فرماتا ہے کہ یہ عربی کا قرآن اللہ رحمان کا اتار ہوا ہے ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا اسے تیرے رب کے حکم سے روح الامین نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے ۔ اور آیت میں ہے روح الامین نے اسے تیرے دل پر اس لئے نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو آگاہ کرنے والا بن جائے ، اس کی آیتیں مفصل ہیں ، ان کے معانی ظاہر ہیں ، احکام مضبوط ہیں ۔ الفاظ واضح اور آسان ہیں جیسے اور آیت میں ہے ( كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ Ǻۙ ) 11-ھود:1 ) ، یہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم و مفصل ہیں یہ کلام ہے حکیم و خبیر اللہ جل شانہ کا لفظ کے اعتبار سے معجز اور معنی کے اعتبار سے معجز ۔ باطل اس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا ۔ حکیم و حمید رب کی طرف سے اتارا گیا ہے ۔ اس بیان و وضاحت کو ذی علم سمجھ رہے ہیں ۔ یہ ایک طرف مومنوں کو بشارت دیتا ہے ۔ دوسری جانب مجرموں کو دھمکاتا ہے ۔ کفار کو ڈراتا ہے ۔ باوجود ان خوبیوں کے پھر بھی اکثر قریشی منہ پھیرے ہوئے اور کانوں میں روئی دیئے بہرے ہوئے ہیں ، پھر مزید ڈھٹائی دیکھو کہ خود کہتے ہیں کہ تیری پکار سننے میں ہم بہرے ہیں ۔ تیرے اور ہمارے درمیان آڑ ہیں ۔ تیری باتیں نہ ہماری سمجھ میں آئیں نہ عقل میں سمائیں ۔ جا تو اپنے طریقے پر عمل کرتا چلا جا ۔ ہم اپنا طریقہ کار ہرگز نہ چھوڑیں گے ۔ ناممکن ہے کہ ہم تیری مان لیں ۔ مسند عبد بن حمید میں حضرت جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ ایک دن قریشیوں نے جمع ہو کر آپس میں مشاورت کی کہ جادو کہانت اور شعرو شاعری میں جو سب سے زیادہ ہو اسے ساتھ لے کر اس شخص کے پاس چلیں ۔ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) جس نے ہماری جمعیت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے کام میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالنا شروع کر دیا ہے وہ اس سے مناظرہ کرے اور اسے ہرا دے اور لاجواب کر دے سب نے کہا کہ ایسا شخص تو ہم میں بجز عتبہ بن ربیعہ کے اور کوئی نہیں ۔ چنانچہ یہ سب مل کر عتبہ کے پاس آئے اور اپنی متفقہ خواہش ظاہر کی ۔ اس نے قوم کی بات رکھ لی اور تیار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ آکر کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتا تو اچھا ہے یا عبد اللہ؟ ( یعنی آپ کے والد صاحب ) آپ نے کوئی جواب نہ دیا ۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ تو اچھا ہے یا تیرا دادا عبد المطلب؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بھی خاموش رہے ۔ وہ کہنے لگا سن اگر تو اپنے تئیں دادوں کو اچھا سمجھتا ہے تب تو تمہیں معلوم ہے وہ انہیں معبودوں کو پوجتے رہے جن کو ہم پوجتے ہیں اور جن کی تو عیب گیری کرتا رہتا ہے اور اگر تو اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھتا ہے تو ہم سے بات کر ہم بھی تیری باتیں سنیں ۔ قسم اللہ کی دنیا میں کوئی انسان اپنی قوم کیلئے تجھ سے زیادہ ضرر رساں پیدا نہیں ہوا ۔ تو نے ہماری شیرازہ بندی کو توڑ دیا ۔ تو نے ہمارے اتفاق کو نفاق سے بدل دیا ۔ تو نے ہمارے دین کو عیب دار بتایا اور اس میں برائی نکالی ۔ تو نے سارے عرب میں ہمیں بدنام اور رسوا کر دیا ۔ آج ہر جگہ یہی تذکرہ ہے کہ قریشیوں میں ایک جادوگر ہے ۔ قریشیوں میں کاہن ہے ۔ اب تو یہی ایک بات باقی رہ گئی ہے کہ ہم میں آپس میں سر پھٹول ہو ، ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار لگا کر آ جائیں اور یونہی لڑا بھڑا کر تو ہم سب کو فنا کر دینا چاہتا ہے ، سن اگر تجھے مال کی خواہش ہے تو لے ہم سب مل کر تجھے اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ عرب میں تیرے برابر کوئی اور تونگر نہ نکلے ۔ اور تجھے عورتوں کی خواہش ہے کہ تو ہم میں سے جس کی بیٹی تجھے پسند ہو تو بتا ہم ایک چھوڑ دس دس شادیاں تیری کرا دیتے ہیں ۔ یہ سب کچھ کہہ کر اب اس نے ذرا سانس لیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس کہہ چکے؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اب میری سنو چنانچہ آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اسی سورت کی تلاوت شروع کی اور تقریباً ڈیڑھ رکوع ( مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41- فصلت:13 ) تک پڑھا اتنا سن کر عتبہ بول پڑا بس کیجئے آپ کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔ اب یہ یہاں سے اٹھ کر چل دیا قریش کا مجمع اس کا منتظر تھا ۔ انہوں نے دیکھتے ہی پوچھا کہو کیا بات رہی؟ عتبہ نے کہا سنو تم سب مل کر جو کچھ اسے کہہ سکتے تھے میں نے اکیلے ہی وہ سب کچھ کہہ ڈالا ۔ انہوں نے کہا پھر اس نے کچھ جواب بھی دیا کہا ہاں جواب تو دیا لیکن باللہ میں تو ایک حرف بھی اس کا سمجھ نہیں سکا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ انہوں نے ہم سب کو عذاب آسمانی سے ڈرایا ہے جو عذاب قوم عاد اور قوم ثمود پر آیا تھا انہوں نے کہا تجھے اللہ کی مار ایک شخص عربی زبان میں جو تیری اپنی زبان ہے تجھ سے کلام کر رہا ہے اور تو کہتا ہے میں سمجھا ہی نہیں کہ اس نے کیا کہا ؟ عتبہ نے جواب دیا کہ میں سچ کہتا ہوں بجز ذکر عذاب کے میں کچھ نہیں سمجھا ۔ بغوی بھی اس روایت کو لائے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو عتبہ نے آپ کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ کو قسمیں دینے لگا اور رشتے داری یاد دلانے لگا ۔ اور یہاں سے الٹے پاؤں واپس جا کر گھر میں بیٹھا ۔ اور قریشیوں کی بیٹھک میں آنا جانا ترک کر دیا ۔ اس پر ابو جہل نے کہا کہ قریشیو میرا خیال تو یہ ہے کہ عتبہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھک کیا اور وہاں کے کھانے پینے میں للچا گیا ہے وہ حاجت مند تھا اچھا تم میرے ساتھ ہو لو میں اس کے پاس چلتا ہوں ۔ اسے ٹھیک کرلوں گا ۔ وہاں جا کر ابو جہل نے کہا عتبہ تم نے جو ہمارے پاس آنا جانا چھوڑا اس کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی معلوم ہوتی ہے کہ تجھے اس کا دستر خوان پسند آ گیا اور تو بھی اسی کی طرف جھک گیا ہے ۔ حاجب مندی بری چیز ہے میرا خیال ہے کہ ہم آپس میں چندہ کرکے تیری حالت ٹھیک کر دیں ۔ تاکہ اس مصیبت اور ذلت سے تو چھوٹ جائے ۔ اس سے ڈرنے کی اور نئے مذہب کی تجھے ضرورت نہ رہے ۔ اس پر عتبہ بہت بگڑا اور کہنے لگا مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا غرض ہے؟ اللہ کی قسم کی اب اس سے کبھی بات تک نہ کروں گا ۔ اور تم میری نسبت ایسے ذلیل خیالات ظاہر کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ قریش میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مالدار نہیں ۔ بات صرف یہ ہے کہ میں تم سب کو کہنے سے ان کے پاس گیا سارا قصہ کہہ سنایا بہت باتیں کہیں میرے جواب میں پھر جو کلام اس نے پڑھا واللہ نہ تو وہ شعر تھا نہ کہانت کا کلام تھا نہ جادو وغیرہ تھا ۔ وہ جب اس سورت کو پڑھتے ہوئے آیت ( فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41- فصلت:13 ) ، تک پہنچے تو میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں رشتے ناتے یاد دلانے لگا کہ للہ رک جاؤ مجھے تو خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں اسی وقت ہم پر وہ عذاب آ نہ جائے اور یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ محمد جھوٹے نہیں ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں یہ واقعہ دوسرے طریقے پر ہے اس میں ہے کہ قریشیوں کی مجلس ایک مرتبہ جمع تھی ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ عتبہ قریش سے کہنے لگا کہ اگر تم سب کا مشورہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں انہیں کچھ سمجھاؤں اور کچھ لالچ دوں اگر وہ کسی بات کو قبول کرلیں تو ہم انہیں دے دیں اور انہیں ان کے کام سے روک دیں ۔ یہ واقعہ اس وقت کاہے کہ حضرت حمزہ مسلمان ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی تعداد معقول ہو گئی تھی اور روز افزوں ہوتی جاتی تھی ۔ سب قریشی اس پر رضامند ہوئے ۔ یہ حضور کے پاس آیا اور کہنے لگا برادر زادے تم عالی نسب ہو تم ہم میں سے ہو ہماری آنکھوں کے تارے اور ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہو ۔ افسوس کہ تم اپنی قوم کے پاس ایک عجیب و غریب چیز لائے ہو تم نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی ۔ تم نے ان کے عقل مندوں کو بیوقوف قرار دیا ۔ تم نے ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی ۔ تم نے ان کے دین کو برا کہنا شروع کیا ۔ تم نے ان کے بڑے بوڑھوں کو کافر بنایا اب سن لو آج میں آپ کے پاس ایک آخری اور انتہائی فیصلے کیلئے آیا ہوں ، میں بہت سی صورتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو آپ کو پسند ہو قبول کیجئے ۔ للہ اس فتنے کو ختم کر دیجئے ۔ آپ نے فرمایا جو تمہیں کہنا ہو کہو میں سن رہا ہوں اس نے کہا سنو اگر تمہارا ارادہ اس چال سے مال کے جمع کرنے کا ہے تو ہم سب مل کر تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ تم سے بڑھ کر مالدار سارے قریش میں کوئی نہ ہو ۔ اور اگر آپ کا ارادہ اس سے اپنی سرداری کا ہے تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا سردار تسلیم کر لیتے ہیں ۔ اور اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم ملک آپ کو سونپ کر خود رعایا بننے کیلئے بھی تیار ہیں ، اور اگر آپ کو کوئی جن وغیرہ کا اثر ہے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے بہتر سے بہتر طبیب اور جھاڑ پھونک کرنے والے مہیا کرکے آپ کا علاج کراتے ہیں ۔ ایسا ہو جاتا ہے کہ بعض مرتبہ تابع جن اپنے عامل پر غالب آ جاتا ہے تو اسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے ۔ اب عتبہ خاموش ہوا تو آپ نے فرمایا اپنی سب بات کہہ چکے؟ کہا ہاں فرمایا اب میری سنو ۔ وہ متوجہ ہو گیا آپ نے بسم اللہ پڑھ کر اس سورت کی تلاوت شرع کی عتبہ با ادب سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا فرمایا ابو الولید میں کہہ چکا اب تجھے اختیار ہے ۔ عتبہ یہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اس کے چہرے کو دیکھتے ہی ہر ایک کہنے لگا کہ عتبہ کا حال بدل گیا ۔ اس سے پوچھا کہو کیا بات رہی؟ اس نے کہا میں نے تو ایسا کلام سنا ہے جو واللہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا ۔ واللہ نہ تو وہ جادو ہے نہ شعر کوئی ہے نہ کاہنوں کا کلام ہے ۔ سنو قریشیو میری مان لو اور میری اس جچی تلی بات کو قبول کر لو ۔ اسے اس کے خیالات پر چھوڑ دو نہ اس کی مخالفت کرو نہ اتفاق ۔ اس کی مخالفت میں سارا عرب کافی ہے اور جو یہ کہتا ہے اس میں تمام عرب اس کا مخالف ہے وہ اپنی تمام طاقت اس کے مقابلہ میں صرف کر رہا ہے یا تو وہ اس پر غالب آ جائیں گے اگر وہ اس پر غالب آ گئے تو تم سستے چھوٹے یا یہ ان پر غالب آیا تو اس کا ملک تمہارا ہی ملک کہلائے گا اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور سب سے زیادہ اس کے نزدیک مقبول تم ہی ہو گے ۔ یہ سن کر قریشیوں نے کہا ابو الولید قسم اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر جادو کر دیا ۔ اس نے جواب دیا میری اپنی جو رائے تھی آزادی سے کہہ چکا ، اب تمہیں اپنے فعل کا اختیار ہے ۔
اس سورت کا دوسرا نام فصّلت ہے اس کی شان نزول کی روایات میں بتلایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ سرداران قریش نے باہم مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے چناچہ انہوں نے اپنے میں سے سب سے زیادہ بلیغ و فصیخ آدمی عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرے چناچہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا اور آپ پر عربوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کر کے پیشکش کی کہ اس نئی دعوت سے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد مال ودولت کا حصول ہے تو وہ ہم جمع کیے دیتے ہیں قیادت وسیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم اپنا لیڈر اور سردار مان لیتے ہیں کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام ہم کردیتے ہیں اور اگر آپ پر آسیب کا اثر ہے جس کے تحت آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علاج کرا دیتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تمام باتیں سن کر اس سورت کی تلاوت اس کے سامنے فرمائی جس سے وہ بڑا متاثر ہوا اس نے واپس جا کر سرداران قریش کو بتلایا کہ وہ جو چیز پیش کرتا ہے وہ جادو اور کہانت ہے نہ شعر و شاعری مطلب اس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر سرداران قریش کو غور و فکر کی دعوت دینا تھا لیکن وہ غور وفکر کیا کرتے ؟ الٹا عتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحر کا اسیر ہوگیا ہے یہ روایات مختلف انداز سے اہل سیر و تفسیر نے بیان کی ہیں امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے بھی انہیں نقل کیا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریش کا اجتماع ضرور ہوا انہوں نے عتبہ کو گفتگو کے لیے بھیجا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس سورت کا ابتدائی حصہ سنایا۔
[١] سرداران قریش دعوت اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے۔ انہیں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ کسی طرح رسول اللہ ور مشرکین مکہ میں بالفاظ دیگر حق و باطل میں سمجھوتہ ہوجائے۔ ایک دن رسول اللہ حرم کے ایک گوشہ میں اور چند سرداران قریش دوسرے گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ ایک معزز قریشی سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں محمد پر کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور مان لے گا اور اگر اس نے قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکیں گے۔ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید آپ ضرور یہ کام کیجئے۔ چناچہ عتبہ وہاں سے اٹھ کر رسول اللہ کے پاس آ بیٹھا اور کہنے لگا : بھتیجے ہماری قوم میں جو تفرقہ پڑچکا ہے اسے آپ جانتے ہیں۔ اب میں چند باتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو بھی چاہو پسند کرلو۔ مکہ کی ریاست چاہتے ہو یا کسی بڑے گھرانے میں شادی یا مال و دولت ؟ اور اگر آپ کے پاس کوئی جن بھوت آتا ہے تو اس کے علاج کی بھی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ مہیا کرسکتے ہیں اور اس پر بھی راضی ہیں کہ مکہ تمہارا زیر فرمان ہو مگر تم ان باتوں سے باز آجاؤ - خ عتبہ بن ربیعہ کی آپ کو پیش کش اور آپ کا جواب (حق وباطل میں سمجھوتہ کی کوشش) :۔ رسول اللہ عتبہ کی باتیں خاموشی سے سنتے رہے۔ جب عتبہ خاموش ہوگیا۔ تو آپ نے عتبہ سے کہا کہ جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے۔ اب میرا جواب سن لو۔ پھر آپ نے ان سب باتوں کے جواب میں اسی سورة کی چند ابتدائی آیات پڑھیں۔ جب آپ اس آیت پر پہنچے (فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَةً مِّثْلَ صٰعِقَةِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ 13ۭ ) 41 ۔ فصلت :13) تو عتبہ کے آنسو بہنے لگے اور آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ کہیں ایسا عذاب اسی وقت نہ آن پڑے۔ پھر وہ چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ مگر اب وہ پہلا عتبہ نہ رہا تھا۔ جاکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں کچھ اور ہی چیز ہے۔ تم اسے اسکے حال پر چھوڑ دو ۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی کچھ تم لوگ چاہتے ہو اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید معلوم ہوتا ہے کہ تم پر بھی اس کا جادو چل گیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٦ ص ١٥٩ تا ١٦١)
حم : حروف مقطعات کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - حم (اس کے معنی اللہ کو معلوم ہیں) یہ کلام رحمن اور رحیم کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے یہ (کلام) ایک کتاب ہے جس کی آیتیں صاف صاف بیان کی گئی ہیں یعنی ایسا قرآن ہے جو عربی (زبان میں) ہے (تا کہ جو بلا واسطہ اس کے مخاطب ہیں، یعنی عرب لوگ وہ آسانی سے سمجھ لیں اور) ایسے لوگوں کے لئے (نافع) ہے جو دانش مند ہیں (یعنی اگرچہ مکلف اور مخاطب احکام کے سبھی ہیں مگر ان سے نفع وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ قرآن ایسے لوگوں کو) بشارت دینے والا ہے اور (نہ ماننے والوں کے لئے) ڈرانے والا ہے سو (اس کا تقاضا یہ تھا کہ سبھی اس پر ایمان لاتے مگر) اکثر لوگوں نے (اس سے) روگردانی کی پھر وہ سنتے ہی نہیں اور (جب آپ ان کو سناتے ہیں تو) وہ لوگ کہتے ہیں کہ جس بات کی طرف آپ ہم کو بلاتے ہیں ہمارے دل میں اس سے پردوں میں ہیں (یعنی آپ کی بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی) اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ (لگ رہی) ہے اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایک حجاب ہے سو آپ اپنا کام کئے جائیے۔ ہم اپنا کام کر رہے ہیں (یعنی ہم سے قبول کی امید نہ رکھئے ہم اپنے طریقہ کار کو نہ چھوڑیں گے) آپ فرما دیجئے کہ (تمہیں ایمان پر مجبور کردینا تو میرے بس کی بات نہیں، کیونکہ) میں بھی تم ہی جیسا بشر ہوں (خدا نہیں جو دلوں میں تصرف کرسکوں البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ امتیاز دیا ہے کہ) مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے اور (یہ وحی ایسی ہے کہ ہر شخص غور کرے تو اس کا حق و معقول ہونا اس کی سمجھ میں آسکتا ہے اور جب کہ میری نبوت اور وحی معجزات کے ذریعہ ثابت ہوچکی تو میری بات بہرحال ماننا سب پر فرض ہے، تمہارے قبول کرنے کی کوئی وجہ نہیں ضرور قبول کرو) اور اس سے معافی مانگو (یعنی پچھلے اعمال شرکیہ سے توبہ کرو، اور اپنی خطاء کی معافی مانگو) اور ایسے مشرکوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو (دلائل نبوت کو دیکھنے اور دلائل توحید کو سننے کے باوجود باطل طریقہ کو نہیں چھوڑتے اور) زکوٰة نہیں دیتے اور وہ آخرت کے منکر ہی رہتے ہیں (ان کے برخلاف) جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کے لئے (آخرت میں) ایسا اجر ہے جو (کبھی) موقوف ہونے والا نہیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ حٰـمۗ ١ۚتَنْزِيْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ٢ۚ- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
حم۔ یعنی جو امور ہونے والے ہیں ان سب کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے یا یہ کہ یہ ایک قسم ہے۔
آیت ١ حٰمٓ۔ ” حٰ ‘ مٓ۔ “