26۔ 1 یہ انہوں نے باہم ایک دوسرے کو کہا۔ بعض نے لا تسمعوا کے معنی کیے ہیں اس کی اطاعت نہ کرو۔ 26۔ 2 یعنی شور کرو، تالیاں، سیٹیاں بجاؤ، چیخ چیخ کر باتیں کرو تاکہ حاضرین کے کانوں میں قرآن کی آواز نہ جائے اور ان کے دل قرآن کی بلاغت اور خوبیوں سے متا ثر نہ ہوں۔ 26۔ 3 یعنی ممکن ہے اس طرح شور کرنے کی وجہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کی تلاوت ہی نہ کرے جسے سن کر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
[٣٣] ابن دغنہ کا ابوبکر (رض) کو پناہ دینا بشرطیکہ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھیں :۔ جو شخص بھی قرآن سنتا تھا تو قرآن کی بات اس کے دل میں اتر جاتی تھی اور یہی بلا کی تاثیر قرآن کا اعجاز تھا جس سے قریش مکہ سخت خائف رہتے تھے۔ اور قرآن سے متعلق انہوں نے تین طرح کے اقدام کئے تھے تاکہ اس کی آواز کو دبایا جاسکے۔ ان میں سے پہلا اقدام تو مسلمانوں پر پابندی تھی کہ وہ قرآن کو اونچی آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں خود رسول اللہ پر کئی بار حملے ہوئے اور مسلمانوں کی بھی پٹائی ہوئی۔ اسی جرم کی پاداش میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور آپ ہجرت کی غرض سے نکل کھڑے ہوئے۔ برک غماد کے مقام پر پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ سرداران قریش نے اس پناہ کو صرف اس شرط پر منظور کیا کہ آپ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں گے۔ مگر سیدنا ابوبکر صدیق (رض) زیادہ دیر اس شرط پر قائم نہ رہ سکے تو قریشی سرداروں نے ابن دغنہ کے پاس جاکر شکایت کی۔ ابن دغنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے پاس آکر انہیں اپنا عہد یاد دلایا اور کہا کہ اگر تم برسرعام قرآن بلند آواز سے پڑھنا نہ چھوڑو گے تو میں تمہاری پناہ سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اس کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا : تم اپنی پناہ اپنے پاس رکھو اور میرا معاملہ اللہ کے سپرد ہے (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب ہجرۃ النبی )- خ ابو جہل کا قرآن سے متاثر ہونا :۔ ان کا دوسرا اقدام یہ تھا کہ ان سرداروں نے آپس میں بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ عمداً قرآن نہیں سنا کریں گے۔ اور یہ ایسی پابندی تھی جسے یہ پابندی لگانے والے سردار خود بھی نباہ نہ سکے۔ کیونکہ ان کے کان اور ان کے دل قرآن کی بلا کی تاثیر سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ چناچہ ایک دفعہ آپ رات کو کعبہ میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے اور تین قریشی سردار ایک دوسرے سے چھپتے چھپاتے آپ کا قرآن سن رہے تھے۔ بعد میں یہ راز فاش ہوگیا تو ان میں سے ایک سردار نے ابو جہل سے پوچھا کہ جو قرآن تم نے سنا ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ اس سوال کا صحیح جواب دینے کی بجائے ابو جہل نے بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا کہ ہم (یعنی بنو مخزوم) اور بنو عبدمناف سب باتوں میں ہمسر تھے۔ اب ہم ان کے نبی کو تسلیم کرکے ان کی برتری کیسے تسلیم کرسکتے ہیں ؟ گویا اس کا صحیح جواب کو گول کر جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوچکا تھا اور آپ کی نبوت تسلیم کرنے میں محض قبائلی رقابت اور تکبر اس کے آڑے آرہا تھا۔- خ قرآن کی آواز کو دبانے کا جدید طریقہ : لاؤڈ سپیکر :۔ اور ان کا تیسرا اقدام یہ تھا کہ جہاں قرآن پڑھا جارہا ہو وہاں خوب شور مچاؤ، تالیاں بجاء اور اتنا غل غپاڑہ کرو کہ قرآن کی آواز اس شور میں دب جائے اور کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں۔ اور مکہ کے کافروں کو تو شور مچانے کی زحمت برداشت کرنا پڑتی تھی آج یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرنا پڑتی۔ بس لاؤد سپیکر کے طاقتور اور زیادہ ہارن لگا دینے سے ہی یہ مقصد حاصل کرلیا جاتا ہے۔
(١) وقال الذین کفروا ولا تسمعوا …: کفار قرآن کی تاثیر سے واقف تھے کہ جو شخص عناد سے خالی ہو کر اسے سن لے وہ یقیناً اس سے متاثر ہوتا ہے۔ چناچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ نہ خود قرآن سنو، نہ کسی کو سننے دو ۔ یہ ان کا واضح اعتراف شکست تھا، وہ اس جیسی ایک سورت بھی بنا کر نہ لاسکے تو حق یہ تھا کہ اس پر ایمان لے آتے ، مگر وہ اس کی مخالفت پر ڈٹ گئے اور ہر طریقے سے لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش کرنے لگے۔ - (٢) لھذا القرآن : یعنی پہلی کتابیں پڑھنے سننے پر کوئی پابندی نہیں، کیونکہ اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ قرآن جو محمد (ﷺ) لے کر آئے ہیں، یہ مت سنو، کیونکہ یہ دلوں کو کھینچتا ہے۔- (٣) والغوا فیہ :” الغوا “” لغی یلغی “ (س، ف) بغیر سوچے سمجھے بولنا، شور مچانا۔ یعنی اگر کبھی سننے کا اتفاق ہو تو اس میں شور ڈال دو ، تاکہ تم غالب رہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ مان رہے تھے کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا مسلمان قرآن سنانے میں کامیاب ہوگئے تو وہی غالب رہیں گے۔ عربی مقولہ ہے : ” والفضل ماشھدت بہ الاعداء “ ” اصل برتری وہ ہے جس کی شہادت دشمن دیں۔ “ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی اس بات کے برعکس فرمایا :(واذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا لعلکم ترحمون) (الاعراف :203)” اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسیک ان لگاک ر سنو اور چپ رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “ یعنی جعلی غلبے کے بجائے حقیقی رحمت کے طلب گار بنو۔- (٤) کفار کی یہ بدتمیزی صرف اس وقت نہیں تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں قرآن سنانے کی کوشش کرتے، بلکہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قرآن سنا رہے ہوتے، یا انھیں نماز پڑھاتے ہوئے بلند آواز سے قرأت کرتے تو وہ اس وقت بھی بد زبانی اور گالی گلوچ شروع کردیتے، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :(ولا تجھر بصلاتک و لاتخافت بھا وابتع بین ذلک سبیلاً ) (بنی اسرائیل : ١١٠)” اور اپنی نماز نہ بلند آواز سے پڑھ اور نہ اسے پست کر اور اس کے درمیان کوئی راستہ اختیار کر۔ “ تفصیل کیلئے دیکھیے سورة نبی اسرائیل کی اسی آیت کی تفسیر۔
خلاصہ تفسیر - اور یہ کافر (باہم) یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو سنو ہی مت اور (اگر پیغمبر سنانے بھی لگیں تو) اس کے بیچ میں غل مچا دیا کرو شاید (اس تدبیر سے) تم ہی غالب رہو (اور پیغمبر ہار کر خاموش ہوجاویں) تو (ان کے اس ناپاک ارادے اور عزم کے بدلہ میں) ہم ان کافروں کو سخت عذاب کا مزہ چکھا دیں گے اور ان کو ان کے برے برے کاموں کی سزا دیں گے، یہی سزا ہے اللہ کے دشمنوں کی یعنی دوزخ ان کے لئے وہاں ہمیشہ رہنے کا مقام ہوگا۔ اس بات کے بدلہ میں کہ وہ ہماری آیتوں میں انکار کیا کرتے تھے (اور جب عذاب میں مبتلا ہوں گے تو) وہ کفار کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم کو وہ دونوں شیطان اور انسان دکھلا دیجئے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ہم ان کو اپنے پیروں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوب ذلیل ہوں۔- (یعنی ان کو اس وقت ان لوگوں پر غصہ آوے گا جنہوں نے ان کو دنیا میں بہکایا تھا۔ آدمی بھی اور شیطان بھی خواہ ایک ایک ہوں یا متعدد ہوں۔ اور یوں تو یہ گمراہ کرنے والے بھی سب جہنم میں ہی ہوں گے۔ مگر اس گفتگو کے وقت وہ ان کے سامنے نہیں ہوں گے اس لئے سامنے کی درخواست کی۔ کسی آیت میں یا روایت میں یہ مذکور نہیں دیکھا کہ ان کی یہ درخواست منظور ہوگی یا نہیں۔ واللہ اعلم)- معارف ومسائل - (آیت) لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْهِ ۔ کفار جب قرآن کے مقابلہ سے عاجز آگئے اور اس کے خلاف ان کی ساری تدبیریں ناکام ہوگئیں تو اس وقت انہوں نے یہ حرکت شروع کی۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ابوجہل نے لوگوں کو اس پر آمادہ کیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھا کریں تو تم ان کے سامنے جا کر چیخ و پکار اور شور وغل کرنے لگا کرو تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ بعض نے کہا کہ سیٹیاں اور تالیاں بجا کر اور بیچ میں طرح طرح کی آوازیں نکال کر قرآن سننے سے لوگوں کو روکنے کی تیاری کرو۔ (قرطبی)- تلاوت قرآن کے وقت خاموش ہو کر سننا واجب ہے خاموش نہ رہنا کفار کی عادت ہے :- آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن میں خلل ڈالنے کی نیت سے شوروغل کرنا تو کفر کی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خاموش ہو کر سننا واجب اور ایمان کی علامت ہے۔ آج کل ریڈیو پر تلاوت قرآن نے ایسی صورت اختیار کرلی ہے کہ ہر ہوٹل اور مجمع کے مواقع میں ریڈیو کھولا جاتا ہے جس میں قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو اور ہوٹل والے خود اپنے دھندوں میں لگے رہتے ہیں اور کھانے پینے میں اپنے شغل میں۔ اس کی صورت وہ بن جاتی ہے جو کفار کی علامت تھی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت فرما دیں کہ یا تو ایسے مواقع میں تلاوت قرآن کیلئے نہ کھولیں اگر کھولنا ہے اور برکت حاصل کرنا ہے تو چند منٹ سب کام بند کر کے خود بھی اس طرف متوجہ ہو کر سنیں دوسروں کو بھی اس کا موقع دیں۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِيْہِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُوْنَ ٢٦- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- اسْتِمَاعُ- والِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، أي :- من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب - استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے ۔ - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- لغو - اللَّغْوُ من الکلام : ما لا يعتدّ به، وهو الذي يورد لا عن رويّة وفكر، فيجري مجری اللَّغَا، وهو صوت العصافیر ونحوها من الطّيور، قال أبو عبیدة : لَغْوٌ ولَغًا، نحو : عيب وعاب وأنشدهم :- 407-- عن اللّغا ورفث التّكلّم - «5» يقال : لَغِيتُ تَلْغَى. نحو : لقیت تلقی، وقد يسمّى كلّ کلام قبیح لغوا . قال : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] ، وقال : وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص 55] ، لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة 25] ، وقال : وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون 3] ، وقوله : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] ، أي : كنّوا عن القبیح لم يصرّحوا، وقیل : معناه : إذا صادفوا أهل اللّغو لم يخوضوا معهم . ويستعمل اللغو فيما لا يعتدّ به، ومنه اللَّغْوُ في الأيمان . أي : ما لا عقد عليه، وذلک ما يجري وصلا للکلام بضرب من العادة . قال : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] ومن هذا أخذ الشاعر فقال :- 408-- ولست بمأخوذ بلغو تقوله ... إذا لم تعمّد عاقدات العزائم - «1» وقوله : لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية 11] أي : لغوا، فجعل اسم الفاعل وصفا للکلام نحو : کاذبة، وقیل لما لا يعتدّ به في الدّية من الإبل : لغو، وقال الشاعر :- 409 ۔ كما أَلْغَيْتَ في الدّية الحوارا - «2» ولَغِيَ بکذا . أي : لهج به لهج العصفور بِلَغَاه . أي : بصوته، ومنه قيل للکلام الذي يلهج به فرقة فرقة : لُغَةٌ. - ( ل غ و ) اللغو - ۔ ( ن ) کے معنی بےمعنی بات کے ہے جو کسی گنتی شمار میں نہ ہو یعنی جو سوچ سمجھ کر نہ کی جائے گویا وہ پرندوں کی آواز کی طرح منہ سے نکال دی جائے ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس میں ایک لغت لغا بھی ہے ۔ جیسے عیب وعاب شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 394) عن اللغ اور فث التکم جو بہیودہ اور فحش گفتگو سے خاموش ہیں ۔ اس کا فعل لغیث تلغیٰ یعنی سمع سے ہے ۔ اور کبھی ہر قبیح بات کو لغو کہہ دیا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا كِذَّاباً [ النبأ 35] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے نہ جھوٹ اور خرافات وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ [ المؤمنون 3] اور جو بہیودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں ۔ وَإِذا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ [ القصص 55] اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً [ الواقعة 25] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ الزام تراشی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے باس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفا نہ انداز سے گرزتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فحش بات کبھی صراحت سے نہیں کہتے ۔ بلکہ ہمیشہ کنایہ سے کام لیتے ہیں ۔ اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ اگر کہیں اتفاق سے وہ ایسی مجلس میں چلے جاتے ہیں ۔ جہاں بیہودہ باتیں ہو رہی ہوتی ہیں تو اس سے دامن بچاکر نکل جاتے ہیں ۔ پس لغو ہر اس بات کا کہاجاتا ہے جو کسی شمار قطار میں نہ ہو ۔ اور اسی سے لغو فی الایمان ہے ۔ یعنی وہ قسم جو یونہی بلا ارادہ زبان سے نکل جائے چناچہ قرآن میں ہے : لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ [ البقرة 225] خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا اور شاعر نے کہا ہے ( البسیط) (395) ولست بماخود بلغو تقولہ اذالم تعمد عاقدات العزائم لغو قسم کھانے پر تم سے مواخذہ نہیں ہوگا بشرطیکہ قصدا غرم قلب کے ساتھ قسم نہ کھائی جائے ۔ اور آیت کریمہ لا تَسْمَعُ فِيها لاغِيَةً [ الغاشية 11] وہاں کسی طرح کی بکواس نہیں سنیں گے ۔ میں لاغیۃ بمعنی لغو کے ہے اور یہ ( اسم فاعل ) کلام کی صفت واقع ہوا ہے جیسا کہ کاذبۃ وغیرہ ۔ اور خونبہا میں لغو اونٹ کے ان بچوں کو کہا جاتا ہے جو گنتی میں شمار نہ کئے جائیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (396) کما الغیت فی الدابۃ الحوارجیسا کہ اونٹ کے چھوٹے بچے کو خونبہا میں ناقابل شمار سمجھا جاتا ہے لغی بکذا کے معنی چڑیا کے چہچہانے کی طرح کسی چیز کا بار بار تذکرہ کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور اسی سے ہر گز وہ کی زبان اور بولی جس کے ذریعے وہ بات کرتا ہ لغۃ کہلاتی ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے
اور ابو جہل اور اس کے ساتھی سب ملکر یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کریم کو مت سنو جو محمد تمہارے سامنے پڑھتے ہیں اور اس کے بیچ میں شور و غل مچا دیا کرو شاید تم ہی محمد پر غالب رہو اور آپ خاموش ہوجائیں۔
اب اگلی آیت میں قرآن مجید کا ذکر بہت عظیم الشان انداز میں ہو رہا ہے :- آیت ٢٦ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ ” اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ مت سنو اس قرآن کو اور اس (کی تلاوت کے دوران) میں شور مچایا کرو “- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا آلہ اور ذریعہ چونکہ قرآن تھا اس لیے منکرین حق نے آپس میں ایک دوسرے کو یہ مشورہ دینا شروع کردیا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھا کریں تو تم لوگ اسے مت سنا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے دلوں پر اس کا اثر ہوجائے اور اس کی وجہ سے تم اپنے آبائی دین سے برگشتہ ہو جائو۔ اس لیے جب بھی وہ تمہیں قرآن سنانے کی کوشش کریں تم شور مچانا ( ) شروع کردیا کروتا کہ اس کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن مجید کی تلاوت چو ن کہ غیر معمولی تاثیر کی حامل تھی اور اس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا پیغام تیزی سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہا تھا ‘ اس لیے مشرکین ِمکہ ّاس عمل کو روکنے کے لیے اپنے زعم میں گویا ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ خم ٹھونک کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں آگئے۔- اس حوالے سے یہ نکتہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ قرآن کا پڑھنا پڑھانا ‘ سننا سنانا اور سیکھنا سکھانا چونکہ شیطان پر بہت بھاری ہے اس لیے جہاں کہیں بھی یہ کام موثر انداز میں ہو رہا ہوگا شیطانی قوتیں اسے روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آجائیں گی۔ البتہ اگر کہیں قرآن کا کوئی پروگرام محض رسمی انداز میں ہورہا ہو ‘ یعنی اس میں علمی اور عقلی سطح پر کوئی موثر پیغام لوگوں تک نہ پہنچ رہا ہو تو ایسی تقریبات ‘ ٹیوی پروگرامز اور قرآنی سیمینارز پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ دورِ حاضر میں ٹیوی پروگرام ” الہدیٰ “ کی بندش اس کی زندہ مثال ہے۔ یہ پروگرام ” پی ٹیوی “ کا مقبول ترین ہفتہ وار دینی پروگرام تھا ‘ جو بہت اہتمام کے ساتھ پورے ملک میں ایک ہی وقت پر ٹیلی کا سٹ ہوتا تھا (اُس وقت ابھی کیبل نیٹ ورک کا آغاز نہیں ہوا تھا) ۔ اس میں مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب پیش کیا جاتا تھا۔ جب یہ پروگرام بہت موثر انداز میں چلنا شروع ہوا اور قرآن کا اصل پیغام ایک تدریج اور منطقی ترتیب کے ساتھ گھر گھر پہنچنے لگا تو شیطانی قوتیں ” لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ “ کا نعرہ لگا کر سامنے آ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے اس پروگرام کو بند کرا کے ہی دم لیا۔ یہ پروگرام اس حد تک مقبول ہوا تھا کہ بھارت میں بھی بڑے ذوق و شوق سے دیکھا جاتا تھا ۔ - ۔ بلکہ پی ٹیوی پر اس پروگرام کی بندش کے بعد یہ بھارت میں کیبل نیٹ ورک پر دکھایا جانے لگا تھا ‘ بلکہ کبھی کبھی ” دور درشن “ پر بھی پیش کردیا جاتا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ” پی ٹیوی “ پر میرے پروگراموں پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ - لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ ” تاکہ تم غالب رہو۔ “- ان کا آپس میں ایک دوسرے کے لیے یہی مشورہ تھا کہ اگر تم اپنی ” سیادت “ کو برقرار رکھنا چاہتے ہو تو خود کو اور اپنے عوام کو اس قرآن سے دور رکھو۔ بالکل یہی انداز منافقین کے اس مشورے میں بھی نظر آتا ہے جو انہوں نے غزوئہ احزاب کے موقع پر مدینہ کے عام لوگوں کو دینا شروع کیا تھا۔ ان کا مشورہ تھا : یٰٓــاَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْاج ( الاحزاب : ١٣) کہ اے اہل یثرب تمہارے یہاں ٹھہرنے کی اب کوئی صورت نہیں ہے ‘ لہٰذا اب تم واپس پلٹ جائو۔ بہر حال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے قرآن کے پیغام کو گھر گھر پہنچتے دیکھ کر مشرکین نے بجا طور پر محسوس کیا کہ اگر اس دعوت کو بر وقت نہ روکا گیا تو پھر عرب کی سر زمین میں ان کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں بچے گا۔
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :30 یہ کفار مکہ کے ان منصوبوں میں سے ایک تھا جس سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کو ناکام کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ قرآن اپنے اندر کس بلا کی تاثیر رکھتا ہے ، اور اس کو سنانے والا کس پائے کا انسان ہے ، اور اس شخصیت کے ساتھ اس کا طرز ادا کس درجہ مؤثر ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسے عالی مرتبہ شخص کی زبان سے اس دل کش انداز میں اس بے نظیر کلام کو جو سنے گا وہ آخر کار گھائل ہو کر رہے گا ۔ اس لیے انہوں نے یہ پروگرام بنایا کہ اس کلام کو نہ خود سنو ، نہ کسی کو سننے دو ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اسے سنانا شروع کریں ، شور مچاؤ ، تالی پیٹ دو ۔ آوازے کسو ، اعتراضات کی بوچھاڑ کر دو ۔ اور اتنی آواز بلند کرو کہ ان کی آواز اس کے مقابلے میں دب جائے ۔ اس تدبیر سے وہ امید رکھتے تھے کہ اللہ کے نبی کو شکست دے دیں گے ۔