اس سورت کو سورة غافر اور سورة ، الطول بھی کہتے ہیں ۔ 2۔ 1 تَنْزِیْل مُنَزَّل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں 2۔ 2 جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔
(١) تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم …اس سورت میں توحید، قیامت اور اسلام کے بنیادی عقائد اور کفار کے مسلمانوں کے ساتھ ناحق جھگڑے اور کج بحثی کا ذکر ہے۔ ان دو آیات میں اس کتاب کے نازل کرنے والے کی چھ صفات اس انداز سے بیان کی گئی ہیں کہ اس کتاب پر کفار کے تمام اعتراضات کا جامع جواب آگیا۔- مفسر عبدالرحمٰن کیلانی (رح) لکھتے ہیں :” کفار کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں، بلکہ تمہاری اختراع ہے۔ آغاز ہی میں فرما دیا کہ یہ کتاب کسی کمزور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اس اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جو العزیز ہے، یعنی) کائنات کی ہر چیز پر غالب ہے اور تمہاری معاندانہ کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم اپنے کلمہ کو سر بلند اور نفاذ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کی دوسری صفت یہ یہ کہ وہ العلیم ہے، یعنی ) ہر چیز کا براہ راست اور پورا پورا علم رکھتا ہے، لہٰذا اس کتاب میں اے کفار مکہ جو (احکام اور جو) خبریں بھی دی گئی ہیں سب درست اور یقینی ہیں۔ تیسری صفت (غافر الذنب) یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے فرماں بردار بندوں کے بہت سے گناہ از خود ہی بخشتا رہتا ہے۔ چوتھی صفت (قابل التوب) یہے کہ کافر توبہ کر کے حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں تو ان کی توبہ قبول کر کے ان کے سابقہ گناہوں کو معاف کردینے والا ہے اور اس صفت کا تعلق صرف نو مسلموں سے نہیں بلکہ جو بندہ بھی اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اس کی طرف رجوع کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے گناہ بھی معاف کردیتا ہے۔ پانچویں صفت (شدید العقاب) یہ ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو سخت سزا دے کر ان کی اکڑی ہوئی گردنیں توڑ سکتا ہے، خواہ وہ یہ عذاب دنیا میں دے یا آخرت میں اور اس کی چھٹی صفت (ذی الطول) یہ ہے کہ وہ کشادہ دست (کھلے ہاتھ اور بڑے فضل والا ) ہے، ہر وقت انعامات کی بارش کرتا رہتا ہے اور اس سے اپنے نافرمانوں کو بھی محروم نہیں فرماتا۔ اتنی صفات بیان کرنے کے بعد ان دو بنیادی جھگڑوں کی حقیقت بیان فرما دی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار مکہ کے درمیان چل رہے تھے، ان میں سے پہلا یہ (لا الہ الا ھو) ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، باقی تمام معبود جھوٹے، باطل اور بےکار ہیں اور دوسرا (الیہ المصیر) یہ کہ روز آخرت کا قیام یقینی ہے اور تم سب کو یقینا اللہ کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ “ (تیسیرا لقرآن)- (٢) اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات بیان فرماتے ہوئے رحمت و عذاب دونوں پر مشتمل صفات بیان فرمائی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے، تاکہ امید و خوف دونوں موجود ہیں، جیسا کہ فرمایا :” نبی عبادی الی انا الغفور، الرحیم وان عذابی ھوالعذاب الالیم) (الحجر :50 39)” میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بیشک میں ہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہوں۔ اور یہ بھی کہ بیشک میرا عذاب ہی درد ناک عذاب ہے۔ “ یاد رہے کہ یہاں رحمت کی صفات عذاب کی صفات سے زیادہ بیان ہوئی ہیں، چناچہ ” شدید العقاب “ سے پہلے بھی رحمت پر مشتمل دو صفات ” غافر الذنب “ اور ” قابل التوب “ ہیں اور بعد میں بھی ” ذی الطول “ ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لما قضی اللہ الخلق کتب فی کتابہ، فھو عندہ فوق العرش ان رحمتی غلبت غضبی) (بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی قول اللہ تعالیٰ : (وھو الذی بیدء الخلق…):3193) اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا فرمائی تو اپنی کتاب میں لکھ دیا، چناچہ وہ کتاب عرش کے اوپر اس کے پاس ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ “
معارف ومسائل - سورة مومن کی خصوصیات اور فضائل وغیرہ :- یہاں سے سورة احقاف تک سات سورتیں حم سے شروع ہوتی ہیں ان کو آل حم یا حوامیم کہا جاتا ہے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ آل حم دیباج القرآن ہے (دیباج ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں۔ مراد اس سے زینت ہے) اور مسعر بن کدام فرماتے ہیں کہ ان کو عرائس کہا جاتا ہے۔ یعنی دلہنیں۔ اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک مغز اور خلاصہ ہوتا ہے۔ قرآن کا خلاصہ آل حم ہیں یا فرمایا کہ حوامیم ہیں۔ یہ سب روایتیں امام عالم ابوعبید قاسم بن سلام نے پانی کتاب فضائل القرآن میں لکھی ہیں۔- اور حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ قرآن کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص اپنے اہل و عیال کی رہائش کے لئے جگہ کی تلاش میں نکلا۔ تو کسی ہرے بھرے میدان کو دیکھ کر خوش ہو رہا ہے۔ اچانک آگے بڑھا تو روضات و مثات یعنی ایسے باغات ملے جن کی زمین میں اگانے کا مادہ سب سے زیادہ ہے ان کو دیکھ کر کہنے لگا میں تو بارش کی پہلی ہی ہریائی کو دیکھ کر تعجب کر رہا تھا۔ یہ تو اس سے بھی عجیب تر ہیں تو اس سے یہ کہا جائے گا کہ پہلی ہریائی اور سرسبزی کی مثال عام قرآن کی مثال ہے اور روضات و مثات کی مثال قرآن میں ہے۔ آل حم کی مثال ہے۔ اسی لئے حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ جب میں تلاوت قرآن کرتے ہوئے آل حم پر آجاتا ہوں تو گویا ان میں میری بڑی تفریح ہوتی ہے۔- ہر بلاء سے حفاظت :- اور مسند بزار میں اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے شروع دن میں آیت الکرسی اور سورة مومن (کی پہلی تین آیتیں حم سے الیہ المصیر تک) پڑھ لیں۔ وہ اس دن ہر برائی اور تکلیف سے محفوظ رہے گا۔ اس کو ترمذی نے بھی روایت کیا ہے۔ جس کی سند میں ایک راوی متکلم فیہ ہے۔ (ابن کثیر ص ٩٦ ج ٤)- دشمن سے حفاظت :- ابوداؤد و ترمذی میں باسناد صحیح حضرت مہلب بن ابی صفرہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے ایسے شخص نے روایت کی کہ جس نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ (کسی جہاد کے موقع پر رات میں حفاظت کے لئے) فرما رہے تھے کہ اگر رات میں تم پر چھاپہ مارا جائے تو تم حم لا ینصرون پڑھ لینا جس کا حاصل لفظ حم کے ساتھ یہ دعا کرنا ہے کہ تمہارا دشمن کامیاب نہ ہو۔ اور بعض روایات میں حم لاینصروا بغیر نون کے آیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب تم حم کہوں گے تو دشمن کامیاب نہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حم دشمن سے حفاظت کا قلعہ ہے۔ (ابن کثیر)- ایک عجیب واقعہ :- حضرت ثابت بنانی فرماتے ہیں کہ میں حضرت مصعب بن زبیر کے ساتھ کوفے کے علاقہ میں تھا۔ میں ایک باغ کے اندر چلا گیا کہ دو رکعت پڑھ لوں۔ میں نے نماز سے پہلے حم المومن کی آیتیں الیہ المصیر تک پڑھیں، اچانک دیکھا کہ ایک شخص میرے پیچھے ایک سفید خچر پر سوار کھڑا ہے جس کے بدن پر یمنی کپڑے ہیں۔ اس شخص نے مجھ سے کہا کہ جب تم غافر الذنب کہو تو اس کے ساتھ یہ دعا کرو، یاغافر الذنب اغفرلی۔ یعنی اسے گناہوں کے معاف کرنے والے مجھے معاف کر دے اور جب تم پڑھو قابل التوب تو یہ دعا کرو یا قابل التوب اقبل توبتی یعنی اے توبہ کے قبول کرنے والے میری توبہ قبول فرما، پھر جب پڑھو شدید العقاب تو یہ دعا کرو یا شدید العقاب لاثم اقینی۔ یعنی اسے سخت عقاب والے مجھے عذاب نہ دیجئے اور جب ذی الطول پڑھو تو یہ دعا کرو یا ذا الظول طل علی بخیر۔ یعنی اے انعام و احسان کرنے والے مجھ پر انعام فرما۔- ثابت بنانی کہتے ہیں یہ نصیحت اس سے سننے کے بعد جو ادھر دیکھا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ میں اس کی تلاش میں باغ کے دروازے پر آیا۔ لوگوں سے پوچھا کہ ایک ایسا شخص یمنی لباس میں یہاں سے گزرا ہے، سب نے کہا کہ ہم نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا۔ ثابت بنانی کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ الیاس (علیہ السلام) تھے، دوسری روایت میں اس کا ذکر نہیں۔ (ابن کثیر )- ان آیات کی تاثیر اصلاح خلق میں اور فاروق اعظم کی ایک عظیم ہدایت مصلحین کے لئے :- ابن کثیر نے بن ابی حاتم کی سند سے نقل کیا ہے کہ ایک اہل شام میں سے بڑا بارعب قوی آدمی تھا اور فاروق اعظم کے پاس آیا کرتا تھا، کچھ عرصہ تک وہ نہ آیا تو فاروق اعظم نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ امیر المومنین اس کا حال نہ پوچھئے وہ تو شراب میں بدمست رہنے لگا۔ فاروق اعظم نے اپنے منشی کو بلایا اور کہا کہ یہ خط لکھو۔ - منجانب عمر بن خطاب بنام فلاں بن فلاں۔- سلام علیک، اس کے بعد میں تمہارے لئے اس اللہ کی حمد پیش کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ گناہوں کو معاف کرنے والا، توبہ کو قبول کرنے والا، سخت عذاب والا، بڑی قدرت والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔- پھر حاضرین مجلس سے کہا کہ سب مل کر اس کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے قلب کو پھیر دے، اور اس کی توبہ قبول فرمائے۔ فاروق اعظم نے جس قاصد کے ہاں یہ خط بھیجا تھا اس کو ہدایت کردی تھی کہ یہ خط اس کو اس وقت تک نہ دے جب تک کہ وہ نشہ سے ہوش میں نہ آئے اور کسی دوسرے کے حوالے نہ کرے۔ جب اس کے پاس حضرت فاروق اعظم کا یہ خط پہنچا اور اس نے پڑھا تو بار بار ان کلمات کو پڑھتا اور غور کرتا رہا کہ اس میں مجھے سزا سے ڈرایا بھی گیا ہے اور معاف کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ پھر رونے لگا اور شراب خوری سے باز آ گیا، تو ایسی توبہ کی کہ پھر اس کے پاس نہ گیا۔- حضرت فاروق اعظم کو جب اس اثر کی خبر ملی تو لوگوں سے فرمایا کہ ایسے معاملات میں تم سب کو ایسا ہی کرنا چاہئے کہ جب کوئی بھائی کسی لغزش میں مبتلا ہوجائے تو اس کو درستی پر لانے کی فکر کرو اور اس کو اللہ کی رحمت کا بھروسہ دلاؤ اور اللہ سے اس کے لئے دعا کرو کہ وہ توبہ کرلے۔ اور تم اس کے مقابلہ پر شیطان کے مددگار نہ بنو۔ یعنی اس کو برا بھلا کہہ کر یا غصہ دلا کر اور دین سے دور کردو گے تو یہ شیطان کی مدد ہوگی۔ (ابن کثیر )- تنبیہ :- جو لوگ اصلاح خلق اور تبلیغ و دعوت کی خدمت انجام دینے والے ہیں ان کے لئے اس حکایت میں ایک عظیم الشان ہدایت ہے کہ جس شخص کی اصلاح مقصود ہو اس کے لئے خود بھی دعا کرو پھر نرم تدابیر سے اس کو درستی کی طرف لاؤ۔ اشتعال انگیزی نہ کرو کہ اس سے اس کو نفع نہیں پہنچے گا بلکہ شیطان کی امداد ہوگی اور وہ اس کو اور زیادہ گمراہی میں مبتلا کر دے گا۔ (آگے آیت کی تفسیر دیکھئے)- حم :۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے مگر آئمہ متقدمین کے نزدیک یہ حروف مقطعات سب متشابہات میں سے ہیں جن کے معنی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک راز ہیں۔
یہ قرآن کریم رسول اکرم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارا گیا ہے جو کہ کافروں کو سزا دینے میں زبردست اور مومن و کافر سب کو جاننے والا ہے۔
آیت ٢ تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ ” نازل کیا جانا ہے اس کتاب کا اس اللہ کی جانب سے جو زبردست ہے ‘ صاحب علم ہے۔ “