امت محمدیہ پر شریعت الٰہی کا انعام اللہ تعالیٰ نے جو انعام اس امت پر کیا ہے اس کا ذکر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارے لئے جو شرع مقرر کی ہے وہ ہے جو حضرت آدم کے بعد دنیا کے سب سے پہلے پیغمبر اور دنیا کے سب سے آخری پیغمبر اور ان کے درمیان کے اولو العزم پیغمبروں کی تھی ۔ پس یہاں جن پانچ پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے انہی پانچ کا ذکر سورہ احزاب میں بھی کیا گیا ہے فرمایا آیت ( وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُّوْحٍ وَّاِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًا Ċۙ ) 33- الأحزاب:7 ) ، وہ دین جو تمام انبیاء کا مشترک طور پر ہے وہ اللہ واحد کی عبادت ہے جیسے اللہ جل و علا کا فرمان ہے آیت ( وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ان سب کی طرف ہم نے یہی وحی کی ہے کہ معبود میرے سوا کوئی نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرتے رہو حدیث میں ہے ہم انبیاء کی جماعت آپس میں علاتی بھائیوں کی طرح ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے جیسے علاتی بھائیوں کا باپ ایک ہوتا ہے الغرض احکام شرع میں گو جزوی اختلاف ہو ۔ لیکن اصولی طور پر دین ایک ہی ہے اور وہ توحید باری تعالیٰ عزاسمہ ہے ، فرمان اللہ ہے آیت ( لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا 48ۙ ) 5- المآئدہ:48 ) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت و راہ بنا دی ہے ۔ یہاں اس وحی کی تفصیل یوں بیان ہو رہی ہے کہ دین کو قائم رکھو جماعت بندی کے ساتھ اتفاق سے رہو اختلاف اور پھوٹ نہ کرو پھر فرماتا ہے کہ یہی توحید کی صدائیں ان مشرکوں کو ناگوار گذرتی ہیں ۔ حق یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے جو مستحق ہدایت ہوتا ہے وہ رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ اس کا ہاتھ تھام کر ہدایت کے راستے لا کھڑا کرتا ہے اور جو از خود برے راستے کو اختیار کر لیتا ہے اور صاف راہ چھوڑ دیتا ہے اللہ بھی اس کے ماتھے پر ضلالت لکھ دیتا ہے جب ان کے پاس حق آ گیا حجت ان پر قائم ہو چکی ۔ اس وقت وہ آپس میں ضد اور بحث کی بنا پر مختلف ہوگئے ۔ اگر قیامت کا دن حساب کتاب اور جزا سزا کے لئے مقرر شدہ نہ ہوتا تو ان کے ہر بد عمل کی سزا انہیں یہیں مل جایا کرتی ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گزشتہ جو پہلوں سے کتابیں پائے ہوئے ہیں ۔ یہ صرف تقلیدی طور پر مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقلد کا ایمان شک شبہ سے خالی نہیں ہوتا ۔ انہیں خود یقین نہیں دلیل و حجت کی بناء پر ایمان نہیں ، بلکہ یہ اپنے پیشروؤں کے جو حق کے جھٹلانے والے تھے مقلد ہیں ۔
13۔ 1 صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت (یا اس کے رسول کی اطاعت جو دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے) ، اس کی عبادت و اطاعت سے گریزاں ان میں دوسروں کو شریک کرنا، انتشار انگیزی، جس سے پھوٹ ڈالنا کہہ کر منع کیا گیا ہے۔ 13۔ 2 اور وہی توحید اور اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ 13۔ 3 یعنی جس کی ہدایت کا مستحق سمجھتا ہے، اسے ہدایت کے لئے چن لیتا ہے 13۔ 4 یعنی اپنے دین اپنانے کی اور عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرنے کی توفیق اس شخص کو عطا کردیتا ہے جو اس کی اطاعت و عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے۔
[١٤] دین اور شریعت میں فرق اور متبدل احکام کی مثالیں :۔ اس آیت میں ایک شرع کا لفظ آیا ہے اور شریعت کا لفظ اسی سے مشتق ہے۔ اور دوسرا دین کا۔ اور ( مِنَ الدِّیْنِ ) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت بھی دین کا حصہ ہی ہوتی ہے۔ اس فرق کو ہم یہاں ذرا وضاحت سے پیش کرتے ہیں :- دین کا لفظ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ مختصراً یہ چار معانی میں استعمال ہوتا ہے (١) اللہ کی کامل اور مکمل سیاسی اور قانونی حاکمیت، (٢) انسان کی مکمل عبودیت اور بندگی، (٣) قانون جزا و سزا یا تعزیرات ملکی، (٤) قانون جزا و سزا کے نفاذ کی قدرت، پھر یہ لفظ کبھی ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زیادہ معنوں میں۔ اب دین کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو کچھ باتوں کا حکم دے، کچھ کاموں سے منع کرے اور جو شخص ان احکام کے مطابق عمل کرے انہیں اچھا بدلہ دے اور جو حکم عدولی کرے اسے سزا بھی دے۔ چناچہ ایسے احکام جو سیدنا آدم سے لے کر سیدنا محمد پر غیر متبدل رہے ہیں یہی اصل دین ہے مثلاً شرک کی حرمت، آخرت اور اس کا محاسبہ، نماز اور زکٰوۃ کی ادائیگی کا حکم، قتل ناحق، چوری، زنا اور فواحش سے اجتناب وغیرہ۔- اور شرع کا لغوی معنی واضح راستہ متعین کرنا ہے۔ (مفردات القرآن) اور شریعت سے مراد وہ احکام ہیں جو زمانہ کی ضرورتوں اور احوال و ظروف کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ مثلاً سیدنا آدم کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا اور یہ ایک اضطراری امر تھا۔ جو بعد کی شریعتوں میں حرام قرار دیا گیا۔ سیدنا یعقوب کی زوجیت میں دو حقیقی بہنیں تھیں جو بعد کی شریعتوں میں حرام قرار دی گئیں۔ اسی طرح اس دور میں سجدہ تعظیمی جائز تھا۔ جو بعد میں حرام کردیا گیا۔ سابقہ شریعتوں میں اموال غنیمت سے استفادہ ناجائز تھا جو امت مسلمہ کے لیے حلال قرار دیا گیا۔ سابقہ شریعتوں میں نمازوں کی تعداد اور ان کی ادائیگی کا طریقہ، زکٰوۃ کی شرح اور روزوں کی تعداد ہماری موجودہ شریعت سے بالکل مختلف تھی۔ غرضیکہ ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں۔ دین اور شریعت کے اس فرق کو خود رسول اللہ نے ان الفاظ میں واضح فرمایا کہ : تمام انبیاء علاتی (سوتیلے) بھائی ہیں۔ ان کی مائیں (شریعتیں) تو الگ الگ ہیں مگر ان کا باپ (دین) ایک ہی ہے (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب واذکر فی الکتاب مریم۔۔ ) گویا اصول اور بنیادی احکام کا نام دین ہے اور دین کا یہ حصہ غیر متبدل ہے۔ دوسرا حصہ وہ ہے جس میں ان اصول احکام کی جزئیات میں تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے۔ اسی متبدل حصہ کا نام شریعت ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہئے اور خوب ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ صاحب شریعت نبی کی شریعت اگرچہ مختلف رہی ہے مگر وہ اس مخصوص نبی کے دین کا حصہ ہی ہوتی ہے اور دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ چونکہ آخری نبی ہیں۔ لہذا آپ کو جو شریعت ملی ہے وہ بھی اب غیر متبدل ہے اور زمانہ کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا حل اب پوری شریعت اسلامیہ سے بذریعہ اجتہاد معلوم کیا جائے گا۔- [١٥] اس آیت میں پانچ اولوالعزم انبیاء کا ذکر ہوا ہے۔ سب سے پہلے صاحب شریعت نبی نوح علیہ اسلام تھے پہلے ان کا ذکر ہوا اور سب سے آخری محمد رسول اللہ تھے پھر ان کا ذکر ہوا پھر اس درمیانی عرصہ کے تین صاحب شریعت انبیاء سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسیٰ (علیہم السلام) کا ذکر ہوا اور بتایا یہ گیا ہے کہ جس طرح ہم نے سابقہ انبیاء کے لیے دین کے ساتھ شریعت بھی وضاحت کے ساتھ وحی کردی تھی۔ اسی طرح آپ کے لیے ایسے ہی طریقہ پر وحی کی جارہی ہے۔ یعنی دین کا غیر متبدل حصہ بھی اور متبدل حصہ یا شریعت بھی۔ پھر بعض دفعہ دین کے صرف غیر متبدل حصہ پر بھی لفظ دین کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہے۔- [١٦] یعنی سب انبیاء کو دین اور شریعت دے کر یہ تاکید کی گئی تھی کہ اس دین کو قائم رکھو، قائم رکھنے سے مراد ہے کہ پہلے اس کے احکام خود بجا لاؤ۔ پھر ایمان لانے والوں میں ان احکام کو نافذ کرو۔ اور دین کے جو غیر متبدل اصول ہیں۔ یعنی توحید اور معاد وغیرہ جو اوپر مذکور ہوئے ان میں اختلاف نہ ڈالو۔ اس جملہ کے مخاطب اگرچہ بظاہر انبیاء معلوم ہوتے ہیں تاہم اس کے مخاطب ان انبیاء کے متبعین ہیں اور یہ انداز تاکید مزید کے لیے ہے کیونکہ انبیاء کا تو مشن ہی یہ ہوتا ہے کہ سابقہ اختلاف کو ختم کریں چہ جائیکہ نئے اختلافات ڈالیں۔- [١٧] یعنی وہی توحید اور روز آخرت کا محاسبہ جو تمام سابقہ انبیاء کے دین کا غیر متبدل حصہ رہا ہے اور جس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہوسکتی تھی۔ اسی بات کی جب ان مشرکین مکہ کو دعوت دی جاتی ہے تو ان پر گراں گزرتی ہے۔ سیدنا آدم اور سیدنا نوح سے لے کر آج تک جو چیز معقول اور سب انبیاء کی متفق علیہ تعلیم تھی وہی انہیں بھاری معلوم ہونے لگی۔ اور اسی بنیادی تعلیم سے ہی اختلاف کرکے یہ اس کے مخالف بن گئے ہیں گویا ان کی جہالت اور بدبختی کی حد ہوچکی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سادہ اور صاف ستھری تعلیم سے استفادہ وہی شخص کرسکتا ہے جو خود بھی ہدایت کا طالب ہو اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ جس قدر زیادہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا اتنا ہی زیادہ اللہ کی ہدایت سے فیض یاب ہوگا۔
(١) شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحاً : سورت کے شروع میں جو بات فرمائی :(کذلک یوحی الیک و الی الذین من قبلک اللہ العزیز الحکیم) (اسی طرح وحی کرتا ہے تیری طرف اور ان لوگوں کی طرف جو تجھ سے پہلے تھے، وہ اللہ جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے) یہاں سے وہی بات مزید تفصیل کے ساتھ بیان ہو رہی ہے۔ ” لکم “ سے خطاب ہماری امت کو ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کوئی اجنبی یا انوکھا دین مقرر نہیں فرمایا، یہ وہی دین ہے جو اس نے پہلے تمام انبیاء کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین ایک ہے اور وہ ہے اسلام جیسا کہ فرمایا :(ان الذین عند اللہ الاسلام) (آل عمران : ١٩) ” بیشک دین اللہ کے نزدیک واحد کی عبادت و اطاعت ہے۔ تمام انبیاء و رسل کی طرف اسی ایک دین کی وحی کی گئی ہے۔ ، فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول اللا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (النبیائ : ٢٥)” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ سورة انعام میں توحید کی تاکید اور شرک کا رد کرنے کے بعد نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) سمیت اٹھارہ پیغمبروں کا ذکر ان کا نام لے کر فرمایا، پھر ان کے آباء اولاد اور بھائیوں کا ذکر کر کے فرمایا کہ اگر یہ لوگ شرک کرتے تو ان کا وہ سب کچھ ضائع ہوجاتا جو وہ کرتے رہے تھے۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے طریقے پر چلنے کا حکم دیا اور فرمایا : (اولئک الذین ھدی اللہ فیھا لھم اقتدہ ) (الانعام : ٩٠) ” یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ “- (٢) دین کن چیزوں کا نام ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما امروآ الا لیعبدواللہ مخلصین لہ الدین ، حنفآء ویقیموا الصلوۃ ویوتوا الزکوۃ و ذلک دین القیمۃ) (البینۃ : ٥)” اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لئے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اخلاص کیساتھ اللہ واحد کی عبادت کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوۃ دینا دین ہے، جس کا پہلی امتوں کو بھی حکم تھا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی مشہور حدیث جبریل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسلام، ایمان اور احسان کی تفصیل فرمائی، پھر قیامت اور اس کی چند علامات کا ذکر فرمایا، جب جبریل (علیہ السلام) چلے گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(فانہ جبریل اتاکم یعلمکم دینکم) (مسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام …٨ بخاری : ٥٠)” وہ جبریل (علیہ السلام) تھے، تمہارے پاس آئے تھے، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کے پانچوں ارکان دین ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، ان کے رسولوں، اس کی کتاب، یوم آخرت اور تقدیر پر ایمان دین ہے، علم میں اخلاص اور احسان دین ہے، قیامت کے معاملات کی فکر دین ہے۔ پھر جب ایمان دین ہے تو ایمان میں شامل وہ تمام چیزیں بھی دین ہیں جنہیں قرآن مجید یا حدیث میں ایمان یا ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ نے باب امور الایمان “ میں قرآن مجید کی دو آیات نقل فرمائی ہیں، ایک سورة بقرہ کی آیت :(لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب و لکن البرمن امن باللہ والیوم الاخر والملئکۃ و الکتب والنبین ، واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتی والمسکین و ابن السبیل، والسآئلین و فی الرقاب ، واقامم الصلوۃ واتی الزکوۃ والموفون بعھد ھم اذا عھدوا والصبرین فی الباسآء والصرآء وحین الباس اولئک الذین صدقوا، واولئک ھم المنتقون) (البقرۃ : ١٨٨) ” نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو اور لیکن اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال دے اس کی محبت کے باوجود قربات والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں اور خصوصاً جو تنگی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں، یہی لوگ ہیں جنہوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں۔ “ اور سورة مومنوں کی ابتدائی آیات :(قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خشعون والذین ھم عن الغومعرضون والذین ھم للزکوۃ فعلون والذین ھم لفروجھم حفظون الا علی ازواجھم اوما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین فمن ابتغی ورآء ذلک فاولئک ھم العدون والذین ھم لامتھم وعھدھم راعون والذین ھم علی صلوتھم یحافظون اولئک ھم الوارثون الذین یرثون الفردوس، ھم فیھا خلدون) (المومنون : ١ تا ١١) ” یقینا کامیاب ہوگئے مومن۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں اور وہی جو لغو کاموں سے منہ موڑنے والے ہیں۔ اور وہی لوگ جو (ہر عمل) پاک ہونے ہی کے لئے کرنے والے ہیں۔ اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کئے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والیہیں اور وہی جو اپنی نمازوں کی خوب حفاظت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ “ اس کے بعد یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(الایمان بضع وستون شعبۃ ، والحیاء شعبۃ من الایمان) (بخاری، الایمان، بابا مور الایمان : ٩۔ مسلم : ٣٥)” ایمان کے ساٹھ (٦٠) سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کا جزو ہے۔ “ اس کے بعد مختلف ابواب میں امور دین کا بیان فرمایا ہے۔- خلاصہ یہ کہ تمام انبیائک ا اصل دین ایک ہے، البتہ کسی عمل کی ادائیگی کی کیفیت میں فرق ہو ستکا ہے۔ مثلاً نماز ہر امت پر فرض تھی، اس کے اوقات اور رکعات کی تعداد وغیرہ میں فرق ہوسکتا ہے۔ روزہ سب فرض تھا، مگر اس کی کیفیت میں اختلاف معلوم ہے۔ زکوۃ ہر امت پر فرض تھی، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ میں فرق ہو ستکا ہے۔ اسی طرح مختلف اقوام اور اوقات کے لحاظ سے بعض اشیاء کی تحلیل و تحریم میں اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق نسخ ہوسکتا ہے، تبدیلی ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ بعض امتوں میں کئی معاملات میں تخفیف اور بعض میں سختی ہوسکتی ہے، مگر اصل دین ایک ہے۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جو اس سورت کی تیسری آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے :(الانبیاء اخوۃ لعلات) (بخاری : ٣٧٧٣)” انبیاء علاتی (مختلف ماؤں سے پیدا ہونے والے) بھائی ہیں۔ “ یہاں تک کہ خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے اپنا دین مکمل فرما دیا، فرمایا : (الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا) (المائدۃ : ٣)” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ “- (٣) والذین اوحینا الیک وما وضینا بہ …: اگرچہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا، مگر یہاں صرف پانچ پیغمبروں کا ذکر فرمایا اور ان کی ترتیب بھی ان کے زمانے کے حساب سے نہیں رکھی۔ مفسرین فرماتے ہیں تمام انبیاء کا نام لینا تو ممکن نہ تھا اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی (دیکھیے مومن : ٧٨) اس لئے ہر مقام پر اس کے مناسب انبیاء کا ذکر فرمایا۔ یہاں پہلے دو رسولوں کا ذکر فرمایا جن میں سے نوح (علیہ السلام) زمین والوں کی طرف سب سے پہلے رسول تھے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں ہے۔ (دیکھے بخاری :3330) اس سے پہلے آدم (علیہ السلام) بیشک نبی تھے، مگر انھیں کسی امت کی طرف مبعوث نہیں کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے رسول کے ساتھ ہی سب سے آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا گیا، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ دین پہلے رسول سے آخری رسول تک ایک ہی ہے۔ اس کے بعد تین جلیل القدر رسولوں کا ذکر فرمایا، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے وقت آسمانی مذاہب میں سے انھی تینوں کے پیروکار ہونے کے مدعی تمام دنیا میں پائے جاتے تھے۔ عرب کے مشرکین ابراہیمی ہونے کے دعوے دار تھے، یہودی موسیٰ (علیہ السلام) اور نصرانی عیسیٰ (علیہ السلام) کے امتی کہلاتے تھے۔ ان کے علاوہ کسی پیغمبر کی طرف منسوب کوئی قابل ذکر قوم نہ تھی۔ اس لئے فرمایا کہ ان سب کا دین ایک ہے، جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں۔ سورة احزاب میں بھی ان پانچ انبیاء کا ذکر ایک آیت میں آیا ہے۔ دیکھیے سورة احزاب (٧) ۔- (٤) ان اقیموا الدین : یعنی اللہ تعالیٰ نے ان تمام پیغمبروں کو حکم دیا کہ دین قائم کرو دین قائم کرنے میں خود اس پر عمل کرنا بھی شامل ہے، اس کی دعوت و تبلیغ بھی اور عملاً اسے نافذ کرنا بھی۔ دعوت کے ساتھ ساتھ حسب استطاعت کفار سے جنگ کا بھی حکم دیا، اس وقت تک کہ وہ کلمہ پڑھیں، نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔ سورة توبہ میں مشرکین کے متعلق حکم دیا کہ انھیں چار ماہ تک مکہ میں آنے جانے کی اجازت ہے، فرمایا :(فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث و جدثموھم وخذوھم واحضروھم واقعدوالھم کل مرصد فان تابوا و اقاموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ فخلوا سبیلھم ، ان اللہ غفور رحیم) (التوبۃ : ٥)” پس جب حرمت والے مہینے نکل جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لئے ہر گھات کی جگہ بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ۔ بیشک اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ “ ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوان لا الہ الا اللہ وان محمداً رسول اللہ ، ویقیمو الصلاۃ و یوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ھم و اموالھم الا بحق الاسلام، وجسابھم علی اللہ) (بخاری، الایمان، باب (فان تابوا و اقاموا الصلاۃ …): ٢٥)” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں، تو جب وہ ایسا کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اموال محفوظ کرلئے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ “- اہل کتاب میں سے جو لوگ دین حق قبول نہیں کرتے ان سے جزیہ وصول کرنے تک لڑتے رہنے کا حکم دیا، فرمایا :(قاتلوا الذین لایومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولایحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولایدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صغرون) (التوبۃ : ٢٩) ” لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ساتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔ “ ظاہر ہے دین کا قیام اور اس پر پوری طرح عمل اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ دوسرے تمام ادیان پر غالب ہو، جیسا کہ فرمایا :(ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ، وکفی باللہ شھیداً ) (الفتح : ٢٨) ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے۔ “- دین اسلام میں نماز پڑھنا اور اپنی زکوۃ دے دینا کافی نہیں، اللہ کی زمین پر اس کا نظام قائم کرنا بھی ضروری ہے کہ شخص مسجد میں آکر نماز پڑھے اور زکوۃ ادا کرے، فرمایا :(ولینصرن اللہ من ینصرہ، ان اللہ لقوی عزیز الذین ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر، وللہ عاقبۃ الامور) (الحج : ٣٠، ٣١)” اور یقیناً اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، بیشک اللہ یقیناً بہت قوت والا ، سب پر غالب ہے۔ وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔ “ اسلام کا بہت بڑا حصہ وہ ہے جس پر عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب حکومت کی باگ ڈور ایمان والوں کے ہاتھ میں ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل کرنے کا مقصد بیان فرمایا :(انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتخکم بین الناس بما اربک اللہ) (النسائ : ١٠٥)” بیشک ہے۔” ظاہر ہے لوگوں کے درمیان اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ تبھی ہو سکے گا جب اس کے مطابق فیصلہ کرنے والوں کی حکومت ہوگی، کفار کی سلطنت میں نماز کا وہ نظام جس میں ہر مسلم حتیٰ کہ منافقین بھی مسجد میں آکر نماز پڑھتے ہیں، خواہ سست کھڑے ہو کر پڑھیں یاد کھاوے کے لئے پڑھیں، قائم ہو ہی نہیں سکتا۔ (دیکھیے نسائ : ١٤٣) زکوۃ کی تحصیل (توبہ : ١٠٣) اور جاری رکھنے والوں کے خلاف اعلان جنگ اسی وقت عمل میں آسکتا ہے کہ ملک کی حکومت اور معیشت ایمان والوں کے ہاتھ میں ہو۔ کتاب اللہ میں قتل اور جراحات کے قصاص کا حکم (بقرہ :178 ۔ مائدہ : ٤٥) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم (مائدہ : ٣٨) اور زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم (نور : ٢ تا ٤) مسلم حکام کو دیا گیا ہے، کفار کی عدالت اور ان کی پولیس کو نہیں دیا گیا کہ وہ کفار کی حکومت میں رہ کر ان کی فوج میں بھرتی ہو کر کفر کی خاطر لڑیں گے اور کفار سے جزیہ لینے کا حکم (توبہ : ٢٩) اس مفرضوے کے ساتھ نہیں دیا گیا کہ مسلمان کفار کے محکوم رہ کر ان سے جزیہ وصول کریں گے۔ اسلامی احکام کا یہ نقشہ صرف مدینہ میں جا کر ہی پیش نہیں ہوا، مکی سورتوں میں بھی یہی بات سمجھائی گی ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٨٠، ٨١) ، قصص (٨٥) ، روم (١ تا ٧) ، صفاتا (١٧١ تا ١٧٣) ، ص (١١) ، قمر (٤٣ تا ٤٥) اور سورة مزمل (٢٠)- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی اقامت دین کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین قائم کرنے کے لئے دعوت و تبلیغ اور تولار دونوں سے پورے عرب کو حلقہ بگوش اسلام کیا اور ایسی حکومت قائم کردی جو اللہ تعالیٰ کے پورے دین پر عمل کی ضامن تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خل فائے اسلام نے اس فریضہ کی تکمیل کی، حتیٰ کہ اللہ کا دین زمین کے مشرق و مغرب میں قائم ہوگیا ۔ پھر مسلمان اپنی نا اہلی اور کتاب اللہ کے تقاضوں کو نہ سمجھنے یا جان بوجھ کر اسے پس پشت پھینک کر جہاد ترک کردینے کے نتیجے میں کفار کے محکوم ہوگئے۔ اب ان میں سے کسی کے ہاتھ میں اسلام کی دوچار چیزیں ہیں اور کسی کے ہاتھ میں پانچ دس یا کم و بیش۔ ان کی باقی ساری زندگی کفر کے نظام کی پابند ہے اور افسوس یہ کہ وہ اس پر قانع ہیں اور کفر کے نظام کے پرزے بن چکے ہیں اور ان کے بہت سے لوگ دین اسلام کے غلبے سے مایوس ہو کر جمہوریت اور کفر کے دوسرے نظاموں کو توڑنے کی کوشش کے بجائے انھیں اسلام ثابت کرنے کی جدوجہد میں لگ گئے ہیں۔ ہاں رسول اللہ ں کی بشارت کے مطابق ایک مجاہدین کی جماعت ” طائفہ منصورہ “ باقی ہے اور ہمیشہ رہے گی، جو کبھی کفر کی بالا دستی قبول نہیں کرے گی اور دین کے غلبہ کے لئے زبانی کلامی فلسفوں کے بجائے دعوت کے ساتھ ساتھ قتال کا فریضہ بھی سرانجام دیتی رہے گی اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نصرت سے بہرہ یاب رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس مبارک میں شامل فرما دے۔ (آمین)- (٥) ولا تنفرقوا فیہ : دین میں جدا جدا ہونے کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اہل کتاب کی طرح بعض باتوں میں کتاب اللہ پر عمل کیا جائے اورب عض میں کتاب اللہ کے بجائے اپنی مرضی پر عمل کیا جائے، جیسا کہ اہل کتاب کے متعلق فرمایا :(افتومنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض) (البقر ١: ٨٥)” پھر کیا تم کتاب کے بعض پر ایمان لاتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ “ ایک صورت یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بات ثابت نہیں اسے دین بنا لیا جائے۔ اس یب دعت کہتے ہیں۔ سنت ہمیشہ ایک ہوگی، کیونکہ جس کی سنت ہے وہ ایک ہے، جبکہ بدعات کا شمار نہیں ہوگا، کیونکہ انہیں ایجاد کرنے والوں کا شمار نہیں ہوسکتا۔ پھر جب آدمی اصل سنت سے بہکتا ہے تو ایک بدعت پر نہیں رہتا بلکہ بدعات اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنا الگ فرقہ بنا لیتا ہے۔ اسے معلوم ہو بھی جائے کہ اس کی یا اس کے فرقے یا پیشوا کی فلاں بات کتاب اللہ یا حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلفا ہے پھر بھی وہ اپنے دھڑے کی غلط بات پر اڑا رہے گا، حق کی طرف رجوع نہیں کرے گا اور اپنی یا اپنے امام کی بات کو کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع کرنے کے بجائے آیات و احادیث کے معانی میں تحریف کر کے انھیں اپنے مطابق ثابت کرے گا۔ نام اس کا تاویل رکھے گا اور کہے گا کہ ہر وہ آیت یا حدیث جو ہمارے فرقے کے بزرگوں کے خلاف ہے اس کی تاویل ہوگی یا وہ منسوخ ہے۔ حالانکہ وہ آیت یا حدیث اس کے بزرگوں کے خلاف نہیں، کیونکہ وہ تو ان بزرگوں سے بہت پہلے نازل ہوچکی ہیں، بلکہ اس کے بزرگوں کی بات آیت یاح دیث کے خلاف ہے کہ انھیں اس کا علم نہیں ہوسکا، یا ان کے ذہن میں نہیں رہی۔ معاویہ بن ابوسفیان (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا :(الا ان من قبلکم من اھل الکتاب افترقوا علی ثنتین وسبعین ملۃ ان ھذہ الملۃ ستفترق علی ثلاث وسبعین ثنتان وسبعون فی النار واحدۃ فی الجنۃ وھی الجماعۃ وانہ سیخرج من من امتی اقوا متجازی بھم تلک الاھواء کما یتجاری الکلب لصاحبہ لایتقی منہ عرق ولا مفصل الادخلہ) (ابوداؤد، السنۃ باب شرح السنۃ :3598)” سنو تم سے پہلے اہل کتاب کے لوگ بہتر (٧٢) ملتوں میں جدا جدا ہوگئے اور یہ ملت تہتر (٧٣) ملتوں میں جدا جدا ہوجائے گی، بہتر (٧٢) آگ میں اور ایک جنت میں ہوگی اور وہی ” الجماعتہ “ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ میری امت میں کئی اقوام نکلیں ی جن میں یہ خواہشات (بدعات) اس طرح سرایت کر جائیں گی جیسے کتے کے ہلکاؤ کی بیماری اس کے مریض میں سریات کر جاتی ہے، نہ اس کی کوئی رگ باقی رہتی ہے اور نہ کوئی جوڑ مگر وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة انعام کی آیت (١٥٩) :(ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعاً ) کی تفسیر۔- (٦) کبر علی المشرکین ماتدعوھم الیہ، وہ بات جس کی دعوت آپ مشرکین کو دیتے ہیں وہ ان پر بہت بھاری ہے، مراد اس سے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت ہے۔ کفار پر یہ دعوت اس قدر بھاری ہے کہ اس کا ماننا تو درکنار وہ اس کا سننا بھی بردشات نہیں کرتے، فرمایا :(واذا ذکر اللہ وحدہ اشمازت قلوب الذین لایومنون بالاخرۃ واذا ذکر الذین من دونہ اذا ھم یستبشرون) (الزمر : ٣٥)” اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں۔ “ وہ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں جس میں ایک معبود کی بات ہو، فرمایا :(اجعل الالھتہ الھا فاحدا ان ھذا لشی حجاب وانلطلق الملاء منھم ان امثوا واصبروا علی الھیتکم ان ھذا لشی یراد) (ص : ٦٠٥) ” کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالاڈ بلاشبہ یہ یقیناً بہت عجیب بات ہے۔ اور ان کے سرکردہ لوگ چل کھڑے ہوئے کہ چلو اور پانے معبودوں پر ڈٹے رہو، یقیناً یہ تو ایسی بات ہے جس کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ “ مزید تفصیل کے لئے مذکورہ بالا آیات کی تفسیر پر بھی نظر ڈال لیں۔- (٧) اللہ یجتی الیہ من یشآء : ” یجتی “ ” حبی یحبی، جیابۃ “ (ض) سے باب افتعال ہے، جس کا معنی ” کھینچ کرلے جانا “ ہے، جیسا کہ فرمایا :(اولم نمکن لھم حرماً امنا یحییٰ الیہ ثمرت کل شیء ) (القصص : ٥٨)” اور کیا ہم نے انہیں ایک با امن حرم میں جگہ نہیں دی ؟ جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھینچ کر لائے جاتے ہیں۔ “ باب افتعال کی وجہ سے معنی میں اضافہ ہوگیا ، یعنی مشرکین پر یہ دعوت جتنی بھی بھاری ہو وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ اسے پھیلنے اور غالب آنے سے روک سکیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا، مشرکین کی ناگواری کے باوجود یہ دین حق تمام دینوں پر غالب آکر رہے گا، جیسا کہ فرمایا (ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون) (التربۃ : ٣٣)” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، خواہ مشرک لوگ برا جانیں۔ “ یہی لوگ جن پر ایک اللہ کی طرف دعوت بھاری گزر رہی ہے ان میں سے اور ان کی اولادوں میں سے اللہ جسے چاہے گا چن لے گا اور اپنی طرف کھینچ کرلے جائے گا اور واقعی ایسا ہی ہوا، ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اور بھائی حارث بن ہشام مسلمان ہوگئے، ابوسفیان خود اور اس کے بیٹے مسلمان ہوگئے، ولید کا بیٹا خالد مسلمان ہوگیا ۔ غرض جو ضد پر اڑ گئے ان کا اللہ تعالیٰ نے صفایا کردیا اور جن کی طبیعت میں ضد اور عناد کے بجائے انابت اور حق کی طرف رجوع تھا وہ اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے اور رسول اللہ ں کی زندگی ہی میں پورے جزیرہ عرب سے شرک اور مشرکین کا خاتمہ ہوگیا ۔- (٨) ویھدی الیہ من ینیب : اس میں اللہ تعالیٰ کے ہدایت دینے کا قانون بیان ہوا ہے کہ وہ اندھے کی لاٹھی کی طرح نہیں، بلکہ وہ انھی کو ہدایت دیتا ہے جن میں قبول حق کی استعداد اور خواہش ہوتی ہے اور اس بات کا علم بھی اسی کو ہے کہ انابت کس میں موجود ہے، جیسا کہ فرمایا :(انک لاتھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشآء وھو اعلم بالمھتدین) (القصص : ٥٦) ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔ “
خلاصہ تفسیر - اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ (علیہم السلام) کو (مع ان کے اتباع کے) حکم دیا تھا (اور ان کی امم کو یہ کہا تھا) کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ (مراد اس دین سے اصول دین ہیں جو مشترک ہیں تمام شرائع میں، مثل توحید و رسالت و بعث و نحوہ اور قائم رکھنا یہ کہ اس کو تبدیل مت کرنا اور اس کو ترک مت کرنا اور تفریق یہ کہ کسی بات پر ایمان لاویں اور کسی پر ایمان نہ لاویں یا کوئی ایمان لاوے اور کوئی نہ لاوے۔ حاصل یہ کہ توحید وغیرہ دین قدیم ہے کہ اول سے اس وقت تک تمام شرائع اس میں متفق رہی ہیں اور اسی کے ضمن میں نبوت کی بھی تائید ہوگئی۔ پس چاہئے تھا کہ اس کے قبول کرنے میں لوگوں کو ذرا پس و پیش نہ ہوتا مگر پھر بھی) مشرکین کو وہ بات (یعنی توحید) بڑی گراں گزرتی ہے جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں۔ (اور اسی کے ساتھ یہ بھی کہ) اللہ اپنی طرف جس کو چاہے کھینچ لیتا ہے (یعنی دین حق قبول کرنے کی توفیق دیتا ہے) اور جو شخص (خدا کی طرف) رجوع کرے اس کو اپنے تک رسائی دے دیتا ہے (مشیت کے بعد اجتباء ہوتا ہے اور اجتباء یعنی توفیق ایمان کے بعد اگر انابت و اطاعت ہو تو اس پر قرب الٰہی وثواب غیر متناہی مرتب ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مشرکین متصف بالاباء ہیں اور مومنین متصف بالاجتباء والاہتداء ہیں) اور (ہمارا جو امم سابقہ کو حکم تھا (آیت) اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ۔ تو بہت لوگ اس پر قائم نہ رہے اور متفرق ہوگئے اس کا سبب کوئی التباس و اشتباہ نہ تھا کہ احتمال معذوری کا ہو بلکہ) وہ لوگ بعد اس کے کہ ان کے پاس (یعنی ان کے اسماع و اذہان تک) علم (صحیح) پہنچ چکا تھا محض آپس کی ضدا ضدی سے باہم متفرق ہوگئے (اس طرح کہ اول طلب مال و دولت و طلب جاہ و ریاست سے اغراض مختلف ہوئیں پھر فرقے بن گئے۔ ایسے وقت میں دین کو بھی آڑ دوسرے کی تنقیص وتعیب کی بنایا کرتے ہیں، شدہ شدہ مسلک و مذہب مختلف ہوجاتا ہے پھر فروع سے اصول میں جا پہنچتے ہیں) اور (یہ لوگ اس جرم عظیم میں کہ حق کو سمجھ کر مختلف ہوئے ایسے عذاب شدید کے مستحق ہوگئے تھے کہ) اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک وقت معین تک (کے لئے مہلت دینے کی) ایک بات پہلے قرار نہ پا چکتی (کہ ان کا عذاب موعود آخرت میں ہوگا) تو (دنیا ہی میں) ان (کے اختلافات) کا فیصلہ ہوچکا ہوتا (یعنی عذاب سے استیصال کردیا جاتا اور گو امم سابقہ پر عذاب آیا لیکن غیر مومنین پر آیا۔ مومنین میں سے جنہوں نے تفرق کیا، بہ برکت التزام ایمان کے ان پر نہیں آیا۔ اگر کسی پر ثابت ہوجاوے تو سب پر نہیں آیا اس تقدیر پر یہ معنی ہوں گے کہ جن بعض پر نہیں آیا، اس کی وجہ عدم مقتضی کا نہیں بلکہ اس کی وجہ مانع یعنی امہال الیٰ اجل مسمی کا وجود ہے۔ یہ تو قصہ امم سابقہ کا ہوا) اور جن لوگوں کو ان (امم سابقہ) کے بعد کتاب دی گئی ہے (مراد اس سے مشرکین عہد نبوی کے ہیں کہ آپ کے ذریعہ سے ان کو قرآن پہنچا) وہ (لوگ) اس (کتاب) کی طرف سے ایسے (قوی) شک میں پڑے ہیں جس نے (ان کو) تردد میں ڈال رکھا ہے (مطلب یہ کہ امم سابقہ میں سے بعض نے جیسے انکار کیا تھا اسی طرح اب ان کی نوبت آئی) سو آپ (کسی کے انکار سے دل شکستہ نہ ہوجئے بلکہ جس کی طرف آپ ان کو پہلے سے بلا رہے ہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے (آیت) كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ یعنی توحید) اسی طرف (ان کو برابر) بلاتے جائیے اور جس طرح آپ کو حکم ہوا ہے (کہ فلذلک فادع اس پر) مستقیم رہیئے اور ان کی (فاسد) خواہشوں پر نہ چلئے (یعنی وہ مخالفت کر کے یہ چاہتے ہیں کہ ہم کو کہنا چھوڑ دیں تو آپ چھوڑیئے نہیں) اور آپ کہہ دیجئے کہ (میں جس بات کی طرف تم کو بلاتا ہوں میں خود بھی اس پر عامل ہوں چنانچہ) اللہ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں (جن میں قرآن بھی داخل ہے) میں سب پر ایمان لاتا ہوں (جن کے مضامین متفق علیہا میں سے توحید بھی ہے) اور مجھ کو یہ (بھی) حکم ہوا ہے کہ (اپنے اور) تمہارے درمیان میں عدل (و انصاف) رکھوں (یعنی جس چیز کو تم پر واجب و لازم کہوں اپنے اوپر بھی اس کو لازم رکھوں، یہ نہیں کہ تم کو کلفت میں ڈالوں اور خود آزاد رہوں، ایسے مضامین و معاملہ سے سلیم الطبع کو رغبت اتباع کی ہوتی ہے۔ اور اس پر بھی اگر نرم نہ ہوں تو اخیر بات یہ ہے کہ) اللہ ہمارا بھی مالک ہے اور تمہارا بھی مالک ہے (یعنی وہ سب کا حاکم ہے اور) ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے عمل تمہارے لئے، ہماری تمہاری کچھ بحث نہیں، اللہ (جو سب کا مالک ہے قیامت میں) ہم سب کو جمع کرے گا (اس میں شک نہیں کہ) اسی کے پاس جانا ہے (وہ سب کا فیصلہ اعمال کے موافق کرے گا اس وقت تم سے بحث فضول ہے ہاں تبلیغ کئے جاویں گے) ۔- معارف ومسائل - (آیت) شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا الآیة۔ سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور جسمانی نعمتوں کا ذکر تھا، یہاں سے باطنی اور روحانی نعمتوں کا بیان ہے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایسا مضبوط اور مستحکم دین عطا فرمایا جو تمام انبیاء (علیہم السلام) میں مشترک اور متفق علیہ ہے۔ آیت میں انبیاء (علیہم السلام) میں سے پانچ کا ذکر فرمایا۔ سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) اور آخر میں ہمارے رسول خاتم الانبیاء اور درمیان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس لئے کہ وہ ابوالانبیاء ہیں اور عرب کے لوگ باوجود اپنے کفر و شرک کے ان کی نبوت کے قائل تھے۔ اور ان کے بعد حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ نزول قرآن کے وقت انہیں دو پیغمبروں کے ماننے والے یہود و نصاریٰ موجود تھے۔ سورة احزاب میں بھی میثاق انبیاء (علیہم السلام) کے ذکر میں انہیں پانچ کا ذکر آیا ہے۔ (آیت) واذ اخذنا من النبین میثاقھم و منک و من نوح و ابرھیم و موسیٰ و عیسیٰ ابن مریم) فرق یہ ہے کہ سورة احزاب میں خاتم الانبیاء کا ذکر پہلے اور نوح (علیہ السلام) کا بعد میں ہے، اور سورة شوریٰ میں نوح (علیہ السلام) کا ذکر پہلے آپ کا بعد میں ہے۔ اس میں شاید اشارہ اس طرف ہو کہ حضرت خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰة والسلام اگرچہ زمان ولادت و بعثت کے اعتبار سے سب سے آخر میں ہیں مگر ازلی تقسیم نبوت و رسالت میں سب سے مقدم ہیں جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ میں سب انبیاء میں باعتبار تخلیق (ازلی) کے پہلے ہوں اور بعثت کے اعتبار سے سب سے آخر میں ہوں۔ (ابن ماجہ، داری عن بہز بن حکیم وقال ہذا حدیث حسن کذا فی المشکوٰة ٤٨٥)- رہا یہ سوال کہ سب سے پہلے پیغمبر تو حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں، ذکر انبیاء کو ان سے کیوں شروع نہ کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو دنیا میں تشریف لائے۔ اصول عقائد اور مہمات دین میں اگرچہ وہ بھی مشترک تھے مگر ان کے زمانہ میں شرک و کفر انسانوں میں نہیں تھا۔ کفر و شرک کا مقابلہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہوا ہے۔ اس لحاظ سے نوح (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جن کو اس طرح کے معاملات پیش آئے، جو بعد کے انبیاء کو پیش آنے والے تھے، اس لئے سلسلہ کو نوح (علیہ السلام) سے شروع کیا گیا۔ واللہ اعلم۔- (آیت) اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ۔ یہ جملہ پہلے ہی جملہ کی تشریح ہے کہ وہ دین جس میں سب انبیاء (علیہم السلام) مشترک اور متحد ہیں، اس دین کو قائم رکھو اس میں اختلاف و تفرق جائز نہیں بلکہ موجب ہلاکت ہے۔- اقامت دین فرض اور اس میں تفرق حرام ہے :- اس آیت میں دو حکم مذکور ہیں، ایک اقامت دین۔ دوسرے اس کا منفی پہلو یعنی اس میں تفرق کی ممانعت۔ جبکہ جمہور مفسرین کے نزدیک اَنۡ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ میں حرف ان تفسیر کے لئے ہے تو دین کے معنی متعین ہوگئے کہ مراد وہی دین ہے جو سب انبیاء (علیہم السلام) میں مشترک چلا آ رہا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دین مشترک بین الانبیاء اصول عقائد یعنی توحید، رسالت، آخرت پر ایمان اور اصول عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰة کی پابندی ے۔ نیز چوری، ڈاکہ، زنا، جھوٹ فریب، دوسروں کو بلاوجہ شرعی ایذاء دینے وغیرہ اور عہد شکنی کی حرمت ہے جو سب ادیان سماویہ میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں۔ اور یہ بھی نص قرآن سے ثابت ہے کہ فروع احکام میں انبیاء کی شریعتوں میں جزوی اختلاف بھی ہیں جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) لکل جعلنا منکم شرعةً ومنھاجاً ۔ اس مجموعہ سے ثابت ہوا کہ آیت کے اس جملہ میں جس دین کی اقامت کا حکم اور اس میں تفرق کی ممانعت مذکور ہے وہ وہی احکام الٰہیہ ہیں جو سب انبیاء (علیہم السلام) کی شرائع میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں۔ انہیں میں تفرق و اختلاف حرام اور موجب ہلاکت امم ہے۔- حدیث :- حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے سامنے ایک سیدھا خط کھینچا۔ پھر اس خط کے داہنے، بائیں دوسرے چھوٹے خط کھینچے اور فرمایا کہ یہ داہنے بائیں کے خطوط وہ طریقے ہیں جو شیاطین نے ایجاد کئے ہیں اور اس کے ہر راستہ پر ایک شیطان مسلط ہے جو لوگوں کو اس طرف چلنے کی تلقین کرتا ہے اور پھر سیدھے خط کی طرف اشارہ کر کے فرمایا، (آیت) وان ھذا صراطی مستقماً فاتبعوہ۔ یعنی یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اسی کا اتباع کرو (رواہ احمد و النسائی و الدارمی۔ مظہری)- اس تمثیل میں صراط مستقیم سے وہی دین قیم کا راستہ ہے جو سب انبیاء (علیہم السلام) میں مشترک چلا آیا ہے۔ اس کے اندر شاخیں نکالنا یہ تفرق حرام اور شیاطین کا عمل ہے۔ اور انہی اجماعی اور متفق علیہ احکام میں تفرقہ ڈالنے کی شدید ممانعت احادیث صحیحہ میں آئی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ من فارق الجماعة شبر افقد خلع ربقة الاسلام من عنقہ۔ (رواہ احمد و ابو داؤد) یعنی جس شخص نے جماعت مسلمین سے ایک بالشت بھی جدائی اختیار کی اس نے اسلام کا حلقہ عقیدت اپنے گلے سے نکال دیا۔ اور ابن عباس نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ید اللہ علی الجماعة (رواہ الترمذی بسند حسن) یعنی اللہ کا ہاتھ ہے جماعت پر۔ اور حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شیطان انسانوں کے لئے بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کے گلے کے پیچھے بھیڑیا لگتا ہے، تو وہ اسی بکری کو پکڑتا ہے جو اپنی ڈار اور گلے سے پیچھے یا ادھر و ادھر رہ جائے۔ اس لئے تمہیں چاہئے کہ جماعت کے ساتھ رہو علیحدہ نہ ہو۔ - (رواہ احمدیہ سب احادیث تفسیر مظہری میں ہیں)- خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں حکم اس دین مشترک اور متفق علیہ کے قائم رکھنے کا ہے، جس پر تمام انبیاء (علیہم السلام) متفق اور مشترک چلے آئے ہیں۔ اس میں اختلاف کو تفرق کے لفظ سے تعبیر کر کے ممنوع کیا گیا ہے۔ انہی قطعی احکام میں اختلاف و تفرق کو احادیث مذکورہ میں ایمان کے لئے خطرہ اور سبب ہلاکت فرمایا ہے۔- ائمہ مجتہدین کے فروعی اختلافات تفرق ممنوع میں داخل نہیں :- س سے واضح ہوگیا کہ فروعی مسائل میں جہاں قرآن و حدیث میں کوئی واضح حکم موجود نہیں یا نصوص قرآن و سنت میں کوئی ظاہری تعارض ہے۔ وہاں ائمہ مجتہدین کا اپنے اپنے اجتہاد سے کوئی حکم متعین کرلینا، جس میں باہم اختلاف ہونا، اختلاف رائے و نظر کی بنا پر لازمی ہے، اس تفرق ممنوع سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ایسا اختلاف صحابہ کرام میں خود عہد رسالت سے چلا آیا ہے اور وہ باتفاق فقہاء رحمت ہے۔- اور اقامت دین سے مراد، اس پر قائم دائم رہنا، اس میں کسی شک وشبہ کو راہ نہ دینا، اور کسی حال اس کو نہ چھوڑنا ہے۔ (قرطبی)- (آیت) كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ۔ یعنی دین کا جس میں توحید رکن اعظم ہے ابتدائے عالم سے سب انبیاء (علیہم السلام) کے اتفاق سے حق ہونا ثابت ہوجانے کے باوجود جو لوگ شرک کے عادی ہوچکے ہیں، ان کو آپ کی دعوت توحید بڑی بھاری معلوم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ اہواء و اغراض اور شیطانی تعلیمات کا اتباع اور صراط مستقیم کو چھوڑنا ہے جس کی اوپر ممانعت مذکور ہے۔ آگے فرماتے ہیں۔- (آیت) اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ ۔ یعنی صراط مستقیم کی ہدایت کے دو ہی طریقے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود کسی کو اپنے دین اور صراط مستقیم کے لئے منتخب فرما کر اس کی فطرت و طبیعت ہی کو اس کے مطابق بنا دے جیسے انبیاء (علیہم السلام) اور خاص اولیاء اللہ جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا (آیت) انا اخلصنھم بخالصة ذکری الدار۔ یعنی ہم نے ان کو ایک خاص کام کے لئے خالص کردیا ہے جو آخرت کی فکر ہے اور خاص خاص انبیاء کے بارے میں قرآن نے مخلص بفتح لام ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔ جس کے معنی منتخب اور مخصوص کے ہیں۔ یہی مفہوم ہے (آیت) اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۔ کا، یہ طریقہ ہدایت مخصوص و محدود ہے اور دوسرا عام طریقہ ہدایت پانے کا یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی طرف رجوع ہو اور اس کے دین پر چلنے کا ارادہ کرلے تو اس کو اللہ تعالیٰ دین حق کی ہدایت کردیتا ہے۔ یہ مطلب ہے دوسرے جملے وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت پانے کے صرف دو طریق ہیں، ایک خصوصی کہ اللہ تعالیٰ کسی کو خود ہی صراط مستقیم کے لئے منتخب فرما لے۔ دوسرا عمومی کہ جو شخص اللہ کی طرف رجوع ہو اور اس کے دین حق کی تلاش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے مقصود ہدایت تک پہنچا دیتا ہے۔ اور مشرکین مکہ کو جو دعوت توحید بھاری معلوم ہوتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ دین کے سمجھنے اور اس پر چلنے کا ارادہ بھی نہیں کرتے۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ ٠ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَيْہِ ٠ ۭ اَللہُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْٓ اِلَيْہِ مَنْ يُّنِيْبُ ١٣- شرع - الشَّرْعُ : نهج الطّريق الواضح . يقال : شَرَعْتُ له طریقا، والشَّرْعُ : مصدر، ثم جعل اسما للطریق النّهج فقیل له : شِرْعٌ ، وشَرْعٌ ، وشَرِيعَةٌ ، واستعیر ذلک للطریقة الإلهيّة . قال تعالی:- لِكُلٍّ جَعَلْنا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ، - فذلک إشارة إلى أمرین :- أحدهما : ما سخّر اللہ تعالیٰ عليه كلّ إنسان من طریق يتحرّاه ممّا يعود إلى مصالح العباد وعمارة البلاد، وذلک المشار إليه بقوله : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] .- الثاني : ما قيّض له من الدّين وأمره به ليتحرّاه اختیارا ممّا تختلف فيه الشّرائع، ويعترضه النّسخ، ودلّ عليه قوله : ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] . قال ابن عباس : الشِّرْعَةُ : ما ورد به القرآن، والمنهاج ما ورد به السّنّة وقوله تعالی: شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] ، فإشارة إلى الأصول التي تتساوی فيها الملل، فلا يصحّ عليها النّسخ کمعرفة اللہ تعالی: ونحو ذلک من نحو ما دلّ عليه قوله : وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء 136] . قال بعضهم : سمّيت الشَّرِيعَةُ شَرِيعَةً تشبيها بشریعة الماء من حيث إنّ من شرع فيها علی الحقیقة المصدوقة روي وتطهّر، قال : وأعني بالرّيّ ما قال بعض الحکماء : كنت أشرب فلا أروی، فلمّا عرفت اللہ تعالیٰ رویت بلا شرب .- وبالتّطهّر ما قال تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] ، وقوله تعالی: إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً- [ الأعراف 163] ، جمع شارع . وشَارِعَةُ الطّريق جمعها : شَوَارِعُ ، وأَشْرَعْتُ الرّمح قبله، وقیل : شَرَعْتُهُ فهو مَشْرُوعٌ ، وشَرَعْتُ السّفينة : جعلت لها شراعا ينقذها، وهم في هذا الأمر شَرْعٌ ، أي : سواء .- أي : يَشْرَعُونَ فيه شروعا واحدا . و ( شرعک) من رجل زيد، کقولک : حسبک . أي : هو الذي تشرع في أمره، أو تشرع به في أمرك، والشِّرْعُ خصّ بما يشرع من الأوتار علی العود .- ( ش ر ع ) الشرع سیدھا راستہ جو واضح ہو یہ اصل میں شرعت لہ طریقا ( واضح راستہ مقرر کرنا ) کا مصدر ہے اور بطور اسم کے بولا جاتا ہے ۔ چناچہ واضح راستہ کو شرع وشرع وشریعۃ کہا جاتا ہے ۔ پھر استعارہ کے طور پر طریق الہیہ پر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ شِرْعَةً وَمِنْهاجاً [ المائدة 48] ایک دستور اور طریق اس میں دو قسم کے راستوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ ایک وہ راستہ جس پر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مسخر کر رکھا ہے کہ انسان اسی راستہ پر چلتا ہے جن کا تعلق مصالح عباد اور شہروں کی آبادی سے ہے چناچہ آیت : ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا [ الزخرف 32] اور ہر ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے ۔ میں اسی طرف اشارہ ہے دوسرا راستہ دین کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے مقرر فرما کر انہیں حکم دیا ہے کہ انسان اپنے اختیار سے اس پر چلے جس کے بیان میں شرائع کا اختلاف پایا جاتا ہے اور اس میں نسخ ہوتا رہا اور جس پر کہ آیت : ۔ ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها[ الجاثية 18] پھر ہم نے دین کے کھلے راستہ پر قائم ) کردیا تو اسی راستے پر چلے چلو ۔ دلالت کرتا ہے حضرت ابن عباس (علیہ السلام) کا قول ہے کہ شرعۃ وہ راستہ ہے جسے قرآن نے بیان کردیا ہے اور منھا وہ ہے جسے سنت نے بیان کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً [ الشوری 13] اس نے تمہارے لئے دین کا وہی رستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ میں دین کے ان اصول کی طرف اشارہ ہے جو تمام ملل میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور ان میں نسخ نہیں ہوسکتا۔ جیسے معرفت الہی اور وہ امور جن کا بیان آیت . وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ [ النساء 136] اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اسکی کتابوں اور اس کے پیغمبروں سے انکار کرے ۔ میں پایا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ شریعت کا لفظ شریعۃ الماء سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی پانی کے گھاٹ کے ہیں اور شریعت کو شریعت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی صحیح حقیقت پر مطلع ہونے سے سیرابی اور طہارت حاصل ہوجاتی ہے ۔ سیرابی سے مراد معرفت الہی کا حصول ہے جیسا کہ بعض حکماء کا قول ہے کہ میں پیتا رہا لیکن سیرنہ ہوا ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگئی تو بغیر پینے کے سیری حاصل ہوگئی اور طہارت سے مراد وہ طہارت ہے جس کا ذکر کہ آیت ؛ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب 33] اے پیغمبر کے اہل خانہ خدا چاہتا ہے کہ تم سے نا پاکی کی میل کچیل صاف کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے میں پایا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف 163] ( یعنی ) اس وقت کہ ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپر آتیں ۔ میں شرعا ، شارع کی جمع ہے ۔ اور شارعۃ الطریق کی جمع شوارع آتی ہے جس کے معنی کھلی سڑک کے ہیں ۔ اشرعت الرمح قبلہ میں نے اس کی جانب نیزہ سیدھا کیا ۔ بعض نے شرعتہ فھو مشروع کہا ہے اور شرعت السفینۃ کے معنی جہاز پر بادبان کھڑا کرنے کے ہیں جو اسے آگے چلاتے ہیں ۔ ھم فی ھذالامر شرع ۔ یعنی وہ سب اس میں برابر ہیں ۔ یعنی انہوں نے اسے ایک ہی وقت میں شروع کیا ہے اور شرعک من رجل زید بمعنی حسبک ہے یعنی زید ہی اس قابل ہے کہ تم اس کا قصد کرویا اسکے ساتھ مک کر اپنا کام شروع کرو ۔ الشرع ۔ بریط کے وہ تار جن سے راگ شروع کیا جاتا ہے - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- وصی - الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] وقرئ :- وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ- ( و ص ی ) الوصیۃ - : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- عيسی - عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال :- عَاسَهَا يَعِيسُهَا «2» .- ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔- اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- تَّفْرِيقُ ( فرقان)- أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ- [ طه 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] ، وقرئ :- فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] ، أي :- يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ- أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً- [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين .- التفریق - اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ - الفرقان - یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور - فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - الفرق - کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔- كَبِيرَةُ ، گناه، مشكل - والْكَبِيرَةُ متعارفة في كلّ ذنب تعظم عقوبته، والجمع : الْكَبَائِرُ. قال : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] ، وقال : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] قيل : أريد به الشّرک لقوله : إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] . وقیل : هي الشّرک وسائر المعاصي الموبقة، کالزّنا وقتل النّفس المحرّمة، ولذلک قال : إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] ، وقال : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] . وتستعمل الکبيرة فيما يشقّ ويصعب نحو :- وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة 45] ، وقال : كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری 13] ، وقال : وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام 35] ، وقوله : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف 5] ففيه تنبيه علی عظم ذلک من بين الذّنوب وعظم عقوبته . ولذلک قال : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف 3] ، وقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] إشارة إلى من أوقع حدیث الإفك . وتنبيها أنّ كلّ من سنّ سنّة قبیحة يصير مقتدی به فذنبه أكبر . وقوله : إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر 56] ، أي تكبّر . وقیل : أمر كَبِيرٌ من السّنّ ، کقوله : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] - الکبیرۃ ۔ عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو ۔ اس کی جمع الکبائر آتی ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم 32] جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ اور آیت ؛ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو ۔ میں بعض نے کہا ہے ۔ کہ کبائر سے مراد شرک ہے ۔ کیونکہ دوسری آیت ۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ؛میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہ ے کہ کبائر کا لفظ ۔ شر ک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے ۔ جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا :إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے ۔ قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُما أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِما [ البقرة 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ۔ مگر ان کے نقصان فاہدوں سے زیادہ ہیں ۔ اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو ۔ چناچہ فرمایا : وَإِنَّها لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخاشِعِينَ [ البقرة بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں ۔ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ ما تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ [ الشوری 13] جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے ۔ وَإِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْراضُهُمْ [ الأنعام 35] اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت کریمہ : كَبُرَتْ كَلِمَةً [ الكهف 5]( یہ ) بڑی بات ہے ۔ میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ جیسے فرمایا : كَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ [ الصف 3] خدا اس بات سے سخت بیزار ہے ۔ اور آیت : وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11] اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ۔ میں تولی کبرہ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا ۔ اور آیت :إِلَّا كِبْرٌ ما هُمْ بِبالِغِيهِ [ غافر 56]( ارادہ ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں ۔ میں بکر کے معنی بھی تکبر ہی کے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے ۔ اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت ۔: وَالَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ [ النور 11]- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - جبي - الاجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي :- يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ .- واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ،- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- نوب - النَّوْب : رجوع الشیء مرّة بعد أخری. وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] ، مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] - ( ن و ب ) النوب - ۔ کسی چیز کا بار بارلوٹ کر آنا ۔ یہ ناب ( ن ) نوبۃ ونوبا کا مصدر ہے، وَأَنِيبُوا إِلى رَبِّكُمْ [ الزمر 54] اپنے پروردگار کی طر ف رجوع کرو ۔ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ [ الروم 31] ( مومنو) اس خدا کی طرف رجوع کئے رہو ۔ فلان ینتاب فلانا وہ اس کے پاس آتا جاتا ہے ۔
اے امت محمدیہ تمہارے لیے وہی دین اسلام پسند کیا جس کا ہم نے نوح کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی مخلوق کو اس کی طرف بلائیں اور خود بھی اسی پر ثابت قدم رہیں اور جس کو اے نبی کریم ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، یعنی قرآن کریم آپ کو بھی ہم نے دین اسلام کی طرف مخلوق کو بلانے اور خود بھی اسی پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے اور جس دین اسلام کو ہم نے حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کے لیے منتخب کیا تھا ان کو بھی اسی پر قائم رہنے اور اسی کی طرف لوگوں کو بلانے کا حکم دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو حکم دیا تھا کہ متفق ہو کر اسی دین پر قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ مت ڈالنا۔- قرآن حکیم اور توحید کی طرف جو آپ لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو یہ بات بڑی ناگوار گزرتی ہے۔- اللہ تعالیٰ اپنے اپنے دین کی طرف جسے چاہے کھینچ لیتا ہے اور وہ ایسا شخص ہے جو اسلام ہی کی حالت میں پیدا ہوا اور اسی پر مرتا ہے اور ایسے ہی کافروں میں سے جو شخص اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنے دین کی توفیق عطا کردیتا ہے۔
آیت ١٣ شَرَعَ لَـکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا ” (اے مسلمانو ) اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوح ( علیہ السلام) کو کی تھی “- یہ براہ راست امت سے خطاب ہے۔ مکی سورتوں میں چونکہ عام طور پر اہل ایمان کو ” یٰٓــاَیُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ کے الفاظ سے براہ راست مخاطب نہیں کیا جاتا اس لیے یہاں جمع کا یہ صیغہ (شَرَعَ لَـکُمْ ) استعمال فرمایا گیا ہے۔ مکی سورتوں میں اس حوالے سے ہمیں دوسرا اسلوب یہ بھی ملتا ہے کہ صیغہ واحد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے اہل ِ ایمان کو پیغام پہنچایا جاتا ہے۔- وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی ” اور جس کی وحی ہم نے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ کی طرف کی ہے ‘ اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو “- اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ” کہ قائم کرو دین کو۔ “- اس آیت سے ایک تو یہ معلوم ہوا ہے کہ حضرات نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ‘ یعنی تمام پیغمبروں کا دین ایک ہی ہے۔ یہی مضمون سورة الانبیاء میں اس طرح آیا ہے : اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃًز وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ ۔ ” یقینا یہ تمہاری امت ‘ ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں ‘ لہٰذا تم لوگ میری ہی بندگی کرو “۔ یعنی تمام انبیاء ورسل (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کا دین ایک ہی تھا۔ ان کے درمیان اگر کوئی فرق یا اختلاف تھا تو وہ شریعتوں میں تھا۔ دوسری اہم بات اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اقامت دین کا فریضہ ان تمام پیغمبروں کو سونپا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کی قوم کو اس سلسلے میں جو حکم ملا تھا اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے کہ تم لوگ ارض فلسطین کو فتح کرنے کے لیے جہاد کرو۔ ظاہر ہے اس خطہ پر قبضہ کرنے کا مقصد اللہ کے دین کو وہاں بالفعل نافذ کرنا تھا۔ چناچہ اقامت دین کی جدوجہد ماقبل امتوں پر بھی فرض تھی۔- بہر حال اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کے حکم کا خلاصہ یہی ہے کہ زبان سے صرف عقیدئہ توحید کا اقرار کرلینا کافی نہیں بلکہ اس عقیدے کا رنگ اپنے اعمال پر بھی چڑھائو ‘ اور نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر اپنے معاشرے کی اعلیٰ ترین (ریاستی اور حکومتی) سطح پر اس کی تنفیذ و تعمیل کو یقینی بنائو۔ واضح رہے کہ مترجمین نے بالعموم اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ کا ترجمہ کیا ہے : ” کہ دین کو قائم رکھو “ یہ بھی درست ہے ‘ کیونکہ اقامت دین کے حوالے سے کسی معاشرے میں دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو وہاں دین قائم ہے یا قائم نہیں ہے۔ چناچہ اس حکم کا منشاء یہ ہے کہ اگر دین پہلے قائم ہے تو اسے قائم رکھو اور اگر قائم نہیں ہے تو اسے قائم کرو۔ مثلاً خیمہ اگر کھڑ ا ہے تو اسے گرنے سے بچانا ہے اور اگر پہلے سے کھڑا نہیں ہے تو اسے کھڑا ( ) کرنا ہے۔ - وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ” اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ “- یعنی تم لوگ اپنے دین کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے نہ کردو۔ ایسانہ ہو کہ کسی ایک معاملے میں تو تم اللہ کا حکم مانو اور کسی دوسرے معاملے میں کسی اور کی خوشنودی کے طالب بن جائو۔ اسی رویے اور طریقے کو تفرقہ کہا جاتا ہے جس سے یہاں منع کیا جا رہا ہے۔ سورة الانعام : ١٥٩ کے الفاظ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ… میں بھی ایسے ہی تفرقے کی طرف اشارہ ہے۔ البتہ فروعی مسائل میں ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ‘ یہ تفرقہ نہیں ہے۔ مثلاً میں اگر رفع یدین کرتا ہوں اور میرے کئی ساتھی امام ابوحنیفہ (رح) کے موقف کو زیادہ صحیح سمجھتے ہوئے رفع یدین کے بغیر نماز پڑھتے ہیں تو ایسے اختلاف میں کوئی حرج نہیں ‘ جبکہ بنیادی طور پر دین میں تفریق یا تفرقے کا طرز عمل نہ اپنایا جائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ حنفی ‘ مالکی ‘ شافعی ‘ حنبلی اور سلفی سب کے سب ایک ہی دین یعنی اسلام کے ماننے والے ہیں۔ اسی طرح مختلف پیغمبروں کی شریعتوں میں بھی اختلاف ہوسکتا ہے ‘ مثلاً اب شریعت ِمحمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ ہے ‘ اس سے پہلے شریعت موسوی ( علیہ السلام) کا دور تھا اور اس سے پہلے کوئی اور شریعت تھی۔ لیکن یہ نکتہ بہر حال واضح رہنا چاہیے کہ تمام انبیاء و رسل (علیہ السلام) کا دین ایک ہی تھا یعنی اسلام۔- کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بہت بھاری ہے مشرکین پر یہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں۔ “- مشرکین کی زندگی تو اسی تفریق و تقسیم پر چل رہی ہے۔ وہ تو اس نظریی پر عمل پیرا ہیں کہ ” جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو “۔ ہمارے ہاں بھی ایسی ہی تقسیم پر دنیا کے معاملات چل رہے ہیں کہ جو حکومت کا حق ہے وہ حکومت کو دو اور جو مولوی کا حق ہے وہ مولوی کو دو ۔ اور فرض کریں اگر علماء بھی اس تقسیم پر راضی ہوجائیں کہ چلیں ہمارا کام تو چل ہی رہا ہے تو ایسی صورت حال میں دین کی تو گویا نفی ہوجائے گی ‘ کیونکہ دین تو اللہ کی ُ کلی ّاطاعت کا نام ہے۔ چناچہ جس کسی نے بھی دین میں کسی ایسی تفریق یا تقسیم پر اپنے دل کو مطمئن کرلیا اس کا گویا اللہ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں رہا۔ چناچہ مشرکین جو اللہ اور بتوں کے درمیاں اپنے ” دین “ کی تقسیم پر مطمئن ہیں انہیں توحید خالص کی دعوت بری تو لگے گی۔ مشرکین کے اس بغض وعناد کا ذکر سورة التوبہ : ٣٣ اور سورة الصف : ٩ میں اس طرح ہوا ہے : ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ 4 ” وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کرتا کہ غالب کرے اسے ُ کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر ‘ خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے “۔ ظاہر ہے نظام توحید کے قیام اور دین حق کے غلبے کی صورت میں مشرکین کے دلوں میں کڑھن تو بہت ہوگی ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ہی اسی لیے ہے کہ وہ اللہ کے دین کو پورے نظام زندگی پر غالب کر دے۔- اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ” اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف (آنے کے لیے) ُ چن لیتا ہے “- یہ اللہ کی شان عطا ہے کہ کبھی کبھی وہ کسی راہ چلتے مسافر کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ صوفیاء کے ہاں اس حوالے سے ” سالک مجذوب “ اور ” مجذوب سالک “ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ ” سالک مجذوب “ اللہ کے وہ مقرب بندے ہیں جو ” سلوک “ کی کئی کئی کٹھن منازل طے کر کے قرب و جذب کے مقام تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ ” صدیقین “ عام طور پر محنت و ریاضت کے اسی راستے سے مقام قرب تک پہنچتے ہیں۔ ان کے برعکس ” مجذوب سالک “ وہ خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کسی خاص موقع پر بلا تمہید اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ ایسے لوگ ” مقامِ قرب “ پر فائز ہوجانے کے بعد منازلِ سلوک طے کرتے ہیں اور یہ مقام و مرتبہ اکثر و بیشتر ” شہداء “ کے حصے میں آتا ہے۔ حضرت عمر (رض) کو اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اپنی طرف کھینچ لیا تھا ‘ ورنہ اس ” حسین اتفاق “ سے پہلے نہ تو آپ (رض) کا مزاج اس ” مقامِ شوق “ سے کچھ مطابقت رکھتا تھا اور نہ ہی آپ (رض) کے معمولات ومشاغل میں ایسے کسی ” رجحان “ کا رنگ پایا جاتا تھا۔ (صدیقین اور شہداء کے اصطلاحی مفہوم کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورة مریم : ٤١ کی تشریح۔ )- وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ ” اور وہ اپنی طرف ہدایت اسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :20 یہاں اسی بات کو پھر زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو پہلی آیت میں ارشاد ہوئی تھی ۔ اس میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی نئے مذہب کے بانی نہیں ہیں ، نہ انبیاء میں سے کوئی اپنے کسی الگ مذہب کا بانی گزرا ہے ، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک ہی دین ہے جسے شروع سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آ رہے ہیں ، اور اسی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی پیش کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے جو طوفان کے بعد موجودہ نسل انسانی کے اولین پیغمبر تھے ، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے جو آخری نبی ہیں ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے جنہیں اہل عرب اپنا پیشوا مانتے تھے ، اور آخر میں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا گیا ہے جن کی طرف یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کو منسوب کرتے ہیں ۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ انہی پانچ انبیاء کو اس دین کی ہدایت کی گئی تھی ۔ بلکہ اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں ، سب ایک ہی دین لے کر آئے ہیں ، اور نمونے کے طور پر ان پانچ جلیل القدر انبیاء کا نام لے دیا گیا ہے جن سے دنیا کو معروف ترین آسمانی شریعتیں ملی ہیں ۔ یہ آیت چونکہ دین اور اس کے مقصود پر بڑی اہم روشنی ڈالتی ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اس پر پوری طرح غور کر کے اسے سمجھا جائے: فرمایا کہ شَرَعَ لَکُمْ ، مقرر کیا تمہارے لیے شرع کے لغوی معنی راستہ بنانے کے ہیں ، اور اصطلاحاً اس سے مراد طریقہ اور ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا ہے ۔ عربی زبان میں اسی اصلاحی معنی کے لحاظ سے تشریع کا لفظ قانون سازی ( ) کا ، شرع اور شریعت کا لفظ قانون ( ) کا شارع کا لفظ واضح قانون ( ) کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے ۔ یہ تشریع خداوندی دراصل فطری اور منطقی نتیجہ ان اصولی حقائق کا جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے ، اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے ، اور انسانوں کے درمیان جس امر میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے ۔ اب چونکہ اصولاً اللہ ہی مالک اور ولی اور حاکم ہے ، اس لیے لامحالہ وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون و ضابطہ بنائے اور اسی کی یہ ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو یہ قانون و ضابطہ دے ۔ چنانچہ اپنی اس ذمہ داری کو اس نے یوں ادا کر دیا ہے ۔ پھر فرمایا مِنَ الدِّیْنِ ، از قسم دین ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ از آئین کیا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تشریع فرمائی ہے اس کی نوعیت آئین کی ہے لفظ دین کی جو تشریح ہم اس سے پہلے سورہ زُمُر ، حاشیہ نمبر 3 میں کر چکے ہیں وہ اگر نگاہ میں رہے تو یہ سمجھنے میں کوئی الجھن پیش نہیں آسکتی کہ دین کے معنی ہی کسی کی سیادت و حاکمیت تسلیم کر کے اس کے احکام کی اطاعت کرنے کے ہیں ۔ اور جب یہ لفظ طریقے کے معنی میں بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ طریقہ ہوتا ہے جسے آدمی واجب الاتباع اور جس کے مقرر کرنے والے کو مطاع مانے ۔ اس بنا پر اللہ کے مقرر کیے ہوئے اس طریقے کو دین کی نوعیت رکھنے والی تشریع کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کی حیثیت محض سفارش ( ) اور وعظ نصیحت کی نہیں ہے ، بلکہ یہ بندوں کے لیے ان کے مالک کا واجب الاطاعت قانون ہے جس کی پیروی نہ کرنے کے معنی بغاوت کے ہیں اور جو شخص اس کی پیروی نہیں کرتا وہ دراصل اللہ کی سیادت و حاکمیت اور اپنی بندگی کا انکار کرتا ہے ۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع وہی ہے جس کی ہدایت نوح اور ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام کو دی گئی تھی اور اسی کی ہدایت اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہے ۔ اس ارشاد سے کئی باتیں نکلتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تشریع کو براہ راست ہر انسان کے پاس نہیں بھیجا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً جب اس نے مناسب سمجھا ہے ایک شخص کو اپنا رسول مقرر کر کے یہ تشریع اس کے حوالے کی ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ تشریع ابتدا سے یکساں رہی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی زمانے میں کسی اور قوم کے لیے کوئی دین مقرر کیا گیا ہو اور کسی دوسرے زمانے میں کسی اور قوم کے لیے اس سے مختلف اور متضاد دین بھیج دیا گیا ہو ۔ خدا کی طرف سے بہت سے دین نہیں آئے ہیں ، بلکہ جب بھی آیا ہے یہی ایک دین آیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اللہ کی سیادت و حاکمیت ماننے کے ساتھ ان لوگوں کی رسالت کا ماننا جن کے ذریعہ سے یہ تشریع بھیجی گئی ہے ، اور اس وحی کو تسلیم کرنا جس میں یہ تشریع بیان کی گئی ہے ، اس دین کا لازمی جز ہے ، اور عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو لازمی جز ہونا چاہیے ، کیونکہ آدمی اس تشریع کی اطاعت کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ اس کے خدا کی طرف سے مستند ( ) ہونے پر مطمئن نہ ہو ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان سب انبیاء کو دین کی نوعیت رکھنے والی یہ تشریع اس ہدایت اور تاکید کے ساتھ دی گئی تھی کہ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے قائم کنید دین را کیا ہے ، اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے قائم رکھو دین کو ۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں ۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی ، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے ۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں ۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جائے یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں ۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو ۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا ، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے ۔ اب ہمارے سامنے دو سوالات آتے ہیں ۔ ایک یہ کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خود دین سے کیا مراد ہے جسے قائم کرنے اور پھر قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ ان دونوں باتوں کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھانا ہوتا ہے ، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا ۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے ، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا ۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے ، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ ، عمل در آمد کرنا ، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے ۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی ، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا ۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں ، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جائے ۔ مسجدیں ہوں ۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو ۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں ۔ امام اور خطیب مقرر ہوں ۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جائے ۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں ، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا ۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے ۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے ، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے ، کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار دے بیٹھے ۔ اب دوسرے سوال کو لیجیے ۔ بعض لوگوں نے دیکھا کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان مشترک ہے ، اور شریعتیں ان سب کی مختلف رہی ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَا جاً ، اس لیے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کا ماننا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے ، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں ۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلاف کو دیکھ کر قائم کر لی گئی ہے ، اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیّدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا ۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے ، اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو ، تو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کے لے کر بیٹھ جائیں گے ۔ اس طرح کے قیاسات سے دین کا مفہوم متعین کرنے کے بجائے آخر کیوں نہ ہم خود اللہ کی کتاب سے پوچھ لیں کہ جس دین کو قائم کرنے کا حکم یہاں دیا گیا ہے ، آیا اس سے مراد صرف ایمانیات اور بڑے بڑے اخلاقی اصول ہی ہیں ، یا شرعی احکام بھی ۔ قرآن مجید کا جب ہم تتبع کرتے ہیں تو اس میں جن چیزوں کو دین میں شمار کیا گیا ہے ان میں حسب ذیل چیزیں بھی ہمیں ملتی ہیں : 1 ) وَمَآ اُمِرُؤٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکوٰۃَ وَ ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ ( البیّنہ ، آیت 5 ) ۔ اور ان کو حکم نہیں دیا گیا مگر اس بات کا کہ یکسو ہو کر اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں اور زکوٰۃ دیں ، اور یہی راست رو ملت کا دین ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ اس دین میں شامل ہیں ، حالانکہ ان دونوں کے احکام مختلف شریعتوں میں مختلف رہے ہیں ۔ کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تمام پچھلی شریعتوں میں نماز کی یہی شکل و ہئیت ، یہی اس کے اجزاء ، یہی اس کی رکعتیں ، یہی اس کا قبلہ ، یہی اس کے اوقات ، اور یہی اس کے دوسرے احکام رہے ہیں ۔ اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بھی کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ تمام شریعتوں میں یہی اس کا نصاب ، یہی اس کی شرحیں ، اور یہی اس کی تحصیل اور تقسیم کے احکام رہے ہیں ۔ لیکن اختلاف شرائع کے باوجود اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں کو دین میں شمار کر رہا ہے ۔ 2 ) حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَہُ وَالدَّمُ وَ لَحْمُ الخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہ ........ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ........ ( المائدہ ۔ 3 ) تمہارے لیے حرام کیا گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ، اور وہ جو گلا گھٹ کر ، یا چوٹ کھا کر ، یا بلندی سے گر کر ، یا ٹکر کھا کر مرا ہو ، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ، سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا ، اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو ، نیز یہ بھی تمہارے لیے حرام کیا گیا کہ تم پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو ۔ یہ سب کام فسق ہیں ۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ................. اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب احکام شریعت بھی دین ہی ہیں ۔ 3 ) قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ ( التوبہ ۔ 29 ) ۔ جنگ کرو ان لوگوں سے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال و حرام کے ان احکام کو ماننا اور ان کی پابندی کرنا بھی دین ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے دیے ہیں ۔ 4 ) اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّ لَا تَأخُذْکُمْ بھِمَا رَأفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ( النّور 20 ) زانیہ عورت اور مرد ، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو مَا کَانَ لِیَأخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ ( یوسف ۔ 76 ) یوسف ( علیہ السلام ) اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین میں پکڑ لینے کا مجاز نہ تھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فوجداری قانون بھی دین ہے ۔ اگر آدمی خدا کے فوجداری قانون پر چلے تو وہ خدا کے دین کا پیرو ہے اور اگر بادشاہ کے قانون پر چلے تو وہ بادشاہ کے دین کا پیرو ۔ یہ چار تو وہ نمونے ہیں جن میں شریعت کے احکام کو بالفاظ صریح دین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن گناہوں پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی دھمکی دی ہے ( مثلاً زنا ، سود خواری ، قتل مومن ، یتیم کا مال کھانا ، باطل طریقوں سے لوگوں کے مال لینا ، وغیرہ ) ، اور جن جرائم کو خدا کے عذاب کا موجب قرار دیا ہے ( مثلاً عمل قوم لوط ، اور لین دین میں قوم شعیب کا رویہ ) ان کا سد باب لازماً دین ہی میں شمار ہونا چاہیے ، اس لیے کہ دین اگر جہنم اور عذاب الہٰی سے بچانے کے لیے نہیں آیا ہے تو اور کس چیز کے لیے آیا ہے؟ اسی طرح وہ احکام شریعت بھی دین ہی کا حصہ ہونے چاہییں جن کی خلاف ورزی کو خلود فی النار کا موجب قرار دیا گیا ہے ، مثلاً میراث کے احکام ، جن کو بیان کرنے کے بعد آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْھَا وَلَہ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ( النساء ۔ 14 ) جو اللہ اور اسے کے رسول کی نافرمانی اور اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گا ، اللہ اس کو دوزخ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے ۔ اسی طرح جن چیزوں کی حرمت اللہ تعالیٰ نے پوری شدت اور قطعیت کے ساتھ بیان کی ہے ، مثلاً ماں بہن اور بیٹی کی حرمت ، شراب کی حرمت ، چوری کی حرمت ، جوئے کی حرمت ، جھوٹی شہادت کی حرمت ، ان کی تحریم کو اگر اقامت دین میں شامل نہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ غیر ضروری احکام بھی دے دیے ہیں جن کا اجراء مقصود نہیں ہے ۔ علیٰ ہٰذا القیاس جن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے ، مثلاً روزہ اور حج ، ان کی اقامت کو بھی محض اس بہانے اقامت دین سے خارج نہیں کیا جا سکتا کہ رمضان کے 30 روزے تو پچھلی شریعتوں میں نہ تھے ، اور کعبے کا حج تو صرف اس شریعت میں تھا جو اولاد ابراہیم کی اسماعیلی شاخ کو ملی تھی ۔ دراصل ساری غلط فہمی صرف اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ آیت : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَا جاً ( ہم نے تم میں سے ہر امت کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کر دی ) کا الٹا مطلب لے کر اسے یہ معنی پہنا دیے گئے ہیں کہ شریعت چونکہ ہر امت کے لیے الگ تھی ، اور حکم صرف اس دین کے قائم کرنے کا دیا گیا ہے جو تمام انبیاء کے درمیان مشترک تھا ، اس لیے اقامت دین کے حکم میں اقامت شریعت شامل نہیں ہے ۔ حالانکہ در حقیقت اس آیت کا مطلب اس کے بالکل بر عکس ہے ۔ سورہ مائدہ میں جس مقام پر یہ آیت آئی ہے اس کے پورے سیاق و سباق کو آیت 41 سے آیت 50 تک اگر کوئی شخص بغور پڑھے تو معلوم ہو گا کہ اس آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی ۔ اور اب چونکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور نبوت ہے ۔ اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے ۔ رہا ان شریعتوں کا اختلاف ، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کی بھیجی ہوئی شریعتیں باہم متضاد تھیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جزئیات میں حالات کے لحاظ سے کچھ فرق رہا ہے ۔ مثال کے طور پر نماز اور روزے کو دیکھیے ۔ نماز تمام شریعتوں میں فرض رہی ہے ، مگر قبلہ ساری شریعتوں کا ایک نہ تھا ، اور اس کے اوقات اور رکعات اور اجزاء میں بھی فرق تھا ۔ اسی طرح روزہ ہر شریعت میں فرض تھا مگر رمضان کے 30 روزے دوسری شریعتوں میں نہ تھے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ مطلقاً نماز اور روزہ تو اقامت دین میں شامل ہے ، مگر ایک خاص طریقت سے نماز پڑھنا اور خاص زمانے میں روزہ رکھنا اقامت دین سے خارج ہے ۔ بلکہ اس سے صحیح طور پر جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کے لیے اس وقت کی شریعت میں نماز اور روزے کے لیے جو قاعدے مقرر کیے گئے تھے انہی کے مطابق اس زمانے میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا دین قائم کرنا تھا ، اور اب اقامت دین یہ ہے کہ ان عبادتوں کے لیے شریعت محمدیہ میں جو طریقہ رکھا گیا ہے ان کے مطابق انہیں ادا کیا جائے ۔ انہی دو مثالوں پر دوسرے تمام احکام شریعت کو بھی قیاس کر لیجیے ۔ قرآن مجید کو جو شخص بھی آنکھیں کھول کر پڑھے گا اسے یہ بات صاف نظر آئے گی کہ یہ کتاب اپنے ماننے والوں کو کفر اور کفار کی رعیت فرض کر کے مغلوبانہ حیثیت میں مذہبی زندگی بسر کرنے کا پروگرام نہیں دے رہی ہے ، بلکہ یہ علانیہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے ، اپنے پیروؤں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دین حق کو فکری ، اخلاقی ، تہذیبی اور قانونی و سیاسی حیثیت سے غالب کرنے کے لیے جان لڑا دیں ، اور ان کو انسانی زندگی کی اصلاح کا وہ پروگرام دیتی ہے جس کے بہت بڑے حصے پر صرف اسی صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے جب حکومت کا اقتدار اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو ۔ یہ کتاب اپنے نازل کیے جانے کا مقصد یہ بیان کرتی ہے کہ اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللہُ ( النساء ۔ 105 ) ۔ اے نبی ، ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تم پر نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اس روشنی میں جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے ۔ اس کتاب میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے جو احکام دیے گیے ہیں وہ صریحاً اپنے پیچھے ایک ایسی حکومت کا تصور رکھتے ہیں جو ایک مقرر قاعدے کے مطابق زکوٰۃ وصول کر کے مستحقین تک پہنچانے کا ذمہ لے ( التوبہ ۔ 60 ۔ 103 ) اس کتاب میں سود کو بند کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اور سود خواری جاری رکھنے والوں کے خلاف جو اعلان جنگ کیا گیا ہے ( البقرہ 275 ۔ 279 ) وہ اسی صورت میں رو بعمل آسکتا ہے جب ملک کا سیاسی اور معاشی نظام پوری طرح اہل ایمان کے ہاتھ میں ہو ۔ اس کتاب میں قاتل سے قصاص لینے کا حکم ( البقرہ ۔ 178 ) چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم ( المائدہ ۔ 38 ) زنا اور قذف پر حد جاری کرنے کا حکم ( النور ۔ 2 ۔ 4 ) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ ان احکام کے ماننے والے لوگوں کو کفار کی پولیس اور عدالتوں کے ماتحت رہنا ہو گا ۔ اس کتاب میں کفار سے قتال کا حکم ( لبقرہ ۔ 190 ۔ 216 ) یہ سمجھتے ہوئے نہیں دیا گیا کہ اس دین کے پیرو کفر کی حکومت میں فوج بھرتی کر کے اس حکم کی تعمیل کریں گے ۔ اس کتاب میں اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ( التوبہ 29 ) اس مفروضے پر نہیں دیا گیا ہے کہ مسلمان کافروں کی رعایا ہوتے ہوئے ان سے جزیہ وصول کریں گے اور ان کی حفاظت کا ذمہ لیں گے ۔ اور یہ معاملہ صرف مدنی سورتوں ہی تک محدود نہیں ہے ۔ مکی صورتوں میں بھی دیدہ بینا کو علانیہ یہ نظر آ سکتا ہے کہ ابتدا ہی سے جو نقشہ پیش نظر تھا وہ دین کے غلبہ و اقتدار کا تھا نہ کہ کفر کی حکومت کے تحت دین اور اہل دین کے ذمی بن کر رہنے کا ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، بنی اسرئیل ، حواشی ۸۹ ۔ ۹۹ ۔ ۱۰۱ ، جلد سوم ، القصص ، ۱۰٤ ۔ ۱۰۵ ، الروم ، ۱ تا ۳ ، جلد چہارم ، الصافات ، آیات ۱۷۱ تا ۱۷۹ ، حواشی ۹۳ ۔ ۹٤ ، صٓ ، دیباچہ اور آیت ۱۱ مع حاشیہ ۱۲ ) سب سے بڑھ کر جس چیز سے تعبیر کی یہ غلطی متصادم ہوتی ہے وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان کام ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کے زمانہ رسالت میں انجام دیا ۔ آخر کون نہیں جانتا کہ آپ نے تبلیغ اور تلوار دونوں سے پورے عرب کو مسخر کیا اور اس میں ایک مکمل حکومت کا نظام ایک مفصل شریعت کے ساتھ قائم کر دیا جو اعتقادات اور عبادات سے لے کر شخصی کردار ، اجتماعی اخلاق ، تہذیب و تمدن ، معیشت و معاشرت ، سیاست و عدالت اور صلح و جنگ تک زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی تھی ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پورے کام کو اقامت دین کے اس حکم کی تفسیر نہ مانا جائے جو اس آیت کے مطابق تمام انبیاء سمیت آپ کو دیا گیا تھا ، تو پھر اس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں ۔ یا تو معاذاللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام عائد کیا جائے کہ آپ مامور تو صرف ایمانیات اور اخلاق کے موٹے موٹے اصولوں کی محض تبلیغ و دعوت پر ہوئے تھے ، مگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سے تجاوز کر کے بطور خود ایک حکومت قائم کر دی اور ایک مفصل قانون بنا ڈالا جو شرائع انبیاء کی قدر مشترک سے مختلف بھی تھا اور زائد بھی ۔ یا پھر اللہ تعالیٰ پر یہ الزام رکھا جائے کہ وہ سورہ شوریٰ میں مذکورہ بالا اعلان کر چکنے کے بعد خود اپنی بات سے منحرف ہو گیا اور اس نے اپنے آخری نبی سے نہ صرف وہ کام لیا جو اس سورۃ کی اعلان کردہ اقامت دین سے بہت کچھ زائد اور مختلف تھا ، بلکہ اس کام کی تکمیل پر اپنے پہلے اعلان کے خلاف یہ دوسرا اعلان بھی کر دیا کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ( آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ) ، اعاذنا اللہ من ذالک ۔ ان دو صورتوں کے سوا اگر کوئی تیسری صورت ایسی نکلتی ہو جس سے اقامت دین کی یہ تعبیر بھی قائم رہے اور اللہ یا اس کے رسول پر کوئی الزام بھی عائد نہ ہوتا ہو تو ہم ضرور اسے معلوم کرنا چاہیں گے ۔ اقامت دین کا حکم دینے کے بعد ، آخری بات جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ : لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ۔ دین میں تفرقہ نہ برپا کرو ، یا اس کے اندر متفرق نہ ہو جاؤ ۔ دین میں تفرقہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی دین کے اندر اپنی طرف سے کوئی نرالی بات ایسی نکالے جس کی کوئی معقول گنجائش اس میں نہ ہو اور اصرار کرے کہ اس کی نکالی ہوئی بات کے ماننے ہی پر کفر و ایمان کا مدار ہے ، پھر جو ماننے والے ہوں انہیں لے کر نہ ماننے والوں سے جدا ہو جائے ۔ یہ نرالی بات کئی طرح کی ہو سکتی ہے ۔ وہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو چیز نہ تھی وہ اس میں لا کر شامل کر دی جائے ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین میں جو بات شامل تھی اسے نکال باہر کیا جائے ۔ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی نصوص میں تحریف کی حد تک پہنچی ہوئی تاویلات کر کے نرالے عقائد اور انوکھے اعمال ایجاد کیے جائیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دین کی باتوں میں رد و بدل کر کے اس کا حلیہ بگاڑا جائے ، مثلاً جو چیز اہم تھی اسے غیر اہم بنا دیا جائے اور جو چیز حد سے حد مباح کے درجے میں تھی اسے فرض و واجب بلکہ اس سے بھی بڑھا کر اسلام کا رکن رکین بنا ڈالا جائے ۔ اسی طرح کی حرکتوں سے انبیاء علیہم السلام کی امتوں میں پہلے تفرقہ برپا ہوا ، پھر رفتہ رفتہ ان فرقوں کے مذاہب بالکل الگ مستقل ادیان بن گئے جن کے ماننے والوں میں اب یہ تصور تک باقی نہیں رہا ہے کہ کبھی ان سب کی اصل ایک تھی ۔ اس تفرقے کا اس جائز اور معقول اختلاف رائے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو دین کے احکام کو سمجھنے اور نصوص پر غور کر کے ان سے مسائل مستنبط کرنے میں فطری طور پر اہل علم کے درمیان واقع ہوتا ہے اور جس کے لیے خود کتاب اللہ کے الفاظ میں لغت اور محاورے اور قواعد زبان کے لحاظ سے گنجائش ہوتی ہے ۔ ( اس موضوع پر مزید تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ ۲۲۰ ، آل عمران ، حواشی ۱٦ ۔ ۱۷ ، النساء ۲۱۱تا ۲۱٦ ، المائدہ ۱۰۱ ، الانعام ۱٤۱ ، جلد دوم ، النحل ، حواشی ۱۱۷ تا ۱۲۱ ، جلد سوم ، الانبیاء ، حواشی ۸۹ تا ۹۱ ، الحج ، حواشی ۱۱٤ تا ۱۱۷ ، المومنون ٤۵ تا ٤۸ ، القصص ، ۷۲ تا ۷٤ ، الروم ، ۵۰ ۔ ۵۱ ) ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :21 یہاں پھر وہی بات دہرائی گئی ہے جو اس سے پہلے آیت 8 ۔ 9 میں ارشاد ہو چکی ہے اور جس کی تشریح ہم حاشیہ نمبر 11 میں کر چکے ہیں ۔ اس جگہ یہ بات ارشاد فرمانے کا مدعا یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے سامنے دین کی صاف شاہراہ پیش کر رہے ہو اور یہ نادان اس نعمت کی قدر کرنے کے بجائے الٹے اس پر بگڑ رہے ہیں ۔ مگر انہی کے درمیان انہی کی قوم میں وہ لوگ موجود ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اللہ بھی انہیں کھینچ کھچینچ کر اپنی طرف لا رہا ہے ۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی اس نعمت کو پائے اور کوئی اس پر خار کھائے ۔ مگر اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے ۔ وہ اسی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جو اس کی طرف بڑھے ۔ دور بھاگنے والوں کے پیچھے دوڑنا اللہ کا کام نہیں ہے ۔