عذاب و ثواب نہ ہوتا تو عمل نہ ہوتا ۔ الحاد کے معنی ابن عباس سے کلام کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کے مروی ہیں اور قتادہ وغیرہ سے الحاد کے معنی کفر و عناد ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ملحد لوگ ہم سے مخفی نہیں ۔ ہمارے اسماء وصفات کو ادھر ادھر کر دینے والے ہماری نگاہوں میں ہیں ۔ انہیں ہم بدترین سزائیں دیں گے ۔ سمجھ لو کہ کیا جہنم واصل ہونے والا اور تمام خطروں سے بچ رہنے والا برابر ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ بدکار کافرو جو چاہو عمل کرتے چلے جاؤ ۔ مجھ سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ۔ باریک سے باریک چیز بھی میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ، ذکر سے مراد بقول ضحاک سدی اور قتادہ قرآن ہے ، وہ باعزت باتوقیر ہے اس کے مثل کسی کا کلام نہیں اس کے آگے پیچھے سے یعنی کسی طرف سے اس سے باطل مل نہیں سکتا ، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے ۔ جو اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے ۔ اس کے تمام تر احکام بہترین انجام والے ہیں ، تجھ سے جو کچھ تیرے زمانے کے کفار کہتے ہیں یہی تجھ سے اگلے نبیوں کو ان کی کافر امتوں نے کہا تھا ۔ پس جیسے ان پیغمبروں نے صبر کیا تم بھی صبر کرو ۔ جو بھی تیرے رب کی طرف رجوع کرے وہ اس کے لئے بڑی بخششوں والا ہے اور جو اپنے کفر و ضد پر اڑا رہے مخالفت حق اور تکذیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اس پر وہ سخت درد ناک سزائیں کرنے والا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی بخشش اور معافی نہ ہوتی تو دنیا میں ایک متنفس جی نہیں سکتا تھا اور اگر اس کی پکڑ دکڑ عذاب سزا نہ ہوتی تو ہر شخص مطمئن ہو کر ٹیک لگا کر بےخوف ہو جاتا ۔
40۔ 1 یعنی ان کو مانتے نہیں بلکہ ان سے اعراض، انحراف اور ان کی تکذیب کرتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے الحاد کے معنی کیے ہیں وضع الکلام علی غیر مواضعہ جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آجاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد و نظریات کے اثبات کے لیے آیات الہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔ 40۔ 2 یہ ملحدین (چاہے وہ کسی قسم کے ہوں) کے لئے سخت وعید ہے۔ 40۔ 3 یعنی کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں۔ ، یقینا نہیں علاوہ ازیں اس سے اشارہ کردیا کہ کافر آگ میں ڈالے جائیں گے اور اہل ایمان قیامت والے دن بےخوف ہونگے۔ 40۔ 3 یہ امر کا لفظ ہے، لیکن یہاں اس سے مقصود وعید اور تہدید ہے۔ کفر و شرک اور معیصت کے لئے اذن اور جواز نہیں ہے۔
[٤٩] الحاد کے معنی :۔ (یُلْحِدُوْنَ ) کا مادہ لحد ہے اور لحد بمعنی قبر اور اس کا بغلی حصہ اور الحد بمعنی راہ راست سے کسی ایک طرف ہوجانا اور الحد السھم کے معنی تیر کا نشانہ کے کسی ایک پہلو میں لگنا اور الحد عن الدین کے معنی دین میں طعن کرنا۔ (مفردات القرآن) اور اس الحاد کا تعلق عقائد سے ہوتا ہے (فق۔ ل ١٨٩) جیسے اللہ کی ذات وصفات میں شک کرنا یا اس کے غلط معنی لینا یا معجزات سے انکار کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا : (وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ١٨٠۔ ) 7 ۔ الاعراف :180) یعنی جو لوگ اللہ کے ناموں (صفات) میں کجی اختیار کرتے ہیں۔- خ الحاد کا تعلق اللہ کی صفات سے۔ ملحدین کو کون کون سے فرقے ہیں ؟:۔ اس لحاظ سے اس مقام پر اللہ کی آیات سے مراد اللہ کی صفات بیان کرنے والی آیات ہوگا اس کی مثال جیسے اللہ کی تقدیر سے تعلق رکھنے والی آیات میں الحاد کی بنا پر قدریہ اور جبریہ دو فرقے وجود میں آگئے۔ خوارج نے بھی اللہ کے حکم ہونے سے مراد یہ لی کہ اللہ کے علاوہ نہ اللہ کا قرآن حکم بن سکتا ہے اور نہ ہی انسان حکم بن سکتا ہے۔ معتزلہ نے اللہ کی صفات کو اللہ کی ذات سے جدا کرکے اللہ کی صفات کو حادث قرار دیا اور مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ اٹھا کھڑا کیا۔ علاوہ ازیں جتنے بھی گمراہ فرقے ہیں سب ہی اللہ کی صفات میں الحاد کرکے اس سے اپنا مفید مطلب مفہوم کشید کرلیتے ہیں۔ ایسے ملحدین جو خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں سب اللہ کی نظر میں ہیں۔ اور وہ اس سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔- [٥٠] انداز بیان میں سخت دھمکی پائی جاتی ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی حاکم کسی مجرم کو کہے کہ جو کچھ تم کر رہے ہو میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو اللہ کی آیات میں الحاد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
آیت ٤٠۔ (١) ان الذین یلحدون فی ایتنا :” یلحدون “ کا مادہ ” لح ”‘ ہے۔ لحد اس قبر کو کہتے ہیں جو نیچے سیدھی کھودنے کے بجائے کچھ نیچے جا کر ایک طرف کھود کر بنائی جاتی ہے۔ ” الحا ”‘ کا معنی ہے سیدھے راستے سے انحراف یعنی ایک طرف کو ہٹ جانا، کج روی اور ٹیڑھا چلنا، یعنی جو لوگ حق سے ہٹ کر ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد (ٹیڑھا چلنا) یہ ہے کہ ان کا انکار کر دے، یا ان کا سیدھا ساد اور واضح مطلب لینے کے بجائے غیر متعلق بحثیں کرے اور انھیں غلط مطلب پہنانے کی کوشش کرے۔ جو لوگ مسلمان ہو کر باطل نظریات مثلاً مشرکانہ عقائد، بدعت، انکار حدیث اشتراکیت، سرمایہ داری اور دہریت وغیرہ کے حامی بن جاتے ہیں وہ یہی طرز اختیار کترے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ یہاں آیات الٰہی میں کج روی اختیار کرنے والوں کے لئے وعید آئی ہے اور سورة اعراف کی آیت (١٨٠) میں اسمائے الٰہی میں کج روی اختیار کرنے والوں سے علیحدگی کا حکم اور ایسے لوگوں کا انجام بیان فرمایا ہے۔- (٢) لایخفون علینا : یہی پہلی شدید و عید ہے جو یہاں آیات الٰہی میں ٹیڑھا چلنے والوں کے لئے آئی ہے کہ یہ لوگ ہم پر مخفی نہیں ہیں، بلکہ ہر لمحے ہماری نگاہ میں ہیں اور ہماری گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ ہم اگر ان کے عذاب میں تاخیر کر رہے ہیں اور انھیں مہلت دے رہے ہیں تو اس لئے کہ جلدی تو وہ کرے جسے خطرہ ہو کہ مجرم رو پوش ہوجائے گا اور قابو سے رہے ہیں اور انھیں مہلت دے رہے ہیں تو اس لئے کہ جلدی تو وہ کرے جسے خطرہ ہو کہ مجرم روپوش ہوجائے گا اور قابو سے نکل جائے گا۔ مطلب یہ کہ ہم انھیں اس الحاد کی سزا ضرور دیں گے۔- (٣) افمن یلقی فی النار خیر ام من یاتی امنا یوم القیمۃ : یہ دوسری دھمکی ہے کہ آیات الٰہی کا مطلب توڑنے مرڑونے والے اور ان کے بارے میں ٹیڑھے چلنے والے آگ میں پھینکے جائیں گے اور آیات الٰہی میں الحاد سے اجتناب کرنے والے قیامت کے دن امن کی حالت میں آئیں گے۔ تو بتاؤ، جو آگ میں پھینکا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا ؟- (٤) اعملوا ما شتم …: یہ تیسری دھمکی ہے، ” کرو جو چاہو “ کا مطلب اپنی مرضی کرنے کی اجازت دینا نہیں بلکہ ڈانٹ ہے کہ اس مہلت میں تم جو چاہو کرلو، پھر اس کی سزا کے لئے ہم جو چاہیں گے کریں گے۔ تمہارے ہر عمل کو ہم خوب دیکھ رہے ہیں، یہ خیال نہ کرنا کہ تم اپنے کسی عمل بد کی سزا سے اس لئے بچ جاؤ گے کہ وہ ہماری نگاہ سے اوجھل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی عظیم فرماں روا اپنے کچھ غلاموں پر ناراض ہو کر شدید غصے سے کہے ، جو چاہو کرو۔
خلاصہ تفسیر - بلاشبہ جو لوگ ہماری آیتوں میں کجروی کرتے ہیں (یعنی یہ کہ ہماری آیتوں کا تقاضا ان پر ایمان لانے، پھر ان پر استقامت رکھنے کا ہے، اس کو چھوڑ کر ان کی تکذیب کرتے ہیں (کما فی الدر المنثور عن قتادہ) وہ لوگ ہم پر مخفی نہیں (ان کو ہم جہنم کا عذاب دیں گے) سو بھلا جو شخص جہنم میں ڈالا جائے (جیسے کافر) وہ اچھا ہے یا وہ شخص جو قیامت کے روز امن وامان کے ساتھ (جنت) میں آئے (آگے ان کو ڈرانے کے لئے ارشاد ہے کہ) جو جی چاہے (خوب) کرلو وہ تمہارا سب کچھ کیا ہوا دیکھ رہا ہے (ایک دفعہ ہی سزا دے گا) جو لوگ اس قرآن کا جبکہ وہ ان کے پاس پہنچتا ہے انکار کرتے ہیں (ان میں خود تدبر کی کمی ہے) اور (اس قرآن میں کوئی کمی نہیں کیونکہ) یہ (قرآن) بڑی وقعت کتاب ہے جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے کی طرف سے آسکتی ہے اور نہ اس کے پیچھے کی طرف سے (یعنی اس میں کسی پہلو اور کسی جہت سے اس کا احتمال نہیں کہ یہ قرآن منزل من اللہ نہ ہو۔ اور پھر خلاف واقعہ اس کو منزل من اللہ کہہ دیا جائے جیسا کفار آپ پر یہی شبہ کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے ایک قاعدہ کلیہ سے اس شبہ خاص کا ازالہ کردیا اس طرح کہ اس کا اعجاز سب کے نزدیک مسلم ہے اس لئے یہ ثابت ہوگیا کہ) یہ خدائے حکیم محمود (الذات والصفات) کی طرف سے نازل کیا گیا ہے (اور باوجود اس کے جو یہ لوگ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو یہ معلوم کر کے تسلی کرلیجئے کہ) آپ کو وہی باتیں (تکذیب و ایذاء کی) کہی جاتی ہیں۔ جو آپ سے پہلے رسولوں کو کہی گئی ہیں (انہوں نے صبر کیا تھا آپ بھی صبر کیجئے اور اس سے بھی تسلی حاصل کیجئے کہ) آپ کا رب بڑی مغفرت والا اور دردناک سزا دینے والا ہے۔ (پس اگر یہ مخالفین خلاف سے باز آ کر مستحق مغفرت نہ ہوگئے تو ان کو سزا بھی دوں گا، پھر آپ کا ہے کے لئے پریشان ہوں) اور (یہ لوگ ایک شبہ یہ کرتے ہیں کہ قرآن کا کچھ حصہ عجمی بھی ہونا چاہئے تھا، جیسا کہ تفسیر در منثور میں قریش کا ایسا قول حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے جس سے اس کا اعجاز خوب ظاہر ہوتا، کہ نبی کریم جو عجمی زبان نہیں جانتے وہ عجمی میں تکلم کریں سو بات یہ ہے کہ) اگر ہم اس کو (کلا یا بعضاً ) عجمی (زبان کا) قرآن بناتے (تو یہ ہرگز نہ ہوتا کہ اس کو مان لیتے بلکہ اس میں ایک اور حجت نکالتے کیونکہ جب ماننے اور سمجھنے کا ارادہ نہیں ہوتا تو ہر تقدیر پر کچھ نہ کچھ شاخ نکال لی جاتی ہے چناچہ اگر ایسا ہوتا) تو یوں کہتے کہ اس کی آیتیں (اس طرح) صاف صاف کیوں نہیں بیان کی گئیں (کہ ہم سمجھ لیتے یعنی عربی میں کیوں نہیں آیا۔ اگر بعض عجمی ہوتا تو کہتے یہ بعض بھی عربی کیوں نہیں ہے اور یوں کہتے کہ) یہ کیا بات ہے کہ عجمی کتاب اور رسول عربی (خلاصہ یہ ہے کہ اب جو قرآن عربی ہے تو کہتے ہیں عجمی کیوں نہیں اور اگر عجمی ہوتا تو کہتے عربی کیوں نہیں کسی حال پر ان کو قرار نہیں پھر عجمی ہونے سے کیا فائدہ۔ آگے اس مضمون سے جواب دینے کا حکم ہے کہ اے پیغمبر) آپ کہہ دیجئے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے لئے تو (نیک کاموں کے بتلانے میں) رہنما ہے اور (برے کاموں سے جو روگ دلوں میں پیدا ہوجاتے ہیں جب اس قرآن کی رہنمائی پر عمل کیا جائے تو یہ ان روگوں سے) شفا ہے (پس چونکہ ایمان والوں میں تدبر و طلب حق کی کمی نہ تھی، ان کے حق میں قرآن اپنی حقانیت کے سبب نافع ہوا) اور جو (باوجود ظہور حق کے عناداً ) ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے (جس سے حق کو انصاف اور تدبر سے نہیں سنتے اور وہ کمی یہی ہے) اور (اسی کمی کی وجہ سے) وہ قرآن ان کے حق میں نابینائی ہے (قلت تدبر وقلت انصاف سے تعصب میں قوت رہتی ہے اور تعصب ہدایت قبول کرنے سے مانع بلکہ زیادہ گمراہی کا سبب ہوجاتا ہے۔ نابینائی کا سبب ہونے کی یہ وجہ ہے، جیسے آفتاب عالم کو روشنی دیتا ہے چمگادڑ کو اندھا کردیتا ہے اور) یہ لوگ (حق بات سننے کے باوجود نفع سے محروم رہتے ہیں ایسے ہیں کہ گویا کسی دور جگہ سے پکارے جا رہے ہیں (کہ آواز سنتے ہوں مگر سمجھتے نہ ہوں) اور (آپ کی تسلی کے لئے جیسا اوپر مجملاً رسولوں کا ذکر ہوا ہے اب خاص موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر ہوتا ہے کہ) ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی سو اس میں بھی اختلاف ہوا (کسی نے مانا کسی نے نہ مانا، یہ کوئی نئی بات آپ کے لئے نہیں ہوئی، پس آپ مغموم نہ ہوں) اور (یہ منکرین ایسے عذاب مستحق میں کہ) اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے کہ (پورا عذاب ان کو آخرت میں دوں گا) تو ان کا (قطعی) فیصلہ (دنیا میں ہی) ہوچکا ہوتا اور یہ لوگ (باوجود قیام براہین کے) ابھی تک اس (فیصلہ یعنی عذاب موعود) کی طرف سے ایسے شک میں (پڑے) ہیں جس نے ان کو تردد میں ڈال رکھا ہے (کہ ان کو عذاب کا یقین ہی نہیں آتا حالانکہ فیصلہ ضرور واقع ہوگا اور اس فیصلہ کا حاصل یہ ہے کہ) جو شخص نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے نفع کے لئے (یعنی وہاں اس کا نفع اور ثواب پاوے گا) اور جو شخص برا عمل کرتا ہے اس کا وبال (یعنی ضرور عذاب) اسی پر پڑے گا اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں (کہ کوئی نیکی جو شرائط کے مطابق عمل میں لائی گئی ہو اس کو شمار نہ کرے یا کسی بدی کو زائد شمار کرے) ۔- معارف و مسائل - کفر کی ایک خاص قسم الحاد ہے۔ اس کی تعریف اور احکام :- (آیت) اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا۔ اس سے پہلی آیات میں ان منکرین توحید و رسالت کو زجر و تنبیہ اور ان کے عذاب کا ذکر تھا جو رسالت و توحید کا کھل کر صاف انکار کرتے تھے۔ یہاں سے انکار کی ایک خاص قسم کا ذکر کیا جاتا ہے جس کا نام الحاد ہے۔ لحد اور الحاد کے لغوی معنی ایک طرف مائل ہونے کے ہیں۔ قبر کی لحد کو بھی اسی لئے لحد کہتے ہیں کہ وہ ایک طرف مائل ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں آیات قرآنی سے عدول و انحراف کو الحاد کہتے ہیں۔ لغوی معنی کے اعتبار سے تو یہ عام ہے صراحتہ کھلے طور پر انکار و انحراف کرے یا تلاوت فاسدہ کے بہانہ سے انحراف کرے۔ لیکن عام طور سے الحاد ایسے انحراف کو کہتے ہیں کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان و تصدیق کا دعویٰ کرے مگر ان کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن و سنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے۔ حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں الحاد کے معنی یہی منقول ہیں فرمایا الا لحاد ھو وضع الکلام علیٰ غیر موضعہ۔ اور آیت مذکورہ میں ارشاد (آیت) لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا بھی اس کا قرینہ ہے کہ الحاد کوئی ایسا کفر ہے جس کو یہ لوگ چھپانا چاہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ہم سے اپنا کفر نہیں چھپا سکتے۔- اور آیت مذکورہ نے صراحتہ یہ بتلا دیا کہ آیات قرانی سے انکار و انحراف صاف اور کھلے لفظوں میں ہو یا معافی میں تاویلات باطلہ کر کے قرآن کے احکام کو بدلنے کی فکر کرے یہ سب کفر و ضلال ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ الحاد ایک قسم کا کفر نفاق ہے کہ ظاہر میں قرآن اور آیات قرآن کو ماننے کا دعویٰ اور اقرار کرے لیکن آیات قرآنی کے معانی ایسے گھڑے جو دوسرے نصوص قرآن و سنت اور اصول اسلام کے منافی ہوں۔ امام ابویوسف نے کتاب الخراج میں فرمایا :۔- ایسے ہی وہ زندیق لوگ ہیں جو الحاد کرتے ہیں اور بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔- اس سے معلوم ہوا کہ ملحد اور زندیق دونوں ہم معنی ہیں، جو ایسے کافر کو کہا جاتا ہے جو ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرے اور حقیقت میں اس کے احکام کی تعمیل سے انحراف کا یہ بہانہ بنائے کہ قرآن کے معنی ہی ایسے گھڑے جو خلاف نصوص و خلاف اجماع امت ہوں۔- ایک مغالطہ کا ازالہ :- کتب عقائد میں ایک ضابطہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ متاؤل کو کافر نہیں کہنا چاہئے یعنی جو شخص عقائد باطلہ اور کلمات کفریہ کو کسی تاویل سے اختیار کرے وہ کافر نہیں۔ لیکن اس ضابطہ کا مفہوم اگر عام لیا جائے کہ کیسے ہی قطعی اور یقینی حکم میں تاویل کرے اور کیسی ہی فاسد تاویل کرے وہ بہرحال کافر نہیں تو اس کا نتیجہ یہ لازم آتا ہے کہ دنیا میں مشرکین، بت پرست اور یہود و نصاریٰ میں سے کسی کو بھی کافر نہ کہا جائے۔ کیونکہ بت پرست مشرکین کی تاویل تو قرآن میں مذکور ہے۔ (آیت) ما نعبدہم الا لیقربونا الیٰ اللہ زلفیٰ ۔ یعنی ہم بتوں کی فی نفسہ عبادت نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ سفارش ہمیں کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں، تو درحقیقت عبادت اللہ ہی کی ہے۔ مگر قرآن نے ان کی اس تاویل کے باوجود انہیں کافر کہا، یہود و نصاریٰ کی تاویلیں تو بہت ہی مشہور و معروف ہیں۔ جن کے باوجود قرآن وسنت کی نصوص میں ان کو کافر کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ متاؤل کو کافر نہ کہنے کا مفہوم عام نہیں۔- اسی لئے علماء وفقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ یہ تاویل جو تکفیر سے مانع ہوتی ہے اس کی شرط یہ ہے کہ وہ ضروریات دین میں ان کے مفہوم قطعی کے خلاف نہ ہو۔ ضروریات دین سے مراد وہ احکام و مسائل ہیں جو اسلام اور مسلمانوں میں اتنے متواتر اور مشہور ہوں کہ مسلمانوں کے ان پڑھ جاہلوں تک کو بھی ان سے واقفیت ہو جیسے پانچ نمازوں کا فرض ہونا۔ صبح کی دو ظہر کی چار رکعت کا فرض ہونا۔ رمضان کے روزے فرض ہونا۔ سود، شراب، خنزیر کا حرام ہونا وغیرہ۔ اگر کوئی شخص ان مسائل سے متعلق آیات قرآن میں ایسی تاویل کرے جس سے مسلمانوں کا متواتر اور مشہور مفہوم الٹ جائے، وہ بلاشبہ باجماع امت کافر ہے، کیونکہ وہ درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم سے انکار ہے اور ایمان کی تعریف جمہور امت کے نزدیک یہی ہے کہ - یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرنا ان تمام امور میں جن کا بیان کرنا اور حکم کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرورتاً ثابت ہو یعنی ایسا یقینی ثابت ہو کہ علماء کے سوا عوام بھی اس کو جانتے ہوں۔- اس لئے کفر کی تعریف اس کے بالمقابل یہ ہوگی کہ جن چیزوں کا لانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضروری اور قطعی طور پر ثابت ہو ان میں سے کسی کا انکار کفر ہے۔- تو جو شخص ایسی ضروریات دین میں تاویل کر کے اس حکم کو بدلے وہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم کا انکار کرتا ہے۔- اس زمانہ میں کفر و الحاد کی گرم بازاری :- اس زمانے میں ایک طرف تو دین اور احکام دین سے جہالت اور غفلت انتہا کو پہنچ گئی کہ نئے لکھے پڑھے لوگ بہت سی ضروریات دین سے بھی ناواقف رہتے ہیں۔ دوسری طرف جدید بے خدا تعلیم جس کی بنیاد ہی مادہ پرستی پر ہے، کچھ اس اثر سے، اس پر مزید یورپ کے مستشرقین کے پھیلائے ہوئے اسلام کے خلاف شبہات و ادہام سے متاثر ہو کر بہت سے ایسے لوگوں نے اسلام اور اصول اسلام پر بحث و گفتگو شروع کردی ہے جن کو اسلام کے اصول و فروع، قرآن و حدیث کے علوم سے کوئی واسطہ نہیں۔ انہوں نے اسلام کے معلق اگر کچھ معلومات بھی حاصل کی ہیں تو اہل یورپ دشمنان اسلام سے حاصل کی ہیں۔ ایسے لوگوں نے قرآن و حدیث کی نصوص قطعیہ ضروریہ میں طرح طرح کی باطل تاویلیں کر کے شریعت اسلام کے متفق علیہ اور نصوص قطعیہ سے ثابت شدہ احکام کی تحریف کو اسلام کی خدمت سمجھ لیا۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ کھلا کفر ہے تو وہ مشہور ضابطہ کا سہارا لیتے ہیں کہ ہم اس حکم کے منکر تو نہیں بلکہ ایک تاویل کر رہے ہیں اس لئے ہم پر یہ کفر عائد نہیں ہوتا۔- اسی لئے وقت کی اہم ضرورت سمجھ کر ہمارے استاد حجة الاسلام حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری (رح) نے اس مسئلہ کی تحقیق کے لئے ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام ہے اکفار الملحدین والمتاؤلین فی شئی من ضروریات الدین۔ اس میں ہر طبقہ ہر مسلک کے علماء و فقہاء کی تصریحات سے ثابت کیا ہے کہ ضروریات دین میں کسی کی تاویل مسموع نہیں۔ اور یہ تاویل ان کی تکفیر سے مانع نہیں۔ یہ کتاب عربی شائع ہوئی ہے، احقر نے اس کا خلاصہ اردو زبان میں بنام ” ایمان اور کفر قرآن کی روشنی میں “ شائع کردیا ہے۔ اور احکام القرآن حزب خامس میں اس کا خلاصہ بزبان عربی بیان کردیا ہے، اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی ایک تحریر سے نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔- حضرت شاہ عبدالعزیز نے فرمایا کہ آیات قرآنی میں تاویل باطل جس کو قرآن کی آیت مذکورہ میں الحاد فرمایا ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ اول وہ تاویل باطل جو نصوص قطعیہ متواترہ یا اجماع قطعی کے خلاف ہو وہ تو بلاشبہ کفر ہے۔ دوسری یہ کہ وہ ایسی نصوص کے خلاف ہو جو اگرچہ ظنی میں مگر قریب بہ یقین ہیں یا اجماع عرفی کے خلاف ہو، ایسی تاویل گمراہی اور فسق ہے، کفر نہیں۔ ان دو قسم کی تاویلوں کے علاوہ باقی تاویلات جو قرآن و حدیث کے الفاظ میں مختلف احتمالات ہونے کی بنا پر ہوں۔ وہ تاویل عام فقہاء امت کا میدان اجتہاد ہے جو بتصریح حدیث ہر حال میں باعث اجر وثواب ہے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ٠ ۭ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْٓ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيٰمَۃِ ٠ ۭ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ ٠ ۙ اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ٤٠- لحد - اللَّحْدُ : حفرة مائلة عن الوسط، وقد لَحَدَ القبرَ : حفره، کذلک وأَلْحَدَهُ ، وقد لَحَدْتُ الميّت وأَلْحَدْتُهُ : جعلته في اللّحد، ويسمّى اللَّحْدُ مُلْحَداً ، وذلک اسم موضع من : ألحدته، ولَحَدَ بلسانه إلى كذا : مال . قال تعالی: لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] من : لحد، وقرئ : يلحدون من : ألحد، وأَلْحَدَ فلان : مال عن الحقّ ، والْإِلْحَادُ ضربان : إلحاد إلى الشّرک بالله، وإلحاد إلى الشّرک بالأسباب .- فالأوّل ينافي الإيمان ويبطله .- والثاني : يوهن عراه ولا يبطله . ومن هذا النحو قوله : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] ، وقوله : وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] - والْإِلْحَادُ في أسمائه علی وجهين :- أحدهما أن يوصف بما لا يصحّ وصفه به . والثاني : أن يتأوّل أوصافه علی ما لا يليق به، والْتَحدَ إلى كذا : مال إليه . قال تعالی: وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] أي : التجاء، أو موضع التجاء . وأَلْحَدَ السّهم الهدف : مال في أحد جانبيه .- ( ل ح د ) اللحد ۔- اس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں جو قبر کی ایک جانب میں بنانا کے ہیں ۔ لحد المیت والحدہ میت کو لحد میں دفن کرنا اور لحد کو ملحد بھی کہا جاتا ہے جو کہ الحد تہ ( افعال ) اسے اسم ظرف ہے ۔ لحد بلسانہ الیٰ کذا زبان سے کسی کی طرف جھکنے یعنی غلط بات کہنا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں ۔ میں یلحدون لحد سے ہے اور ایک قرات میں یلحدون ( الحد سے ) ہے ۔ کہا جاتا ہے الحد فلان ۔ فلاں حق سے پھر گیا ۔ الحاد دو قسم پر ہے ۔ ایک شرک باللہ کی طرف مائل ہونا دوم شرک بالا سباب کی طرف مائل ہونا ۔ اول قسم کا الحا و ایمان کے منافی ہے اور انسان کے ایمان و عقیدہ کو باطل کردیتا ہے ۔ اور دوسری قسم کا الحاد ایمان کو تو باطل نہیں کرتا لیکن اس کے عروۃ ( حلقہ ) کو کمزور ضرور کردیتا ہے چناچہ آیات : ۔ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] اور جو اس میں شرارت سے کجروی وکفر کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] ، جو لوگ اس کے ناموں کے وصف میں کجروی اختیار کرتے ہیں ۔ میں یہی دوسری قسم کا الحاد مراد ہے اور الحاد فی اسمآ ئہ یعنی صفات خداوندی میں الحاد کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ کو ان اوٖاف کے ساتھ متصف ماننا جو شان الو ہیت کے منافی ہوں دوم یہ کہ صفات الہیٰ کی ایسی تاویل کرنا جو اس کی شان کے ذیبا نہ ہو ۔ التحد فلان الٰی کذا ۔ وہ راستہ سے ہٹ کر ایک جانب مائل ہوگیا اور آیت کریمہ : وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے میں ملتحد ا مصدر میمی بمعنی التحاد بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی اور اس کے معنی پناہ گاہ کے ہیں التحد السھم عن الھدف تیر نشانے سے ایک جانب مائل ہوگیا یعنی ہٹ گیا ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- أمانت - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امانت - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - قِيامَةُ- والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ- [ الروم 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ،- القیامتہ - سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
بیشک جو لوگ ہماری نشانیوں یعنی رسول اکرم اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں یا یہ کہ تکذیب کرتے ہیں، ان کی باتوں میں سے کوئی چیز بھی ہم سے پوشیدہ نہیں۔- شان نزول : اَفَمَنْ يُّلْقٰى (الخ)- ابن منذر نے بشیر بن فتح سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ ابو جہل اور حضرت عمار بن یاسر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
آیت ٤٠ اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا ” جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں کج روی اختیار کرتے ہیں وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ “- اَفَمَنْ یُّلْقٰی فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْٓ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ” تو کیا وہ شخص جو آگ میں جھونک دیا جائے گا وہ بہتر ہوگا یا وہ کہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا “- اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْلا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ” تم کیے جائو جو بھی کرنا چاہتے ہو ‘ وہ خوب دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ “- قبل ازیں ہم آیت ٥ میں مشرکین کی طرف سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس کھلے چیلنج کے بارے میں پڑھ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا : فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَکہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کرلیں ‘ ہم بھی آپ کی ہر کوشش کا توڑ کریں گے اور آپ کی اس دعوت کو چلنے نہیں دیں گے۔ زیر مطالعہ جملے میں دراصل اسی چیلنج کا جواب ہے۔
سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :48 عوام الناس کو چند فقروں میں یہ سمجھانے کے بعد کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس توحید آخرت کے عقیدے کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہی معقول ہے اور آثار کائنات اسی کے حق ہونے کی شہادت دے رہے ہیں ، اب روئے سخن پھر ان مخالفین کی طرف مڑتا ہے جو پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ مخالفت پر تلے ہوئے تھے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :49 اصل الفاظ ہیں : یُلْحِدُوْنَ فِیْ اٰیَاتِنَا ( ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں ) ۔ الحاد کے معنی ہیں انحراف ، سیدھی راہ سے ٹیڑھی راہ کی طرف مڑ جانا ، کج روی اختیار کرنا ۔ اللہ کی آیات میں الحاد کا مطلب تو نہ لے ، باقی ہر طرح کے غلط معنی ان کو پہنا کر خود بھی گمراہ ہو اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتا رہے ۔ کفار مکہ قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے جو چالیں چل رہے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قرآن کی آیات کو سن کر جاتے اور پھر کسی آیت کو سیاق و سباق سے کاٹ کر ، کسی آیت میں لفظی تحریف کر کے ، کسی فقرے یا لفظ کو غلط معنی پہنا کر طرح طرح کے اعتراضات جڑتے اور لوگوں کو بہکاتے پھرتے تھے کہ لو سنو ، آج ان نبی صاحب نے کیا کہہ دیا ہے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :50 ان الفاظ میں ایک سخت دھمکی مضمر ہے ۔ حاکم ذی اقتدار کا کہنا کہ فلاں شخص جو حرکتیں کر رہا ہے وہ مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں ، آپ سے آپ یہ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ وہ بچ کر نہیں جا سکتا ۔
17: ٹیڑھا راستہ اختیار کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان آیتوں کو ماننے سے انکار کیا جائے، اور یہ بھی کہ انہیں غلط سلط معنی پہنائے جائیں۔ آیت کی وعید دونوں صورتوں کو شامل ہے۔