امانت اور عدل و انصاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت کر ( مسند احمد و سنن ) آیت کے الفاظ وسیع المعنی ہیں ۔ ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے جیسے روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ ، اور بندوں کے آپس کے کل حقوق بھی شامل ہیں جیسے امانت دار کا حق اسے دلوایا جائے گا یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے مارا ہے تو اس کا بدلہ بھی اسے دلوایا جائے گا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں مگر امانت نہیں مٹنے لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے بھی قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کر وہ جواب دے گا کہ دنیا تو اب ہے نہیں میں کہاں سے اسے ادا کروں؟ فرماتے ہیں پھر وہ چیز اسے جہنم کی تہہ میں نظر آئے گی اور کہا جائے گا کہ جا اسے لے آ وہ اسے اپنے کندھے پر لاد کر لے چلے گا لیکن وہ گر پڑے گی وہ پھر اسے لینے جائے گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے گا حضرت زاذان اس روایت کو سن کر حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ کر بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بھائی نے سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں ہر نیک و بد کے لئے پر یہی حکم ہے ، ابو العالیہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عورت اپنی شرم گاہ کی امانت دار ہے ، ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سلطان عید والے دن عورتوں کو خطبہ سنائے ۔ اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا ۔ حجرا سود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ روک لیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ نے سہ بارہ طلب کی حضرت عثمان نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں حضرت ابراہیم کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ فال کے تیر تھی آپ نے فرمایا اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان سیروں سے کیا سروکار؟ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے کہا کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا اس خطبہ کو پورا کر کے آپ بیٹھے ہی تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہو جائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور اوروں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ طواف میں مشغول ہوگئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو حضرت جبرائیل نازل ہوئیے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی ، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا اب آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے یہ وہی عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہی ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آتی ہے یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لائے جب ہی خالد بن ولید اور عمرو بن عاص بھی مسلمان ہوئے تھے ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں بحالت کفر مارا گیا تھا ۔ الغرض مشہور تو یہی ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے اب خواہ اس بارے میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے جیسے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت محمد بن حنفیہ کا قول ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے پھر ارشاد ہے کہ فیصلے عدل کے ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو ، حدیث میں ہے اللہ حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرتا ہے تو اسے اسی کا طرف سونپ دیتا ہے ، ایک اثر میں ہے ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے ، پھر فرماتا ہے یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے لئے بہترین اور نافع چیزیں ہیں جن کا امر پروردگار نے تمہیں دیا ہے ( ابن ابی حاتم ) اور روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے آخری الفاظ پڑھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اپنے کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی ( یعنی اشارے سے سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتا کر ) فرمایا میں نے اسی طرح پڑھتے اور کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے ، راوی حدیث حضرت ابو زکریا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے استاد مضری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے ہمیں بتایا اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے پاس کی انگلی اپنے داہنے کان پر رکھی ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث اسی طرح امام ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے اور امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسے نقل کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے وارد کیا ہے ، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مولی ہیں اور ان کا نام سلیم بن جیر رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔
58۔ 1 اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان و کلید برادر چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوچکے تھے طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے۔ آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ باحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناسب منصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی و وطنی بنیاد یا قرابت و خاندان کی بنیاد پر عہدہ منصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔ 58۔ 2 اس میں احکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کردیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کردیتا ہے (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام) 58۔ 3 یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل اور انصاف مہیا کرنا۔
[٨٩] اس جملہ کے بہت سے مطلب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جس کسی نے تمہارے پاس کوئی امانت رکھی ہو اسی کو اس کی امانت ادا کردو۔ زید کی امانت بکر کے حوالے نہ کرو۔ امانت کا دوسرا مطلب ذمہ دارانہ مناصب ہیں۔ یعنی حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب انہی کے حوالے کرو جو ان مناصب کے اہل ہوں۔ نااہل، بےایمان بددیانت اور راشی قسم کے لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ اس لحاظ سے یہ مسلمانوں سے اجتماعی خطاب ہے کیونکہ بدکار لوگوں کی حکومت سے ساری قوم کی اخلاقی حالت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ امانت کا تیسرا مطلب حقوق بھی ہیں یعنی تمہارے ذمہ جو حقوق ہیں خواہ اللہ کے ہوں یا بندوں کے، سب کے حقوق بجا لاؤ۔ کسی حکومت کے استحکام کی یہ پہلی بنیاد ہے اور انہی حقوق کی عدم ادائیگی سے فساد رونما ہوتا ہے۔- [٩٠] حکومت کے استحکام کی دوسری بنیاد عدل و انصاف ہے لہذا کسی قوم سے دشمنی تمہارے عدل و انصاف پر اثر انداز نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ یہود نے صرف اسلام دشمنی کی بنا پر مشرکوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ تم دینی لحاظ سے مسلمانوں سے بہتر ہو۔ حالانکہ مسلمانوں کی پاکیزہ سیرت اور مشرکوں کے کردار میں فرق اتنا واضح تھا جو دشمنوں کو بھی نظر آ رہا تھا اور خود یہود بھی اس حقیقت حال سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انصاف سے فیصلہ کرنا اور انصاف کی بات کہنا بہت بلند درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :- ١۔ آپ نے فرمایا انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک ہوں گے، رحمن عزوجل کے دائیں نور کے منبروں میں ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ جو اپنے فیصلہ کے وقت اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل)- ٢۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں رکھے گا اور یہ ایسا دن ہوگا جب اور کسی جگہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اس میں سرفہرست آپ نے امام عادل یعنی انصاف کرنے والے حاکم کا ذکر فرمایا۔ دوسرے وہ نوجوان جس نے جوانی میں خوشدلی سے اللہ کی عبادت کی۔ تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا ہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر دوستی کی، اسی کی خاطر اکٹھے رہے اور آخر موت نے جدا کیا۔ پانچویں وہ شخص جسے کسی مالدار اور حسن و جمال والی عورت نے بدکاری کے لیے بلایا تو اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا، بائیں کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ۔۔ )
اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا ۔۔ : درمیان میں کفار کے احوال اور ان کے حق میں وعید کا ذکر آگیا تھا، اب دوبارہ سلسلۂ احکام شروع ہو رہا ہے۔ یہود امانت میں خیانت کرتے اور فیصلہ میں رشوت لے کر ظلم وجور کرتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان باتوں سے دور رہنے کا حکم دیا۔ یہاں امانت سے مراد گو ہر قسم کی امانت ہے، اس کا تعلق مذہب و دیانت سے ہو یا دنیاوی معاملات سے، لیکن یہود حق کو چھپا کر علمی امانت میں خیانت کے مرتکب بھی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کی خلاف ورزی کرلے۔ امانت میں خیانت اتنا بڑا گناہ ہے کہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہوتا۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ خیبر سے واپسی پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہاں پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلام ” مدعم “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی سے پالان اتار رہا تھا کہ اسے ایک اندھا تیر لگا جس نے اسے قتل کردیا لوگوں نے کہا اسے جنت مبارک ہو تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ چادر جو اس نے خیبر کے دن غنیمتوں میں سے لی تھی جو ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھیں اس پر آگ بن کر شعلے مار رہی ہے۔ [ صحیح بخاری،- المغازی، باب غزوۃ خیبر ]- شہادت سے اس گناہ کے معاف نہ ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کے حقوق ہیں۔ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شہید کے لیے ہر گناہ معاف کردیا جاتا ہے سوائے قرض کے۔ [ صحیح مسلم، الامارۃ، باب من قتل فی سبیل اللہ ] البتہ ایک حدیث میں ایک بشارت ہے ابوہریرۃ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص لوگوں کے اموال لے ان کی ادائیگی کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کر دے گا اور جو شخص لوگوں کے اموال لے انھیں تلف کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ اسے تلف کرے گا۔ [ بخاری، الاستقراض، باب من اخذ اموال الناس ] اس سے معلوم ہوا کہ اگر شہید ہونے والے کا ارادہ ادائیگی کا تھا تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ادا کر دے گا لیکن ظاہر ہے کہ خیانت والے کا تو یہ ارادہ ہوتا ہی نہیں۔ امانت میں لوگوں سے لی ہوئی امانتیں بھی شامل ہیں اور عہدوں اور مناصب کی تقسیم بھی، جب ذمہ دار شخص کو معلوم ہو کہ فلاں صاحب اس منصب کا اہل نہیں تو پھر اپنے ذاتی تعلق یا خاندانی یا کسی دنیوی مقصد کے لیے یا کوٹہ سسٹم کی وجہ سے اہل کو چھوڑ کر نااہل شخص کو وہ منصب دیا جائے تو یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ سورة احزاب (٧٢) سورة مومنون (٨) اور سورة بقرہ آیت (٢٨٣) میں بھی امانت داری کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ - 2ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بالْعَدْلِ ۭ : قرآن مجید میں کئی مقامات پر عدل کی تاکید فرمائی، خواہ وہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو، دیکھیے سورة نساء (١٣٥) اور کسی دشمنی کی بنا پر عدل نہ کرنے سے بھی منع فرمایا۔ دیکھیے سورة مائدہ (٨) ۔ سورة نحل (٩٠) اور سورة حجرات (٩) ۔ وہ سات خوش قسمت لوگ جنھیں روز قیامت عرش کا سایہ ملے گا، ان میں پہلا شخص عادل حکمران ہوگا۔ [ بخاری : ٦٦٠ ]- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بیشک انصاف کرنے والے جو اپنے فیصلے میں، اپنے اہل و عیال میں اور رعایا میں انصاف کرتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے، رحمٰن عزوجل کے دائیں طرف ہوں گے اور رحمٰن کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب فضیلۃ الأمیر العادل۔۔ : ١٨٢٧، عن عبداللہ بن عمرو (رض) ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یقیناً اللہ تعالیٰ قاضی اور حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ “ [ ابن ماجہ، الأحکام، باب التغلیظ فی الحیف والرشدہ : ٢٣١٢، عن عبداللہ بن اوفٰی وصححہ الالبانی ]
خلاصہ تفسیر - (اے اہل حکومت خواہ تھوڑوں پر حکومت ہو خواہ بہتوں پر) بیشک تم کو اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق (جو تمہارے ذمہ ہیں) پہنچا دیا کرو اور (تم کو) یہ (بھی حکم دیتے ہیں) کہ جب (محروم) لوگوں کا تصفیہ کیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ جس بات کی تم کو نصیحت کرتے ہیں وہ بات بہت اچھی ہے، دنیا کے اعتبار سے بھی کہ اس میں استحکام حکومت ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی کہ موجب قرب وثواب ہے) بلاشک اللہ تعالیٰ (تمہارے اقوال کو جو دوبارہ امانت و تصفیہ تم سے صادر ہوتے ہیں) خوب سنتے ہیں (اور تمہارے افعال کو جو اس باب میں تم سے واقع ہوتے ہیں) خواب دیکھتے ہیں (تو اگر کمی و کوتاہی کرو گے مطلع ہو کر تم کو سزا دیں گے، یہ خطاب تو حکام کو ہوا، آگے محکومین کو ارشاد ہے کہ) اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا کہنا مانو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہنا مانو (ور یہ حکم تو تمہارے اور حکام سب کے لئے عام ہے) اور تم (مسلمانوں) میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی (کہنا مارو اور یہ حکم خاص ہی تم محکومین کے ساتھ) پھر (اگر ان کے احکام کا اللہ اور رسول کے کہنے کے خلاف نہ ہونا محکوم و حاکم دونوں کے اتفاق معتبر سے ثابت ہو تو خیر اس میں تو حکام کی اطاعت کرو گے ہی اور) اگر (ان کے احکام میں سے) کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو (کہ یہ اللہ و رسول کے کہے ہوئے کے خلاف ہے یا نہیں) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں تو آپ سے پوچھ کر اور بعد آپ کی وفات کے ائمہ مجتہدین و علماء دین سے رجوع کر کے) اس امر کو (کتاب) اللہ اور (سنت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف حوالہ کرلیا کرو (اور ان حضرات سے جیسا فتوی ملے اس پر سب محکوم و حکام عمل کرلیا کرو) اگر تم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو (کیونکہ اس ایمان کا مقتضی یہی ہے کہ قوم قیامت میں اللہ تعالیٰ کی دارگیر سے جو کہ مخالفت کرنے پر ہونے والی ڈریں) یہ امور (جو مذکور ہوئے، اطاعت اللہ کی، رسول کی، اولی الامر کی، حوالہ کرنا تنازعات کا کتاب و سنت کی طرف) سب (دنیا میں بھی) بہتر ہیں اور (آخرت میں بھی) ان کا انجام خوش تر ہے (کیونکہ دنیا میں امن و راحت اور آخرت میں نجات وسعادت ہیں۔ )- معارف و مسائل - آیات کا شان نزول :۔ - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت کے نزول کا ایک خاص واقعہ ہے کہ کعبہ کی خدمت اسلام سے پہلے بھی بڑی عزت سمجھی جاتی تھی اور جو لوگ بیت اللہ کی کسی خاص خدمت کے لئے منتخب ہوتے تھے وہ پوری قوم میں معزز و ممتاز مانے جاتے تھے اسی لئے بیت اللہ کی مختلف خدمتیں مختلف لوگوں میں تقسیم کی جاتی تھیں، زمانہ جاہلیت سے ایام حج میں حجاج کو زمزم کا پانی پلانے کی خدمت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم محترم حضرت عباس کے سپرد تھی، جس کو سقایہ کہا جاتا تھا، اسی طرح اور بعض خدمتیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے چچا ابو طالب کے سپرد تھی، اسی طرح بیت اللہ کی کنجی رکھنا اور مقررہ ایام میں کھولنا بند کرنا عثمان بن طلحہ سے متعلق تھا۔- عثمان بن طلحہ کا اپنا بیان ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ہم پیر اور جمعرات کے روز بیت اللہ کو کھولا کرتے تھے اور لوگ اس میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کرتے تھے، ہجرت سے پہلے ایک روز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہونے کے لئے تشریف لائے (اس وقت تک عثمان بن طلحہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے) انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اندر جانے سے روکا اور انتہائی ترشی دکھائی، آپ نے بڑی برد باری کے ساتھ ان کے سخت کلمات کو برداشت کیا، پھر فرمایا، اے عثمان شاید تم ایک روز یہ بیت اللہ کی کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، جبکہ مجھے اختیار ہوگا کہ جس کو چاہوں سپرد کر دوں، عثمان بن طلحہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوگیا تو قریش ہلاک اور ذلیل ہوجائیں گے، آپ نے فرمایا کہ نہیں اس وقت قریش آباد اور عزت والے ہوجائیں گے آپ یہ کہتے ہوئے بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے، اس کے بعد جب میں نے اپنے دل کو ٹٹولا تو مجھے یقین سا ہوگیا کہ آپ نے مجھے کچھ فرمایا ہے وہ ہو کر رہے گا، میں نے اسی وقت مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا لیکن میں نے اپنی قوم کے تیور بدلے ہوئے پائے، وہ سب کے سب مجھے سخت ملامت کرنے لگے، اس لئے میں اپنے ارادہ کو پورا نہ کرسکا، جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بلا کر بیت اللہ کی کنجی طلب فرمائی، میں نے پیش کردی۔- بعض روایات میں ہے کہ عثمان بن طلحہ کنجی لے کر بیت اللہ کے اوپر چڑھ گئے تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کے لئے زبردستی کنجی ان کے ہاتھ سے لے کر انٓحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے دیتھی، بیت اللہ میں داخلہ اور وہاں نماز ادا کرنے کے بعد جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے تو پھر کنجی مجھ کو واپس کرتے ہوئے فرمایا، کرلو اب یہ کنجی ہمیشہ تمہارے ہی خاندان کے پاس قیامت تک رہے گی، جو شخص تم سے یہ کنجی لے گا وہ ظالم ہوگا، مقصد یہ تھا کہ کسی دوسرے شخص کو اس کا حق نہیں کہ تم سے یہ کنجی لے لے، اسی کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ بیت اللہ کی اس خدمت کے صلہ میں تمہیں جو مال مل جائے اس کو شرعی قاعدہ کے موافق استعمال کرو۔ - عثمان بن طلحہ کہتے ہیں کہ جب میں کنجی لے کر خوشی خوشی چلنے لگا تو آپ نے پھر مجھے آواز دی اور فرمایا کیوں عثمان جو بات میں نے کہی تھی وہ پوری ہوئی یا نہیں ؟ اب مجھے وہ بات یاد آگئی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت سے پہلے فرمائی تھی کہ ایک روز تم یہ کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے، میں نے عرض کیا کہ بیشک آپ کا ارشاد پورا ہوا اور اس وقت میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا (مظہری بروایت ابن سعد)- حضرت فاروق اعظم عمر بن الخطاب (رض) فرماتے ہیں کہ اس روز جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ سے باہرت شریف لائے تو یہ آیت آپ کی زبان پر تھی ان اللہ یامرکم ان تودو الامنت الی اھلھا۔ “ اس سے پہلے میں نے یہ آیت کبھی آپ سے نہ سنی تھی، ظاہر ہے کہ یہ آیت اس وقت جوف کعبہ میں نازل ہوئی تھی، اسی آیت کی تعمیل میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ عثمان بن طلحہ کو بلا کر کنجی ان کو سپرد کی، کیونکہ عثمان بن طلحہ نے جب یہ کنجی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تھی تو یہ کہہ کردی تھی کہ ” میں یہ امانت آپ کے سپرد کرتا ہوں “ اگرچہ ضابطہ سے ان کا یہ کہنا صحیح نہ تھا، بلکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کو ہر طرح کا اختیار تھا کہ جو چاہیں کریں، لیکن قرآن کریم نے صورت امانت کی بھی رعایت فرمائی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی ہدایت کی کہ کنجی عثمان ہی کو واپس فرما دیں “ حالانکہ اس وقت حضرت عباس اور حضرت علی (رض) نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی خدمت بھی ہمیں عطا فرما دیجئے، مگر آیت مذکورہ کی ہدایت کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی درخواست رد کر کے کنجی عثمان بن طلحہ کو واپس فرمائی ( تفسیر مظہری)- یہاں تک آیت کے شان نزول پر کلام تھا اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص وقوعہ ہوا کرتا ہے لیکن حکم عام ہوتا ہے، جس کی پابندی پوری امت کے لئے ضروری ہوتی ہے۔- اب اس معنی اور مطلب ملاحظہ کیجئے۔- ارشاد ہے : ان اللہ یامرکم ان تودوالامنت الی اھلھا ” یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہونچایا کرو۔ “ اس حکم کا مخاطب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عام مسلمان ہوں اور یہ بھی احتمال ہے کہ خاص امراء و حکام مخاطب ہوں اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو کسی امانت کا امین ہے، اس میں عوام بھی داخل ہیں اور حکام بھی۔- ادائے امانت کی تاکید :۔- حاصل اس ارشاد کا یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں کوئی امانت ہے اس پر لازم ہے کہ یہ امانت اس کے اہل و مستحق کو پہونچاوے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اداء امانت کی بڑی تاکید فرمائی ہے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوگا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو :- ” یعنی جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ “- (یہ روایت بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہے)- خیانت نفاق کی علامت ہے :۔- بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز نفاق کی علامتیں بتلاتے ہوئے ایک علامت یہ بتلائی کہ جب امانت اس کے پاس رکھی جائے تو خیانت کرے۔- امانت کی قسمیں :۔- اس جگہ یہ بات غور طلب ہے کہ قرآن حکیم نے لفظ امانت بصیغہ جمع استعمال فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ امانت صرف یہی نہیں کہ کسی کا کوئی مال کسی کے پاس رکھا ہو جس کو عام طور پر امانت کہا اور سمجھا جاتا ہے، بلکہ امانت کی کچھ اور قسمیں بھی ہیں جو واقعہ آیت کے نزول کا ابھی ذکر کیا گیا خود اس میں بھی کوئی مالی امانت نہیں، بیت اللہ کی کنجی کوئی خاص مال نہ تھا، بلکہ یہ کنجی خدمت بیت اللہ کے ایک عہدہ کی نشانی تھی۔- حکومت کے مناصیب اللہ کی امانتیں ہیں :۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں وہ سب اللہ کی امانتیں ہیں جس کے امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لئے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کردیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لئے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں۔- کسی منصب پر غیر اہل کو بٹھانے والا ملعون ہے :۔- پوری اہلیت والا سب شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجودہ لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔- ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے (جمع الفوائد، ص ٥٢٣)- بعض روایات میں ہے کہ جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لئے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی، آج جہاں نظام حکومت کی ابتری نظر آتی ہے وہ سب اس قرآنی تعلیم کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ ہے کہ تعلقات اور سفارشوں اور رشوتوں سے عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نااہل اور ناقابل لوگ عہدوں پر قابض ہو کر خلق خدا کو پریشان کرتے ہیں اور سارا نظام حکومت برباد ہوجاتا ہے۔- اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا : اذا وسد الامرالی غیر اھلہ فانتظر الساعة :۔ ” یعنی جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کردی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو (اب اس فساد کا کوئی علاج نہیں) قیامت کا انتظار کرو۔ “ یہ ہدایت صحیح بخاری کتاب علم میں ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے لفظ امنت بصیغہ جمع لا کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ امانت صرف اسی کا نام نہیں کہ ایک شخص کا مال کسی دوسرے شخص کے پاس بطور امانت رکھا ہو، بلکہ امانت کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں حکومت کے عہدے بھی داخل ہیں۔- اور ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :- ” یعنی مجلسیں امانتداری کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ “- مطلب یہ ہے مجلس میں جو بات کہی جائے وہ اسی مجلس کی امانت ہے، ان کی اجازت کے بغیر اس کو دوسروں سے نقل کرنا اور پھیلانا جائز نہیں۔- اسی طرح ایک حدیث میں ہے :” المستشار مؤ تمن “” یعنی جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔ “ اس پر لازم ہے کہ مشورہ وہی دے جو اس کے نزدیک مشورہ لینے والے کے حق میں مفید اور بہتر ہو، اگر جانتے ہوئے خلاف مشورہ دے دیاتو امانت میں خیانت کا مرتکب ہوگیا، اسی طرح کسی نے آپ سے اپنا راز کہا تو وہ اس کی امانت ہے، بغیر اس کی اجازت کے کسی سے کہہ دینا خیانت ہے آیت مذکورہ میں ان سب امانتوں کا حق ادا کرنے کی تاکید ہے۔- یہاں تک پہلی آیت کے ابتدائی جملہ کی تفسیر تھی، آگے پہلی آیت کے دوسرے جملہ کی تفسیر ہے کا فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف کے ساتھ کیا کرو۔ “ ظاہر یہ ہے کہ اس کا خطاب حکام اور امراء کو ہے جو خصومات مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے ہیں اور اسی کے قرینہ سے بعض حضرات نے پہلے جملہ کا مخاطب بھی حکام و امراء کو قرار دیا ہے، اگرچہ پہلے جملہ کی طرح اس میں بھی گنجائش اس کی بنا کر فیصلہ کردیا کرتے ہیں، اسی طرح جھگڑوں کا فیصلہ کرنا عوام میں بھی پایا جاسکتا ہے، مگر اس میں شبہ نہیں کہ اول نظر میں ان دونوں جملوں کے مخاطب حکام و امراء ہی معلوم ہوتے ہیں، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے مخاطب ال حکام و امراء ہیں اور ثانیاً یہ خطاب ہر اس شخص کے لئے بھی ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہوں اور جس کو کسی مقدمہ کا ثالث بنادیا جائے۔- اس جملہ میں حق تعالیٰ نے بین الناس فرمایا بین المسلمین یا بین المومنین نہیں فرمایا۔ اس میں اشارہ فرما دیا کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم اور دوست ہوں یا دشمن اپنے ہم وطن، ہم رنگ، ہم زبان ہوں یا غیر فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان سب تعلقات سے الگ ہو کر بھی حق و انصاف کا تقاضا ہو وہ فیصلہ کریں۔- عدل و انصاف امن عالم کا ضامن ہے :۔- غرض آیت کے پہلے جملہ میں ادائے امانت کا حکم ہے اور دوسرے میں عدل و انصاف کا ان میں ادائے امانات کو مقدم کیا یا، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پورے ملک میں عدم و انصاف کا قیام اس کے بیر ہو ہی نہیں سکتا کہ جن کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار ہے وہ پہلے اداء امانات کا فریضہ صحیح طور پر ادا کریں، یعنی حکومت کے عہدوں پر صرف انہی لوگوں کو مقرر کریں جو صلاحیت کار اور امانت و دیانت کی رو سے اس عہدہ کے لے سب سے زیادہ بہتر نظر آئیں، دوستی اور تعلقات یا محض سفارش یا رشوت کو اس میں راہ نہ دیں، ورنہ نتیجہ یہ ہوگا کہ نااہل ناقابل یا خائن اور ظالم لوگ عہدوں پر قابض ہوجائیں گے پھر اگر ارباب اقتدار دل سے بھی یہ چاہیں کہ ملک میں عدل و انصاف کار رواج ہو تو ان کے لئے ناممکن ہوجائے گا، کیونکہ یہ عہدہ داران حکومت ہی حکومت کے ہاتھ اور پیر ہیں، جب یہ خائن یا ناقابل ہوئے تو عدل و انصاف قائم کرنے کی کیا راہ ہے ؟- اس آیت میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس میں حق جل شانہ نے حکمت کے عہدوں کو بھی امانت قرار دے کر اول تو یہ واضح فرما دیا کہ جس طرح امانت صرف اسی کو ادا کرنا چاہئے جو اس کا مالک ہو، کسی فقیر، مسکین پر رحم کھا کر کسی کی امانت اس کو دینا جائز نہیں یا کسی رشتہ دار یا دوست کا حق ادا کرنے کے لئے کسی شخص کی امانت اس کو دے دینا درست نہیں، اسی طرح حکومت کے عہدے جن کے ساتھ عام خلق اللہ تعالیٰ کا کام متعلق ہوتا ہے یہ بھی امانتیں ہیں اور ان امانتوں کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیت کار اور قابلیت و استعداد کے اعتبار سے بھی اس عہدے کے لئے مناسب اور موجودہ لوگوں میں سب سے بہتر ہوں اور دیانت اور امانت کے اعتبار سے بھی سب میں بہتر ہوں، ان کے سوا کسی دوسرے کو یہ عہدہ سپرد کردیا تو یہ امانت ادا نہ ہوئی۔- علاقائی اور صوبائی بنیادوں پر حکومت کے مناسب سپرد کرنا اصولی غلطی ہے :۔ - اس کے ساتھ قرآن حکیم کے اس جملہ نے اس عام غلطی کو بھی دور کردیا جو اکثر ممالک کے دستوروں میں چل رہی ہے کہ حکومت کے عہدوں کو باشندگان ملک کے حقوق قرار دے دیا ہے۔- اور اس اصولی غلطی کی بناء پر یہ قانون بنانا پڑا کہ حکومت کے عہدے تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کئے جائیں، ہر صوبہ ملک کے لئے کوٹے مقرر ہیں، ایک صوبہ کے کوٹہ میں دوسرے صوبہ کا آدمی نہیں رکھا جاسکتا، خواہ وہ کتنا ہی قابل اور امین کیوں نہ ہو، اور اس صوبہ کا آدمی کتنا ہی غلط کار نااہل ہو، قرآن حکیم نے صاف اعلان فرما دیا کہ یہ عہدے کسی کا حق نہیں بلکہ امانتیں ہیں جو صرف اہل امانت ہی کو دی جاسکتی ہیں خواہ وہ کسی صوبہ اور کسی خطہ کے رہنے والے ہوں، البتہ کسی خاص علاقہ اور صوبہ پر حکمت کے لئے اسی علاقہ کے آدمی کو ترجیح دی جاسکتی ہے کہ اس میں بہت سی مصالح ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ کام کی صلاحیت اور امانت میں اس پر پورا اطمینان ہو۔ - دستور مملکت کے چند زریں اصول :۔- اسی طرح اس مختصر آیت میں دستور مملکت کے چند بنیادی اصول آگئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔- ١۔ اول یہ کہ آیت کے پہلے جملہ کو ان اللہ یامرکم سے شروع فرما کہ اس طرف اشارہ کردیا کہ اصل امر اور حکم اللہ تعالیٰ کا ہے، سلاطین دنیا سب اس کے مامور ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ ملک میں اقتدار اعلی صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔- ٢۔ دوسرے یہ کہ حکومت کے عہدے باشندگان ملک کے حقوق نہیں جن کو تناسب آبادی کے اصول پر تقسیم کیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی امانتیں ہیں جو صرف ان کے اہل اور لائق لوگوں کو دیئے جاسکتے ہیں۔- ٣۔ تیسرے یہ کہ زمین پر انسان کی حکمرانی صرف ایک نائب و امین کی حیثیت سے ہو سکتی ہے وہ ملک کی قانون سازی میں ان اصول کا پابند رہے گا جو حاکم مطلق حق تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی بتلا دیئے گئے ہیں۔- ٤۔ چوتھے یہ کہ حکام و امراء کا فرض ہے کہ جب کوئی مقدمہ ان کے پاس آئے تو نسل و وطن اور رنگ و زبان یہاں تک کہ مذہب و مسلک کا امتیاز کئے بغیر عدل و انصاف کا فیصلہ کریں۔- اس آیت میں دستور مملکت کے زرین اصول بتلا کر آخر میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جو نصیحت کی ہے وہ بہت ہی اچھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی سنتا ہے اور جو بولنے اور فریاد کرنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو اس کے حالات کو خود دیکھنا ہے، اس لئے اس کے بتلانے اور بنائے ہوئے اصول ہی ایسے ہیں جو ہمیشہ ہر ملک میں اور ہر دور میں قابل عمل ہو سکتے ہیں، انسانی دماغوں کے بنائے اصول و دستور صرف اپنے ماحول کے اندر محدود ہوا کرتے ہیں اور تغیر حالات کے بعد ان کا بدلنا ناگزیر ہوتا ہے جس طرح پہلی آیت کے مخاطب حکام و امراء تھے دوسری آیت میں عوام کو مخاطب فرما کر ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو تم اللہ کی اور رسول کی اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو۔ - اولی الامر کون لوگ ہیں ؟:۔ - اولی الامر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے، جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام و انتظام ہو، اسی لئے حضرت ابن عباس، مجاہد اور حسن بصری وغیرہ (رض) ، مفسرین قرآن نے اولی الامر کے مصداق علمئا و فقہاء کو قرار دیا ہے کہ وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نائب ہیں اور نظام دین ان کے ہاتھ میں ہے۔- اور ایک جماعت مفسرین نے جن میں حضرت ابوہریرہ (رض) بھی شامل ہیں، فرمایا کہ اولی الامر سے مراد و حکام اور امراء ہیں جن کے ہاتھ میں نظام حکومت ہے۔- اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ لفظ دونوں طبقوں کو شامل ہے، یعنی علماء کو بھی اور حکام و امراء کو بھی، کیونکہ نظام امرا انہیں دونوں کے ساتھ وابستہ ہے۔- اس آیت میں ظاہر اً تین کی اطاعتوں کا حکم ہے، رسول، رسول، اول الامر، لیکن قرآن کی دوسری آیات نے واضح فرما دیا کہ حکم و اطاعت دراصل صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہے، ان الحکم الا للہ مگر اس کے حکم اور اس کی اطاعت کی عملی صورت چار حصوں میں منقسم ہے۔- حکم اور اطاعت کی تین عملی صورتیں :۔ - ایک وہ جس چیز کا حکم صراحتة خود حق تعالیٰ نے قرآن میں نازل فرما دیا اور اس میں کسی تفصیل و تشریح کی حاجت نہیں، جیسے شرک و کفر کا انتہائی جرم ہونا ایک اللہ وحدہ کی عبادت کرنا اور آخرت اور قیامت پر یقین رکھنا اور محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا آخری برحق رسول ماننا، نماز، روزہ، حج، زکوة کو فرض سمجھنا، یہ وہ چیزیں ہیں جو براہ راست احکام ربانی ہیں، ان کی تعمیل بلاواسطہ حق تعالیٰ کی اطاعت ہے۔- دسرا حصہ احکام کا وہ ہے جس میں تفصیلات و تشریحات کی ضرورت ہے، ان میں قرآن کریم اکثر ایک مجمل یا مبہم حکم دیتا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کی جاتی ہے، پھر وہ تفصیل و تشریح جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی احادیث کے ذریعہ فرماتے ہیں وہ بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے، اگر اس تفصیل و تشریح میں اجتہادی طور پر کوئی کمی یا کوتاہی رہ جاتی ہے تو بذریعہ حی اس کی اصلاح فرما دی جاتی ہے اور بالاخر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول و عمل جو آخر میں ہوتا ہے وہ حکم الہی کا ترجمان ہوتا ہے۔- اس قسم کے احکام کی اطاعت بھی اگرچہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے لیکن ظاہری اعتبار سے چونکہ یہ احکام صریح طور پر قرآن نہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے امت کو پہنچنے ہیں، اس لئے ان کی اطاعت ظاہری اعتبار سے اطاعت رسول ہی کہلاتی ہے جو حقیقت میں اطاعت الہی کے ساتھ متحد ہونے کے باوجود ظاہری اعتبار سے ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے، اسی لئے پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دینے کے ساتھ اطاعت رسول کا حکم مستقلاً مذکور ہے۔- تیسرا درجہ احکام کا وہ ہے جو نہ قرآن میں صراحتہ مذکور ہیں نہ حدیث میں یا ذخیرہ احادیث میں اس کے متعلق متضاد روایات ملتی ہیں، ایسے احکام میں علماء مجتہدین قرآن و سنت کے منصوصات اور زیر غور مسئلہ کے نظائر میں غور و فکر کر کے ان کا حکم تلاش کرتے ہیں ان احکام کی اطاعت بھی اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے قرآن و سنت سے مستفاد ہونے کی وجہ سے اطاعت خداوندی ہی کی ایک فرد ہیں، مگر ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ فقہی فتاوی کہلاتے ہیں اور علماء کی طرف منسوب ہیں۔- اسی تیسری قسم میں ایسے احکام بھی ہیں جن میں کتاب و سنت کی رو سے کوئی پابندی عائد نہیں، بلکہ ان میں عمل کرنے والوں کو اختیار ہے جس طرح چاہیں کریں، جن کو اصطلاح میں مباحات کہا جاتا ہے، ایسے احکام میں عملی انتظام حکام و امراء کے سپرد ہے کہ وہ حالات اور مصالح کے پیش نظر کوئی قانون بنا کر سب کو اس پر چلائیں، مثلاً شہر کراچی میں ڈاک خانے پچاس ہوں یا سو، پولیس اسٹیشن کتنے ہوں، ریلوے کا نظام کس طرح ہو، آباد کاری کا انتظام کن قواعد پر کیا جائے یہ سب مباحات ہیں، ان کی کوئی جانب نہ واجب ہے نہ حرام بلکہ اختیاری ہے، لیکن یہ اختیار عوام کو دے دیا جائے تو کوئی نظام نہیں چل سکتا، اس لئے نظام کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔- آیت مذکورہ میں اولوالامر کی اطاعت سے علماء اور حکام دونوں کی اطاعت مراد ہے، اس لئے اس آیت کی رو سے فقہی تحقیقات میں فقہاء کی اطاعت اور انتظامی امور میں حکام و امراء کی اطاعت واجب ہوگئی۔- یہ اطاعت بھی درحقیقت اللہ جل شانہ کے احکام ہی کی اطاعت ہے، لیکن ظاہری سطح کے اعتبار سے یہ احکام نہ قرآن میں ہیں نہ سنت میں، بلکہ ان کا بیان یا علماء کی طرف سے ہو یا حکام کی طرف سے اس لئے اس اطاعت کو تیسرا نمبر جداگانہ قرار دے کر اولی الامر کی اطاعت نام رکھا گیا اور جس طرح منصوصات قرآن میں قرآن کا اتباع اور منصوصات رسول میں رسول کا اتباع لازم واجب ہے، اسی طرح غیر منصوص فقہی چیزوں میں فقہا کا اور انتظامی امور میں حکام و امراء کا اتباع واجب ہے، یہی مفہم ہے اطاعت اولی الامر کا۔- خلاف شرع کاموں میں امیر کی اطاعت جائز نہیں :۔ - واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس کام کو ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگوں کے درمیان کوئی فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو اور اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کی تعلیم دی اس سے اشارہ اس بات کی طرف کردیا کہ امیر اگر عدل پر قائم رہے تو اس کی اطاعت واجب ہے اور اگر وہ عدل و انصاف کو چھوڑ کر خلاف شرع احکام صادر کرے تو ان میں امیر کی اطاعت نہیں کی جائے گی، چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :” لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق۔ “ ” یعنی مخلوق کی ایسی اطاعت جائز نہیں جس سے خالق کی نافرمانی لازم آتی ہو۔ “- اس آیت میں اللہ تعالیٰ ارشادفرما رہے ہیں کہ اگر تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو آدمی عدل و انصاف کو قائم رکھنے کی طاقت اور صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کو قاضی بھی نہیں بننا چاہئے، کیونکہ حکم بالعدل بھی ایک امانت ہے، جس کی حفاظت نہ رکھتا ہو تو اس کو قاضی بھی نہیں بننا چاہئے، کیونکہ حکم بالعدل بھی ایک امانت ہے، جس کی حفاظت کمزور اور نااہل آدمی نہیں کرسکتا، چناچہ جب حضرت ابوذر نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ مجھے کسی جگہ کا حاکم مقرر فرما لیں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ :- ” اے ابوذر آپ ضعیف آدمی ہیں اور منصب ایک امانت ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن انتہائی ذلت اور رسوائی ہوگی، سوائے اس شخص کے جس نے امانت کا حق پورا کردیا ہو (یعنی وہ ذلت سے بچ جائے گا۔ “ )- عادل آدمی اللہ کا محبوب ترین بندہ ہے :۔- ایک حدیث میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عادل اللہ کا محبوب اور قریب ترین انسان ہے اور ظالم اللہ کی رحمت اور نظر کرم سے دور ہوتا ہے۔- ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ سب سے پہلے اللہ کے سایہ کے نیچے کون جائے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس بات کا زیادہ علم ہے، تو پھر آپ نے ارشاد فرمایا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے سامنے جب حق آجائے تو فوراً قبول کرلیتے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو مال کو خرچ کرتے ہیں اور جب وہ فیصلہ کرتے ہیں تو ایسا عادلانہ کرتے ہیں جیسا کہ وہ اپنے لئے کرتے۔
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ٠ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ٠ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ ٠ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا ٥٨- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے - أمانت - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امانت - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - عدل - العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما .- والعَدْلُ ضربان :- مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك .- وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ- [ النحل 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311-- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ- [ الطلاق 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً- [ النساء 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» .- ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ - کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ،- العدل دو قسم پر ہے - عدل مطلق - جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ - دوم عدل شرعی - جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔- نعم ( مدح)- و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔
امانتوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے واجب کردہ احکام - قول باری ہے (ان اللہ یامرکم ان تودوالامانات الی اھلھا، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کردو) مفسرین کا ان لوگوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے جنہیں اس آیت میں امانتیں ادا کردینے کا حکم دیا گیا ہے۔- زید بن اسلم، مکحول اور شہر بن حوشب سے مروی ہے ان سے مراد ، ولاۃ الامر، یعنی وہ لوگ ہیں جو صاحب امر ہوں ابن جریج کا قول ہے کہ آیت کا نزول عثمان بن طلحہ کے بارے میں ہوا تھا، اس میں حکم دیا گیا تھا کہ بیت اللہ کی کنجیاں انہیں واپس کردی جائیں، حضرت ابن عباس ، حضرت ابی بن کعب، حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ آیت کا تعلق ہراس شخص سے ہے جسے کسی چیز کا امین مقرر کیا گیاہو، یہ تاویل سب سے بہتر ہے کیونکہ قول باری (ان اللہ یامرکم) میں جو خطاب ہے اس کا عموم تمام مکلفین کا مقتضی ہے اس لیے اسے کسی دلالت کے بغیر صرف بعض افراد تک محدود کردینادرست نہیں ہے میراخیال ہے کہ جن حضرات نے اس کی تاویل ولاۃ الامر ، سے کی ہے ان کا ذہن قول باری (واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل کے ساتھ کرو) کی طرف گیا ہے چونکہ اس میں ولاۃ الامر یعنی ارباب نسبت وکشاد کو خطاب ہے ، اس لیے اس خطاب کے ابتدائی حصے کا رخ بھی ان ہی لوگوں کی طرف تصور کرلیا گیا ہے۔- لیکن بات ایسی نہیں ہے کیونکہ اس میں وکئی امتناع نہیں کہ خطاب کا ابتدائی حصہ تمام لوگوں کے لیے عام ہو اور اس پر بعد کا جو حصہ معطوف کیا گیا ہے وہ ارباب بست وکشاد کے ساتھ خاص ہو، ہم نے قرآن اور غیر قرآن میں اس کے بہت سے نظائر پہلے ہی بیان کردیے ہیں، ابوبکرجصاص مزید کہتے ہیں جس چیز کا کسی کو امین بنایا گیا ہو وہ امانت کہلاتی ہے اس امین کی ذمہ داری ہے کہ وہ امانت کو اس کے مالک کے حوالے کردے۔ ودیعتیں بھی امانتوں میں داخل ہیں ، اس لیے یہ ودیعتیں جن کے پاس رکھی گئی ہوں ان پر انہیں ان کے مالکوں کو لوٹا دیناواجب ہے ، تاہم فقہاء امصار کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر ودیعت اس شخص کے پاس ہلاک ہوجائے تو اس پر اس کا تاوان عائد نہیں ہوگا۔ سلف میں سے بعض سے اس سلسلے میں تاوان ادا کرنے کی روایت میں بھی موجود ہے ، شعبی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپناسامان مجھ سے اٹھوایا اس کا یہ سامان میرے کپڑوں کے درمیان سے ضائع ہوگیا حضرت عمر نے مجھ سے اس کا تاوان رکھوالیا۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے انہیں حامد بن محمد نے ، انہیں شریح نے انہیں ابن ادریس نے ہشام بن حسان سے ، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے کہ میرے پاس چھ ہزار درہم بطور ودیعت رکھے گئے پھر یہ درہم ضائع ہوگئے حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری بھی کوئی چیز اس رقم کے ساتھ ضائع ہوئی ہے ، میں نے نفی میں جواب دیا اس پر حضرت عمر نے مجھ سے تاوان رکھوالیا۔- حجاج نے ابوزبیر سے ، انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے کسی کی کوئی چیز اپنے پاس ودیعت رکھ لی لیکن وہ چیز اس شخص کی دوسری اشیاء کے ساتھ ضائع ہوگئی ، حضرت ابوبکر نے اس شخص سے تاوان نہیں رکھوایا، اور فرمایا کہ یہ امانت تھی ، یعنی اس کا کوئی تاوان نہیں ہے۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں اسماعیل بن فضل نے ، انہیں قتیبہ نے ، انہیں ابن لہیعہ نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے والد سے اور والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کہ حضور نے فرمایا، (من استودع ودیعۃ فلاضمان علیہ، جس شخص نے کوئی ودیعت اپنے پاس رکھ لی تو اس پر کوئی تاوان نہیں ) ۔- ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں ابراہیم بن ہاشم نے انہیں محمد بن عون نے انہیں عبداللہ بن نافع نے محمد بن نبیہ الحجبی سے انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کہ حضور نے فرمایا (ولاضمان علی راع ولاعلی موتمن، چرواہے اور امین پر کوئی تاوان نہیں )- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور کا یہ ارشاد کہ امین پر کوئی تاوان نہیں ، عاریت پر تاوان کی نفی کرتا ہے کیونکہ عاریت مستعیر یعنی عاریت لینے والے شخص کے ہاتھوں میں امانت کے طور پر ہوتی ہے اس لیے عاریت دینے والے نے اسے امین سمجھا تھا، فقہاء کے درمیان ودیعت کی ہلاکت پر تاوان ادانہ کرنے کے مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بشرطیکہ اس شخص کی طرف سے کوئی زیادتی نہ ہوئی جس کے پاس یہ ودیعت رکھی گئی تھی۔- حضرت عمر سے تاوان رکھوانے کے متعلق جو روایت مروی ہے ، تو اس میں اس بات کا امکان ہے کہ ودیعت رکھنے والے نے کسی ایسی حرکت کا اعتراف کرلیا ہوجوحضرت عمر کی نظروں میں تاوان کی موجب بن گئی ۔ عاریت کے سلسلے میں تاوان بھرنے کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف رائے کے بعد فقہاء کے درمیان بھی اختلاف رائے ہوگیا۔- حضر ت عمر، حضرت علی، حضرت جابر، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ عاریت غیرمضمون ہے یعنی اس کے ضیاع پر تاوان واجب نہیں ہوتا، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ تاوان واجب ہوتا ہے ، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ اس کی ہلاکت پر تاوان لازم نہیں ہوتا، ابن شبرمہ ، سفیان ، ثوری، اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے عثمان البتی کا قول ہے کہ مستغیر یعنی رعایت لینے والاضامن ہوگا۔- البتہ جانور اور مقتول کی دیت میں تاوان نہیں لیکن اگر مستعیر پر تاوان کی شرط لگادی گئی ہو توپھرجانور اور دیت کی عاریت کی صورت میں وہ ضامن ہوگا اور اسے تاوان بھرنا پڑے گا، امام مالک کا قول ہے کہ جانور کی عاریت کی صورت میں اگر جانور ہلاک ہوجائے تو کوئی تاوان نہیں ہوگا، البتہ زیورات اور کپڑوں کا تاوان بھرناپڑے گا۔- لیث کا قول ہے عاریت میں کوئی تاوان نہیں لیکن امیرالمومنین ابوالعباس نے مجھے تحریری طور پر عاریت میں بھی تاوان لینے کا حکم دیا ہے اس لیے آج کل میں تاوان دینے کا فیصلہ سناتاہوں ، امام شافعی کا قول ہے کہ ہر عاریت قابل تاوان ہے۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ عاریت کی ہلاکت کی صورت میں جبکہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوئی ہوتاوان بھرنے کی نفی کی دلیل یہ ہے کہ عاریت دینے والے نے عاریت لینے والے کو امین سمجھ کر عاریت اس کے حوالے کی تھی ، جب عاریت لینے والے کو امین سمجھ لیا گیا تواب اس پر عاریت کا تاوان لازم نہیں رہا، کیونکہ ہم نے حضور سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، الاضمان علی موتمن، جس شخص کو امین قرار دیا گیا ہو اس پر کوئی تاوان نہیں ) ۔- اس ارشاد میں ہراس شخص سے تاوان کی نفی کا عموم ہے جسے امین قرار دیا گیا ہو، نیز جب عاریت کو اس کے مالک کی اجازت سے قبضے میں لیا گیا اور اس میں تاوان کی شرط نہیں لگائی گئی تواب ودیعت کی طرح وہ اس کا تاوان نہیں بھرے گا۔- ایک اور پہلو سے ، اس مسئلے پر غور کیا جائے کرائے پر لیا ہوا کپڑا جس میں اس کپڑے سے حاصل ہونے والے فائدے کو استعمال میں لانے کی شرط لگائی گئی ہو اگر ضیاع کی صورت میں اس کپڑے کے بدل کو بطور تاوان ادا کرنے کی شرط نہ رکھی گئی ہو تو اس کے تاوان کی نفی پر سب کا اتفاق ہے اس لیے عاریت بطریق اولی ناقابل تاوان ہوگی کیونکہ اس میں کسی طرح بھی تاوان کی شرط نہیں ہوتی۔- ایک اور جہت سے اس پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اجارے کے طور پر قبضے میں لی ہوئی چیز اس کے منافع کو استعمال میں لانے کی غرض سے قبضے میں لی جاتی ہے اور ضیاع کی صورت میں تاوان لازم نہیں آتا، اس سے یہ لازم ہوگیا کہ عاریت کی ہلاکت پر بھی تاوان لازم نہ آئے کیونکہ عاریت کو بھی ا سے حاصل ہونے والے منافع کو استعمال میں لانے کے لیے قبضے میں لیاجاتا ہے۔- ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہبہ کی ہلاکت کی صورت میں ہبہ قبول کرنے والے شخص پر کوئی تاوان نہیں عائد ہوتا کیونکہ اسے مالک کی اجازت سے قبضے میں لیاجاتا ہے اور اس کے بدل کو بطور تاوان ادا کرنے کی کوئی شرط نہیں ہوتی ، اس لیے کہ ہبہ کی حیثیت ایک نیکی اور صدقے کی ہوتی ہے اس بنا پر عاریت کے لیے بھی یہی حکم واجب ہوگیا کیونکہ یہ بھی ایک نیکی اور صدقہ کی شکل ہوتی ہے ۔- نیز اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اگر عاریت میں استعمال کی بنا پر کوئی کمی ہوجائے تو اس کمی کا کوئی تاوان نہیں ، جب عاریت کا ایک جز ناقابل تاوان ہے جبکہ اس پر قبضہ حاصل تھا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ عاریت کا کل بھی ناقابل تاوان ہو اس لیے کہ جس چیز کے تاوان کا تعلق قبضے کے ساتھ ہو اس میں کل اور جزء کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا، جس طرح غصب اور بیع فاسد کے ذریعے قبضے میں لی ہوئی چیز کا مسئلہ ہے ، جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ نقصان اور کمی کی بنا پر ضائع ہوجانے والا ناقابل تاوان ہے توکل کا بھی ناقابل تاوان ہوناواجب ہوگیا جیسا کہ ودعیت اور دوسری تمام امانتوں کا مسئلہ ہے۔- ودیعت کے متعلق صفوان بن امیہ کی روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے بعض راویوں نے اس میں تاوان کا ذکر کیا ہے اور بعض نے نہیں کیا ہے شریک نے عبدالعزیز بن رفیع سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے امیہ بن صفوان بن امیہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے جنگ حنین کے موقع پر حضور نے ان سے لوہے کی چند زرہیں عاریت کے طور پر لیں، انہوں نے کہا، محمد یہ زرہیں ضمانت کے طور پر دی ہیں آپ نے جواب میں فرمایا، ٹھیک ہے ، شرط منظور ہے۔- پھران میں کچھ زرہیں ضائع ہوگئیں، حضور نے صفوان سے فرمایا اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان بھردیں گے ، انہوں نے جواب دیا ، اللہ کے رسول مجھے تاوان لینے سے زیادہ اسلام قبول کرنے کی رغبت ہے میں تاوان نہیں لوں گا۔- اسرائیل نے یہی روایت عبدالعزیز بن رفیع سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے صفوان بن امیہ سے بیان کی ہے کہ حضور نے صفوان بن امیہ سے چند زرہیں عاریت کے طور پرلی تھیں، ان میں سے کچھ ضائع ہوگئیں، حضور نے ان سے فرمایا، اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان ادا کریں گے ، انہوں نے جواب دیا، اللہ کے رسول اس کی ضرورت نہیں ہے ، اس روایت کو شریک نے موصولا نقل کیا ہے اور اس میں ضمان یعنی تاوان کا ذکر کیا ہے لیکن اسرائیل نے اسے مقطوعا روایت کی ہے اور تاوان کی شرط کا ذکر نہیں کیا ہے۔- قتادہ نے عطاء سے روایت کی ہے کہ حضور نے صفوان بن امیہ سے جنگ حنین کے موقعہ پر چند زرہیں عارت کے طور پرلی تھیں ، انہوں نے حضور سے پوچھا تھا آیایہ عاریت قابل واپسی ہے ، آپ نے اثبات میں جواب دیا تھا۔- جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے ، انہوں نے عبداللہ بن صفوان کے خاندان کے کچھ افراد سے روایت کی ہے کہ حضور نے غزوہ حنین پر جانے کا ارادہ فرمایا، جریر نے اس کے بعد حدیث کا باقی ماندہ حصہ بیان کردیا لیکن اس میں ضمان کا ذکر نہیں کیا۔- کہاجاتا ہے کہ حدیث کے راویوں میں جریر بن عبدالحمید سے بڑھ کر کوئی روای نہ تو اس روایت کو محفوظ کرنے والا ہے نہ متقن ہے اور نہ ہی ثقہ ہے اور جریر نے ضمان کا ذکر نہیں کیا، اگر راویوں کو حفظ اور اتقان کے لحاظ سے یکساں درجے پر تسلیم کرلیاجائے توپھراصطلاحی طور پر یہ حدیث مضطرب کہلائے گی۔- حضرت ابوامامہ اور دوسرے صحابہ کے واسطوں سے حضور سے یہ مروی ہے کہ ، العاریۃ موادۃ عاریت ادا کی جائے گی اگر صفوان کی روایت میں ضمان کا ذکر صحیح تسلیم بھی کرلیاجائے تو اس کا مفہوم تاوان نہیں ہوگا، بلکہ ادائیگی کی ضمانت ہوگا۔- جیسا کہ صفوان سے روایت کے بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں کہ حضور نے فرمایا، جب تک میں انہیں تمہیں واپس نہیں کروں گا، اس وقت تک یہ ضمانت کے تحت رہیں گی۔- اور جس طرح ایک روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں الفریابی نے انہیں قتیبہ نے ، انہیں لیث نے یزید بن حبیب سے انہوں نے سعید بن ابی ہند سے کہ عاریت کی ضمانت کی سب سے پہلے جو صورت پیش آئی وہ یہ تھی کہ حضور نے صفوان سے فرمایا تھا کہ ہمیں اپنے ہتھیار عاریت کے طور پردے دو ، یہ ہتھیار ہماری ضمانت کے تحت رہیں گے حتی کہ ہم انہیں تمہارے پاس پہنچادیں گے۔- اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضور نے صفوان سے واپسی کی ضمانت کی شرط مقرر کی تھی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ صفوان اس وقت ایک حربی کافر تھے انہوں نے یہ خیال کیا تھا کہ حضور ان سے یہ ہتھیار ان کا مال مباح ہونے کی حیثیت سے لے رہے ہیں ، جس طرح تمام حربیوں کا مال لے لینا مباح ہوتا ہے ، اس لیے صفوان نے کہا تھا، محمد، کیا تم مجھ سے یہ ہتھیار زبردستی لے رہے ہو ؟- آپ نے جواب میں فرمایا تھا، نہیں بلکہ عاریت کے طور پر ضمانت کے تحت لے رہاہوں یہ ضمانت اسی وقت تک رہے گی جب تک میں تمہیں واپس نہ کردوں۔ یہ قابل واپسی عاریت ہوگی، حضور نے صفوان کو یہ بتادیا کہ یہ ہتھیار قابل واپسی عاریت کے طور پر لیے جارہے ہیں۔ یہ اس طور پر نہیں لیے جارہے جس طرح اہل حرب کے اموال لیے جاتے ہیں۔- اس کی مثال قائل کے اس قول کی طرح ہے جو وہ اپنے مخاطب سے کہے ، میں تمہاری ضروریات کا ضامن ہوں اس سے قائل کی مرادیہ ہوتی ہے کہ میں ان ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ یہ پوری ہوجائیں ایک شاعر اپنی اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے ،- بتلک اسلی حاجۃ ان ضمن تھا، ،، وابری ھما کان فی الصدرداخلا۔- اگر میں کسی ضرورت اور حاجت کو پورا کرنے کا ارادہ کرلوں تو اس اونٹنی کی وجہ سے میں اس ضرورت کی طرف سے بےغم اور بے فکر ہوجاتاہوں اور دل میں جگہ پانے والے غم سے نجات پالیتاہوں۔ شاعر کے الفاظ ان ضمن تھا، کے متعلق اہل لغت کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے اگر میں کسی حاجت کو پورا کرنے کا قصد اور ارادہ کرلوں۔- ایک اور پہلو سے غور کیجئے، ہم اپنے مخالف کے اس قول کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہ روایت درست ہے ، جس میں ضمان یعنی تاوان کا ذکر ہے ، اس صورت میں ہم یہ کہیں گے اس روایت میں اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نے فرمایا تھا، (عاریۃ مضمونۃ) آپ نے یہ فرماکر اپنے قبضے میں لی ہوئی تمام زرہوں کو قابل ضمانت قرار دیا ۔- یہ چیز ہوبہوان زرہوں کی واپسی کی ضمانت کی مقتضی ہے ، ان کی قیمت کے ضمان یعنی تاوان کی مقتضی نہیں ہے کیونکہ آپ نے یہ نہیں فرمایا، تھا کہ میں ان کی قیمت کا ضامن ہوں یعنی ان کی قیمت کا تاوان بھردوں گا، ایک لفظ کو اس کے معنی سے ہٹاکر کسی دلالت کے بغیر مجازی معنی کی طرف لے جانادرست نہیں ہوتا۔- نیز ہمارے مخالف کی جانب سے فقرے میں ایک پوشیدہ لفط کے اثبات کا دعوی بھی درست نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس پر فقرے میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے ، وہ پوشیدہ لفظ ضمان القیامہ، ہے یعنی قیمت کا تاوان دلالت کے بغیر اس پوشیدہ لفظ کا اثبات درست نہیں ہے۔- حضور نے عاریت کے طور پرلی ہوئی ان زرہوں میں چند کو جب غائب پایاتو آپ نے صفوان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو توہم ان گمشدہ زرہوں کا تاوان بھرنے کے لیے تیار ہیں یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ زرہیں ضیاع کی صورت میں قیمت کے تاوان کی ضمانت کے تحت نہیں لی گئی تھیں۔- اگرقیمت کے ضمان پر اتفاق کی صورت ہوتی تو آپ صفوان سے ہرگز نہ یہ کہتے کہ اگر تم چاہو توہم ان گم شدہ زرہوں کی قیمت کا تاوان بھردیں گے جب کہ تاوان کی شرط کی صورت میں آپ کو لازمی طور پر تاوان بھرنا ہوتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ضیاع کی بنا پر تاوان واجب نہیں ہوا اور یہ کہ حضور نے صفوان کی خواہش اور رضامندی کی صورت میں تبرع کے طور پرا سے تاوان دینے کا ارادہ کیا تھا۔- آپ نہیں دیکھتے کہ حضور نے اسی غزوہ حنین کے موقعہ پر عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار کا قرض لیا تھا، پھر آپ نے جب یہ قرض انہیں واپس کرنا چاہاتو انہوں نے لینے سے انکار کردیا، اس پر آپ نے فرمایا، قرض واپس لے لو، کیونکہ قرض کا بدلہ قرض کی ادائیگی اور حمد ہے اگر گم شدہ زرہوں کا تاوان لازم ہوتا تو آپ ہرگز یہ نہ فرماتے اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان ادا کردیں گے۔- پھرصفوان کا یہ جواب کہ مجھے تاوان لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج میرے دل میں جس قدر ایمان ہے وہ پہلے نہیں تھا، اس پر دلالت کرتا ہے کہ صفوان گم شدہ زرہوں کی قیمت کا تاوان لینے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان زرہوں کی قیمت کا تاوان بھرنے کی کوئی شرط نہیں تھی کیونکہ جس چیز کا تاوان بھرناضروری ہوتا ہے اسلام اور کفر کی صورت میں اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔- ہمارے ایک شیخ کا قول ہے کہ صفوان چونکہ حربی تھا، اس لیے اس کے ساتھ ایسی شرط لگانا درست تھا کیونکہ ہمارے اور اہل حرب کے درمیان معاملات کی صورت میں ایسی شرطیں درست ہوتی ہیں ، جو ہمارے آپس کے معاملات میں درست نہیں ہوتیں۔- آپ نہیں دیکھتے اگر ہم ودیعتوں اور مضاربت کی صورتوں اور ان جیسی چیزوں کے اندر ان کے ساتھ ضمان کی شرط لگائیں گے تو یہ شرط درست نہیں ہوگی ، عاریت کے ضمان کے قائل ہیں، انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے شعبہ اور سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے نقل کیا ہے انہوں نے حسن سے ، انہوں نے حضرت سمرہ سے کہ حضور نے فرمایا، (علی الید مااحذرت حتی تودیہ، جو چیز تم نے لے لی وہ ہاتھ پر رہے گی حتی کہ تم اسے واپس کردو) ۔- اس روایت میں بھی اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس میں تو صرف لی ہوئی چیز کو واپس کے وجوب کا ذکر ہے ، ضائع یا ہلاک ہوجانے کی صورت میں قیمت کے تاوان کا ذکر نہیں ہے ، ہم بھی تویہی کہتے ہیں کہ اس پر عاریت کی واپسی ضروری ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اختلاف نکتے سے اس کو کوئی تعلق بھی نہیں ۔ واللہ اعلم۔- انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے متعلق اللہ کا حکم - قول باری ہے (واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل ، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوانصاف کے ساتھ فیصلے کرو) نیز قول باری ہے ، (ان اللہ یامر بالعدل والاحسان، اللہ تعالیٰ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے) ۔- نیز فرمایا، (واذاقلتم فاعدلوا ولوکان ذاقربی، اور جب تم کہو تو انصاف کی بات کہوخواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں عبداللہ بن موسیٰ بن ابی عثمان نے ، انہیں عبید بن حباب الحلی، نے ، انہیں عبدالرحمن بن ابی الرجال نے اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے ، انہوں نے ثابت الاعرج سے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے اور انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا :- (الاتزال ھذہ الامۃ بخیر مااذاقالت صدقت واذاحکمت عدلت واذا استرحمت رحمت، یہ امت اس وقت تک ٹھیک ٹھاک رہے گی ، جب تک اس میں یہ صفات باقی رہیں گی ک کہ جب بولے گی توسچ بولے گی، جب فیصلہ کرے گی، تو انصاف کرے گی ، اور جب اس سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو رحم کرے گی۔- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں عبدالرحمن المقری نے کھمس بن الحسن سے ، انہوں نے عبداللہ اسلمی سے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے بدزبانی کی، حضرت ابن عباس نے اس سے فرمایا، تم میرے ساتھ بدزبانی کرتے ہو جب کہ میرے اندر تین اچھائیاں موجود ہیں، میں قرآن کی ایک آیت پر پہنچتاہوں پھر خدا کی قسم میری یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس آیت کے جن معانی ومطالب کا مجھے علم ہوگیا ہے تمام لوگوں کو بھی ان کا علم ہوجائے۔- میں مسلمانوں کے کسی حاکم کے متعلق جب یہ سنتا ہوں کہ وہ انصاف سے فیصلہ کرتا ہے تو مجھے اس کی خوشی ہوتی ہے جبکہ شاید مجھے کبھی اس کے پاس اپنا کوئی مقدمہ لے کرجانے کی نوبت ہی نہ آئے اس طرح میں جب سنتا ہوں کہ مسلمانوں کے فلاں علاقے میں بارش ہوئی ہے تو مجھے مسرت ہوتی ہے حالانکہ میرے پاس اپنے کوئی مویشی نہیں ہیں۔- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں حارث بن ابی امامہ نے ، انہیں ابوعبید قاسم بن سلام نے ، انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے حماد بن ابی اسلمہ سے ، انہوں نے حمید سے ، انہوں نے حسن سے کہ ، اللہ تعالیٰ نے حکام سے تین باتوں کا عہد لیا ہے ، اپنی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اللہ سے ڈریں لوگوں سے نہ ڈریں اور اللہ کی آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر فروخت نہ کریں۔ پھر یہ آیت تلاوت کی ، (یاداؤد اناجعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق والاتتبع الھوی، اے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو) تاآخر آیت۔- نیز یہ ارشاد بھی ہے (اناانزلنا التوراۃ فیھاھدی ونور یحکم بھا النبیوں الذین اسلمواہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی، سارے نبی جو مسلم تھے، اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے) ۔ تاقول باری (فلاتخشوالناس واخشونی ولاتشتروا بایاتی ثمناقلیلا ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاو لئک ھم الکافرون، تم لوگوں سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو ارمیری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑدو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں) ۔
(٥٨) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن حضرت عثمان (رض) بن بی طلحہ کلید بردار خانہ کعبہ سے کلید (چابی) کعبہ لی تھی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں کلید خانہ کعبہ عثمان بن ابی طلحہ (رض) کو واپس کردینے کا حکم دیا ہے کہ ان کی امانت ان ہی کو واپس کردو۔- اور جب عثمان بن ابی طلحہ اور عباس بن عبد المطلب کے درمیان فیصلہ کرو تو کلید (چابی) حضرت عثمان (رض) کو دو اور سقایہ (زمزم شریف پلانے کی خدمت) حضرت عباس (رض) کے سپرد کردو۔- اللہ تعالیٰ امانتوں کی واپسی اور عدل کرنے کا حکم دیتا ہے اور وہ حضرت عباس (رض) کی اس درخواست کو کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سقایہ کے ساتھ کلید (چابی) بھی مجھے مرحمت فرما دیجیے، سن رہا ہے اور حضرت عثمان (رض) کے اس فعل کو بھی دیکھ رہا ہے جب کہ انہوں نے حضرت عباس (رض) کی درخواست پر بیت اللہ کی چابی دیتے ہوئے ہاتھ روک لیا تھا، پھر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس چابی کو اللہ تعالیٰ کی امانت میں لے لیجیے۔- شان نزول : (آیت) ” ان اللہ یامرکم “۔ (الخ)- ابن مردویہ (رح) نے بواسطہ کلبی (رح) ، ابو صالح (رح) ، ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ فتح فرمایا تو عثمان بن طلحہ کو بلایا جب وہ آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خانہ کعبہ کی کلید (چابی) دو ، چناچہ وہ کلید (چابی) لے کر آئے جب انہوں نے دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا، تو حضرت عباس (رض) نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سقایہ کے ساتھ کلید (چابی) بھی مجھے مرحمت فرمادیجیے یہ سن کر حضرت عثمان (رض) نے ہاتھ روک لیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، ، عثمان کلید (چابی) لاؤ عثمان نے عرض کیا، اللہ تعالیٰ کی امانت مجھ سے لے لیجیے۔- چناچہ آپ نے کلید (چابی) لے کر بیت اللہ کا دروازہ کھولا، پھر باہر تشریف لاکر بیت اللہ کا طواف کیا اس کے بعد آپ کے پاس جبرئیل امین (علیہ السلام) کلید واپس کردینے کا حکم لے کر تشریف لائے، آپ نے عثمان بن طلحہ کربلا کر کلید (چابی) واپس کردی، اس کے بعد آپ نے (آیت) ” ان اللہ یامرکم “۔ سے پوری آیت تلاوت فرمائی۔- اور شعبی (رح) نے اپنی تفسیر میں بواسطہ حجاج ابن جریج سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت عثمان بن طلحہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کلید خانہ کعبہ (خانہ کعبہ کی چابی) لے کر بیت اللہ میں تشریف لے گئے تھے، جب خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائے تو اس آیت کو تلاوت کرتے ہوئے تشریف لائے پھر آپ نے عثمان (رض) کو بلا کر کلید خانہ کعبہ ان کو لوٹا دی۔- راوی بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ سے اس آیت کو تلاوت کرتے ہوئے باہر تشریف لائے، اس حدیث کا ظاہر اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ یہ آیت خانہ کعبہ کے درمیان میں نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )
یہ دو آیات (٥٨ ‘ ٥٩) قرآن مجید کی نہایت اہم آیات ہیں ‘ جن میں اسلام کا سارا سیاسی ‘ قانونی اور دستوری نظام موجود ہے۔ فرمایا :- آیت ٥٨ (اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ الآی اَہْلِہَالا) (وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بالْعَدْلِ ط) - پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ جو بھی سیاسی نظام بناتے ہیں اس میں مناصب ہوتے ہیں ‘ جن کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور اختیارات بھی۔ لہٰذا ان مناصب کے انتخاب میں آپ کی رائے کی حیثیت امانت کی ہے۔ آپ اپنی رائے دیکھ بھال کردیں کہ کون اس کا اہل ہے۔ اگر آپ نے ذات برادری ‘ رشتہ داری وغیرہ کی بنا پر یا مفادات کے لالچ میں یا کسی کی دھونس کی وجہ سے کسی کے حق میں رائے دی تو یہ صریح خیانت ہے۔ حقِ رائے دہی ایک امانت ہے اور اس امانت کا استعمال صحیح صحیح ہونا چاہیے۔ عام معنی میں بھی امانت کی حفاظت ضروری ہے اور جو بھی امانت کسی نے رکھوائی ہے اسے واپس لوٹانا آپ کی شرعی ذمہ داری ہے۔ لیکن یہاں یہ بات اجتماعی زندگی کے اہم اصولوں کی حیثیت سے آرہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ گویا پہلی ہدایت سیاسی نظام سے متعلق ہے کہ امیر المؤمنین یا سربراہ ریاست کا انتخاب اہلیت کی بنیاد پر ہوگا ‘ جبکہ دوسری ہدایت عدلیہ ( ) کے استحکام کے بارے میں ہے کہ وہاں بلا امتیاز ہر ایک کو عدل و انصاف میسرآئے۔- ( اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط) (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا ) - اگلی آیت میں تیسری ہدایت مقننہ ( ) کے بارے میں آرہی ہے کہ اسلامی ریاست کی دستوری بنیاد کیا ہوگی۔ جدید ریاست کے تین ستون انتظامیہ ( ) ‘ عدلیہ ( ) اور مقننہ ( ) گنے جاتے ہیں۔ پہلی آیت میں انتظامیہ اور عدلیہ کے ذکر کے بعد اب دوسری آیت میں مقننہ کا ذکر ہے کہ قانون سازی کے اصول کیا ہوں گے ۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :88 یعنی تم ان برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں ۔ بنی اسرائیل کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں ، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے ( ) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نااہل ، کم ظرف ، بد اخلاق ، بد دیانت اور بدکار تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی ۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں ، یعنی جن میں بار امانت اٹھانے کی صلاحیت ہو ۔ بنی اسرائیل کی دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ انصاف کی روح سے خالی ہو گئے تھے ۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بے تکلف ایمان نگل جاتے تھے ۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے ۔ انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں انہیں ذرا تامل نہ ہوتا تھا ۔ ان کی بے انصافی کا تلخ ترین تجربہ اس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا ۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں ۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو بتوں کو پوج رہے تھے ، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے ، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کر لیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے ۔ یہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس بے انصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بے انصاف نہ بن جانا ۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی ، بہرحال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو ۔