Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رسولوں اور اہل ایمان کو دنیا و آخرت میں مدد کی بشارت ۔ آیت میں رسولوں کی مدد کرنے کا اللہ کا وعدہ ہے ، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ بعض رسولوں کو ان کی قوموں نے قتل کر دیا ، جیسے حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب صلوات اللہ علیہم و سلامہ ، اور بعض انبیاء کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا ، جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ۔ اور حضرت عیسیٰ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے آسمان کی طرف ہجرت کرائی ۔ پھر کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ وعدہ پورا کیوں نہیں ہوا ؟ اس کے دو جواب ہیں ایک تو یہ کہ یہاں گو عام خبر ہے لیکن مراد بعض سے ہے ، اور یہ لعنت میں عموماً پایا جاتا ہے کہ مطلق ذکر ہو اور مراد خاص افراد ہوں ۔ دوسرے یہ کہ مدد کرنے سے مراد بدلہ لینا ہو ۔ پس کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے ایذاء پہنچانے والوں سے قدرت نے زبردست انتقام نہ لیا ہو ۔ چنانچہ حضرت یحییٰ ، حضرت زکریا ، حضرت شعیب کے قاتلوں پر اللہ نے ان کے دشمنوں کو مسلط کر دیا اور انہوں نے انہیں زیر و زبر کر ڈالا ، ان کے خون کی ندیاں بہا دیں اور انہیں نہایت ذلت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا ۔ نمرود مردود کا مشہور واقعہ دنیا جانتی ہے کہ قدرت نے اسے کیسی پکڑ میں پکڑا ؟ حضرت عیسیٰ کو جن یہودیوں نے سولی دینے کی کوشش کی تھی ۔ ان پر جناب باری عزیز و حکیم نے رومیوں کو غالب کر دیا ۔ اور ان کے ہاتھوں ان کی سخت ذلت و اہانت ہوئی ۔ اور ابھی قیامت کے قریب جب آپ اتریں گے تب دجال کے ساتھ ان یہودیوں کی جو اس کے لشکری ہوں گے قتل کریں گے ۔ اور امام عادل اور حاکم باانصاف بن کر تشریف لائیں گے صلیب کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ باطل کر دیں گے بجز اسلام کے اور کچھ قبول نہ فرمائیں گے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مدد اور یہی دستور قدرت ہے جو پہلے سے ہے اور اب تک جاری ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کی دنیوی امداد بھی فرماتا ہے اور ان کے دشمنوں سے خود انتقام لے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا ہے جو شخص میرے نبیوں سے دشمنی کرے اس نے مجھے لڑائی کیلئے طلب کیا ۔ دوسری حدیث میں ہے میں اپنے دوستوں کی طرف سے بدلہ ضرور لے لیا کرتا ہوں جیسے کہ شیر بدلہ لیتا ہے اسی بناء پر اس مالک الملک نے قوم نوح سے ، عاد سے ، ثمودیوں سے ، اصحاب الرس سے ، قوم لوط سے ، اہل مدین سے اور ان جیسے ان تمام لوگوں سے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور حق کا خلاف کیا تھا بدلہ لیا ۔ ایک ایک کو چن چن کر تباہ برباد کیا اور جتنے مومن ان میں تھے ان سب کو بچا لیا ۔ امام سدی فرماتے ہیں جس قوم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے یا ایمان دار بندے انہیں پیغام الٰہی پہنچانے کیلئے کھڑے ہوئے اور اس قوم نے ان نبیوں کی یا ان مومنوں کی بےحرمتی کی اور انہیں مارا پیٹا قتل کیا ضرور بالضرور اسی زمانے میں عذاب الٰہی ان پر برس پڑے ۔ نبیوں کے قتل کے بدلے لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور پانی کی طرح ان کے خون سے پیاسی زمین کو سیراب کیا ۔ پس گو انبیاء اور مومنین یہاں قتل کئے گئے لیکن ان کا خون رنگ لایا اور ان کے دشمنوں کا بھس کی طرح بھرکس نکال دیا ۔ ناممکن ہے کہ ایسے بندگان خاص کی امداد و اعانت نہ ہو اور ان کے دشمنوں سے پورا انتقام نہ لیا گیا ہو ۔ اشرف الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی دنیا اور دنیا والوں کے سامنے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو غلبہ دیا اور دشمنوں کی تمام تر کوششوں کو بےنتیجہ رکھا ۔ ان تمام پر آپ کو کھلا غلبہ عطا فرمایا ۔ آپ کے کلمے کو بلند و بالا کیا آپ کا دین دنیا کے تمام ادیان پر چھا گیا ۔ قوم کی زبردست مخالفتوں کے وقت اپنے نبی کو مدینے پہنچا دیا اور مدینے والوں کو سچا جاں نثار بنا کر پھر مشرکین کا سارا زور بدر کی لڑائی میں ڈھا دیا ۔ ان کے کفر کے تمام وزنی ستون اس لڑائی میں اکھیڑ دیئے ۔ سرداران مشرک یا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئے یا مسلمانوں کے ہاتھوں میں قیدی بن کر نامرادی کے ساتھ گردن جھکائے نظر آنے لگے قید و بند میں جکڑے ہوئے ذلت و اہانت کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کسی کے ہاتھوں پر اور کسی کے پاؤں پر دوسرے کی گرفت تھی ۔ اللہ کی حکمت نے ان پر پھر احسان کیا اور ایک مرتبہ پھر موقعہ دیا فدیہ لے کر آزاد کر دیئے گئے لیکن پھر بھی جب مخالفت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اور اپنے کرتوتوں پر اڑے رہے ۔ تو وہ وقت بھی آیا کہ جہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھپ چھپا کر رات کے اندھیرے میں پاپیادہ ہجرت کرنی پڑی تھی وہاں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے اور گردن پر ہاتھ باندھے دشمنان رسول سامنے لائے گئے ۔ اور بلاد حرم کی عظمت و عزت رسول محترم کی وجہ سے پوری ہوئی ۔ اور تمام شرک و کفر اور ہر طرح کی بے ادبیوں سے اللہ کا گھر پاک صاف کر دیا گیا ۔ بالآخر یمن بھی فتح ہوا اور پورا جزیرہ عرب قبضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آ گیا ۔ اور جوق کے جوق لوگ اللہ کے دین میں داخل ہوگئے ۔ پھر رب العالمین نے اپنے رسول رحمتہ العالمین کو اپنی طرف بلا لیا اور وہاں کی کرامت و عظمت سے اپنی مہمانداری میں رکھ کر نوازا صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر آپ کے بعد آپ کے نیک نہاد صحابہ کو آپ کا جانشین بنایا ۔ جو محمدی جھنڈا لئے کھڑے ہوگئے اور اللہ کی توحید کی طرف اللہ کی مخلوق کو بلانے لگے ۔ جو روڑا راہ میں آیا اسے الگ کیا ۔ جو خار چمن میں نظر پڑا اسے کاٹ ڈالا گاؤں گاؤں شہر شہر ملک ملک دعوت اسلام پہنچا دی جو مانع ہوا اسے منع کا مزہ چکھایا اسی ضمن میں مشرق و مغرب میں سلطنت اسلامی پھیل گئی ۔ زمین پر اور زمین والوں کے جسموں پر ہی صحابہ کرام نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح پالی اسلامی نقوش دلوں میں جما دیئے اور سب کو کلمہ توحید کے نیچے جمع کر دیا ۔ دین محمد نے زمین کا چپہ چپہ اور کونا کونا اپنے قبضے میں کر لیا ۔ دعوت محمدیہ بہرے کانوں تک بھی پہنچ چکی ۔ صراط محمدی اندھوں نے بھی دیکھ لیا ۔ اللہ اس پاکباز جماعت کو ان کی اولو العزمیوں کا بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔ آمین الحمد للہ کا اور اس کے رسول کا کلام موجود ہے ۔ اور آج تک ان کے سروں پر رب کا ہاتھ ہے ۔ اور قیامت تک یہ وطن مظفر و منصور ہی رہے گا اور جو اس کے مقابلے پر آئے گا منہ کی کھائے گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھائے گا یہی مطلب ہے اس مبارک آیت کا ۔ قیامت کے دن بھی دینداروں کی مدد و نصرت ہوگی اور بہت بڑی اور بہت اعلیٰ پیمانے تک ۔ گواہوں سے مراد فرشتے ہیں ، دوسری آیت میں یوم بدل ہے پہلی آیت کے اسی لفظ سے ۔ بعض قرأتوں میں یوم ہے تو یہ گویا پہلے یوم کی تفسیر ہے ۔ ظالموں سے مراد مشرک ہیں ان کا عذر و فدیہ قیامت کے دن مقبول نہ ہوگا وہ رحمت رب سے اس دن دور دھکیل دیئے جائیں گے ۔ ان کیلئے برا گھر یعنی جہنم ہوگا ۔ ان کی عاقبت خراب ہوگی ، حضرت موسیٰ کو ہم نے ہدایت ونور بخشا ۔ بنی اسرائیل کا انجام بہتر کیا ۔ فرعون کے مال و زمین کا انہیں وارث بنایا کیونکہ یہ اللہ کی اطاعت اور اتباع رسول میں ثابت قدمی کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے تھے ۔ جس کتاب کے یہ وارث ہوئے وہ عقلمندوں کیلئے سرتاپا باعث ہدایت و عبرت تھی ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچا ہے آپ کا ہی بول بالا ہوگا انجام کے لحاظ سے آپ والے ہی غالب رہیں گے ۔ رب اپنے وعدے کے خلاف کبھی نہیں کرتا بلاشک و شبہ دین اللہ کا اونچا ہو کر ہی رہے گا ۔ تو اپنے رب سے استغفار کرتا رہ ۔ آپ کو حکم دے کر دراصل آپ کی امت کو استغفار پر آمادہ کرنا ہے ۔ دن کے آخری اور رات کے انتہائی وقت خصوصیت کے ساتھ رب کی پاکیزگی اور تعریف بیان کیا کر ، جو لوگ باطل پر جم کر حق کو ہٹا دیتے ہیں دلائل کو غلط بحث سے ٹال دیتے ہیں ان کے دلوں میں بجز تکبر کے اور کچھ نہیں ان میں اتباع حق سے سرکشی ہے ۔ یہ رب کی باتوں کی عزت جانتے ہی نہیں ۔ لیکن جو تکبر اور جو خودی اور جو اپنی اونچائی وہ چاہتے ہیں وہ انہیں ہرگز حاصل نہیں ہونے کی ۔ ان کے مقصود باطل ہیں ۔ ان کے مطلوب لاحاصل ہیں ۔ اللہ کی پناہ طلب کر کہ ان جیسا حال کسی بھلے آدمی کا نہ ہو ۔ اور ان نخوت پسند لوگوں کی شرارت سے بھی اللہ کی پناہ چاہ کر ۔ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ کہتے تھے دجال انہی میں سے ہوگا اور اس کے زمانے میں یہ زمانے کے بادشاہ ہو جائیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو ۔ وہ سمیع و بصیر ہے ۔ لیکن آیت کو یہودیوں کے بارے میں نازل شدہ بتانا اور دجال کی بادشاہی اور اس کے فتنے سے پناہ کا حکم ۔ سب چیزیں تکلف سے پرہیں ۔ مانا کہ یہ تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے مگر یہ قول ندرت سے خالی نہیں ۔ ٹھیک یہی ہے کہ عام ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ بعض نبی قتل کر دئیے گئے جیسے حضرت یحییٰ و زکریا (علیہما السلام) وغیرہ اور بعض ہجرت پر مجبور ہوگئے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) اور ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا ؟ دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر یعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے لیکن بالاخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخرو ہوتے ہیں جیسے حضرت یحییٰ و زکریا (علیہما السلام) کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دے کر مارنا چاہا اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے رفقا یقینا ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوہ خیبر، اور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ؟ ابن کثیر 51۔ 2 اشہاد شہید گواہ کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے قیامت والے دن فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) گواہی دیں گے یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یا اللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کو جھٹلایا۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی گواہی دیں گے جیسے کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اس لئے قیامت کو گواہوں کے کھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٧] اللہ کی امداد کی صورتیں :۔ دنیا میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے دشمنوں کو تباہ کردیا جائے اور انہیں ظالموں کے پنجہ استبداد سے نجات دلا دی جائے۔ دوسری یہ کہ انہیں سیاسی تفوق بھی حاصل ہوجائے۔ اور تیسری یہ کہ دنیا میں انہیں کا بول بولا ہو یعنی جس مقصد کے لئے وہ کھڑے ہوتے ہیں اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہتی ہے۔ اور حق پرستوں کی قربانیاں کسی بھی حال میں ضائع نہیں جاتیں۔ ان تینوں صورتوں میں سے کسی نبی کو صرف ایک قسم کی مدد حاصل ہوئی، کسی کو دو قسم کی اور کسی کو تینوں قسم کی۔ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کرام اللہ کی طرف سے تینوں طرح کی مدد سے فیض یاب ہوئے۔- [٦٨] یعنی قیامت کے دن جب ہر نبی سے اس کی امت کے متعلق گواہی لی جائے گی۔ علاوہ ازیں ان نیک بندوں کی بھی جن کی معرفت لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ اس دن میدان محشر میں جمع شدہ تمام لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ انبیاء اور صلحاء کا مقام عام لوگوں سے کس قدر بلند ہے۔ نیز وہ یہ بھی دیکھ لیں گے کہ اس دن جب کوئی کسی کی مدد نہ کرسکے گا۔ اللہ اپنے نبیوں اور ایمانداروں کی کس طرح مدد اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) انا لمنصر رسلنا والذین امنوا…سورت کی ابتدا سے یہاں تک آیات کا حاصل یہ تھا کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اور ان کے بعد آنے والے رسلووں کی امتوں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا، حق کو شکست دینے کیلئے باطل طریقے سے کج بحثی کی اور ہر ایک نے اپنے رسول کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا، مگر وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہلاک کیا اور آخرت میں ان کے لئے شدید ترین عذاب رکھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا دفاع کرنے والے مومن کی بھی ا سی طرح مدد فرمائی، مگر اللہ تعالیٰ کی اپنے لوگوں کے ساتھ امداد مخفی ہوتی ہے۔ پہلے کئی طرح سے ان کی آزمائش ہوتی ہے، پھر انجام ان کے حق میں ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کی نظر چونکہ ظاہری اسباب پر ہوتی ہے اور وہ ایمانی فرسات سے محروم ہوتے ہیں، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان واقعات کے ذکر کے بعد جن میں ” ان “ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا بیان ہے، اب ” ان “ اور لام تاکید کے ساتھ اور پانی عظمت کے اظہار کے لئے اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ کرتے ہوئے نہایت زور دار الفاظ میں فرمایا :(انا لمنصر رسلنا والذین امنوا) کہ بیشک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، خواہ وہ کسی کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ، ہمارا قاعدہ یہی ہے۔- (٢) فی الحیوۃ الدنیا : یہاں ایک سوال ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی رسول دنیا میں اپنی قوم پر غالب نہ آسکے، کئی انبیاء قتل ہوئے، ایمان والوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پھر اتنی تاکید کیساتھ یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں، دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ سب سے بڑی مدد تو یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں حق پر ثابت قدم رہتے ہیں، بڑے سے بڑے لالچ یا بڑی سے بڑی آزمائش حتیٰ کہ شہادت کی صورت میں بھی ان کے قدم ایمان سے نہیں ڈگمگاتے۔ یہ استقامت اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کے بغیر کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، جیسا کہ فرمایا :(ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تنزل علیھم الملٓئکۃ الا تغافوا ولا تخزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون نحن اولیو کم فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ) (حم السجدہ :31-30)” بیشک وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارے رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے تھے۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔ “ اس نصرت کی ایک مثال اصحاب الاخدود ہیں۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ دلیل وبرہان کے لحاظ سے وہ ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں جیسا کہ فرعن نے اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود دلیل کے میدان میں شکست کھائی، حتیٰ کہ وہ جادو گر جو مقابلے پر لائے گئے تھے، سجدے میں گرگئے اور ایمان لے آئے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی ذہنی اور قلبی برتری عطا فرماتا ہے کہ ہر قسم کی قوت و شوکت اور ملک و سلطنت کے باوجود ان کی نظر میں کفار کی حیثیت گھاس کے ایک تنکے سے بھی کم ہوتی ہے۔ ایک صورت مدد کی یہ ہے کہ ان کے دشمنوں سے دنیا میں ان زیادتیوں کا بدلا لیا جاتا ہے جو وہ رسولوں اور ایمان والوں پر کرتے رہے۔ (دیکھیے روم : ٤٧) پھر خواہ وہ بدلا رسول کی موجودگی میں لیا جائے، جیسا کہ قوم نوح اور عاد ثمود کے ساتھ وہا، خواہ رسول کے بعد لیا جائے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے اپنے بعض رسولوں کو قتل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے سخت لڑائی والے بندے مسلط کر کے انہیں نہایت عبرت ناک سزا دی، جیسا کہ سوہ بنی اسرائیل کے شروع میں مذکور ہے اور جن یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے کا منصوبہ بنایا ان پر رومیوں کو مسلط کیا گیا، جنہوں نے انہیں ہر طریقے سے ذلیل و خوار کیا اور وہ دنیا میں ایسے منتشر ہوئے کہ آج تک کسی نہ کسی قوم کی پناہ کے بغیر کسی جگہ ان کا قیام مشکل ہے۔ (دیکھیے سورة بنی اسرائیل : ٤ تا ٧) اور مدد کی ایک صورت یہ ہے کہ انہیں دنیا میں مادی لحاظ سے فتح و نصرت اور حکومت و سلطنت عطا کردی جائے جیسا کہ داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی مدد ہوئی۔ ان صورتوں میں سے کسی نبی کو صرف ایک قسم کی مدد حاصل ہوئی، کسی کو دو قسم کی اور کسی کو زیادہ کی۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) ہر قسم کی مدد سے فیض یاب ہوئے۔- (٣) ویوم یقوم الاشھاد :” الاشھا ”‘ ” شاھ ”‘ کی جمع بھی ہوسکتی ہے، جیسے ” ضاحب “ کی جمع ” اضحاب “ ہے اور ” شھی ”‘ کی بھی، جیسے ” شریف “ کی جمع ” اشراف “ ہے۔ یعنی اس دن بھی ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی مدد کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ مراد قیامت کا دن ہے جب انبیائ، فرشتے، اہل ایمان، زمین اور انسان کے اعضا آدمی کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ تعالیٰ مومنوں کو جنت عطا فرما کر اور ان کے دشمنوں کو جہنم میں پھینک کر اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی مدد فرمائے گا۔ دیکھیے سورة مطففین (٢٩ تا ٣٦) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ہم اپنے پیغمبروں کی اور ایمان والوں کی دنیوی زندگانی میں بھی مدد کرتے ہیں (جیسا اوپر موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ سے معلوم ہوا) اور اس روز بھی جس میں گواہی دینے والے (فرشتے جو کہ نامہ اعمال لکھتے تھے اور قیامت کے روز اس بات کی گواہی دیں گے کہ رسولوں نے عمل تبلیغ کیا اور کفار نے عمل تکذیب، غرض وہ فرشتے گواہی کے لئے) کھڑے ہوں گے (مراد اس سے قیامت کا دن ہے، وہاں کی مدد کا حال ابھی کفار کے معذب بالنار ہونے سے معلوم ہوچکا ہے، آگے اس دن کا بیان ہے یعنی جس دن کو ظالموں (یعنی کافروں) کو ان کی معذرت کچھ نفع نہ دے گی (یعنی اول تو کوئی معتدبہ معذرت نہ ہوگی اور اگر کچھ حرکت مذبوحی کی طرح ہوئی تو وہ نافع نہ ہوگی) اور ان کے لئے لعنت ہوگی اور ان کے لئے اس عالم میں خرابی ہوگی (پس اس طرح آپ اور آپ کے اتباع بھی منصور ہوں گے اور مخالفین ذلیل و مقہور ہوں گے تو آپ تسلی رکھئے) اور (آپ کے قبل) ہم موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت نامہ (یعنی توریت) دے چکے ہیں اور (پھر) ہم نے وہ کتاب بنی اسرائیل کو پہنچائی تھی کہ وہ ہدایت اور نصیحت (کی کتاب) تھی، اہل عقل (سلیم) کے لئے (بخلاف بےعقلوں کے کہ وہ اس سے منتفع نہ ہوئے۔ اسی مثل موسیٰ (علیہ السلام) کے آپ بھی صاحب رسالت و صاحب وحی ہیں اور اسی طرح مثل بنی اسرائیل کے آپ کے متبعین آپ کی کتاب کی خدمت کریں گے اور جیسے ان میں اہل عقل تصدیق کرنے والے اور متبع تھے اور بےعقل لوگ منکر و مخالف اسی طرح آپ کی امت میں بھی دونوں طرح کے لوگ ہوں گے) سو (اس سے بھی) آپ (تسلی حاصل کیجئے اور کفار کی ایذواؤں پر) صبر کیجئے بیشک اللہ کا وعدہ (جس کا اوپر لننصر الخ میں ذکر ہوا ہے بالکل) سچا ہے اور (اگر کبھی کمال صبر میں کچھ کمی ہوگئی ہو جو حسب قواعد شرعیہ واقع میں تو گناہ نہیں، مگر آپ کے رتبہ عالی کے اعتبار سے وجوب تدارک میں مثل گناہ ہی کے ہے، اس کا تدارک کیجئے وہ تدارک یہ ہے کہ) اپنے (اس) گناہ کی (جس کو مجازاً آپ کی شان عالی کے اعتبار سے گناہ کہہ دیا گیا ہے) معافی مانگئے اور (ایسے شغل میں لگے رہیئے کہ غمگین و خریں کرنے والی چیزوں کی طرف التفات ہی نہ ہو، وہ شغل یہ ہے کہ) شام اور صبح (یعنی علی الدوام) اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے رہیئے (یہ مضمون تو آپ کی تسلی کے متعلق ہوگیا، آگے منکرین و مجادلین پر توبیخ اور رد ہے یعنی) جو لوگ بلا کسی سند کے ان کے پاس موجود ہو، خدا کی آیتوں میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں (ان کو کوئی وجہ اشتباہ کی نہیں ہے کہ وہ جدال کا سبب ہو بلکہ) ان کے دلوں میں نری بڑائی (ہی بڑائی) ہے کہ وہ اس تک کبھی پہنچنے والے نہیں (اور وہ بڑائی سبب جدال کا ہے کیونکہ وہ اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اتباع سے عار آتا ہے وہ خود اوروں ہی کو اپنا تابع بنانے کی ہوس رکھتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ بڑائی نصیب نہ ہوگی بلکہ جلد ہی ذلیل و خوار ہوں گے۔ چناچہ بدر وغیرہ میں مسلمانوں سے مغلوب ہوئے) سو (جب یہ خود بڑائی چاہتے ہیں تو آپ سے حسد و عداوت سب کچھ کریں گے لیکن) آپ (اندیشہ نہ کیجئے بلکہ ان کے شر سے) اللہ کی پناہ مانگتے رہیئے، بیشک وہی ہے سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا (تو وہ اپنی صفات کمال سے اپنی پناہ میں آئے ہوئے لوگوں کو محفوظ رکھے گا یہ جدال تو آپ کو رسول ماننے میں تھا۔ آگے ان کا جدال قیامت کے متعلق مع رد مذکور ہے یعنی وہ لوگ جو آدمیوں کے دوبارہ پیدا ہونے کے منکر ہیں بڑے کم عقل ہیں، اس واسطے کہ) بالیقین آسمانوں اور زمین کا (ابتداً ) پیدا کرنا آدمیوں کے (دوبارہ) پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے (جب بڑے کام پر قدرت ثابت ہوگئی تو چھوٹے پر بدرجہ اولیٰ ثابت ہے اور یہ دلیل ثبوت کے لئے کافی شافی ہے) لیکن اکثر آدمی (اتنی بات) نہیں سمجھتے (کیونکہ وہ غور ہی نہیں کرتے اور بعضے ایسے بھی ہیں جو غور بھی کرتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں، اس طرح قرآن کو سننے والوں کی دو قسم ہوگئیں، ایک اس کو سمجھنے اور ماننے والے یہ صاحب بصیرت اور صاحب ایمان ہیں۔ دوسرے نہ سمجھنے اور نہ ماننے والے یہ مثل نابینا اور بد عمل کے ہیں) اور (ان دونوں قسموں کے آدمی یعنی ایک) بینا (دوسرا) نابینا اور (ایک) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور (دوسرے) بدکار باہم برابر نہیں ہوتے (اس میں آپ کی تسلی بھی ہے کہ ہر قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں، سب کیسے سمجھنے لگیں اور منکرین پر عذاب قیامت کی وعید بھی ہے کہ ہم سب کو برابر نہ رکھیں گے۔ آگے منکرین کو یعنی ان لوگوں کو جو مثل نابینا کے اور بدعمل ہیں بطور التفات کے زجر ہے فرماتے ہیں کہ) تم لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہو (ورنہ اعمیٰ اور بدعمل نہ رہتے۔ اور قیامت کے متعلق جدال کا جواب دے کر آگے اس کے واقع ہونے کی خبر دیتے ہیں کہ) قیامت تو ضرور ہی آ کر رہے گی اس (کے آنے) میں کسی طرح کا شک ہے ہی نہیں مگر اکثر لوگ (بوجہ عدم تدبر فی الدلائل کے اس کو) نہیں مانتے اور (ایک جدال ان کا توحید میں تھا کہ خدا کے ساتھ شریک کرتے تھے آگے اس کے متعلق کلام ہے یعنی) تمہارے پروردگار نے فرما دیا ہے کہ (غیروں کو حوائج کے لئے مت پکارو بلکہ) مجھ کو پکارو میں (باستثناء نامناسب معروض کے) تمہاری (ہر) درخواست قبول کروں گا (دعا کے متعلق آیت قرآنی (آیت) فیکشف ماتدعون الیہ ان شاء کا یہی مطلب ہے کہ نامناسب درخواست و دعا کو رد کردیا جاوے گا) جو لوگ (صرف) میری عبادت سے (جس میں مجھ سے دعا مانگنا بھی داخل ہے) سرتابی کرتے ہیں (اور غیروں کو پکارنے اور ان کی عبادت کرتے ہیں، حاصل یہ ہوا کہ جو لوگ توحید سے اعراض کر کے شرک کرتے ہیں) وہ عنقریب (مرتے ہی) ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔- معارف و مسائل - (آیت) اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور مومنین کی مدد کیا کرتے ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور ظاہر یہ ہے کہ یہ مدد بمقابلہ مخالفین اور اعداء کے مقصود ہے۔ اکثر انبیاء (علیہم السلام) کے متعلق تو اس کا وقوع ظاہر ہے مگر بعض انبیاء (علیہم السلام) جیسے یحییٰ و زکریا و شعیب (علیہم السلام) جن کو دشمنوں نے شہید کردیا یا بعض کو وطن چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کرنا پڑی جیسے ابراہیم (علیہ السلام) اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے متعلق شبہ ہوسکتا ہے۔- ابن کثیر نے بحوالہ ابن جریر اس کا جواب دیا ہے کہ آیت میں نصرت سے مراد انتصار اور دشمنوں سے انتقام لینا ہے خواہ ان کی موجودگی میں ان کے ہاتھوں سے یا ان کی وفات کے بعد۔ یہ معنی تمام انبیاء و مومنین پر بلا کسی استثناء کے صادق ہیں جن لوگوں نے اپنے انبیاء کو قتل کیا پھر وہ کیسے کیسے عذابوں میں گرفتار کر کے رسوا کئے گئے، اس سے تاریخ لبریز ہے۔ حضرت یحییٰ ، زکریا اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کے قاتلوں پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کو ذلیل و خوار کر کے قتل کیا۔ نمرود کو اللہ نے کیسے عذاب میں پکڑا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمنوں پر اللہ تعالیٰ نے روم کو مسلط کردیا۔ جنہوں نے ان کو ذلیل و خوار کیا اور پھر قیامت سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ ان کو دشمنوں پر غالب فرمائیں گے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کو تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں ہی کے ہاتھوں زیر کیا ان کے سرکش سردار مارے گئے۔ کچھ قید کر کے لائے گئے، باقی ماندہ فتح مکہ میں گرفتار کر کے لائے گئے جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد کردیا۔ آپ کا کلمہ دنیا میں بلند ہوا اور وہی سب ادیان پر غالب آیا، پورے جزیرة العرب پر آپ کے زمانے ہی میں اسلام کی حکومت قائم ہوگئی۔- (آیت) وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ۔ یعنی جس دن کھڑے ہوں گے گواہ، مراد یوم قیامت ہے، وہاں تو انبیاء و مومنین کے لئے نصرت الٰہیہ کا خصوصی ظہور ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْہَادُ۝ ٥١ۙ- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- شهد - وشَهِدْتُ يقال علی ضربین :- أحدهما - جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول :- أشهد . والثاني يجري مجری القسم،- فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، - ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ - شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ہم نے پیغمبروں کی اور ان کے ماننے والوں کی دنیاوی زندگی میں بھی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کرتے ہیں اور قیامت کے دن بھی عذر اور حجت اور گواہی کے ذریعے ان کی مدد کریں گے۔- جس دن فرشتے گواہی دینے کھڑے ہوں گے یعنی کراما کاتبین ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَـقُوْمُ الْاَشْہَادُ ” ہم لازماً مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی ‘ اور اس دن بھی (مدد کریں گے) جس دن گواہ کھڑے ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :67 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، الصافّات ، حاشیہ نمبر 93 ۔ سورة الْمُؤْمِن حاشیہ نمبر :68 یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

14: یعنی جب لوگوں کے اعمال کی گواہی دینے کے لیے گواہوں کو بلایا جائے گا۔ یہ گواہ فرشتے بھی ہوں گے، اور انبیائے کرام وغیرہ بھی۔