Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

146۔ 1 یعنی منافقین میں سے جو ان چار چیزوں کا خلوص دل سے اہتمام کرے گا، وہ جہنم میں جانے کی بجائے جنت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٤] یعنی جن منافقوں نے توبہ کر کے اپنے اعمال درست کرلیے پھر دین اسلام پر مضبوطی سے جم گئے اور اپنی ہمدردیاں اور وفاداریاں صرف اللہ اور اس کے دین کو مضبوط بنانے کے لیے وقف کردیں اور اپنے آپ میں یہ چار اوصاف پیدا کرلیے تو وہ اس اخروی سزا سے بچ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے سابقہ گناہ معاف کر کے انہیں مومنوں کی جماعت میں شامل کر دے گا اور جو مفادات دنیوی یا اخروی مومنوں کو حاصل ہوں گے وہ انہیں بھی حاصل ہوں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا جن منافقین کی اوپر مذمت کی ہے ان کی نجات کے لیے بطور استثنا چار باتیں فرمائیں، ایک یہ کہ اپنے پچھلے رویے پر نادم ہوں، دوسرے یہ کہ آئندہ کے لیے اپنی پوری طرح اصلاح کرلیں، تیسری یہ کہ اللہ کی رسی مضبوط پکڑیں، چوتھا یہ کہ دین کا جو کام کریں خالص اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کریں۔ “ یہ چاروں کام درجہ بدرجہ اور ایک دوسرے کی ترتیب پر قائم ہوں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللہِ وَاَخْلَصُوْا دِيْنَھُمْ لِلہِ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٠ۭ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللہُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا۝ ١٤٦- توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- عصم - العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، والاعْتِصَامُ : التّمسّك بالشیء، قال : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103] - ( ع ص م ) العصم - کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا۔ الاعتصام کسی چیز کو پکڑ کر مظبوطی سے تھام لینا قرآن میں ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً [ آل عمران 103]- خلص - الخالص کالصافي إلّا أنّ الخالص هو ما زال عنه شوبه بعد أن کان فيه، والصّافي قد يقال لما لا شوب فيه،- وقوله تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] ، أي : انفردوا خالصین عن غيرهم .إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] - ( خ ل ص ) الخالص ( خالص )- خالص اور الصافی دونوں مترادف ہیں مگر الصافی کبھی ایسی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں جس میں پہلے ہی سے آمیزش نہ ہو اور خالص اسے کہتے ہیں جس میں پہلے آمیزش ہو مگر اس سے صاف کرلیا گیا ہو ۔ آیت کریمہ : ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے میں خلصوا کے معنی دوسروں سے الگ ہونا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ [ البقرة 139] اور ہم خالص اس کی عبادت کرنے والے ہیں ۔ إِنَّهُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصِينَ [يوسف 24] بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- سوف - سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو :- سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ :- شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر :- إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه .- ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤٦) البتہ جو لوگ نفاق سے سچی توبہ کرلیں اور مکرو فریب کو چھوڑ کر حقوق اللہ کی بجا آوری کریں اور توحید خداوندی پر باطنی طور پر بھی مضبوطی سے قائم ہوجائیں اور توحید کو خالص کرلیں تو وہ باطنی طور پر یا وعدہ خداوندی یا ظاہر و باطن کے اعتبار سے یا جنت میں مومنوں کے ساتھ ہیں، عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو جنت میں کامل ثواب عطا فرمائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

فرمایا :- آیت ١٤٦ (اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا باللّٰہِ ) - اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لیں ‘ ایمان کے ساتھ یکسو ہوجائیں۔ کُوْنُوْ رَبَّانِیِّیْن کے مصداق اللہ والے بن جائیں۔ شیطان سے محبت کی پینگیں نہ بڑھائیں ‘ شیطان کے ایجنٹوں سے دوستیاں نہ کریں ‘ اور اپنے آپ کو دین اسلام کے ساتھ وابستہ کرلیں کہ ہرچہ بادا باد ‘ اب تو ہم اسلام کی اس کشتی پر سوار ہوگئے ہیں ‘ اگر یہ تیرتی ہے تو ہم تیریں گے ‘ اور اگر خدانخواستہ اس کے مقدر میں کوئی حادثہ ہے تو ہم بھی اس حادثے میں شامل ہوں گے۔- (وَاَخْلَصُوْا دِیْنَہُمْ لِلّٰہِ ) - یہ نہ ہو کہ زندگی کے کچھ حصے میں اطاعت اللہ کی ہو رہی ہے ‘ کچھ حصے میں کسی اور کی ہورہی ہے کہ کیا کریں جی یہ معاملہ تو رواج کا ہے ‘ برادری کو چھوڑ تو نہیں سکتے نا معلوم ہوا آپ نے اپنی اطاعت کے علیحدہ علیحدہ حصے کرلیے ہیں اور پھر ان میں انتخاب کرتے ہیں کہ یہ حصّہ تو برادری کی اطاعت میں جائے گا اور یہ حصہ اللہ کی اطاعت کے لیے ہوگا۔ اطاعت جب تک کل کی کل اللہ کے لیے نہ ہو ‘ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہے۔ سورة البقرۃ (آیت ١٩٣) میں ہم نے پڑھا تھا : (وَقٰتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط) یہاں پر دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی سطح پر دین اللہ کے لیے ہوجائے ‘ یعنی اسلامی ریاست قائم ہوجائے ‘ پورا اسلامی نظام قائم ہوجائے ‘ شریعت اسلامی کا نفاذ عمل میں آجائے۔ اور اگر یہ نہیں ہے تو کم از کم ایک شخص انفرادی سطح پر تو اپنی اطاعت اللہ کے لیے خالص کرلے۔ یہ گویا انفرادی توحید عملی ہے۔ - (فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ط وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ) - یعنی ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے ‘ سچی توبہ کرنے کے بعد ان کو معافی مل سکتی ہے۔ ابھی ان کے لیے نہیں آیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :174 اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی وفاداریاں اللہ کے سوا کسی اور سے وابستہ نہ ہوں ، اپنی ساری دلچسپیوں اور محبتوں اور عقیدتوں کو وہ اللہ کے آگے نذر کردے ، کسی چیز کے ساتھ بھی دل کا ایسا لگاؤ باقی نہ رہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اسے قربان نہ کیا جا سکتا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani