Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اس کے حکم احکام اس کے لفظی و معنوی فوائد کا بیان کر کے اس پر ایمان نہ لانے والوں کی سرکشی ضد اور عداوت کا بیان فرما رہا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے مطلب یہ ہے کہ نہ ماننے کے بیسیوں حیلے ہیں نہ یوں چین نہ ووں چین ۔ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اترتا تو بہانہ کرتے کہ ہم تو اسے صاف صاف سمجھ نہیں سکتے ۔ مخاطب جب عربی زبان کے ہیں تو ان پر جو کتاب اترتی ہے وہ غیر عربی زبان میں کیوں اتر رہی ہے؟ اور اگر کچھ عربی میں ہوتی اور کچھ دوسری زبان میں تو بھی ان کا یہی اعتراض ہوتا کہ اس کی کیا وجہ؟ حضرت حسن بصری کی قرأت عجمی ہے ۔ سعید بن جبیر بھی یہی مطلب بیان کرتے ہیں ۔ اس سے ان کی سرکشی معلوم ہوتی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے دل کی ہدایت اور ان کے سینوں کی شفا ہے ۔ ان کے تمام شک اس سے زائل ہو جاتے ہیں اور جنہیں اس پر ایمان نہیں وہ تو اسے سمجھ ہی نہیں سکتے جیسے کوئی بہرا ہو ۔ نہ اس کے بیان کی طرف انہیں ہدایت ہو جیسے کوئی اندھا ہو اور آیت میں ہے ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82؀ ) 17- الإسراء:82 ) ہمارا نازل کردہ یہ قرآن ایمان داروں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو تو ان کا نقصان ہی بڑھاتا ہے ۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی دور سے کسی سے کچھ کہہ رہا ہو کہ نہ اس کے کانوں تک صحیح الفاظ پہنچتے ہیں نہ وہ ٹھیک طرح مطلب سمجھتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِيْ يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ اِلَّا دُعَاۗءً وَّنِدَاۗءً ۭ ۻ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ١٧١؁ ) 2- البقرة:171 ) یعنی ، کافروں کی مثال اس کی طرح ہے جو پکارتا ہے مگر آواز اور پکار کے سوا کچھ اور اس کے کان میں نہیں پڑتا ۔ بہرے گونگے اندھے ہیں پھر کیسے سمجھ لیں گے؟ حضرت ضحاک نے یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے بدترین ناموں سے پکارا جائے گا ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مسلمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس کا آخری وقت تھا اس نے یکایک لبیک پکارا آپ نے فرمایا کیا تجھے کوئی دیکھ رہا ہے یا کوئی پکار رہا ہے؟ اس نے کہا ہاں سمندر کے اس کنارے سے کوئی بلا رہا ہے تو آپ نے یہی جملہ پڑھا ( اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 44؀ۧ ) 41- فصلت:44 ) ( ابن ابی حاتم ) پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی لیکن اس میں بھی اختلاف کیا گیا ۔ انہیں بھی جھٹلایا اور ستایا گیا ۔ پس جیسے انہوں نے صبر کیا آپ کو بھی صبر کرنا چاہئے چونکہ پہلے ہی سے تیرے رب نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک وقت مقرر یعنی قیامت تک عذاب رکے رہیں گے ۔ اس لئے یہ مہلت مقررہ ہے ورنہ ان کے کرتوت تو ایسے نہ تھے کہ یہ چھوڑ دیئے جائیں اور کھاتے پیتے رہیں ۔ ابھی ہی ہلاک کر دیئے جاتے ۔ یہ اپنی تکذیب میں بھی کسی یقین پر نہیں بلکہ شک میں ہی پڑے ہوئے ہیں ۔ لرز رہے ہیں ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی عربی کے بجائے کسی اور زبان میں قرآن نازل کرتے۔ 44۔ 2 یعنی ہماری زبان میں اسے بیان کیوں نہیں کیا گیا جسے ہم سمجھ سکتے کیونکہ ہم تو عرب ہیں عجمی زبان نہیں سمجھتے 44۔ 3 یہ بھی کافروں ہی کا قول ہے کہ وہ تعجب کرتے کہ رسول تو عربی ہے اور قرآن اس پر عجمی زبان میں نازل ہوا ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل فرما کر اس کے اولین مخاطب عربوں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا ہے اگر یہ غیر عربی زبان میں ہوتا تو وہ عذر کرسکتے تھے 44۔ 4 یعنی جس طرح دور کا شخص، دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آواز سننے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی عقل و فہم میں قرآن نہیں آتا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٥] اگر قرآن عجمی زبان میں نازل ہوتا تو کفار کے اعتراض کی صرف نوعیت ہی بدلتی :۔ یہ ضد اور ہٹ دھرمی کافروں کی خوئے بد کی ایک اور مثال ہے۔ اعتراض کرتے وقت وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے اس اعتراض میں کچھ معقولیت ہے بھی یا نہیں ؟ ان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ رسول عربی ہے اور عربی زبان میں ہی کلام سناتا ہے۔ تو اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام اس کا اپنا تصنیف کردہ ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ کلام کسی دوسری زبان مثلاً فارسی یا رومی زبان میں ہوتا اور یہ فرفر ہمیں سناتا۔ اور ہم سمجھتے کہ یہ زبان تو یہ جانتا ہی نہ تھا۔ لہذا ممکن ہے کہ اللہ کا رسول ہو اور فرشتہ ہی اس کو ایسا کلام پڑھاتا ہو۔ اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر ہم قرآن غیر عربی زبان میں نازل کرتے تو ان کے اعتراض کی شکل یہ ہوتی کہ : واہ یہ بھی عجب معاملہ ہے۔ یہ نبی کلام ایسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ہم سمجھ بھی نہیں سکتے تو اس پر ایمان کیا لائیں ؟ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے بہرحال اعتراض ہی کرنا ہے جو بھی صورت ہو اور یہی کام یہ لوگ کر رہے ہیں۔- [٥٦] آپ ایسے اعتراض کرنے والوں سے کہئے کہ جن لوگوں کی عقل سلیم ہے وہ اسی قرآن سے راہ ہدایت بھی حاصل کر رہے ہیں اور اپنی روحانی بیماریوں سے شفا بھی پا رہے ہیں۔ اگر تم خود سننا، دیکھنا اور ہدایت حاصل ہی نہ کرنا چاہو تو اس میں اللہ کی کتاب کا کیا قصور ہے جو اسے موردالزام ٹھہراتے ہو ؟- [٥٧] کافروں پر قرآن کے دلائل دھندلائے ہی رہتے ہیں :۔ ایک پرندہ ہے چمگاڈر جس کی آنکھیں سورج کی روشنی میں چندھیا جاتی ہیں اور وہ دن کی روشنی میں اپنی آنکھیں بند ہی رکھتا ہے۔ حالانکہ سورج سب کے لیے ایک عظیم نعمت ہے لیکن چمگاڈر کو بھلا نہیں لگتا۔ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ آفتاب ہدایت نکلا تو ان کو بھلا نہیں لگتا۔ اس میں چشمہ آفتاب یا آفتاب ہدایت کا کیا قصور ہے۔ یہ اگر کچھ کلام اللہ سنتے بھی ہیں تو کانوں کے اندر پہنچنے ہی نہیں دیتے اور قرآن کے مضامین ہدایت اور دلائل توحید و معاد ان پر واضح ہوتے ہی نہیں بلکہ دھند لائے ہی رہتے ہیں۔- [٥٨] دور سے پکارنے والے کی آواز کانوں میں پڑ تو جاتی ہے۔ مگر یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ کہنے والا کہہ کیا رہا ہے ؟ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ اگر قرآن کی آواز ان کے کانوں میں پڑ بھی جائے تو چونکہ ان کی خواہش ہی نہیں ہوتی کہ اس سے کچھ ہدایت حاصل کریں۔ لہذا قرآنی آیات کے مفاہیم و مطالب ان پر دھند لائے ہی رہتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ولو جعلنہ قرانا اعجینا …: سورت کے شروع میں ذکر فرمایا کہ ” رحمان و رحیم کی طرف سے یہ ایسی کتاب نازل کی گئی ہے جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں، جو عربی قرآن ہے، ان لوگوں کے لئے جو جاتنے ہیں۔ “ مشرکین مکہ جو عرب تھے ان کا حق تھا کہ اپنی زبان میں اترنے والی کتاب کو سنتے اور اس پر غور و فکر کرتے، تو اس کے نتیجے میں انھیں ایمان کی دولت بھی نصیب ہوجاتی، مگر انہوں نے اپنی زبان میں ہونے کے باوجود اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں کے دریچے اس کے لئے بند کر یدئے اور کہنے لگے :(قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ و فی اذاننا وقرو من بیناً وبینک حجاب ) (حم السجدۃ : ٥)” ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں دعوت دیتا ہے اور ہمارے کانوں میں بھاری بوجھ ہے اور ہمارے درمیان اور تیرے دریمان بھاری پردہ ہے۔ “ بلکہ انہوں نے عملاً طے کرلیا کہ یہ عربی قرآن نہ خود سنیں گے اور نہ کسی کو سننے دیں گے، جیسا کہ اسی سورت میں ہے :(وقال الذین کفروا لا تسمعوا لھذا القرآن و الغوا فیہ لعلکم تغلبون) (حم السجدہ : ٢٦)” اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو، تاکہ تم غالب رہو۔ “- اب انھیں قائل کرنے کے لئے ایک صورت رہ جاتی تھی کہ قرآن عربی زبان کے بجائے کسی اور زبان میں اتارا جاتا، جس سے انھیں یقین ہوجائے کہ یہ عبری رسول جو عجمی زبان جانتا ہی نہیں، عجمی قرآن لے کر آیا ہے ، تو یہ اللہ کی طرف سے معجزہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا، پھر بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، بلکہ نہ ماننے کے لئے ایک اور بہانہ پیش کردیتے، کیونکہ جو طے کرچکا ہو کہ میں نے ماننا ہی نہیں اسے منوانے کی کوئی صورت نہیں۔- ہمارے شیخ محمد عبدہ رحمتہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :” یہ کفار مکہ بھی عجیب شے ہیں، اگر ان کے پاس انھی میں سے ایک آدمی عربی میں قرآن لے کر آیا ہے تو ہتے ہیں کہ ایک عرب کا عربی قرآن پیش کرنا کوئی کمال نہیں، کملا تو اس وقت ہوتا جب یہ شخص کسی عجمی زبان فارسی، رومی یا ترکی میں قرآن پیش کرتا۔ حالانکہ اگر ہم ان کا مطالبہ مان لیتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی عجمی زبان میں قرآن نازل کردیتے تو یہی لوگ اس وقت اعترضا کرتے کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ پیغمبر تو عربوں کو دعوت دینے کے لئے بھیجا گیا ہے، لیکن قرآن ایسی زبان میں لے کر آیا ہے جسے عرب سمجھ بھی نہیں سکتے۔ “ (اشرف الحواشی)- (٢) قل ھو للذین امنوا ھدی و شفآء : اس کی تفسیر گزر چکی ہے، دیکھیے سورة یونس (٥٧) اور سورة بنی اسرائیل (٨٢) ۔ - (٣) والذین لایومنون فی اذانھم وقر …: یعنی قرآن اگرچہ رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے، لیکن وہ ان کافروں کے حق میں کانوں کا بوجھ اور آنکھوں کا پردہ ہے۔ اس کی وجہ ان کی اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب ہے، اس میں قرآن کا کوئی قصور نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے سورج روشنی دینے والی چیز ہے، لیکن اس کے طلوع ہوتے ہی چمگادڑ کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔- (٤) اولئک ینادون من مکان بعید : یہ ایک محاور ہے اور اس شخص کے حق میں استعمال ہوتا ہے جو کوئی بات نہ سمجھتا ہو۔ (قرطبی) یعنی یہ لوگ قرآن کو دل سے سننے کی کوشش نہیں کرتے، صرف اوپر سے دل سے سنتے ہیں، اس لئے اس سے کوئی ہدایت نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی شخص کو دور سے پکارا جائے اور وہ آواز تو محسوس کرے مگر مطلب مراد کچھ نہ سمجھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ءَاَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ۔ عرب کے سوا جتنی قومیں دنیا میں ہیں ان سب کو عجم کہا جاتا ہے اور جب اس پر حرف ہمزہ بڑھا کر اعجم کہا جائے تو اس کے معنی کلام غیر فصیح کے ہوتے ہیں۔ اس لئے عجمی اس شخص کو کہیں گے جو عربی نہ ہو، اگرچہ کلام فصیح بولتا ہو۔ اور اعجمی اس کو جو کلام فصیح نہ کرسکے۔ (قرطبی)- آیت مذکورہ میں اعجمی فرمایا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم قرآن کو عربی زبان کے علاوہ کسی زبان میں بھیجتے تو قریش عرب جو قرآن کے پہلے مخاطب ہیں ان کو یہ شکایت ہوتی کہ یہ کتاب ہماری سمجھ میں نہیں آتی، اور تعجب سے کہتے کہ نبی تو عربی ہے اور کتاب اعجمی ہے جو فصیح نہیں۔- (آیت) قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ۔ یہاں قرآن کریم کی دو صفتیں بتلائی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ہدایت ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کو ایسا راستہ بتاتا ہے جو اس کے لئے نافع ومفید ہی ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ شفاء ہے۔ قرآن کریم کا امراض باطنہ کفر وشرک، کبر وحسد، حرص وطمع وغیرہ سے شفا ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ ظاہری اور جسمانی امراض سے شفاء ہونا بھی اس میں داخل ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ بہت سے جسمانی امراض کا علاج قرآنی دعاؤں سے ہوتا ہے اور کامیاب ہوتا ہے۔- (آیت) اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ۔ یہ ایک تمثیل ہے جو آدمی کلام کو سمجھتا ہو، عرب اس کو کہتے ہیں۔ انت تسمع من قریب۔ یعنی تم قریب سے سن رہے ہو اور جو کلام کو نہ سمجھے اس کو کہتے ہیں انت تنادیٰ من بعید، یعنی تمہیں دور سے آواز دی جا رہی ہے۔ (قرطبی)- مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ قرآنی ہدایات کو سننے اور سمجھنے کا ارادہ نہیں رکھتے اس لئے گویا ان کے کان بہرے ہیں، اور آنکھیں اندھی ہیں۔ ان کو ہدایت کی تعلیم دینا ایسا ہے جیسا کسی کو بہت دور سے پکارا جائے کہ اس کے کانوں تک اس کی آواز نہ پہنچے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُہٗ۝ ٠ ۭءَ اَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ۝ ٠ ۭ قُلْ ہُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہُدًى وَّشِفَاۗءٌ۝ ٠ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّہُوَعَلَيْہِمْ عَمًى۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍؚبَعِيْدٍ۝ ٤٤ ۧ- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- عجم - العُجْمَةُ : خلافُ الإبانة، والإِعْجَامُ : الإبهام، واسْتَعْجَمْتُ الدّارَ : إذا بان أهلها ولم يبق فيها عریب، أي : من يبين جوابا، ولذلک قال بعض العرب : خرجت عن بلاد تنطق، كناية عن عمارتها وکون السّكان فيها . والعَجَمُ : خلاف العَرَبِ ، والعَجَمِيُّ منسوبٌ إليهم، والأَعْجَمُ : من في لسانه عُجْمَةٌ ، عربيّا کان، أو غير عربيّ ، اعتبارا بقلّة فهمهم عن العجم . ومنه قيل للبهيمة : عَجْمَاءُ والأَعْجَمِيُّ منسوبٌ إليه . قال : وَلَوْ نَزَّلْناهُ عَلى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ- [ الشعراء 198] ، علی حذف الیاءات . قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ قُرْآناً أَعْجَمِيًّا لَقالُوا لَوْلا فُصِّلَتْ آياتُهُءَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌ [ فصلت 44] ، يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ [ النحل 103] ، وسمّيت البهيمة عَجْمَاءَ من حيث إنها لا تبین عن نفسها بالعبارة إبانة النّاطق . وقیل : «صلاة النهار عَجْمَاءُ» «2» ، أي : لا يجهر فيها بالقراءة، «وجُرْحُ العَجْمَاءِ جُبَارٌ» «3» ، وأَعْجَمْتُ الکلامَ ضدّ أَعْرَبْتُ ، وأَعْجَمْتُ الکتابةَ : أزلت عُجْمَتَهَا، نحو :- أشكيته : إذا أزلت شكايته . وحروف المُعْجَمُ ، روي عن الخلیل «4» أنها هي الحروف المقطّعة لأنها أَعْجَمِيَّةٌ. قال بعضهم : معنی قوله : أَعْجَمِيَّةٌ أنّ الحروف المتجرّدة لا تدلّ علی ما تدلّ عليه الحروف الموصولة «1» . وباب مُعْجَمٌ: مُبْهَمٌ ، والعَجَمُ : النّوى، الواحدة : عَجَمَةٌ ، إمّا لاستتارها في ثَنْيِ ما فيه، وإمّا بما أخفي من أجزائه بضغط المضغ، أو لأنّه أدخل في الفم في حال ما عضّ عليه فأخفي، والعَجْمُ : العَضُّ عليه، وفلانٌ صُلْبُ المَعْجَمِ ، أي : شدیدٌ عند المختبر .- ( ع ج م ) العجمۃ - کے معنی ابہام اور خفا کے ہیں اور یہ الا بانۃ کی ضد ہے جس کے معنی واضح اور بیان کردینا کے ہیں اور اعجاز کے معنی ہیں مبہم کرنا استعجت الدار گھر سونا ہوگیا اور اس میں جواب دینے والا کوئی نہ رہا سی بنا پر کسی عربی نے آباد شہروں سے کنایہ کرتے ہوئے کہا خرجت عن بلاد تنطق میں شہروں سے نکلا جو آباد تھے العجم غیر عرب کو کہتے ہیں اور العجمی اس کی طرف منسوب ہے الاعجم وہ آدمی جس کی زبان فصیح نہ ہو خواہ عربی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ عرب لوگ عجمی کی گفتگو بہت کم سمجھتے تھے اور الا عجمی اسکی طرف منسوب ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَوْ نَزَّلْناهُ عَلى بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ [ الشعراء 198] اور اگر ہم اس کو غیر اہل ابان پر اتارتے ۔ میں تخفیف کے لئے یا نسبت کو حزف کردیا گیا ہے ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ قُرْآناً أَعْجَمِيًّا لَقالُوا لَوْلا فُصِّلَتْ آياتُهُءَ أَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌ [ فصلت 44] اور اگر ہم اس قرآن کو غیر ( زبان ) عربی نازل کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں ( ہماری زبان میں ) کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں کیا ( خوب کہ قرآن تو عجمی اور مخاطب عربی ۔ يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ [ النحل 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں اسکی زبان تو عجمی ہے سی سے بھیمۃ ( چوپایہ ) کو عجماء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ناطق کی طرح الفاظ کے ذریعہ اپنے پانی لاضمیر اور ادا نہیں کرسکتا ۔ حدیث میں ہے جر ح العجماء جبار ( چوپایہ اگر کسی کو زخمی کردے تو مالک پر اس کی دیت نہیں ہے اور دن کی نماز کو عجماء کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں قرات بالجہر نہیں ہوتی اعجمت الکلام میں نے بات مبہم رکھی یہ اعربت کی ضد ہے کبھی اعجمت الکلام کے معنی کلام سے ابہام کو دور کرنا بھی آجاتے ہیں جیسا کہ اشکیہہ ( شکایت زائل کرنا ) خلیل سے مروی ہے کہ حروف مقطعہ کو حروف معجمہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اعجمی یعنی گونگے ہوتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ خلیل کا مقصد یہ ہے کہ یہ حروف مفرد ہونے کی صورت میں ان معانی پر دلالت نہیں کرتے جن پر کہ مرکب ہونے کی حالت میں دلالت کرتے ہیں باب معجمہ بندہ دروازہ العجم کھجور کی گٹھلی مفرد عجمۃ اور گٹھلی کو عجمۃ یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گودا کے اندر مخفی ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس کا چبانا مشکل ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ کھاتے وقت اسے بھی منہ میں ڈال لیا جاتا ہے ۔ اور وہ منہ میں مخفی ہوجاتی ہے اور العجم کے معنی چبانے کے ہیں محاورہ ہے : ۔ فلان صلب العجم یعنی وہ آزمائش میں سخت ہے - عَرَبيُّ :- الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ- [ الشعراء 195] ،- العربی - واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195]- «لَوْلَا»- يجيء علی وجهين :- أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] .- والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن .- ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ - تفصیل - : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] - ( ف ص ل ) الفصل - التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- شفا - والشِّفَاءُ من المرض : موافاة شفا السّلامة، وصار اسما للبرء . قال في صفة العسل : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] ، وقال في صفة القرآن : هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] ، وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] .- ( ش ف و ) شفا - الشفاء ( ض ) من المرض سلامتی سے ہمکنار ہونا یعنی بیماری سے شفا پانا یہ مرض سے صحت یاب ہونے کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں شہد کے متعلق فرمایا : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل 69] اس میں لوگوں کے ( امراض کی ) شفا ہے ۔ هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت 44] وہ ہدایت اور شفا ہے ۔ - وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس 57] وہ دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔ ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة 14] اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا ۔ أذن (کان)- الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة 61] أي :- استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم .- ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔- وقر - الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] والوَقْرُ :- الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً- [ نوح 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] قيل : هو من الوَقَارِ.- وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها .- ( و ق ر ) الوقر - ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ - عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - ندا - النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ- [ الجمعة 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ- [ آل عمران 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر :- 435-- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ- «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ- [ العلق 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال :- فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف .- ( ن د ی ) الندآ ء - کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔- «مَكَانُ»( استکان)- قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل :- تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] .- المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔- بعد - البُعْد : ضد القرب، ولیس لهما حدّ محدود، وإنما ذلک بحسب اعتبار المکان بغیره، يقال ذلک في المحسوس، وهو الأكثر، وفي المعقول نحو قوله تعالی: ضَلُّوا ضَلالًابَعِيداً [ النساء 167] - ( ب ع د ) البعد - کے معنی دوری کے ہیں یہ قرب کی ضد ہے اور ان کی کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ ایک ہی جگہ کے اعتبار سے ایک کو تو قریب اور دوسری کو بعید کہا جاتا ہے ۔ محسوسات میں تو ان کا استعمال بکثرت ہوتا رہتا ہے مگر کبھی کبھی معافی کے لئے بھی آجاتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ضَلُّوا ضَلالًا بَعِيداً [ النساء 167] وہ راہ ہدایت سے بٹھک کردور جا پڑے ۔ ۔ ان کو ( گویا ) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قرآن کا ترجمہ غیر زبان میں جائز ہے - قول باری ہے (ولو جعلناہ اعجمیا تقالوا لولا فصلت ایاتہ اور اگر ہم اسے عجمی قرآن بناتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف کیوں نہیں بیان کی گئیں) آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ قرآن کو عجمی بنانا چاہتا تو یہ عجمی ہوتا یعنی اس صورت میں قرآن عجمی ہوتا۔ قرآن اس لئے عربی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عربی زبان میں نازل فرمایا ہے۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن کو کسی عجمی زبان میں ترجمہ کرنا اسے قرآن ہونے کے دائرے سے خارج نہیں کرتا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اگر اس قرآن کریم کو عربی کے علاوہ عجمی زبان میں آپ پر نازل کردیتے تو یہ کفار مکہ یوں کہتے کہ اس کی آیات صاف صاف کیوں نہیں بیان کی گئیں اور اسے عربی میں کیوں نازل نہیں کیا گیا اور یوں کہتے کہ عجیب بات ہے کہ کتاب عجمی اور رسول عربی ہے۔- آپ ان سے فرما دیجیے کہ یہ قرآن حکیم حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھیوں کے لیے رہنما اور دلوں میں جو شکوک اور مرض پیدا ہوجائے اس کے لیے بیان اور شفا ہے۔- اور ابو جہل وغیرہ جو آپ پر ایمان نہیں لاتے ان کے کان بہرے ہیں اور یہ قرآن ان کے خلاف حجت ہے اور یہ مکہ والے گویا کہ توحید کی طرف آسمان سے بلائے جارہے ہیں۔- شان نزول : لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ (الخ)- اور ابن جریر نے سعید بن جبیر سے روایت نقل کی ہے قریش کہنے لگے کیوں نہ یہ قرآن کریم عربی اور عجمی دونوں زبانوں میں نازل کیا گیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی یعنی یہ کفار یوں کہتے ہیں کہ کیوں نہ اس کی آیات صاف صاف بیان کی گئیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد بکل لسان کا لفظ بھی بیان فرمایا اور ابن جریر کہتے ہیں کہ اعجمی میں قرات بغیر ہمزہ استفہام کے ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ وَلَوْ جَعَلْنٰـہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا ” اور اگر ہم نے اسے عجمی قرآن بنایا ہوتا “- نوٹ کیجیے یہ پانچویں مرتبہ قرآن کا ذکر آیا ہے اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ اگر ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کے بجائے کسی عجمی زبان میں نازل کیا ہوتا :- لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ” تو یہ کہتے کہ اس کی آیات واضح کیوں نہیں کی گئیں “- ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّط ” کیا کتاب عجمی اور مخاطب عربی ؟ “- ایسی صورت میں اس پر یہ اعتراض وارد ہوسکتا تھا کہ جس کتاب کی اولین مخاطب ایک عربی قوم ہے وہ خود کسی اور زبان میں ہے - قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَآئٌ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے کہ یہ ہدایت اور شفا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔ “- وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ ” اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے “- وَّہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی ” اور یہ (قرآن) ان کے حق میں اندھا پن ہے۔ “- یعنی یہ لوگ قرآن کی حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہے۔- اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍ ” یہ وہ لوگ ہیں جو پکارے جاتے ہیں بہت دور کی جگہ سے۔ “- انہیں قرآن کی باتیں عجیب اور نا مانوس لگتی ہیں۔ قرآن کی تعلیمات کے بارے میں انہیں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں کوئی بہت دور سے پکار رہا ہو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :54 یہ اس ہٹ دھرمی کا ایک اور نمونہ ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا جا رہا تھا کفار کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عرب ہیں ، عربی ان کی مادری زبان ہے ، وہ اگر عربی میں قرآن پیش کرتے ہیں تو یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ یہ کلام انہوں نے خود نہیں گھڑ لیا ہے بلکہ ان پر خدا نے نازل کیا ہے ۔ ان کے اس کلام کو خدا کا نازل کیا ہوا کلام تو اس وقت مانا جا سکتا تھا جب یہ کسی ایسی زبان میں یکایک دھواں دھار تقریر کرنا شروع کر دیتے جسے یہ نہیں جانتے ، مثلاً فارسی یا رومی یا یونانی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب ان کی اپنی زبان میں قرآن بھیجا گیا ہے جسے یہ سمجھ سکیں تو ان کو یہ اعتراض ہے کہ عرب کے ذریعہ سے عربوں کے لیے عربی زبان میں یہ کلام کیوں نازل کیا گیا ۔ لیکن اگر کسی دوسری زبان میں یہ بھجا جاتا تو اس وقت یہی لوگ یہ اعتراض کرتے کہ یہ معاملہ بھی خوب ہے ۔ عرب قوم میں ایک عرب کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ، مگر کلام اس پر ایسی زبان میں نازل کیا گیا ہے جسے نہ رسول سمجھتا ہے نہ قوم ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :55 دور سے جب کسی کو پکارا جاتا ہے تو اس کے کان میں ایک آواز تو پڑتی ہے مگر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کہنے والا کیا کہہ رہا ہے ۔ یہ ایسی بے نظیر تشبیہ ہے جس سے ہٹ دھرم مخالفین کے نفسیات کی پوری تصویر نگاہوں کے سامنے کھچ جاتی ہے ۔ فطری بات ہے کہ جو شخص کسی تعصب میں مبتلا نہیں ہوتا اس سے اگر آپ گفتگو کریں تو وہ اسے سنتا ہے ، سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور معقول بات ہوتی ہے تو کھلے دل سے اس کو قبول کر لیتا ہے ۔ اس کے برعکس جو شخص آپ کے خلاف نہ صرف تعصب بلکہ عناد اور بغض رکھتا ہو اس کو آپ اپنی بات سمجھانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، وہ سرے سے اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے گا ۔ آپ ساری بات سن کر بھی اس کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا کہ آپ اتنی دیر تک کیا کہتے رہے ہیں ۔ اور آپ کو بھی یوں محسوس ہو گا کہ جیسے آپ کی آواز اس کے کان کے پردوں سے اچٹ کر باہر ہی باہر گزرتی رہی ہے ، دل اور دماغ تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پا سکی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: بعض کفار مکہ قرآن کریم کے بارے میں یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ عربی زبان میں کیوں اتارا گیا؟ اگر کسی اور زبان میں ہوتا تو یقینا یہ ایک معجزہ ہوتا کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم چونکہ کوئی دوسری زبان نہیں جانتے، اس لیے آپ پر کسی اور زبان کی وحی نازل ہونے سے واضح ہوجاتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے۔ جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس قسم کے اعتراضات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں اتارا جاتا تو کہنے والے یہ اعتراض کرتے کہ عربی پیغمبر پر غیر عربی قرآن کیوں نازل کیا گیا ہے؟ غرض جب بات ماننی نہ ہو تو ہزار بہانے پیدا کرلئے جاتے ہیں۔ 19: کسی کو دور دراز جگہ سے پکارا جائے تو بسا اوقات نہ وہ اپنے آپ کو مخاطب سمجھتا ہے اور نہ دور کی آواز پر توجہ دیتا ہے۔ اسی طرح یہ کافر لوگ قرآن کریم کی دعوت پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔