ایک قول ہے اس کے معنی مستقیم کے ہیں۔ اس لیے جو شخص استقامت کے راستے پر چلے گا وہ حنیفیت پر گامزن متصور ہوگا۔ ٹیڑھے پائوں والے کو تفائول یعنی اچھا شگون لینے کے طور پر احنف کہا جاتا ہے جس طرح ہلاک حیزی کو مفارۃ ( کامیابی) اور سانپ کے ڈسے ہوئے انسان کو سلیم ( محفوظ، بچ جانے والا) کہا جاتا ہے۔ قول باری ( واتحذ اللہ ابراہیم خلیلا) کی تفسیر میں دو اقوال ہیں۔- اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چن لیا تھا اور اپنی سرگوشی کے لیے انہیں مخصوص کرلیا تھا یہ مرتبہ کسی اور کو عطا نہیں ہوا تھا۔ دوم یہ کہ خلیل کا لفظ خلۃ معنی حاجت سے بنا ہے ۔ اللہ کا خلیل وہ ہے جو صرف اس کا محتاج ہے اور اپنی حاجتوں کے لیے صرف اس کی طرف ہی رجوع کرتا ہے۔ اگر لفظ خلیل سے پہلا مفہوم مراد ہو تو یہ کہنا جائز ہوگا حضرت ابراہیم اللہ کے خلیل تھے اور اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خلیل تھا لیکن اگر دوسرا مفہوم مراد ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خلیل قرار دینا جائز نہیں ہوگا البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اللہ کے خلیل تھے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢٥۔ ١٢٦) اور ایسے شخص سے زیادہ مضبوط اور اچھا کس کا دین ہوگا جو اپنے دین اور عمل کو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہو کر کرے گا اور توحید پر کار بند ہو کر قول وعمل میں نیکی کرے گا، تمام مخلوقات اور ہر ہر چیز بشمول غلام اور باندیاں سب اللہ تعالیٰ کی ملک میں داخل ہیں اور وہ تمام آسمانوں و زمین والوں کی ہر ایک بات کا کامل طریقہ پر علم رکھنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٥ (وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ ) - اللہ کی بندگی میں خوبصورتی لا کر ‘ خلوص اور للہیت کے ساتھ ‘ پورے دین کا اتباع کر کے ‘ تفریق بین الدّین سے بچ کر اور کے ذریعے سے اس نے احسان کے درجے تک رسائی حاصل کرلی۔ ِ ّ - (وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ط) اور اس نے پیروی کی دین ابراہیم (علیہ السلام) کی یکسو ہو کر (یا پیروی کی اس ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی ‘ جو یکسو تھا) ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani