Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

140۔ 1 یعنی منع کرنے کے باوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں جہاں آیات الٰہی کا استہزاء کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہوگئے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو جیسے آجکل کے امراء، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے، سخت گناہ ہے (اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ ) 004:140 کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کردینے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٦] یہ حکم مکہ میں سورة انعام کی آیت نمبر ٦٨ میں نازل ہوا تھا جو یہ تھا کہ جو لوگ ہماری آیات میں کج بحثیاں کرتے ہیں آپ ان سے الگ رہیے تاآنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں اور اگر کبھی شیطان آپ کو یہ بات بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو۔ یعنی جو لوگ ایسی مجالس میں بیٹھیں جہاں علانیہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تضحیک اور استہزاء کیا جا رہا ہو یا سرے سے انکار ہی کیا جا رہا ہو اور وہ ایسی باتیں ٹھندے دل سے سن کر وہیں بیٹھے رہیں اور ان کی غیرت ایمانی کو ذرا بھی حرکت نہ ہو تو ان میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر دے، ان کی زبانیں بند کر دے اور اگر دلائل سے انہیں حق بات کا قائل کرسکتا ہو تو ضرور کرے اور اگر یہ دونوں کام نہیں کرسکتا تو کم از کم خود وہاں سے اٹھ کر چلا جائے۔- چناچہ آپ نے فرمایا تم میں سے جو شخص کوئی برا (خلاف شرع) کام ہوتا دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اسے مٹا دے اور اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو زبان سے ہی منع کر دے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں ہی اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب کون النہی عن المنکر من الایمان) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگر دل میں بھی برا نہ جانے تو سمجھ لے کہ اس میں رائی برابر بھی ایمان نہیں۔- واضح رہے کہ سورة انعام مکہ میں نازل ہوئی تھی اور مکہ میں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے کفار مکہ تھے اور یہ سورة نساء مدینہ میں نازل ہوئی، یہاں اللہ کی آیات کا تمسخر اڑانے والے یہود مدینہ اور منافقین تھے گویا اللہ کے رسولوں، اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا ہر طرح کے کافروں کا پرانا دستور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اس سے پہلے سورة انعام (٦٨) میں یہ حکم نازل ہوچکا تھا، چناچہ فرمایا : ” اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات کے بارے میں (فضول) بحث کرتے ہیں تو ان سے کنارہ کر، یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ بات میں مشغول ہوجائیں اور اگر کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھ۔ “ [ الأنعام : ٦٨ ] حدیث میں ایسی مجلس میں بیٹھنے سے بھی منع کیا گیا ہے جہاں اللہ کے حکم کی صریح نافرمانی ہو، چناچہ فرمایا : ” جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چلتا ہو۔ “ [ أحمد : ١؍٢٦، ح : ١٢٦، و حسنہ الألبانی فی غایۃ المرام ] ایسے واضح احکام کے باوجود منافقین کی یہ روش تھی کہ مسلمانوں کی مجلسوں کو چھوڑ کر یہودیوں اور مشرکوں کی مجلسوں میں شریک ہوتے جہاں آیات الٰہی کا مذاق اڑایا جاتا۔ زیر تفسیر آیت میں ان کی اسی روش کی طرف اشارہ ہے، ویسے آیت عام ہے اور ہر ایسی مجلس میں شرکت حرام ہے جہاں قرآن و سنت کا مذاق اڑایا جاتا ہو، چاہے وہ کفار و مشرکین کی مجلس ہو یا اہل بدعت اور فساق و فجار کی۔ جب برائی کو ہاتھ سے بھی نہ روک سکے، نہ زبان سے تو پھر خاموش بیٹھ کر سنتے رہنا اور دل میں برا بھی نہ جاننا تو کمزور ترین ایمان کے بھی منافی ہے، بلکہ فرمایا ” تم بھی اس وقت ان جیسے ہو گے۔ “ اسی لیے شاہ عبد القادر (رض) نے فرمایا : ” جو شخص ایک مجلس میں اپنے دین کے عیب سنے، پھر انھی میں بیٹھے، اگرچہ آپ نہ کہے وہی منافق ہے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آیت قدنزل علیکم فی الکتب الخ۔ میں قرآن مجید کی ایک اور آیت کا جو سورة انعام میں قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں نازل ہوچکی تھی حوالہ دے کر یہ بتلایا گیا ہے کہ ہم نے تو اصلاح انسانی کے لئے پہلے ہی یہ حکم بھیج دیا تھا کہ کفار و فجار کی مجلس میں بھی مت بیٹھو اور تعجب ہے کہ یہ غافل لوگ اس سے بھی آگے بڑھ گئے، کہ ان سے دوستی کرنے لگے، اور ان کو عزت و قوت کا مالک سمجھنے لگے۔- سورة نساء کی متذکرہ آیت اور سورة انعام کی وہ آیت جس کا حوالہ سورة نساء میں دیا گیا ہے دونوں کا مفہوم مشترک یہ ہے کہ اگر کسی مجلس میں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار یا ان پر استہزاء کر رہے ہوں تو جب تک وہ اس بیہودہ شغل میں لگے رہیں، ان کی مجلس میں بیٹھنا اور شرکت کرنا بھی حرام ہے، پھر سورة انعام کی آیت کے الفاظ میں کچھ تعمیم اور مزید تفصیل ہے، کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں :- ” یعنی جب تم دیکھو ان لوگوں کو جو جھگڑتے ہیں ہماری آیتوں میں تو ان سے کنارہ ہے کرو یہاں تک کہ وہ مشغول ہوجائیں کسی اور بات میں اور اگر بھلا دے تم کو شیطان تو مت بیٹھو یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ۔ “- اس میں آیات آلہیہ میں جھگڑا کرنا مذکور ہے جس میں کفر و استہزاء بھی داخل ہے اور آیت کی تحریف معنوی یعنی آیات قرآنی کے ایسے معانی نکالنا جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی تفسیر کے خلاف یا اجماع امت کے خلاف ہوں یہ بھی اسی میں داخل ہیں، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عباس سے بروایت ضحاک منقول ہے کہ اس آیت کے مفہوم میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو قرآن کی تفسیر غلط یا اس میں تحریف کرنے والے یا بدعات نکالنے والے ہیں ان کے الفاظ یہ ہیں : دخل فی ھذہ الایة کل محدیث فی الدین وکل مبتدع الی یوم القیمة (مظہری ص ٣٥٢ ج ٢)- تفسیر بالرائے کرنیوالے کی مجلس میں شرکت جائز نہیں :۔- اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرآن کریم کے درس یا تفسیر میں تفسیر سلف صالحین کا پابند نہیں، بلکہ ان کے خلاف معانی بیان کرتا ہے اس کے درس و تفسیر میں شرکت بنص قرآن ناجائز اور بجائے ثواب کے گناہ ہے، تفسیر بحرمحیط میں ابحیان نے فرمایا کہ ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس بات کا زبان سے کہنا گناہ ہے اس کا کانوں سے بااختیار خود سننا بھی گناہ ہے۔- اور اس پر یہ شعر نقل کیا ہے - ” یعنی اپنے کانوں کو بری بات سننے سے بچاؤ جس طرح زبان کو بری بات کہنے سے بچاتے ہو۔ “- دوسری بات سورة انعام کی آت میں یہ زیادہ ہے کہ اگر کسی وقت بھولے یا بیخبر ی سے کوئی آدمی ایسی مجلس میں شریک ہوگیا، پھر خیال آیا تو اسی وقت اس مجلس سے علیحدہ ہوجانا چاہئے خیال ہوجانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھے۔- سورة نساء اور سورة انعام کی دونوں آیتوں میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب تک وہ لوگ اس بیہودہ گفتگو میں مشغول رہیں، اس وقت تک ان کی مجلس میں بیٹھنا حرام ہے۔- اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب وہ اس گفتگو کو ختم کر کے کوئی اور بات شروع کردیں تو اس وقت ان کے ساتھ مجالست اور شرکت جائز ہے یا نہیں ؟ قرآن کریم نے اس کو صراحت سے بیان نہیں فرمایا، اسی لئے علماء کا اس میں اختلاف ہے، بعض نے فرمایا کہ ممانعت کی علت آیات الہیہ کی توہین اور تحریف تھی جب وہ ختم ہوگئی تو ممانعت بھی ختم ہوگئی، اسی لئے دوسری باتیں شروع ہوجانے کے بعد ان کی مجلس میں بیٹھنا گناہ نہیں، اور بعض نے فرمایا کہ ایسے کفار و فجار اور ظالم لوگوں کی صحبت و مجالست بعد میں بھی درست نہیں، حضرت حسن بصری کا یہی ارشاد ہے، انہوں نے سورة انعام کے اس جملہ سے استدلال فرمایا ہے : فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین یعنی یاد آجانے کے بعد ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھیں، اور ظاہر ہے کہ ظالم اس گفتگو کو ختم کردینے کے بعد بھی ظالم ہی ہے اسی لئے اس کی صحبت و مجالست سے بعد میں بھی احتراز لازم ہے۔ (حصاص)- اور تفسیر مظہری میں قاضی صاحب (رح) نے دنوں میں تطبیق اس طرح فرمائی ہے کہ جب کفر و استہزاء اور تحریف قرآن کی گفتگو بند ہو کر کوئی دوسری بات شروع ہوجائے تو اس وقت بھی ایسے لوگوں کی مجلس میں شرکت بلا ضرورت تو حرام ہے اور اگر کوئی ضرورت شرعی یا طبعی داعی ہو تو جائز ہے۔- بروں کی صحبت سے تنہائی بھلی :۔ - امام ابوبکر حصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس مجلس میں کوئی گناہ ہو رہا ہو تو مسلمان پر نہی عن المنکر کے ضابطہ سے یہ لازم ہے کہ اگر اس کو روکنے کی قدرت ہی تو قوت کے ساتھ روک دے اور یہ قدرت نہیں ہے تو کم از کم اس گناہ سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرے جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ اس مجلس سے اٹھ جائے، یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ چند لوگوں کو اس جرم میں گرفتار کیا وہ شراب پی رہے تھے ان میں سے ایک شخص کے بارے میں ثابت ہوا کہ وہ روزہ رکھے ہوئے ہے، اس نے شراب نہیں پی، لیکن ان کی مجلس میں شریک تھا، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس کو بھی سزا دی کہ وہ ان کی مجلس میں بیٹھا ہوا کیوں تھا۔ (بحرمحیط، صفحہ ٥٧٣ جلد ٣)- تفسیر ابن کثیر میں اس جگہ یہ حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- ” یعنی جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ ایسے دستر خوان یا کھانے کی میز پر بھی نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو۔ “- مذکورہ بحث میں مجلس سے اٹھ جانے کے متعلق جو کہا گیا ہے اس کے لئے یہ شرط ہے کہ شرعی حیثیت سے اس مجلس کے چھوڑ دینے میں کوئی گناہ لازم نہ آتا ہو، مثلاً مسجد میں جماعت کی شرکت ضروری امر ہے، اگر وہاں کوئی خلاف شرع کام ہونے لگے تو جماعت اس کی وجہ سے ترک نہ کرے بلکہ صرف قلبی ناراضگی پر اکتفا کرے، اس طرح کوئی اور ضروری مجلس جس کی ضرورت شریعت سے ثابت ہے، اگر وہاں کچھ لوگ کوئی خلاف شرع کام کرنے لگیں، تو دوسروں کے گناہ کی وجہ سے اس مجلس کو چھوڑ کر خود گناہ کا ارتکاب کرنا معقول اور درست نہیں، اسی لئے حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اگر ہم، لوگوں کے گناہ کی وجہ سے اپنے ضروری کام ترک کردیا کریں، تو ہم فساق و فجار کے لئے سنت و شریعت کے مٹانے کا راستہ ہموار کردیں گے۔- خلاصہ یہ ہوا کہ اہل باطل کے ساتھ مجالست کی چند صورتیں ہیں :- اول ان کے کفریات پر رضا کے ساتھ، یہ کفر ہے، دوم اظہار کفریات کے وقت کراہیت کے ساتھ یہ بلا عذر فسق ہے، سوم کسی ضررت دنیوی کے واسطے مباح ہے، چہارم تبلیغ احکام کے لئے عبادت ہے، پنجم اضطرار اور بےاختیاری کے ساتھ اس میں معذور ہے۔- کفر پر راضی ہونا کفر ہے :۔ آخر آیت میں ارشاد فرمایا : انکم اذا مثلھم یعنی اگر تم ایسی مجلس میں بطیب خاطر شریک رہے جس میں آیات آلہیہ کا انکار یا استہزاءیا تحریف ہو رہی ہو تو تم بھی ان کے گناہ کے شریک ہو کر انہی جیسے ہوگئے، مراد یہ ہے کہ خدانخواستہ تمہارے جذبات و خیالات بھی ایسے ہیں کہ تم ان کے کفریات کو پسند کرتے اور اس پر راضی ہوتے تو حقیقتا تم بھی کافر ہو، کیونکہ کفر کو پسند کرنا بھی کفر ہے، اور اگر یہ بات نہیں تو ان کی مثل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ جس طرح وہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور دین کی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں تم اپنی اس شرکت کے ذریعہ ان کی امداد کر کے معاذ اللہ ان کی مثل ہوگئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَہْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖٓ ۝ ٠ۡۖ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَہَنَّمَ جَمِيْعَۨا۝ ١٤٠ۙ- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- اسْتِهْزَاءُ :- ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ .- ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] .- الا ستھزاء - اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔- قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیً کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- حَتَّى- حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] .- ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع،- وفي كلّ واحد وجهان :- فأحد وجهي النصب : إلى أن .- والثاني : كي .- وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي :- مشیت فدخلت البصرة .- والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي :- «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم - حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔- خوض - الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ- [ التوبة 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ- [ الأنعام 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث :- تفاوضوا .- ( خ و ض ) الخوض - ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔- حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے وقد نزل علیکم فی الکتاب ان اذاسمعتم ایات اللہ یکفربھا و یستھمزا بھافلا تقعدوا معھم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ۔ اللہ اس کتاب میں تمہیں پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ دوسری بات میں نہ لگ جائیں) ۔ آیت میں ان لوگوں کی مجالست اور ہم نشینی کی ممانعت ہے جو کھلم کھلا کفر بکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا استہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے ہوں۔- آیت میں لفظ حتی کے اندر دو معنوں کا احتمال ہے۔ اول یہ کہ یہ کفر بکنے والوں کے ساتھ بیٹھنے کی ممنانعت کی غایت اور انتہا کے معنی دے رہا ہے یعنی جب یہ لوگ کفر بکنا اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا چھوڑ دیں گے تو ممانعت کا حکم بھی ختم ہوجائے گا اور ان کی ہم نشینی جائز ہوجائے گی۔ دوم یہ کہ کفر بکنے والے جب مسلمانوں کو دیکھتے تو کفر بکنا اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ بیٹھا نہ کرو تاکہ وہ اپنے کفر کا اظہار نہ کریں اور کفر میں اور آگے نہ بڑھ جائیں نیز انہیں اللہ کی آیات کے مذاق اڑانے کا موقع بھی ہاتھ نہ آسکے اس لئے کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ تمہاری مجالست کی بنا پر ہوتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ واضح ہے حسن سے مروی ہے کہ آیت اس صورت میں مجالست کی اباحت کی مقتضی تھی جب ایسے لوگ دوسری باتوں میں لگ جائیں یہ اباحت بھی اب قول باری فلاتقعدبعدالذکری مع القوم الظالمین، یاد آجانے کے بعد ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو) کی بنا پر منسوخ ہوچکی ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد مشرکین عرب ہیں ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد منافقین ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد تمام ظالمین ہیں۔- اسلام کا تمسخر اڑانے والوں میں بیٹھے رہو تو تم بھی انہی کی طرح ٹھہرائے جائو گے - قول باری ہے انکم اذا مثلھم، اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں اول یہ کہ عصیان میں تم انہی ہی کی طرح ہو جائو گے اگرچہ تمہارا یہ عصیان کفر کے درجے تک نہیں پہنچے گا دوم یہ کہ اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم ظاہری طور پر گویا ان کے اس حال پر اپنی رضامندی اور پسندیدگی کا اظہا ر کرتے ہو۔ جبکہ کفر اور اللہ کی آیات کے استہزاء پر اپنی رضا مندی اور پسندیدگی کا خاموش اظہار بھی کفر ہے لیکن جو شخص اس حالت سے نفرت کرتے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھے گا وہ کفر میں مبتلا نہیں ہوگا اگرچہ ان کے ساتھ بیٹھے بغیر اس کا گزارہ نہ ہوتا ہو۔ آیت میں اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ منکر کے ارتکاب کی صورت میں اس کے مرتکب پر تنقید کرنا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا واجب ہے۔ اگر کسی شخص کے لئے ایسے شخص کی مجالست ترک کرنا یا اس فکر کو دور کرنا یا اس جگہ سے اٹھ کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو اس کے انکار اور ناپسندیدگی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب تک وہ شخص اس حالت میں رہے اس وقت تک اس سے کراہت کا اظہار کرتا رہے حتی کہ اس کی اس حالت کا خاتمہ ہوجائے اور وہ کسی اور کام میں مصروف ہوجائے۔- ولیمہ، جنازہ وغیرہ میں منکرات سے بیزاری کا اظہار کیا جائے - اگر یہ پوچھا جائے کہ جس شخص کے سامنے کسی منکر کا ارتکاب ہو رہا ہو تو آیا اس پر یہ لازم ہوگا کہ وہ اس جگہ سے اتنی دور چلا جائے جہاں سے وہ نظر نہ آسکے اور نہ ہی اس کی آواز سنائی دے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس رویے کو اپنانے کے حق میں بھی ایک قول ہے بشرطیکہ اس طرح کرنے کی وجہ سے اس پر عائد ہونے والا کوئی حق ترک نہ ہوجائے مثلا کوئی شخص گانے اور عیش و طرب کی باتوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے باجماعت نماز کی ادائیگی کا تارک بن جائے یا جنازے کے ساتھ بین اور ماتم کی بنا پر اس کے ساتھ نہ جائے یا ولیمہ میں لہو و لعب کی بنا پر وہاں جانے سے پرہیز کرے وغیر ہ وغیرہ۔ اگر دور چلے جانے میں یہ صورتیں پیش نہ آئیں تو اس کا منکرات سے دور چلے جانا بہتر ہوگا لیکن اگر دوسری صورت ہو یعنی کسی حق کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو ایسی صورت میں وہ منکر کی طرف دھیان نہیں دے گا بلکہ اس سے روکتے ہوئے اور بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اوپر عائد ہونے والے حق کی ادائیگی کرے گا۔ کچھ لوگوں کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین نیز کفر بکنے والوں اور اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے والوں کی مجالست سے صرف اس لئے منع کیا ہے کہ اس طرح ایسے لوگوں سے اپنے انس کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی مجلس میں ہونے والی باتوں میں ان کے ساتھ شرکت ہوجاتی ہے۔- امام ابوحنیفہ نے اس شخص کے متعلق جو کسی دعوت ولیمہ میں شرکت کر رہا ہو اور وہاں لہو و لعب شروع ہوجائے فرمایا ہے کہ اسے وہاں سے نکل نہیں جانا چاہیے آپ نے مزید فرمایا کہ ایک دفعہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ حسن سے روایت ہے کہ وہ ایک دفعہ ابن سیرین کے ساتھ ایک جنازہ میں گئے وہاں ماتم ہو رہا تھا، ابن سیرین واپس آگئے اور حسن سے جب اس کا ذکر کیا گیا تو حسن نے کہا ” ہم جب کسی باطل چیز کو دیکھ کر اس سے بچنے کے لئے کسی حق بات سے بھی دست بردار ہوجاتے ہیں تو یہ باطل چیز ہمارے دین میں تیزی سے سرایت کر جاتی ہے اس لئے ہم واپس نہیں ہوئے “۔ حسن اس لئے واپس نہیں ہوئے کہ جنازے میں شرکت ایسا حق ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کا حکم بھی ملا ہے اس لئے کسی اور کی طرف سے ایک معصیت کے ارتکاب کی بنا پر اس حق کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح ولیمے میں شرکت کا معاملہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں شرکت کی ترغیب دی ہے اس لئے کسی اور کی طرف سے معصیت کے ارتکاب کی بنا پر اس سے دست بردار ہونا جائز نہیں ہوگا بشرطیکہ شرکت کرنے والا اس معصیت کو ناپسند کرتا ہو۔- بانسری کی آواز پر کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی گئیں - ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے انہیں ابودائود نے انہیں احمدبن عبداللہ العزانی نے انہیں ولید بن مسلم نے انہیں سعید بن عبدالعزیز نے سلیمان بن موسیٰ سے انہوں نے نافع سے کہ حضرت ابن عمر (رض) کو بانسری کی آواز سنائی دی آپ نے اپنی انگلیاں کانوں میں دے دیں اور راستے سے دور ہٹ گئے پھر نافع سے پوچھا کہ اب بانسری کی آواز آرہی ہے۔ نافع نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے کانوں سے انگلیاں ہٹالیں اور فرمایا کہ میں ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جا رہا تھا آپ کو اس طرح بانسری کی آواز آئی آپ نے بھی اس طرح کیا جس طرح میں نے کیا تھا۔ حضرت ابن عمر (رض) کا یہ اقدام بہتر پہلو کو اختیار کرنے کی بنا پر تھا تاکہ بانسری کی آوازکا اثر دل میں نہ گھر کر جائے اور طیبعت اسے سننے کی عادی نہ ہوجائے جس سے اس کی کراہت ہی دل سے نکل جائے، رہ گئی یہ بات کہ اس کی آواز سے پہلو تہی کرنا واجب ہو تو اس میں وجوب کا کوئی حکم نہیں ہے۔ قول باری ہے ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلاً اللہ نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی سبیل نہیں رکھی ہے) حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آخرت میں کوئی سبیل نہیں رکھی ہے۔ سدی سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہرگز کوئی حجت اور دلیل نہیں رکھی ہے یعنی کافروں نے مسلمانوں کو جس طرح قتل کیا تھا اور انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا تھا اس میں وہ ظالم تھے ان کے پاس اس کے حق میں کوئی دلیل اور حجت نہیں تھی۔ - شوہر مرتد ہوجائے تو بیوی کو طلاق واقع ہوجائے گی - ظاہر آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ اگر شوہر مرتد ہوجائے تومیاں بیوی کے درمیان علیحدگی واقع ہوجائے گی اس لئے عقد نکاح کی بنا پر شوہر کو بیوی پر یہ بالادستی حاصل ہوتی ہے کہ وہ اسے اپنے گھر میں روک سکتا ہے اس کی تادیب کرسکتا ہے اور اسے گھر سے نکلنے سے منع کرسکتا ہے اور عورت پر عقد نکاح کے تقاضوں کے مطابق اس کی اطاعت ضروری ہے جس طرح یہ قول باری ہے الرجال قوامون علی النساء مرد عورتوں پر قوام ہیں) ۔ اس لئے ظاہر قول باری ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلاً ۔ اس بات کا متقضی ہے کہ شوہر کے ارتداد کی بنا پر دونوں میں علیحدگی ہوجائے اور اس طرح مرتد شوہر کی مسلم بیوی پر عقد نکاح کی وجہ سے حاصل شدہ بالادستی ختم ہوجائے کیونکہ جب تک عقد نکاح باقی رہے گا اس کے حقوق ثابت رہیں گے اور اس پر مرد کی بالادستی باقی رہے گی۔- اگر یہ کہا جائے کہ قو ل باری میں علی المومنین کے الفاظ میں اس لئے عورتیں اس میں داخل نہیں ہوں گی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تذکیر کے لفظ کا اطلاق مذکر اور مونث دونوں پر ہوتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے ان اصلوۃ کانت علی المومنین کتاباً موقوتاً ۔ بیشک نماز ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے) اس حکم میں مرد اور عورتیں دونوں مراد ہیں۔ اسی طرح یہ آیت ہے یایھا الذین امنوا اتقواللہ) اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو) اسی طرح اور دوسری آیتیں ہیں۔ اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اگر کافر ذمی کی بیوی مسلمان ہوجائے اور شوہر مسلمان نہ ہو تو ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے گی، حربی کے بارے میں بھی یہی استدلال ہے کیونکہ ایسے شوہر کے تحت ایک مسلمان بیوی کا رہنا کبھی بھی جائز نہیں ہوسکتا۔ امام شافعی کے اصحاب اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر کوئی ذمی کسی مسلمان غلام کی خریداری کرے گا تو اس کی یہ خریداری باطل ہوگی کیونکہ خریداری کی وجہ سے ذمی کو مسلمان پر بالادستی حاصل ہوجائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام شافعی کے اصحاب نے جو بات کہی ہے وہ اس طرح نہیں ہے اس لئے کہ خریداری وہ سبیل نہیں ہے جس کی آیت میں نفی کی گئی ہے اس لئے کہ خریداری ملکیت نہیں ہوتی ہے۔ ملکیت خریداری کے بعد پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وقت وہ ذمی اس مسلمان غلام پر سبیل یعنی بالادستی حاصل کرلیتا ہے اس لئے آیت میں خریداری کی نفی نہیں ہے بلکہ سبیل اور بالادستی کی نفی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ خریداری حصول سبیل پر منتج ہوتی ہے اس لئے جس طرح آیت میں سبیل کا انتفاء ہے اسی طرح خریداری کا انتفاء بھی واجب ہے تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ صورت حال اس طرح نہیں کیونکہ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ کافر خریدار کا مسلمان غلام پر غلبہ اور سبیل منتفی ہو لیکن اس سبیل پر منتج ہونے والی خریداری جائز ہو۔- معترض نے آیت ہی سے خریداری کی نفی مراد لی ہے اب اگر وہ خریداری کی نفی کے لئے آیت میں سے کسی اور معنی اور مفہوم کا ضمیمہ لگائے گا تو اس سے اس پر لازم آئے گا کہ اس نے آیت سے ہٹ کر استدلال کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ آیت خریداری کی صحت کو مانع نہیں ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے وہ یہ کہ کافر خریدار خریداری کی صحت کی بنا پر مسلمان غلام پر تسلط اور غلبہ یعنی سبیل کا مستحق قرار نہیں پاتا اس لئے کہ خریدار کو اس غلام سے خدمت لینے کی ممانعت ہوتی ہے اور وہ اس غلام میں صرف اتنا ہی تصرف کرسکتا ہے کہ اسے فروخت کرنے کے ذریعے اپنی ملکیت سے خارج کر دے اس لئے اسے اس پر بالادستی یعنی سبیل حاصل نہیں ہوتی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٠) مسلمانو جس وقت تم مکہ مکرمہ میں تھے تو قرآن کریم میں تمہارے پاس یہ فرمان بھیجا گیا تھا کہ جب تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے ساتھ کفر اور تضحیک سنو تو ان کے پاس مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کے علاوہ دوسری گفتگو نہ شروع کردیں اور اگر بغیر کراہت کے تم ان کے ساتھ بیٹھو گے تو کفر اور دین کا مذاق اڑانے میں تم بھی ان کے ساتھ شریک سمجھے جاؤ گے۔- اللہ تعالیٰ مدینہ منورہ کے منافقین عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو اور کفار مکہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں اور کفار مدینہ منورہ کعب اور اس کے ساتھیوں کو جہنم میں جمع کرے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٠ (وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ ) (اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَاُ بِہَا) (فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ ز ) - یہ سورة الانعام کی آیت ٦٨ کا حوالہ ہے جس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ جب تمہارے سامنے کافر لوگ اللہ کی آیات کا استہزاء کر رہے ہوں ‘ قرآن کا مذاق اڑا رہے ہوں تو تم وہاں بیٹھو نہیں ‘ وہاں سے اٹھ جاؤ۔ یہ مکیّ آیت ہے۔ چونکہ اس وقت مسلمانوں میں اتنا زور نہیں تھا کہ کفار کو ایسی حرکتوں سے زبردستی منع کرسکتے اس لیے ان کو بتایا گیا کہ ایسی محفلوں میں تم لوگ مت بیٹھو۔ اگر کسی محفل میں ایسی کوئی بات ہوجائے تو احتجاجاً وہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ ایسی باتوں سے تمہاری غیرت ایمانی میں بھی کچھ کمی آجائے یا تمہاری ایمانیِ حس کند پڑجائے۔ ہاں جب وہ لوگ دوسری باتوں میں مشغول ہوجائیں تو پھر دوبارہ ان کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل یہاں غیر مسلموں سے تعلق منقطع کرنا مقصود نہیں کیونکہ ان کو تبلیغ کرنے کے لیے ان کے پاس جانا بھی ضروری ہے۔ - (اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ط) - اگر اس حالت میں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہوگے تو پھر تم بھی ان جیسے ہوجاؤ گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :170 یعنی اگر ایک شخص اسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کافروں کی ان صحبتوں میں شریک ہوتا ہے جہاں آیات الہٰی کے خلاف کفر بکا جاتا ہے ، اور ٹھنڈے دل سے ان لوگوں کو خدا اور رسول کا مذاق اڑاتے ہوئے سنتا ہے ، تو اس میں اور ان کافروں میں کوئی فرق نہیں رہتا ۔ ( جس حکم کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ سورہ انعام آیت ٦۸ میں بیان ہوا ہے ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani