61۔ 1 یہ آیات ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو اپنا فیصلہ عدالت میں لے جانے کی بجائے سرداران یہود یا سرداران قریش کی طرف لے جانا چاہتے تھے تاہم اس کا حکم عام ہے اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو کتاب و سنت سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لئے ان دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا تو یہ حال ہوتا ہے (اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا) 024:051 کہ جب انہیں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ سَمِنَا وَ اَطَعْنَا ایسے لوگوں کے بارے میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَ اوْلَئِکَ ھُمُ المُفْلِحُوْنَ ) 024:051 یہی لوگ کامیاب ہیں۔
[٩٣] سیدنا عمر کا منافق کے حق میں فیصلہ :۔ ہوا یہ تھا کہ ایک یہودی اور ایک منافق (مسلمان) کا کسی معاملہ میں جھگڑا ہوگیا۔ یہودی چونکہ حق بجانب تھا لہذا اس نے منافق سے کہا کہ چلو اس کا فیصلہ تمہارے رسول سے کرا لیتے ہیں (یعنی یہودیوں کا بھی یہ ایمان ضرور تھا کہ یہ نبی حق ہی کا ساتھ دیتا ہے) مگر منافق اس سے پس و پیش کرنے لگا۔ اسے بھی یہ خطرہ تھا کہ آپ حق کا ساتھ دیں گے اور فیصلہ میرے خلاف ہوجائے گا لہذا وہ لیت و لعل کرنے لگا اور کہنے لگا کہ یہ مقدمہ تمہارے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے چلتے ہیں جہاں اس منافق کو توقع تھی کہ مکر و فریب اور رشوت سے فیصلہ میرے حق میں ہوسکتا ہے۔ مگر یہودی یہ بات نہ مانا کیونکہ اسے بھی اپنے اس سردار کے کردار کا پتہ تھا اور منافق چونکہ کھل کر یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں رسول اللہ کے پاس نہ جاؤں گا اس لیے بالآخر یہی طے پایا کہ فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرایا جائے۔ آپ نے فریقین کی بات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا تو اب منافق کہنے لگا کہ چلو اب یہ مقدمہ سیدنا عمر (رض) ابن خطاب کے پاس لے جا کر ان کا بھی فیصلہ لیتے ہیں۔ سیدنا عمر (رض) ان دنوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے اور ان کے نائب کی حیثیت سے مدینہ میں مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ منافق کا یہ خیال تھا کہ چونکہ سیدنا عمر (رض) میں اسلامی حمیت بہت ہے لہذا وہ میرے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔ چناچہ یہودی اور منافق دونوں نے سیدنا عمر (رض) کے ہاں جا کر اس مقدمہ کا فیصلہ چاہا۔ پھر اپنے اپنے بیان دیے۔ یہودی نے اپنا بیان دینے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ ہم یہ مقدمہ تمہارے نبی کے پاس لے گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے یہ سنتے ہی سیدنا عمر (رض) اندر گئے اور تلوار نکال لائے اور آتے ہی اس منافق کا سر قلم کردیا اور فرمایا کہ جو شخص نبی کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرے اس کے لیے میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔
دوسری آیت میں بتلا دیا کہ باہمی خصوصیت اور جھگڑے کے وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرعی فیصلہ سے اعراض کرنا کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا ایسا کام کرنے والا منافق ہی ہوسکتا ہے اور جب اس منافق کا کفر عملاً اس طرح کھل گیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا تو فاروق اعظم کا اس کو قتل کرنا صحیح ہوگیا، کیونکہ اب وہ منافق نہ رہا بلکہ کھلا کافر ہوگیا، اس لئے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ایسے ہیں کہ جب ان سے کہا جائے کہ آجاؤ اس حکم کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے اور اس کے رسول کی طرف، تو یہ منافقیت آپ کی طرف آنے سے رک جاتے ہیں۔
وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا ٦١ۚ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- تَعالَ- قيل : أصله أن يدعی الإنسان إلى مکان مرتفع، ثم جعل للدّعاء إلى كلّ مکان، قال بعضهم : أصله من العلوّ ، وهو ارتفاع المنزلة، فكأنه دعا إلى ما فيه رفعة، کقولک : افعل کذا غير صاغر تشریفا للمقول له . وعلی ذلک قال : فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] ، تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] ، تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] ، تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] . وتَعَلَّى: ذهب صعدا . يقال : عَلَيْتُهُ فتَعَلَّى- تعالٰی ۔ اس کے اصل معنی کسی کو بلند جگہ کی طرف بلانے کے ہیں پھر عام بلانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے بعض کہتے ہیں کہ کہ یہ اصل میں علو ہے جس کے معنی بلند مر تبہ کے ہیں لہذا جب کوئی شخص دوسرے کو تعال کہہ کر بلاتا ہے تو گویا وہ کسی رفعت کے حصول کی طرف وعورت دیتا ہے جیسا کہ مخاطب کا شرف ظاہر کرنے کے لئے افعل کذا غیر صاغر کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ فَقُلْ تَعالَوْا نَدْعُ أَبْناءَنا[ آل عمران 61] تو ان سے کہنا کہ آ ؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں ۔ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ [ آل عمران 64] تعالو ا الیٰ کلمۃ ( جو ) بات ( یکساں تسلیم کی گئی ہے اس کی ) طرف آؤ تَعالَوْا إِلى ما أَنْزَلَ اللَّهُ [ النساء 61] جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کی طرف رجوع کرو ) اور آؤ أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل 31] مجھ سے سر کشی نہ کرو ۔ تَعالَوْا أَتْلُ [ الأنعام 151] کہہ کہ ( لوگو) آؤ میں ( تمہیں ) پڑھ کر سناؤں ۔ تعلیٰ بلندی پر چڑھا گیا ۔ دور چلا گیا ۔ کہا جاتا ہے علیتہ متعلٰی میں نے اسے بلند کیا ۔ چناچہ وہ بلند ہوگیا - إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - نِّفَاقُ- ، وهو الدّخولُ في الشَّرْعِ من بابٍ والخروجُ عنه من بابٍ ، وعلی ذلک نبَّه بقوله : إِنَّ الْمُنافِقِينَ هُمُ الْفاسِقُونَ [ التوبة 67] أي : الخارجون من الشَّرْعِ ، وجعل اللَّهُ المنافقین شرّاً من الکافرین . فقال : إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] - نفاق جس کے معنی شریعت میں دو رخی اختیار کرنے ( یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے نکل جانا کے ہیں چناچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے ۔ - صدد - الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] - ( ص د د ) الصدود والصد - ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔
(٦١) یہ آیت بشر نامی منافق شخص کے بارے میں نازل ہوئی، اس کا ایک یہودی سے جھگڑا تھا اور حضرت عمر فاروق (رض) نے اس کو قتل کردیا تھا۔
آیت ٦١ (وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ ) - اپنے مقدمات کے فیصلے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کراؤ۔- (رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا ) - صَدَّ یَصُدُّ کے بارے میں عرض کرچکا ہوں کہ یہ رکنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روکنے کے معنی میں بھی۔
سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :92 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منافقین کی عام روش تھی کہ جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا اس کو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے تھے اور جس مقدمہ میں اندیشہ ہوتا تھا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہو گا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لانے سے انکار کر دیتے تھے ۔ یہی حال اب بھی منافقوں کا ہے کہ اگر شریعت کا فیصلہ ان کے حق میں ہو تو سر آنکھوں پر ورنہ ہر اس قانون ، ہر اس رسم و رواج اور ہر اس عدالت کے دامن میں جا پناہ لیں گے جس سے انہیں اپنے منشاء کے مطابق فیصلہ حاصل ہونے کی توقع ہو ۔