انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب ۔ حکم ہوتا ہے کہ جو آپ کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ کفر کر رہے ہیں آپ ان سے فرما دیجئے کہ میری تعلیم سے رو گردانی تمہیں کسی نیک نتیجے پر نہیں پہنچائے گی ۔ یاد رکھو کہ جس طرح انبیاء کی مخالف امتیں تم سے پہلے زیرو زبر کر دی گئیں کہیں تمہاری شامت اعمال بھی تمہیں انہی میں سے نہ کر دے ۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے اور ان جیسے اوروں کے حالات تمہارے سامنے ہیں ۔ ان کے پاس پے درپے رسول آئے اس گاؤں میں اس گاؤں میں اس بستی میں اس بستی میں اللہ کے پیغمبر اللہ کی منادی کرتے پھرتے لیکن ان کی آنکھوں پر وہ چربی چڑھی ہوئی تھی اور دماغ میں وہ گند ٹھسا ہوا تھا کہ کسی ایک کو بھی نہ مانا ۔ اپنے سامنے اللہ والوں کی بہتری اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدحالی دیکھتے تھے لیکن پھر بھی تکذیب سے باز نہ آئے ۔ حجت بازی اور کج بحثی سے نہ ہٹے اور کہنے لگے اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہوتا تو کسی اپنے فرشتے کو بھیجتا تم انسان ہو کر رسول کریم بن بیٹھے؟ ہم تو اسے ہرگز باور نہ کریں گے؟ قوم عاد نے زمین میں فساد پھیلا دیا ان کی سرکشی ان کا غرور حد کو پہنچ گیا ۔ ان کی لا ابالیاں اور بےپرواہیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ پکار اٹھے ہم سے زیادہ زور آور کوئی نہیں ۔ ہم طاقتور مضبوط اور ٹھوس ہیں اللہ کے عذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے ۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ ہمارا پیدا کرنے والا تو اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا اندازہ بھی ہم نہیں کر سکتے ۔ جیسے فرمان ہے ( وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ 47 ) 51- الذاريات:47 ) ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں ، پس ان کے اس تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے پر اور اللہ کی نافرمانی کرنے اور رب کی آیتوں کے انکار پر ان پر عذاب الٰہی آ پڑا ۔ تیز و تند ، سرد ، دہشت ناک ، سرسراتی ہوئی سخت آندھی آئی ۔ تاکہ ان کا غرور ٹوٹ جائے اور ہوا سے وہ تباہ کر دیئے جائیں ۔ صراصر کہتے ہیں وہ ہوا جس میں آواز پائی جائے ۔ مشرق کی طرف ایک نہر ہے جو بہت زور سے آواز کے ساتھ بہتی رہتی ہے اس لئے اسے بھی عرب صرصر کہتے ہیں ۔ نحسات سے مراد پے درپے ، ایک دم ، مسلسل ، سات راتیں اور آٹھ دن تک یہی ہوائیں رہیں ۔ وہ مصیبت جو ان پر مصیبت والے دن آئی وہ پھر آٹھ دن تک نہ ہٹی نہ ٹلی ۔ جب تک ان میں سے ایک ایک کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دیا اور ان کا بیج ختم نہ کر دیا ۔ ساتھ ہی آخرت کے عذابوں کا لقمہ بنے جن سے زیادہ ذلت و توہین کی کوئی سزا نہیں ۔ نہ دنیا میں کوئی ان کی امداد کو پہنچا نہ آخرت میں کوئی مدد کیلئے اٹھے گا ۔ بےیارو مددگار رہ گئے ، ثمودیوں کی بھی ہم نے رہنمائی کی ۔ ہدایت کی ان پر وضاحت کر دی انہیں بھلائی کی دعوت دی ۔ اللہ کے نبی حضرت صالح نے ان پر حق ظاہر کر دیا لیکن انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی ۔ اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر جس اونٹنی کو اللہ نے علامت بنایا تھا اس کی کوچیں کاٹ دیں ۔ پس ان پر بھی عذاب اللہ برس پڑا ۔ ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگاڑ اور دل پاش پاش کر دینے والے زلزلے نے ذلت و توہین کے ساتھ ان کے کرتوتوں کا بدلہ لیا ۔ ان میں جتنے وہ لوگ تھے جنہیں اللہ کی ذات پر ایمان تھا نبیوں کی تصدیق کرتے تھے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے انہیں ہم نے بچا لیا انہیں ذرا سا بھی ضرر نہ پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذلت و توہین سے اور عذاب اللہ سے نجات پالی ۔
[١٥] یعنی اس قرآن کی صفات اور اس قرآن کو نازل کرنے والی ہستی کی عظیم الشان آیات قدرت سننے کے بعد بھی اگر کفار مکہ نصیحت قبول کرنے اور توحید اور اسلام کی راہ اختیار کرنے سے اعراض کرتے ہیں تو پھر ان پر بھی ایسی بجلیاں گر سکتی ہیں جیسے عاد وثمود پر گری تھیں۔
فان اعرضوا فقل انذرتکم …:” ضعقۃ ‘ کی وضاحت کے لئے دیکھیے سورة رعد (١٣) سورت کی ابتدائی آیات (٤، ٥) میں اللہ کی کتاب سے اکثر لوگوں کے اعراض کا ذکر فرمایا، اس کے بعد چھ دنوں میں زمین و آسمان کی تخلیق کی تفصیل بیان فرمائی، اب فرمایا کہ اگر یہ لوگ اب بھی نہ مانیں کہ معبود برحق صرف ایک ہے، جس نے یہ زمین و آسمان اور ساری کائنات بنائی ہے اور اس حقیقت سے اعراض پر اڑے رہیں، تو ان سے کہہ دیں کہ تم سے پہلی بھی کئی اقوا منے یہ روش اختیار کی جو تم اختیار کر رہے ہو۔ سو میں تمہیں اس جیسے عذاب اور کڑکنے والی بجلی سے ڈرتا ا ہوں جو تم سے پہلی اقوام عادہ ثمود پر گری تھی۔ عاد وثمود کے تعارف کے لئے دیکھیے سورة اعراف (٦٥ تا ٧٩) ۔
خلاصہ تفسیر - پھر (دلائل توحید سن کر بھی) اگر یہ لوگ (توحید سے) اعراض کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم کو ایسی آفت سے ڈراتا ہوں جیسی عاد وثمود پر (شرک و کفر کی وجہ سے) آفت آئی تھی (مراد عذاب سے ہلاک کرنا ہے) جیسا کہ قریش مکہ کے سردار غزوہ بدر میں ہلاک اور قید کئے گئے، اور یہ قصہ عاد وثمود کا اس وقت ہوا تھا) جبکہ ان کے پاس ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی پیغمبر آئے (یعنی جو پیغمبر ان کی طرف بھیجے گئے اور ان کے سمجھانے میں جان توڑ کوشش کی گئی۔ جیسے کوئی شخص اپنے کسی عزیز کو کسی مصیبت و ہلاکت کی طرف جاتے دیکھے تو وہ کبھی آگے سے آ کر اسے روکتا ہے، کبھی پیچھے سے پکڑتا ہے۔ اور اس کی مثال قرآن میں ابلیس کا یہ قول ہے کہ اس نے کہا تھا لاتینھم من بین ایدیہم ومن خلفہم۔ یعنی میں بنی آدم کو گمراہ کرنے ان کے آگے سے بھی آؤں گا ان کے پیچھے سے بھی، اور ان پیغمبروں نے یہی کہا کہ) بجز اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کرو، انہوں نے جواب دیا کہ (تم جو اللہ کی طرف سے آنے کا اور توحید کی طرف بلانے کا دعویٰ کرتے ہو یہی غلط ہے کیونکہ) اگر ہمارے پروردگار کو (یہ) منظور ہوتا (کہ کسی کو پیغمبر بنا کر بھیجے) تو فرشتوں کو بھیجتا اس لئے ہم اس (توحید) سے بھی منکر ہیں جس کو دے کر (تمہارے دعویٰ کے مطابق) تم (پیغمبری کے طور پر) بھیجے گئے ہو پھر (اس مشرک قول کے بعد ہر قوم کے خاص کی تفصیل یہ ہے کہ) وہ جو عاد کے لوگ تھے وہ دنیا میں ناحق تکبر کرنے لگے اور (جب عذاب کی وعید سنی تو) کہنے لگے وہ کون ہے جو قوت میں ہم سے زیادہ ہے (کہ وہ ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا کرسکے اور ہم اس کے دفع کرنے پر قادر نہ ہوں، آگے جواب ہے کہ) کیا ان لوگوں کو یہ نظر نہ آیا کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ قوت میں ان سے بہت زیادہ ہے (مگر باوجود اس کے بھی وہ ایمان نہ لائے) اور ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے تو ہم نے ان پر ایک سخت ہوا ایسے دنوں میں بھیجی جو (بوجہ نزول عذاب الٰہی کے ان کے حق میں) منحوس تھے تاکہ ہم ان کو اس دنیوی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھا دیں اور آخرت کا عذاب اور بھی زیادہ رسوائی کا سبب ہے اور (اس عذاب کے وقت کسی طرف سے بھی) ان کو مدد نہ پہنچے گی۔ اور وہ جو ثمود تھے تو (ان کی کیفیت یہ ہوئی کہ) ہم نے ان کو (پیغمبر کے ذریعہ) رستہ بتلایا، انہوں نے گمراہی کو ہدایت کے مقابلہ میں پسند کیا تو ان کو سراپا ذلت کے عذاب کی آفت نے پکڑ لیا ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اور ہم نے (اس عذاب سے) ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور ہم سے ڈرتے تھے۔ (یہاں تک عذاب دنیوی کا ذکر تھا آگے عذاب آخرت کا ذکر ہے) اور (ان کو وہ دن بھی یاد دلائے) جس دن اللہ کے دشمن (یعنی کفار) دوزخ کی طرف جمع کرنے کے لئے (موقف حساب میں) لائے جاویں گے پھر (راستہ میں ان کی کثرت کے سبب منتشر ہونے سے بچانے اور مجتمع رہنے کے لئے) وہ روکے جاویں گے (تا کہ پیچھے رہنے والے ساتھ ہوجاویں جیسا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ میں تمام جنود اور لشکروں کو جمع کرنے کے لئے فھم یوزعون فرمایا یعنی ان کو روکا جاوے گا) یہاں تک کہ جب وہ (سب جمع ہو کر) اس (دوزخ) کے قریب آ جاویں گے (مراد موقف حساب ہے جہاں سے دوزخ قریب ہی نظر آوے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ کو موقف حساب میں حاضر کریں گے اور یہ کافر اپنے چاروں طرف آگ ہی آگ دیکھے گا۔ غرض یہ کہ جب موقف حساب میں آ جاویں گے اور حساب شروع ہوگا) تو ان کے کان اور آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ اور (اس وقت) وہ لوگ (تعجب کے ساتھ) اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی (ہم تو دنیا میں سب کچھ تمہاری ہی راحت کے لئے کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں حضرت انس کی روایت سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ فعنکن کنت اناضل رواہ مسلم۔ یعنی میں تمہارے ہی لئے سب کوشش کیا کرتا تھا) وہ (اعضاء) جواب دیں گے کہ ہم کو اس (قادر مطلق) نے گویائی دی جس نے ہر (گویا) چیز کو گویائی دی (جس سے ہم نے اپنے اندر خود اس کی قدرت کا مشاہدہ کرلیا) اور اسی نے تم کو اول بار پیدا کیا تھا اور اسی کے پاس پھر (دوبارہ زندہ کر کے) لائے گئے ہو (تو ہم ایسے عظمت والے وقدرت والے کے پوچھنے پر حق بات کو کیسے چھپا سکتے ہیں اس لئے گواہی دے دی) اور (آگے حق تعالیٰ ان منکروں کو خطاب فرماویں گے کہ) تم (دنیا میں) اس بات سے تو اپنے کو (کسی طرح) چھپا (اور بچا) ہی نہ سکتے تھے کہ تمہارے کان اور آنکھیں اور کھالیں تمہارے خلاف میں گواہی دیں (کیونکہ حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ اور علم محیط واقع میں ثابت ہے جس کا مقتضا یہ تھا کہ برے اعمال سے بچتے) لیکن تم (اس لئے نہ بچے کہ) اس گمان میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر بھی نہیں اور تمہارے اسی گمان نے جو کہ تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا تم کو برباد کیا (کیونکہ اس گمان سے اعمال کفریہ کے مرتکب ہوئے اور وہ موجب بربادی ہوئے) پھر تم (ابدی) خسارہ میں پڑگئے سو (اس حالت میں) اگر یہ لوگ (اس بربادی و خسارہ پر) صبر کریں (اور تن بتقدیر رہ کر عذر معذرت کچھ نہ کریں) تب بھی دوزخ ہی ان کا ٹھکانہ ہے (یہ نہیں کہ ان کا صبر موجب رحم ہوجاوے جیسا کہ دنیا میں اکثر ہوجاتا تھا) اور اگر وہ عذر کرنا چاہیں گے تو بھی مقبول نہ ہوگا اور ہم نے (دنیا میں) ان (کفار) کے لئے کچھ ساتھ رہنے والے (شیاطین) مقرر کر رکھے تھے سو انہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نظر میں مستحسن کر رکھے تھے (اس لئے ان پر مصر تھے) اور (کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے) ان کے حق میں بھی ان لوگوں کے ساتھ اللہ کا قول (یعنی وعدہ عذاب) پورا ہو کر رہا جو ان سے پہلے جن اور انسان (کفار) ہو گزرے ہیں، بیشک وہ بھی خسارے میں رہے۔
فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُكُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ١٣ۭ- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- صعق - الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام - الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة :- الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه :- 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ- [ الزمر 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] .- 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] .- 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها .- ( ص ع ق ) الصاعقۃ - اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے - اول بمعنی موت اور ہلاکت - جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔- دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔- أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ - سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک )- جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي :- قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله .- ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔
اگر یہ کفار مکہ ایمان لانے سے انکار کریں جیسا کہ عتبہ اور اس کے ساتھی تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہیں بذریعہ قرآن کریم ایسے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد اور ثمود پر نازل ہوا تھا۔
آیت ١٣ فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اگر یہ لوگ اعراض کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں نے تو تمہیں خبردار کردیا ہے ایک ایسی خوفناک کڑک سے جیسی کہ قوم عاد اور قوم ثمود کی کڑک تھی ۔ “ - میں نے تو تم لوگوں کو آگاہ کردیا ہے کہ جیسے قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب آیا تھا ‘ تمہاری تکذیب کے باعث ویسا ہی کوئی عذاب تم پر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :17 یعنی اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا اور معبود بس وہی ایک ہے جس نے یہ زمین اور ساری کائنات بنائی ہے ، اور اپنی اس جہالت پر اصرار ہی کیے چلے جاتے ہیں کہ اس خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی ، جو حقیقت میں اس کے مخلوق و مملوک ہیں ، معبود بنائیں گے اور اس کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات میں انہیں اس کا شریک ٹھہرائیں گے ۔
8: یہ ایک محاورہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے ہر رخ سے اپنی قوموں کو سمجھانے کی کوشش کی۔