عصبہ اور کلالہ کی وضاحت مسائل وراثت حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں سورتوں میں سب سے آخری سورت سورہ برأت اتری ہے اور آیتوں میں سب سے آخری آیت ( یستفتونک ) اتری ہے ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں بیماری کے سبب بیہوش پڑا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے ، آپ نے وضو کیا اور وہی پانی مجھ پر ڈالا ، جس سے مجھے افاقہ ہوا اور میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وارثوں کے لحاظ سے میں کلالہ ہوں ، میری میراث کیسے بٹے گی؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت فرائض نازل فرمائی ( بخاری و مسلم ) اور روایت میں بھی اسی آیت کا اترنا آیا ہے ۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں یعنی کلالہ کے بارے میں ۔ پہلے یہ بیان گذر چکا ہے کہ لفظ کلالہ اکیل سے ماخوذ ہے جو کہ سر کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتا ہے ۔ اکثر علماء نے کہا ہے کہ کلالہ وہ ہے جس میت کے لڑکے پوتے نہ ہوں اور بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جس کے لڑکے نہ ہوں ، جیسے کہا آیت میں ہے آیت ( ولیس لہ ولد ) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جو مشکل مسائل آئے تھے ، ان میں ایک یہ مسئلہ بھی تھا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین چیزوں کی نسبت میری تمنا رہ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں ہماری طرف کوئی ایسا عہد کرتے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کرتے دادا کی میراث ، کلالہ اور سود کے ابو اب اور روایت میں ہے ، آپ فرماتے یہیں کہ کلالہ کے بارے میں میں نے جس قدر سوالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ، اتنے کسی اور مسئلہ میں نہیں کئے یہاں تک کہ آپ نے اپنی انگلی سے میرے سینے میں کچوکا لگا کر فرمایا کہ تجھے گرمیوں کی وہ آیت کافی ہے ، جو سورہ نساء کے آخر میں ہے اور حدیث میں ہے اگر میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید اطمینان کر لیا ہوتا تو وہ میرے لئے سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت موسم گرما میں نازل ہوئی ہو گی واللہ اعلم اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سمجھنے کی طرف رہنمائی کی تھی اور اسی کو مسئلہ کا کافی حل بتایا تھا ، لہذا فاروق اعظم اس کے معنی پوچھنے بھول گئے ، جس پر اظہار افسوس کر رہے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ جناب فاروق نے حضور سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا پس فرمایا کیا اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے خطبے میں فرماتے ہیں جو آیت سورہ نساء کے شروع میں فرائض کے بارے میں ہے ، وہ ولد و والد کے لئے ہے اور دوسری آیت میاں بیوی کے لئے ہے اور ماں زاد بہنوں کے لئے اور جس آیت سے سورہ نساء کو ختم کیا ہے وہ سگے بہن بھائیوں کے بارے میں ہے جو رحمی رشتہ عصبہ میں شمار ہوتا ہے ( ابن جریر ) اس آیت کے معنی ھلک کے معنی ہیں مر گیا ، جیسے فرمان ہے حدیث ( كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ ) 28 ۔ القصص:88 ) یعنی ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے ذات الٰہی کے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا آیت ( كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ 26ښ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ 27ۚ ) 55 ۔ الرحمن:26 ۔ 27 ) یعنی ہر ایک جو اس پر ہے فانی یہ اور تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہے گا جو جلال و اکرام والا ہے ۔ پھر فرمایا اس کا ولد نہ ہو ، اس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ کلالہ کی شرط میں باپ کا نہ ہونا نہیں بلکہ جس کی اولاد نہ ہو وہ کلالہ ہے ، بروایت ابن جریر حضرت عمر بن خطاب سے بھی یہی مروی ہے لیکن صحیح قول جمہور کا ہے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کا نہ ولد ہو ، نہ والد اور اس کی دلیل آیت میں اس کے بعد کے الفاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے جو فرمایا آیت ( وَّلَهٗٓ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ) 4 ۔ النسآء:176 ) یعنی اس کی بہن ہو تو اس کے لئے کل چھوڑے ہوئے ، مال کا آدھوں آدھ ہے اور اگر بہن باپ کے ساتھ ہو تو باپ اسے ورثہ پانے سے روک دیتا ہے اور اسے کچھ بھی اجماعاً نہیں ملتا ، پس ثابت ہوا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد نہ ہو جو نص سے ثابت ہے اور باپ بھی نہ ہو یہ بھی نص سے ثابت ہوتا ہے لیکن قدرے غور کے بعد ، اس لئے کہ بہن کا نصف حصہ باپ کی موجودگی میں ہوتا ہی نہیں بلکہ وہ ورثے سے محروم ہوتی ہے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مسئلہ پوچھا جاتا ہے کہ ایک عورت مر گئی ہے اس کا خاوند ہے اور ایک سگی بہن ہے تو آپ نے فرمایا آدھا بہن کو دے دو اور آدھا خاوند کو جب آپ سے اس کی دلیل پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی صورت میں یہی فیصلہ صادر فرمایا تھا ( احمد ) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابن جریر میں منقول ہے کہ ان دونوں کا فتویٰ صادر فرمایا تھا ( احمد ) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابن جریر میں منقول ہے کہ ان دونوں کا فتویٰ اس میت کے بارے میں جو ایک لڑکی اور ایک بہن چھوڑ جائے ، یہ تھا کہ اس صورت میں بہن محروم رہے گی ، اسے کچھ بھی نہ ملے گا ، اسی لئے کہ قرآن کی اس آیت میں بہن کو آدھا ملنے کی صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ میت کی اولاد نہ ہو اور یہاں اولاد ہے ۔ لیکن جمہور ان کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی آدھا لڑکی کو ملے گا اور بہ سبب فرض اور عصبہ آدھا بہن کو بھی ملے گا ۔ ابراہیم اسود کہتے ہیں ہم میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فیصلہ کیا کہ آدھا لڑکی کا اور آدھا بہن کا ۔ صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لڑکی اور پوتی اور بہن کے بارے میں فتویٰ دیا کہ آدھا لڑکی کو اور آدھا بہن کو پھر فرمایا ذرا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھی ہو آؤ وہ بھی میری موافقت ہی کریں گے ، لیکن جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا اور حضرت ابو موسیٰ کا فیصلہ بھی انہیں سنایا گیا تو آپ نے فرمایا ان سے اتفاق کی صورت میں گمراہ ہو جاؤں گا اور راہ یافتہ لوگوں میں میرا شمار نہیں رہے گا ، سنو میں اس بارے میں وہ فیصلہ کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے آدھا تو بیٹی کو اور چھٹا حصہ پوتی کو تو دو ثلث پورے ہو گئے اور جو باقی بچا وہ بہن کو ۔ ہم پھر واپس آئے اور حضرت ابو موسیٰ کو یہ خبر دی تو آپ نے فرمایا جب تک یہ علامہ تم میں موجود ہیں ، مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو ۔ پھر فرمان ہے کہ یہ اس کا وارث ہو گا اگر اس کی اولاد نہ ہو ، یعنی بھائی اپنی بہن کے کل مال کا وارث ہے جبکہ وہ کلالہ مرے یعنی اس کی اولاد اور باپ نہ ہو ، اس لئے کہ باپ کی موجودگی میں تو بھائی کو ورثے میں سے کچھ بھی نہ ملے گا ۔ ہاں اگر بھائی کے ساتھ ہی اور کوئی مقررہ حصے والا اور وارث ہو جیسے خاوند یا ماں جایا بھائی تو اسے اس کا حصہ دے دیا جائے گا اور باقی کا وارث بھائی ہو گا ۔ صحیح بخاری میں ہے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں فرائض کو ان کے اہل سے ملا دو ، پھر جو باقی بچے وہ اس مرد کا ہے جو سب سے زیادہ قریب ہو ۔ پھر فرماتا ہے اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں مال متروکہ کے دو ثلث ملیں گے ۔ یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا بھی ہے ، یہیں سے ایک جماعت نے دو بیٹیوں کا حکم لیا ہے ۔ جیسے کہ دو سے زیادہ بہنوں کا حکم لڑکیوں کے حکم سے لیا ہے جس آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت ( فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ) 4 ۔ النسآء:11 ) پھر فرماتا ہے اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو ہر مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ، یہی حکم عصبات کا ہے خواہ لڑکے ہوں یا پوتے ہوں یا بھائی ہوں ، جب کہ ان میں مرد و عورت دونوں موجود ہوں ۔ تو جتنا دو عورتوں کو ملے گا اتنا ایک مرد کو ۔ اللہ اپنے فرائض بیان فرما رہا ہے ، اپنی حدیں مقرر کر رہا ہے ، اپنی شریعت واضح کر رہا ہے ۔ تاکہ تم بہک نہ جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کے انجام سے واقف اور ہر مصلحت سے دانا ، بندوں کی بھلائی برائی کا جاننے والا ، مستحق کے استحقاق کو پہچاننے والا ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کہیں سفر میں جا رہے تھے ۔ حذیفہ کی سواری کے دوسرے سوار کے پاس تھا جو یہ آیت اتری پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ کو سنائی اور حضرت حذیفہ نے حضرت فاروق اعظم کو اس کے بعد پھر حضرت عمر نے جب اس کے بارے میں سوال کیا تو کہا واللہ تم بےسمجھ ہو ، اس لئے کہ جیسے مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنائی ویسے ہی میں نے آپ کو سنا دی ، واللہ میں تو اس پر کوئی زیادتی نہیں کر سکتا ، پس حضرت فاروق فرمایا کرتے تھے الٰہی اگرچہ تو نے ظاہر کر دیا ہو مگر مجھ پر تو کھلا نہیں ۔ لیکن یہ روایت منقطع ہے اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ حضرت عمر نے دوبارہ یہ سوال اپنی خلافت کے زمانے میں کیا تھا اور حدیث میں ہے کہ حضرت عمر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ کلالہ کا ورثہ کس طرح تقسیم ہو گا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لیکن چونکہ حضرت کی پوری تشفی نہ ہوئی تھی ، اس لئے اپنی صاحبزادی زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ سے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی میں ہوں تو تم پوچھ لینا ۔ چنانچہ حضرت حفصہ نے ایک روز ایسا ہی موقعہ پا کر دریافت کیا تو آپ نے فرمایا شاید تیرے باپ نے تجھے اس کے پوچھنے کی ہدایت کی ہے میرا خیال ہے کہ وہ اسے معلوم نہ کر سکیں گے ۔ حضرت عمر نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا تو بس میں اب اسے جان ہی نہیں سکتا اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر کے حکم پر جب حضرت حفصہ نے سوال کیا تو آپ نے ایک کنگھے پر یہ آیت لکھوا دی ، پھر فرمایا کیا عمر نے تم سے اس کے پوچھنے کو کہا تھا ؟ میرا خیال ہے کہ وہ اسے ٹھیک ٹھاک نہ کر سکیں گے ۔ کیا انہیں گرمی کی وہ آیت جو سورہ نساء میں ہے کافی نہیں؟ وہ آیت ( وَاِنْ كَانَ رَجُلٌ يُّوْرَثُ كَلٰلَةً ) 4 ۔ النسآء:12 ) ہے پھر جب لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو وہ آیت اتری جو سورہ نساء کے خاتمہ پر ہے اور کنگھی پھینک دی ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر نے صحابہ کو جمع کر کے کنگھے کے ایک ٹکڑے کو لے کر فرمایا میں کلالہ کے بارے میں آج ایسا فیصلہ کر دونگا کہ پردہ نشین عورتوں تک کو معلوم رہے ، اسی وقت گھر میں سے ایک سانپ نکل آیا اور سب لوگ ادھر ادھر ہو گئے ، پس آپ نے فرمایا اگر اللہ عزوجل کا ارادہ اس کام کو پورا کرنے کا ہوتا تو اسے پورا کر لینے دیتا ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ، مستدرک حاکم میں ہے حضرت عمر نے فرمایا کاش میں تین مسئلے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتا تو مجھے سرخ اونٹوں کے لنے سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ۔ ایک تو یہ کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہو گا ؟ دوسرے یہ کہ جو لوگ زکوٰۃ کے ایک تو قائل ہوں لیکن کہیں کہ ہم تجھے ادا نہیں کریں گے ان سے لڑنا حلال ہے یا نہیں؟ تیسرے کلالہ کے بارے میں ایک اور حدیث میں بجائے زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے سودی مسائل کا بیان ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں حضرت عمر کے آخری وقت میں نے آپ سے سنا فرماتے تھے قول وہی ہے جو میں نے کہا ، تو میں نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا یہ کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ وہ ۔ ایک اور روایت میں ہے حضرت فاروق فرماتے ہیں میرے اور حضرت صدیق کے درمیان کلالہ کے بارے میں اختلاف ہوا اور بات وہی تھی جو میں کہتا تھا ۔ حضرت عمر نے سگے بھائیوں اور ماں زاد بھائیوں کو جبکہ وہ جمع ہوں ، ثالث میں شریک کیا تھا اور حضرت ابو بکر اس کے خلاف تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ خلیفتہ المومنین جناب فاروق نے ایک رقعہ پر دادا کے ورثے اور کلالہ کے بارے میں کچھ لکھا پھر استخارہ کیا اور ٹھہرے رہے اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار اگر تیرے علم میں اس میں بہتری ہے تو تو اسے جاری کر دے پھر جب آپ کو زخم لگایا گیا تو آپ نے اس رقعہ کو منگوا کر مٹا دیا اور کسی کو علم نہ ہوا کہ اس میں کیا تحریر تھا پھر خود فرمایا کہ میں نے اس میں دادا کا اور کلالہ کا لکھا تھا اور میں نے استخارہ کیا تھا پھر میرا خیال یہی ہوا کہ تمہیں اسی پر چھوڑ دوں جس پر تم ہو ۔ ابن جریر میں ہے میں اس بارے میں ابو بکر کے خلاف کرتے ہوئے شرماتا ہوں اور ابو بکر کا فرمان تھا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد و والد نہ ہو ۔ اور اسی پر جمہور صحابہ اور تابعین اور ائمہ دین ہیں اور یہی چاروں اماموں اور ساتوں فقہاء کا مذہب ہے اور اسی پر قرآن کریم کی دلالت ہے جیسے کہ باری تعالیٰ عزاسمہ نے اسے واضح کر کے فرمایا اللہ تمہارے لئے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ، واللہ اعلم ۔
176۔ 1 کلالہ کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے۔ جس کا باپ ہو نہ بیٹا یہاں پھر اس کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دی ہے جس کا صرف بیٹا نہ ہو۔ یعنی باپ موجود ہو۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ کلالہ کی پہلی تعریف ہی صحیح ہے کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث ہی نہیں ہوتی۔ باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ بیٹے کے ساتھ جس کا باپ بھی نہ ہو۔ یعنی بیٹے کی نفی تو نص سے ثابت ہے اور باپ کی نفی اشارۃ النص سے ثابت ہوجاتی ہے۔ 176۔ 2 اسی طرح باپ بھی نہ ہو۔ اس لئے باپ بھائی کے قریب ہے، باپ کی موجودگی میں بھائی وارث ہی نہیں ہوتا اگر اس کا کلالہ عورت کا خاوند یا کوئی ماں جایا بھائی ہوگا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مال کا وارث بھائی قرار پائے گا۔ (ابن کثیر) 176۔ 3 یہی حکم دو سے زائد بہنوں کی صورت میں بھی ہوگا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ کلالہ شخص کی دو یا دو سے زائد بہنیں ہوں تو انہیں کل مال کا دو تہائی حصۃ ملے گا 176۔ 4 یعنی کلالہ کے وارث مخلوط (مرد اور عورت دونوں) ہوں تو پھر ایک مرد دو عورت کے برابر کے اصول پر ورثے کی تقسیم ہوگی۔
[٢٣٣] یہ آیت آپ کی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوئی جس وقت سورة نساء مکمل ہوچکی تھی۔ اس میں کلالہ کی میراث کے ایک دوسرے پہلو کا ذکر ہے جس کے متعلق صحابہ کرام نے آپ سے استفسار کیا تھا۔ چونکہ کلالہ کی میراث کا حکم اسی سورة کی آیت نمبر ١٢ میں مذکور ہے اور باقی احکام میراث بھی اسی سورة کی آیت نمبر ١١، ١٢ میں بیان ہوئے ہیں۔ اس لیے اس آیت کو بھی بطور تتمہ اسی سورة کے آخر میں شامل کیا گیا۔ واضح رہے کہ کسی بھی سورة کی آیات میں ربط اور ان کی ترتیب توقیفی ہے۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی الٰہی کی روشنی میں سب آیات کو اپنے مناسب مقام پر رکھا ہے۔- [٢٣٤] کلالہ کی میراث کی تقسیم :۔ اولاد تین قسم کی ہوتی ہیں (١) عینی یا حقیقی یا سگے بہن بھائی جن کے ماں اور باپ ایک ہوں۔ (٢) علاتی یا سوتیلے جن کا باپ تو ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں۔ (٣) اخیافی یا ماں جائے۔ جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ اسی سورة کی آیت نمبر ١٢ میں جو کلالہ کی میراث کے احکام بیان ہوئے تھے وہ اخیافی بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو اس آیت نمبر ١٧٦ میں بیان ہو رہے ہیں یہ حقیقی یا سوتیلے بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلالہ کی میراث کی تقسیم میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ایک یہ کہ اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی بھی موجود ہوں اور سوتیلے بھی تو حقیقی بہن بھائیوں کی موجودگی میں سوتیلے محروم رہیں گے اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر سوتیلوں میں جائیداد تقسیم ہوگی۔ اور دوسرے یہ کہ کلالہ کے بہن بھائیوں میں تقسیم میراث کی بالکل وہی صورت ہوگی جو اولاد کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی اگر صرف ایک بہن ہو تو اس کو آدھا حصہ ملے گا۔ دو ہوں یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور اگر صرف بھائی ہی ہو تو تمام ترکہ کا واحد وارث ہوگا اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو ٢ حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ ملے گا۔- کلالہ اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کی نہ تو اولاد ہو اور نہ ماں باپ، بلکہ آباء کی جانب میں کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو۔ اب کلالہ کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ عورت ہو اور اس کا خاوند بھی موجود نہ ہو یا مرد ہو اور اس کی بیوی بھی نہ ہو۔ اور دوسری یہ کہ میت مرد ہو اور اس کی بیوی موجود ہو۔ یا میت عورت ہو تو اس کا خاوند موجود ہو۔ دوسری صورت میں زوجین بھی وراثت میں مقررہ حصہ کے حقدار ہوں گے۔ مثلاً کلالہ عورت ہے جس کا خاوند موجود ہے اور اس کی ایک بہن بھی زندہ ہے تو آدھا حصہ خاوند کو اور آدھا بہن کو مل جائے گا۔ اور اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو پھر عول کے طریقہ پر کل جائیداد کے چھ کے بجائے سات حصے کر کے تین حصے خاوند کو اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہیں تو حسب قاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین آدھی میراث ان میں تقسیم ہوگی۔- اب سوال یہ ہے کہ اگر پہلی صورت ہو یعنی کلالہ عورت کا خاوند بھی نہ ہو یا مرد کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو تو آدھا تو اس کو مل گیا۔ باقی آدھا کسے ملے گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ آدھا رد کے طور پر بہن کو بھی دیا جاسکتا ہے اور ذوی الارحام (یعنی ایسے رشتہ دار جو ذوی الفروض ہوں اور نہ عصبہ) یعنی دور کے رشتہ داروں مثلاً ماموں، پھوپھی وغیرہ یا ان کی اولاد موجود ہو تو انہیں ملے گا۔ اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا حصہ بیت المال میں بھی جمع کرایا جاسکتا ہے اور ایسے حالات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔- [٢٣٥] یعنی صحابہ کرام کو کلالہ کی میراث کی تقسیم کے بعض پہلوؤں میں جو پریشانی ہوئی تھی اس کا حل اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے لہذا اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام آپ سے کوئی مسئلہ پوچھتے تو آپ از خود اس کا جواب دینے کے بجائے وحی الٰہی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔
ربط آیات :- شروع سورت کے ذرا بعد میراث کے احکام مذکور تھے، پھر وہاں سے تقریباً ایک پارہ کے بعد دوسرے احکام کے ساتھ حکم میراث کی طرف پھر عود ہوا تھا، اب ختم سورت پر پھر عود ہے، اسی کی طرف شاید تین جگہ اس کے متفرق کردینے میں حکمت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے میراث کے باب میں بہت ظلم تھا، پس سورت کے اول میں، وسط میں، آخر میں اس کے ذکر فرمانے سے مخاطبین کا اہتمام بلیغ اس بات میں مفہوم ہوگا جس سے وہ بھی زیادہ اہتمام کریں۔- خلاصہ تفسیر - لوگ آپ سے (میراث کلالہ کے باب میں یعنی جس کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں) حکم دریافت کرتے ہیں آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ تم کو کلالہ کے باب میں حکم دیتا ہے (وہ یہ ہے کہ) اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو (یعنی نہ مذکر نہ مونث اور نہ ماں باپ ہں) اور اس کے ایک (عینی یا علاتی) بہن ہو تو اس (بہن) کو اس کے تمام ترکہ کا نصف ملے گا (یعنی بعد حقوق متقدمہ اور بقیہ نصف اگر کئی عصبہ ہوا اس کو دیا جائے گا ورنہ پھر اسی پر رد ہوجائے گا) اور وہ شخص اس (اپنی بہن) کا وارث (کل ترکہ کا) ہوگا، اگر (وہ بہن مر جائے اور) اس کے اولاد نہ ہو (اور والدین بھی نہ ہوں) اور اگر (ایسی) بہنیں دو (یا زیادہ) ہوں تو ان کو اس کے کل ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے (اور ایک تہائی عصبہ کو وہ بطور رد کے انہی کو مل جائے گا) اور اگر (ایسی میت کے جس کے نہ اولاد ہے نہ والدین خواہ وہ میت مذکر ہو یا مونث) وارث چند (یعنی ایک سے زیادہ ایسے ہی) بھائی بہن ہوں مرد اور عورت تو (ترکہ اس طرح تقسیم ہوگا کہ) ایک مرد کو دو عورتوں کے حصہ کے برابر (یعنی بھائی کو دوہرا بہن کو اکہرا لیکن عینی بھائی سے علاتی بھائی بہن سب ساقط ہوجاتے ہیں اور عینی بہن سے کبھی وہ ساقط ہوجاتے ہیں کبھی حصہ گھٹ جاتا ہے، جس کی تفصیل کتب فرائض میں نہیں اللہ تعالیٰ تم سے (دین کی باتیں) اس لئے بیان کرتے ہیں کہ تم (ناواقفی سے) گمراہی میں نہ پڑو (یہ تو تذکیر احسان ہے) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتے ہیں، (پس احکام کی مصلحتوں سے بھی مطلع ہیں اور احکام میں ان کی رعایت کی جاتی ہے، یہ حکمت کا بیان ہے۔ )- معارف ومسائل - فوائد مہمہ :۔ (١) قولہ تعالیٰ یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلة اس جگہ کلالہ کے حکم اور اس کے سبب نزول بیان فرمانے سے چند باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ جیسا پہلے وان تکفروافان للہ ما فی السموت وما فی الارض فرما کر اس کے بعد بطریق تمثیل اہل کتاب کا حال ذکر فرمایا تھا ایسے ہی ارشاد فاما الذین امنوا باللہ واعتصمو بہ الخ کے بعد اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا تاکہ وحی سے انحراف کرنے والوں کی گمراہی اور برائی اور وحی کا اتباع کرنے والوں کی حقانیت اور بھلائی خوب سمجھ میں آجائے۔- (٢) اسی کے ذیل میں دوسری بات یہ بھی ظاہر ہوگئی کہ اہل کتاب نے تو یہ غضب کیا کہ ذات اقدس سبحانہ و تعالیٰ کے لئے شریک اور اولاد جیسے شنیع امر کو تمثنیل کو اپنا ایمان بنا لیا اور وحی الہی کا خم ٹھونک کر خلاف کیا اور اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حالت ہے کہ اصول ایمان اور عبادات تو درکنار معاملات جزئیہ اور معمولی مسائل متعلقہ میراث نکاح وغیرہ میں بھی وحی کے متجسس اور منتظر رہتے ہیں اور ہر امر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھتے ہیں، اپنی عقل اور خواہش کو حاکم نہیں سمجھتے، اگر ایک دفعہ میں تشفی نہ ہوئی تو مکرر حاضر خدمت ہو کر دریافت کرتے ہیں۔ بیبیں تفات رہ از کجاست تابہ کجا۔- اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت سید المرسلین بھی بلا حکم وحی اپنی طرف سے حکم نہ فرماتے تھے، اگر کسی امر میں حکم وحی موجود نہ ہوتا تو حکم فرمانے میں نزول وحی کا انتظار فرماتے، جب وحی آتی تب حکم فرماتے، نیز اشارہ ہے اس طرف کہ ایک دفعہ تمام کتاب کے نازل ہونے میں جیسا کہ اہل کتاب درخواست کرتے ہیں وہ خوبی نہیں تھی جو بوقت حاجت اور حسب موقع متفرق نازل ہونے میں ہے، کیونکہ ہر کوئی اپنی ضرورت کے موافق اس صورت میں سوال کرسکتا ہے اور بذریعہ وحی متلو اس کا جواب مل سکتا ہے، جیسا کہ اس موقع میں اور قرآن مجید کے بہت سے مواقع میں موجود ہے اور یہ صورت مفید تر ہونے کے علاوہ بوجہ شرافت ذکر خداوندی و عزت خطاب حق و عزجل ایسے فخر عظیم پر مشتمل ہے جو کسی امت کو نصیب نہیں ہوا، واللہ ذوالفضل العظیم، جس صحابی کی بھلائی میں یا اس کے سوال کے جواب میں کوئی آیت نازل ہوئی وہ اس کے مناقب میں شمار ہوتی ہے اور اختلاف کے موقع میں جس کی رائے یا جس کے قول کے موافق وحی نازل ہوگئی قیامت تک ان کی خوبی اور نیک نام باقی رہے گا، سوکلالہ کے متعلق سوال و جواب کا ذکر فرما کر اس طرح کے بالعموم سوالات اور جوابات کی طرف اشارہ فرما دیا۔ (فوائد عثمانی)- تمت سورة النسآء واللہ الحمد اولہ واخرہ
يَسْتَـفْتُوْنَكَ ٠ۭ قُلِ اللہُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَۃِ ٠ۭ اِنِ امْرُؤٌا ہَلَكَ لَيْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ٠ۚ وَہُوَيَرِثُہَآ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّہَا وَلَدٌ ٠ۭ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَـتَيْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ ٠ۭ وَاِنْ كَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّنِسَاۗءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـيَيْنِ ٠ۭ يُـبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ٠ۭ وَاللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ١٧٦ۧ- استفتا - الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، - استفتا - اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔- استفتاہ - کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو۔- کلالَةُ :- اسم لما عدا الولد والوالد من الورثة، وقال ابن عباس : هو اسم لمن عدا الولد ، وروي أنّ النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم سئل عن الكَلَالَةِ فقال : «من مات ولیس له ولد ولا والد» «فجعله اسما للميّت، وکلا القولین صحیح . فإنّ الكَلَالَةَ مصدر يجمع الوارث والموروث جمیعا، وتسمیتها بذلک، إمّا لأنّ النّسب کلّ عن اللّحوق به، أو لأنّه قد لحق به بالعرض من أحد طرفيه، وذلک لأنّ الانتساب ضربان :- أحدهما : بالعمق کنسبة الأب والابن .- والثاني : بالعرض کنسبة الأخ والعمّ ، قال قطرب : الكَلَالَةُ : اسم لما عدا الأبوین والأخ، ولیس بشیء، الکلالۃ باپ اور اولاد کے علاوہ جو وارث بھی ہو وہ کلالۃ ہے ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ کلالۃ ہر اس وارث کو کہتے ہیں جو اولاد کے علاوہ ہو ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت سے کلا لۃ کے متعلق در یافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ۔ من مات ولیس لہ ولد والا والد کہ گلالۃ ہر اس میت کو کہتے ہیں جس کا باپ اور اولاد زندہ نہ ہوں ۔ اس حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود میت کو کو کلالہ قرار دیا ہے اور کلالہ کے یہ دونوں معنی صحیح ہیں کیونکہ کلالۃ مصدر ہے جو وارث اور مورث دو نوں پر بولاجا سکتا ہے گویا کلالہ یا تو اس لئے کہتے ہیں کہ سلسلہ نسب اس تک پہنچنے سے عاجز ہوگیا ہے اور یا اس لئے کہ وہ نسب کسی ایک جانب یعنی جانب اصل یا جانب فرع سے اس کے ساتھ با لواسطہ پہنچتا ہے اور یہ یعنی دو احتمال اس لئے ہیں کہ نسبی تعلق دو قسم پر ہے امتساب با لعمق ( یعنی بارہ راست تعلق ) جیسے باپ بیٹے کا باہمی تعلق نسبت بالعرض یعنی بالواسطہ جیسے بھائی یا چچا کے ساتھ ( ر شتے کی نسبت ) قطر ب کا قول ہے کہ والدین اور بھائی کے علاوہ باقی رشتہ دروں کو کلالۃ کہا جاتا لیکن یہ قول بلا دلیل ہے بعض نے کہا ہے کہ کلا لۃ کا لفظ ہر وارث پر بولا جاتا ہے - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - نصف - نِصْفُ الشیءِ : شطْرُه . قال تعالی: وَلَكُمْ نِصْفُ ما تَرَكَ أَزْواجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ [ النساء 12] ، وَإِنْ كانَتْ واحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ [ النساء 11] ، فَلَها نِصْفُ ما تَرَكَ [ النساء 176] ، وإِنَاءٌ نَصْفَانُ : بلغ ما فيه نِصْفَهُ ، ونَصَفَ النهارُ وانْتَصَفَ : بلغ نصْفَهُ ، ونَصَفَ الإزارُ ساقَهُ ، والنَّصِيفُ : مِكْيالٌ ، كأنه نِصْفُ المکيالِ الأكبرِ ، ومِقْنَعَةُ النِّساء كأنها نِصْفٌ من المِقْنَعَةِ الكبيرةِ ، قال الشاعر : سَقَطَ النَّصِيفُ وَلَمْ تُرِدْ إِسْقَاطَهُ ... فَتَنَاوَلَتْهُ وَاتَّقَتْنَا بِالْيَدِوبلغْنا مَنْصَفَ الطریقِ. والنَّصَفُ : المرأةُ التي بيْنَ الصغیرةِ والکبيرةِ ، والمُنَصَّفُ من الشراب : ما طُبِخَ فذهب منه نِصْفُهُ ، والإِنْصَافُ في المُعامَلة : العدالةُ ، وذلک أن لا يأخُذَ من صاحبه من المنافع إِلَّا مثْلَ ما يعطيه، ولا يُنِيلُهُ من المضارِّ إلَّا مثْلَ ما يَنالُهُ منه، واستُعْمِل النَّصَفَةُ في الخدمة، فقیل للخادم : نَاصِفٌ ، وجمعه : نُصُفٌ ، وهو أن يعطي صاحبَه ما عليه بإِزاء ما يأخذ من النَّفع . والانْتِصَافُ والاسْتِنْصَافُ : طَلَبُ النَّصَفَةِ.- ( ن ص ف ) نصف الشئیء کے منعی حصہ کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَلَكُمْ نِصْفُ ما تَرَكَ أَزْواجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ [ النساء 12] اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا ہے وَإِنْ كانَتْ واحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ [ النساء 11] اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف فَلَها نِصْفُ ما تَرَكَ [ النساء 176] تو اس کو بھائی کے تر کہ میں سے آدھا حصہ ملے گا ۔ اناء نصفان آدھا بھرا ہو بر تن نصف النھار وانتصف دن کا نصف ہوجانا دو پہر کا وقت نصف الا زار ساقۃ ازار کا نصف پنڈلی تک ہونا ۔ نصیف غلہ ناپنے کے ایک پیمانے کا نما ہے گویا وہ مکیال اکبر ( بڑا پیمانہ ) کا نصف ہے اور اس کے معنی عورتوں کی اوڑ ھنی یا دو پٹہ بھی آتے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 469 ) سقط النصیب ولم تردا سقاطہ فتنا ولتہ واتقتنا بالید اوڑھنی سر سے گر می اور اس نے عمدا نہیں گرائی تھی پھر اس نے بد حواسی میں ) اسے سنبھالا اور ہاتھ کے ذریعے ہم سے پر دہ کیا ۔ بلغنا منصب الطریق ہم نے آدھا سفر طے کرلیا لنصف متوسط عمر کی عورت ادھیڑ عمر المنصف شراب جو آگ پر پکانے کے بعد آدھا رہ گیا ہو ۔ الانصاب کے معنی کسی معاملہ عدل سے کام لینے کے ہیں یعنی دوسرے سے صرف اسی قدر فائدے حاصل کرے جتنا کہ اسے پہنچا ہے ۔ اور نصفۃ کے معنی خدمت بھی آتے ہیں ۔ اور خادم کو ناصف کہا جاتا ہے اس کی جمع نصف آتی ہے اس نام میں اشارہ ہے کہ خدام کو حق خدمت پورا پورا ملنا چاہیئے ۔ الا نتصاف والا ستنصاب طلب خد مت کرنا - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته - ( ور ث ) الوارثۃ - والا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے جو کے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ۔«اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- ذَّكَرُ ( مذکر)- والذَّكَرُ : ضدّ الأنثی، قال تعالی: وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] ، وقال : آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] ، وجمعه : ذُكُور وذُكْرَان، قال تعالی: ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] ، وجعل الذَّكَر كناية عن العضو المخصوص . والمُذْكِرُ : المرأة التي ولدت ذکرا، والمِذْكَار : التي عادتها أن تذكر، وناقة مُذَكَّرَة : تشبه الذّكر في عظم خلقها، وسیف ذو ذُكْرٍ ، ومُذَكَّر : صارم، تشبيها بالذّكر، وذُكُورُ البقل : ما غلظ منه - الذکر ۔ تو یہ انثی ( مادہ ) کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثى [ آل عمران 36] اور ( نذر کے لئے ) لڑکا ( موزون تھا کہ وہ ) لڑکی کی طرح ( ناتواں ) نہیں ہوتا آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام 144] کہ ( خدا نے ) دونوں ( کے ) نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں ( کی ) مادینوں کو ۔ ذکر کی جمع ذکور و ذکران آتی ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ ذُكْراناً وَإِناثاً [ الشوری 50] بیٹے اور بیٹیاں ۔ اور ذکر کا لفظ بطور کنایہ عضو تناسل پر بھی بولاجاتا ہے ۔ اور عورت نرینہ بچہ دے اسے مذکر کہاجاتا ہے مگر المذکار وہ ہے ۔ جس کی عادت نرینہ اولاد کی جنم دینا ہو ۔ ناقۃ مذکرۃ ۔ وہ اونٹنی جو عظمت جثہ میں اونٹ کے مشابہ ہو ۔ سیف ذوذکر ومذکر ۔ آبدار اور تیر تلوار ، صارم ذکور البقل ۔ وہ ترکاریاں جو لمبی اور سخت دلدار ہوں ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- حظَّ- الحَظُّ : النصیب المقدّر، وقد حَظِظْتُ وحُظِظْتُ فأنا مَحْظُوظ، وقیل في جمعه : أَحَاظّ وأُحُظّ ، قال اللہ تعالی: فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، وقال تعالی: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء 11] .- ( ح ظ ظ ) الحظ کے معنی معین حصہ کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حظظ واحظ فھو محظوظ ۔ حط کی جمع احاظ و احظ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا (5 ۔ 14) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ [ النساء 11] کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے ۔- أنث - الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء 124] - ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) - - ( ضل)إِضْلَالُ- والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ.- والضّرب الثاني :- أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] ،- وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين :- أحدهما - أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ.- والثاني من إِضْلَالِ اللهِ :- هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ- [ التوبة 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] .- الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔
قول باری ہے یبین اللہ لکم ان تصلوا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو) آیت کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ ان تضلوا بمعنی لئلا تضلوا، ہے یعنی ” تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو “۔ یہاں حرف لا اسی طرح محذوف ہے جس طرح قسم کی صورت میں محذوف ہوتا ہے مثلاً آپ کہیں ” واللہ ابرح قاعداً ۔ (بخدا میں تو بیٹھا ہی رہوں گا) اس قول میں اصل ترکیب کے لحاظ سے فقرہ یوں ہے ۔” واللہ لاابرح قاعداً ۔ شاعر کا قول ہے۔ تاللہ یبقی علی الایامرذوحید۔ بخدا، زمانے کی گردشوں کے مقابلے میں تو جنگلی بیل بھی باقی نہیں رہتا (انسان کی کیا حقیقت ہے) یہاں یبقی کے معنی لایبقی کے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ آیت کا مفہوم ہے ” تمہاری گمراہی کو ناپسند کرنے کی بنا پر اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے احکام کی توضیح کرتا ہے جس طرح قول ہے واسئل القیۃ۔ گائوں سے پوچھو) یعنی گائوں والوں سے پوچھو۔
(١٧٦) یہ آیت جابر بن عبداللہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا تھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری ایک بہن ہے اس کے مرنے پر مجھے کیا حصہ ملے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت میراث نازل فرمائی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے کلالہ کی میراث کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔- اللہ تعالیٰ تمہارے سامنے کلالہ کی میراث بیان فرماتا ہے، کلالہ وہ ہے، جس کے نہ اولاد ہو اور نہ ماں باپ ہوں، اگر کوئی شخص مرجائے جس کے نہ اولاد ہو اور نہ ماں باپ ہو اور ایک عینی یا علاتی بہن ہو تو اس بہن کو مرنے والے کے کل ترکہ میں سے آدھا ملے گا اور اگر یہ کلالہ بہن مرجائے تو وہ شخص اس بہن کے تمام ترکہ کا وارث ہوگا،- اور اگر علاتی یا عینی دو بہنیں ہوں تو ان کو مرنے والے کے کل ترکہ میں سے دو تہائی ملیں گے اور اگر اس کلالہ کے چند عینی یا علاتی بھائی بہن ہوں تو پھر میراث کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ بھائی کو دہرا اور بہن کو اکہرا حصہ ملے گا (مگر عینی بھائی سے علاتی بہن بھائی سب ساقط ہوجاتے ہیں اور عینی بہن سے کبھی وہ ساقط ہوجاتے ہیں اور کبھی حصہ گھٹ جاتا ہے) اور اللہ تعالیٰ یہ چیزیں اس لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم میراث وغیرہ کی تقسیم میں غلطی نہ کرو اور وہ ان تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔- شان نزول : (آیت) ” یستفتونک قل اللہ “۔ (الخ)- امام نسائی (رح) نے ابو الزبیر (رض) کے واسطہ سے حضرت جابر (رض) سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بہنوں کے لیے تہائی مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا بہت اچھا ہے، پھر میں نے عرض کیا کہ آدھے مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا بہت ہی اچھا ہے، اس کے بعد آپ باہر تشریف لے گئے پھر میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ تمہیں اس بیماری موت نہیں آئے گی اور تمہاری بہنوں کو جو حصہ ملنا چاہیے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمادیا اور وہ دو ثلث ہے۔- حضرت جابر (رض) فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یعنی لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں، آپ فرمادیجیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں حکم دیتا ہے۔- حافظ ابن حجر عسقلانی (رح) فرماتے ہیں، اس سورت کے شروع میں جو حضرت جابر (رض) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ اس کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے۔ اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کلالہ کی میراث کا کیا ہوگا، اس پر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی کہ لوگ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں۔ (الخ)- جب تم اس سورت کی تمام آیات کے ان اسباب نزول پر غور کرو گے تو ہم نے بیان کیے ہیں تو اس قول کی تردید سے اچھی طرح واقف ہوجاؤ گے جو سورة نساء کو مکی سورت کہتا ہے۔ (یعنی یہ مدنی سورة ہے نہ کہ مکی)
اس آخری آیت میں پھر ایک استفتاء ہے۔ آیت ١٢ میں قانون وراثت کے ضمن میں ایک لفظ آیا تھا کلالہ ‘ یعنی وہ مرد یا عورت جس کے نہ تو والدین زندہ ہوں اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ اس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اگر اس کے بہن بھائی ہوں تو اس کی وراثت کا حکم یہ ہے۔ لیکن وہ حکم لوگوں پر واضح نہیں ہوسکا تھا۔ لہٰذا یہاں اس حکم کی مزید وضاحت کی گئی ہے۔ آیت ١٢ کے حکم کو صرف اخیافی بہن بھائیوں کے ساتھ مخصوص مان لینے کے بعد اس توضیحی حکم میں کلالہ کی وراثت کا ہر پہلو واضح ہوجاتا ہے۔- آیت ١٧٦ (یَسْتَفْتُوْنَکَط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْْکَلٰلَۃِ ط) (اِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٓٗ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَج ) - ایسی صورت میں اس کی بہن ایسے ہی ہے جیسے ایک بیٹی ہو تو اسے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا۔- (وَہُوَ یَرِثُہَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ ط) ۔- یعنی اگر کلالہ عورت تھی جس کی کوئی اولاد نہیں ‘ کوئی والدین نہیں تو اس کا وارث اس کا بھائی بن جائے گا ‘ اس کی پوری وراثت اس کے بھائی کو چلی جائے گی۔ - (فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ط) (وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَّنِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ط) - یعنی بھائی کو بہن سے دو گنا ملے گا۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ آیت ١٢ میں جو حکم دیا گیا تھا وہ اخیافی بہن بھائیوں کے بارے میں تھا۔ یعنی ایسے بہن بھائی جن کی ماں ایک ہو اور باپ علیحدہ علیحدہ ہوں۔ اس زمانے کے عرب معاشرے میں تعدّ دازواج کے عام رواج کی وجہ سے ایسے مسائل معمولات کا حصہ تھے۔ باقی عینی یا علاتی بہن بھائیوں (جن کے ماں اور باپ ایک ہی ہوں یا مائیں الگ الگ ہوں اور باپ ایک ہی ہو) کا وہی عام قانون ہوگا جو بیٹے اور بیٹی کا ہے۔ جس نسبت سے بیٹے اور بیٹی میں وراثت تقسیم ہوتی ہے ایسے ہی ان بہن بھائیوں میں ہوگی۔ - (یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْاط واللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ) ۔- تعارف قرآن کے دوران میں نے بتایا تھا کہ قرآن حکیم کی ایک تقسیم سات احزاب یا منزلوں کی ہے۔ اس اعتبار سے سورة النساء پر پہلی منزل ختم ہوگئی ہے۔ فالحمد للّٰہ علی ذٰلک
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :219 یہ آیت اس سورہ کے نزول سے بہت بعد نازل ہوئی ہے ۔ بعض روایات سے تو یہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے آخری آیت ہے ۔ یہ بیان اگر صحیح نہ بھی ہو تب بھی کم از کم اتنا تو ثابت ہے کہ یہ آیت سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی ۔ اور سورہ نساء اس سے بہت پہلے ایک مکمل سورہ کی حیثیت سے پڑھی جا رہی تھی ۔ اسی وجہ سے اس آیت کو ان آیات کے سلسلہ میں شامل نہیں کیا گیا جو احکام میراث کے متعلق سورہ کے آغاز میں ارشاد ہوئی ہیں ، بلکہ اسے ضمیمہ کے طور پر آخر میں لگا دیا گیا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :220 کَلَالہ کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض کی رائے میں کَلَالہ وہ شخص ہے جو لا ولد بھی ہو اور جس کے باپ اور دادا بھی زندہ نہ ہوں ۔ اور بعض کے نزدیک محض لا ولد مرنے والے کو کلالہ کہا جاتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آخر وقت تک اس معاملہ میں متردد رہے ۔ لیکن عامہ فقہاء نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو تسلیم کرلیا ہے کہ اس کا اطلاق پہلی صورت پر ہی ہوتا ہے ۔ اور خود قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، کیونکہ یہاں کلالہ کی بہن کو نصف ترکہ کا وارث قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ اگر کلالہ کا باپ زندہ ہو تو بہن کو سرے سے کوئی حصہ پہنچتا ہی نہیں ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :221 یہاں ان بھائی بہنوں کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے جو میت کے ساتھ ماں اور باپ دونوں میں ، یا صرف باپ میں مشترک ہوں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک خطبہ میں اس معنی کی تصریح کی تھی اور صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہ کیا ، اس بنا پر یہ مُجْمَع علیہ مسئلہ ہے ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :222 یعنی بھائی اس کے پورے مال کا وارث ہوگا اگر کوئی اور صاحب فریضہ نہ ہو ۔ اور اگر کوئی صاحب فریضہ موجود ہو ، مثلاً شوہر ، تو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ بھائی کو ملے گا ۔ سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :223 یہی حکم دو سے زائد بہنوں کا بھی ہے ۔
95: کلالہ اس شخص کو کہتے ہیں جس کے انتقال کے وقت نہ اس کا باپ یا دادا زندہ ہو، نہ کوئی بیٹا یا پوتا۔