Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 کہ ان کے عذاب دینے سے پہلے مہلت دی جائے گی۔ ولکن یوخرھم الی اجل مسمی فاطر 45۔ 2 یعنی فوراً عذاب دے کر ان کو تباہ کردیا گیا ہوتا۔ 45۔ 3 یعنی ان کا انکار عقل و بصیرت کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض شک کی وجہ سے ہے جو ان کو بےچین کئے رکھتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] یعنی جو کتاب تورات موسیٰ کو دی گئی تھی اس میں بھی جامع ہدایات موجود تھیں۔ اور لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تھا۔ کچھ ایمان لائے تھے اور بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔ بالکل ایسی ہی صورت حال اب قرآن کے معاملہ میں پیش آرہی ہے اور اگر اللہ کی مشیئت میں یہ بات نہ ہوتی کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے تو ابھی ان لوگوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا جو اپنے بعض مفادات اور سرداریوں کی بقا کی خاطر دعوت حق کو بہرحال جھٹلانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اور پوری سرگرمیاں اس دعوت کو مٹانے پر صرف کر رہے ہیں۔ جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ ان کے دل دعوت کو درست تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اندر ہی اندر یہ خدشہ کھائے جارہا ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تو پھر ہماری خیر نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) لوقد اتینا موسیٰ الکتب فاختلف فیہ : اس سے بھی مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے ، یعنی اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی گئی، مگر لوگوں نے اس کے ماننے اور نہ ماننے میں اختلاف کیا، اسی طرح اگر یہ کفار مکہ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ؟ (قرطبی)- (٢) ولولاکلمۃ سبقت من ربک لقضی بینھم : یعنی اگر پہلے یہ طے نہ ہوچکا ہوتا کہ کفار کے اعمال بد پر فوری گرفت کے بجائے دنیا میں ایک وقت تک انھیں مہلت دی جائے گی اور اصل فیصلہ آخرت میں ہوگا، تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (٤٢) ، نحل (٦١) اور فاطر (٤٥)- ” لولا کلمۃ سبقت من ربک “ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ طے نہ کردیا ہوتا کہ ان کفار سے پیدا ہونے والی نسلیں مسلمان ہوں گی، جو سالام کا علم بلند کریں گی تو ان کا قصہ تمام کردیا گیا وہتا، جیسا کہ طائف میں ہونے والی بدسلوکی پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دل جوئی کے لئے ملک الجبال (پہاڑوں کے فرشتے) کو بھیجا اور اس نے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیشکش کی کہ اگر آپ کہیں تو میں ان کفار پر خشبین (دو پہاڑوں) کو ملا دوں۔ (یہ مکہ کے دو پہاڑ ہیں، ایک ابو قبیس ہے اور دوسرا اس کے بالمقابل قعیقعان ہے) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(بل ار جو ان یخرج اللہ من اضلابھم من یعبد اللہ وحدہ لا یشرک بہ شیئاً ) (بخاری، بدء الخلق، باب اذا قال احد کم امین …3231 عن عائشۃ (رض) )” بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ان لوگوں کو نکالے گا جو اکیلے اللہ عزو جل کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گے۔ “- ” لولا کلمۃ سبقت من ربک “ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے بعد طے کردیا گیا کہ اب پہلی اقوام پر آنے والے عذابوں کے بجائے دنیا میں کفار کو جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دی جائے گی اور آخری فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔ یہ پوری آیت اور اس کی تفسیر سورة ہود کی آیت (١١٠) میں گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ - (٣) وانھم لفی شک منہ مریب :” شک “ اور ” مریب “ کی لغوی تفسیر لئے دیکھیے سورة ہود (٦٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْہِ۝ ٠ ۭ وَلَوْلَا كَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَہُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنَّہُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْہُ مُرِيْبٍ۝ ٤٥- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ہم نے موسیٰ کو بھی توریت دی تھی تو اس کتاب موسیٰ میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا بعض نے تصدیق کی اور بعض نے اس کو جھٹلایا اور اگر اس امت سے تاخیر عذاب کا فیصلہ نہ ہوچکا تھا۔- تو ان مشرکین اور یہود و نصاری کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہوتا یعنی ان پر بھی جھٹلانے کی وجہ سے عذاب نازل ہوجاتا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں پر تکذیب کے وقت عذاب نازل کیا گیا اور یہ یہود و نصاری اور مشرکین اس قرآن کریم یا یہ کہ کتاب موسیٰ کے بارے میں صاف شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ ” اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو بھی کتاب دی تھی ‘ تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا۔ “- وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ ” اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے مابین فیصلہ کردیا جاتا۔ “- اللہ تعالیٰ کی تقویم میں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے ‘ اسی طرح ان کے فیصلے کا بھی اللہ تعالیٰ نے ایک وقت طے کررکھا ہے۔ اگر یہ وقت پہلے سے طے نہ ہوتا تو ان کا فیصلہ اب تک چکا دیا جاتا۔- وَاِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ ” اور یقینا وہ اس کے بارے میں خلجان انگیز شک میں مبتلا ہیں۔ “- یہاں مِنْہُ سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی پہلے انہوں نے خواہ مخواہ اختلافات کھڑے کیے۔ لیکن جب ہم نے ان اختلافات کی وضاحت کے لیے یہ کتاب بھیج دی تو اب وہ اس کے بارے میں ایسے شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے ہیں جس نے انہیں سخت خلجان اور الجھن میں ڈال دیا ہے اور وہ اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :56 یعنی کچھ لوگوں نے اسے مانا تھا اور کچھ مخالفت پر تل گئے تھے ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :57 اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر دیا ہو تاکہ لوگوں کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی مہلت دی جائے گی تو اس طرح کی مخالفت کرنے والوں کا خاتمہ کر دیا جاتا ۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ نے پہلے ہی یہ طے نہ کر لیا ہوتا کہ اختلافات کا آخری فیصلہ قیامت کے روز کیا جائے گا تو دنیا ہی میں حقیقت کو بے نقاب کر دیا جاتا اور یہ بات کھول دی جاتی کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ۔ سورة حٰمٓ السَّجْدَة حاشیہ نمبر :58 اس مختصر سے فقرے میں کفار مکہ کے مرض کی پوری تشخیص کر دی گئی ہے ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور اس شک نے ان کو سخت خلجان و اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ بڑے زور شور سے قرآن کے کلام الہٰی ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں ، لیکن درحقیقت ان کا یہ انکار کسی یقین کی بنیاد پر نہیں ہے ، بلکہ ان کے دلوں میں شدید تذبذب برپا ہے ۔ ایک طرف ان کے ذاتی مفاد ، ان کے نفس کی خواہشات ، اور ان کے جاہلانہ تعصبات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلائیں اور پوری طاقت کے ساتھ ان کی مخالفت کریں ۔ دوسری طرف ان کے دل اندر سے پکارتے ہیں کہ یہ قرآن فی الواقع ایک بے مثل کلام ہے جس کے مانند کوئی کلام کسی ادیب یا شاعر سے کبھی نہیں سنا گیا ہے ، نہ کوئی مجنون دیوانگی کے عالم میں ایسی باتیں کر سکتا ہے ، نہ کبھی شیاطین اس غرض کے لیے آ سکتے ہیں کہ لوگوں کو خدا پرستی اور نیکی و پاکیزگی کی تعلیم دیں ۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جب وہ جھوٹا کہتے ہیں تو ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ خدا کے بندو کچھ شرم کرو ، کیا یہ شخص جھوٹا ہو سکتا ہے؟ جب وہ ان پر الزام رکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ حق کی خاطر نہیں بلکہ اپنی بڑائی کے لیے کر رہے ہیں تو ان کا دل اندر سے ملامت کرتا ہے کہ لعنت ہے تم پر ، اس نیک نفس انسان کو بندہ غرض کہتے ہو جسے کبھی تم نے دولت اور اقتدار اور نام و نمود کے لیے دوڑ دھوپ کرتے نہیں دیکھا ہے ، جس کی ساری زندگی مفاد پرستی کے ہر شائبے سے پاک رہی ہے ، جس نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی کے لیے کام کیا ہے ، مگر کبھی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے کوئی بے جا کام نہیں کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani