17۔ 1 الْکِتَابَ سے مراد جنس ہے یعنی تمام پیغمبروں پر جتنی کتابیں نازل ہوئیں، وہ سب حق اور سچی تھیں یا بطور خاص قرآن مجید مراد ہے اور اس کی صداقت کو واضح کیا جا رہا ہے۔
[٢٦] اللہ کے میزان اتارنے کے مختلف مفہوم :۔ یعنی اللہ نے صرف حق ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ حق معلوم کرنے کا معیار بھی نازل فرمایا اور یہ معیار میزان ہے۔ اللہ نے مادی میزان یا ترازو بھی اتاری جس میں اجسام تلتے ہیں اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں۔ عقل سلیم سرسری نظر میں ہی معلوم کرلیتی ہے کہ حق کس طرف ہے اور باطل کس طرف یا کسی چیز میں حق کا کتنا حصہ ہے اور باطل کا کتنا ؟ علاوہ ازیں اخلاقی ترازو بھی ہے یعنی عدل و انصاف کی ترازو۔ اور سب سے بڑی ترازو کتاب و سنت ہے۔ جو خالق و مخلوق کے حقوق و فرائض کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتی ہے جس میں بات پوری تلتی ہے نہ کم نہ زیادہ۔- [٢٧] یعنی شریعت کے ترازو میں رکھ کر اپنے اعمال کا خود ہی محاسبہ کرلو۔ کیا معلوم کہ قیامت کی گھڑی قریب ہی آلگی ہو۔ پھر کچھ نہ ہوسکے گا۔ لہذا اچھے اعمال بجا لانے میں جلدی کرلو۔
(١) اللہ الذی انزل الکتب بالحق والمیزان :” الکتب “ میں الف لام جنس کا ہو تو مراد تمام روحانی کتابیں ہیں اور اگر عہد کا ہو تو مراد یہ کتاب یعنی قرآن مجید ہے۔ یعنی کیا جانتے بھی ہو کہ جس اللہ کے بارے میں تم جھگڑ رہے ہو وہ کون ہے اور اس کی صفات اور اس کے احکام کیسے معلوم ہوسکتے ہیں ؟ فرمایا اللہ وہی ہے جس نے یہ کتاب یعنی قرآن مجید حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے، اس کی ہر بات حق ہے، اس میں باطل کی آمیزش ہو ہی نہیں سکتی، جیسا کہ فرمایا :(لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ) (حم السجدۃ : ٣٢)” اس کے پا باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ “ اور اسی نے میزان اتارا ہے جس کے ساتھ لوگ اپنے تمام معاملات میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرسکیں۔” المیزان “ ستے مراد اکثر مفسرین نے عدل و انصاف لیا ہے، بعض نے اس سے مراد دین حق اور بعض نے جزا و سزا کا قانون لیا ہے۔ ان میں سے جو بھی مراد لیں بات ایک ہی ہے اور اس میزان سے مراد اللہ کے دین اور اس کی شریعت پر مشتمل یہ کتاب ہی ہے جو خلاق و مخلوق کے درمیان معاملات اور مخلوق کے باہمی معاملات اور تمام تنازعات کے لئے میزان ہے، جو ہر بات ترازو کی طرح تول کر صحیح یا غلط اور حق باطل کا فیصلہ کر یدتی ہے۔ اوپر فرمایا تھا :(وامرت لاعدل بینکم) (الشوری : ١٥) (اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں) اور اس آیت میں بتادیا کہ اس کتاب پاک کی صورت میں میزان آگئی ہے، جس کے ساتھ وہ عدل قائم کیا جائے گا۔ یہ کتاب دوسرے معاملات کی طرح پہلی کتابوں کے لئے بھی میزان اور ان کی نگران ہے کہ ان میں کون سی باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور کون سی ملا دی گئی ہیں، جیسا کہ فرمایا :(وانزلنا الیک الکتب بالحق مصدقاً لما بین یدیہ من الکتب و مھیمناً علیہ) (المائدۃ : ٣٨)” اور ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو کتابوں میں سے اس سے پہلے ہے اور اس پر محافظ ہے۔ “- (٢) یہاں ایک سوال ہے کہ آیت میں ” الکتب “ اور ” المیزان “ کے درمیان واؤ عطف ہے جو مغایرت کے لئے ہوتی ہے، جس سے ظاہر ہے کہ کتاب اور میزان الگ الگ چیزیں ہیں، اب اگر میزان سے مراد کتاب ہی ہو تو مغایرت ختم ہوجاتی ہے، اسی طرح اگر میزان سے مراد عدل و انصاف لیں تب بھی کتاب اور میزان کے درمیان مغایرت نہیں رہتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام کتابیں عین عدل و انصاف ہیں ؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ ایک ہی چیز کا ذکر جب اس کی مختلف صفات کے ساتھ کیا جائے تو اس کا عطف خود اس پر ہوسکتا ہے، کیونکہ صفات کے تغایر کو ذوات کے تغایر کی طرح قرار دے لیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے :(سبح اسم ربک الاعلی الذی خلق فسوی والذی قدر فھدی والذی اخرج المرعی ) (الاعلی : ١ تا ١٣) ان آیات میں ” الذی “ (وہ ذات) کو عطف کے ساتھ الگ الگ بیان کیا گیا ہے، حالانکہ وہ ایک ہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر جملے میں وہ الگ الگ صفت کے ساتھ مذکور ہے۔ کلام عرب میں سے اس کی مثال یہ شعر ہے۔- الی الملک الفرم وابن الھمام ولیت الکتیبۃ فی المردحم (اضواء البیان)- (٣) وما یدریک لعل الساعۃ قریب : اور تجھے کیا چیز آگاہ کرتی ہے شاید کہ وہ قیامت بالکل نزدیک ہو اور جو سانس تم لے رہی ہو یہی آخری ہو، اسلئے اس فکر میں مت پڑو کہ وہ کب ہے، بلکہ یہ فکر کرو کہ تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے۔ انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بادیہ والوں میں سے ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا :(یا رسول اللہ متی الساعۃ قائمۃ ؟ قال ویلک وما اعددت لھا ؟ قال ما اعددت لھا الا انی احب اللہ و رسولہ، قال انک مع من احبیت ففلنا و نحن کذلک ؟ قال نعم ، ففرحنا یومئذ فرحاً شدیداً فمر غلام للمغیرۃ و کان من افرانی فقال ان اخر ھذا فلن یدرکہ الھرم حتی تقوم الساعۃ ( ) بخاری، الادب، باب ماجائ، فی قول الرجل وبلک، 6168)” یا رسول اللہ چ قیامت کب قائم ہونے والی ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” افسوس تم پر تم نے اس کے لئے تیاری کیا کی ہے ؟ “ اس نے کہا :” میں نے اس کے لئے اس کے سوا کوئی تیاری نہیں کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم یقیناً اس کے ساتھ ہوگے جس سے تمہیں محبت ہوگی۔ “ تو ہم نے کہا :” اور ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہاں “ تو ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے۔ مغیرہ کا ایک غلام وہاں سے گزرا، وہ میرا ہم عمر تھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اگر اس کی عمر دراز ہوئی تو اسے سخت بڑھاپا آنے سے پہلے پہلے قیامت قائم ہوجائے گی۔ “ مراد اس وقت موجود لوگوں کی قیامت ہے۔ حدیث میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر آدمی کی موت کو اس کے لئے قیامت قرار دیا، کیونکہ اس کے ساتھ اس کے لئے عمل کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔- (٤) یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ ” الساعۃ “ مونث ہے، اس کی خبر ” قریب “ مذکر ہے، حالانکہ دونوں میں مطابقت ہونی چاہیے ؟ جواب کے لئے دیکھیے سورة اعراف کی آیت (٥٦) :(ان رحمت اللہ قریب من المحسنین) کی تفسیر۔
(آیت) اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بالْحَقِّ وَالْمِيْزَان کتاب سے مراد اس جگہ مطلق آسمانی کتاب ہے جس میں قرآن اور پہلی کتابیں سب داخل ہیں اور حق سے مراد وہ دین حق ہے جس کا ذکر اوپر آیا ہے اور میزان کے لفظی معنی ترازو کے ہیں وہ چونکہ انصاف قائم کرنے اور حق پورا دینے کا ایک آلہ ہے۔ اس لئے حضرت ابن عباس نے میزان کی تفسیر عدل و انصاف سے کی ہے۔ مجاہد امام تفسیر نے فرمایا کہ یہاں میزان سے مراد وہ عام ترازو ہے جس کو لوگ استعمال کرتے ہیں اور مراد اس سے سب کے حقوق کی پوری ادائیگی اور انصاف ہے۔ تو لفظ حق میں سب حقوق اللہ اور لفظ میزان میں سب حقوق العباد کی طرف اشارہ ہوگیا۔- اور یہ جو فرمایا کہ مومنین قیامت سے ڈرتے ہیں۔ مراد اس سے اعتقادی خوف ہے جو قیامت کے اہوال سے ہے۔ نیز اپنی عملی کوتاہیوں پر نظر کرنے سے لازمی ہوتا ہے۔ مگر بعض اوقات کسی مومن پر اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق غالب ہو کر اس خوف پر غالب آجاتا ہے وہ اس کے منافی نہیں۔ جیسا کہ قبر میں بعض مردوں کا یہ کہنا ثابت ہے کہ قیامت جلد آجائے، وجہ یہ ہے کہ قبر میں جب فرشتوں کی طرف سے انسان کو بشارت رحمت و مغفرت کی مل جائے گی تو قیامت کا خوف مغلوب ہوجائے گا۔
اَللہُ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ ٠ ۭ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِيْبٌ ١٧- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- وزن - الوَزْنُ : معرفة قدر الشیء . يقال : وَزَنْتُهُ وَزْناً وزِنَةً ، والمتّعارف في الوَزْنِ عند العامّة : ما يقدّر بالقسط والقبّان . وقوله : وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ، وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] إشارة إلى مراعاة المعدلة في جمیع ما يتحرّاه الإنسان من الأفعال والأقوال . وقوله تعالی: فَلا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ وَزْناً- [ الكهف 105] وقوله : وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] فقد قيل : هو المعادن کالفضّة والذّهب، وقیل : بل ذلک إشارة إلى كلّ ما أوجده اللہ تعالی، وأنه خلقه باعتدال کما قال : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] - ( و زن ) الوزن )- تولنا ) کے معنی کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے ہیں اور یہ وزنتہ ( ض ) وزنا وزنۃ کا مصدر ہے اور عرف عام میں وزن اس مقدار خاص کو کہتے جو ترا زو یا قبان کے ذریعہ معین کی جاتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقِيمِ [ الشعراء 182] ترا زو سیدھی رکھ کر تولا کرو ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ [ الرحمن 9] اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تو لو ۔ میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اپنے تمام اقوال وافعال میں عدل و انصاف کو مد نظر رکھو اور آیت : ۔ وَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ [ الحجر 19] اور اس میں ہر ایک سنجیدہ چیز چیز اگائی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کہ شی موزون سے سونا چاندی وغیرہ معد نیات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی مو جو دات مراد ہیں اور بعض نے ہر قسم کی موجادت مراد لی ہیں اور آیت کے معنی یہ کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو اعتدال اور تناسب کے ساتھ پید ا کیا ہے جس طرح کہ آیت : ۔ إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر ہ کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے - دری - الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما - يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه «1» ، نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب - ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) - الدریۃ - ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے
اللہ ہی ہے جس نے بذریعہ جبریل امین قرآن حکیم نازل کیا ہے جس میں حق و باطل کو اور عدل و انصاف کو بیان کردیا گیا ہے اور محمد آپ کو کیا خبر عجب نہیں کہ قیامت قریب ہو۔
آیت ١٧ اََللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ ” اللہ ہی ہے جس نے اتاری ہے کتاب بھی اور میزان بھی حق کے ساتھ۔ “- قرآن میں صرف دو ہی مقامات ایسے ہیں جہاں کتاب اور میزان کے الفاظ ایک ساتھ اکٹھے آئے ہیں۔ ایک تو آیت زیر مطالعہ اور دوسری سورة الحدید کی یہ آیت : لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج… (آیت ٢٥) ” ہم نے بھیجے اپنے رسول واضح دلیلوں کے ساتھ اور ہم نے نازل کی ان کے ساتھ کتاب اور میزان تاکہ قائم رہیں لوگ عدل پر “۔ میزان دراصل دین حق کے عملی نظام کا نام ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ ” کتاب “ ہر ایک کا حق مقرر کرتی ہے اور ” میزان “ ناپ تول کر کے یہ حق حقدار کو دیتی ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں دین بھی دیا ہے اور نظام بھی۔ اگر نظام نہ ہوتا تو دین کے مطابق فیصلے کیسے ہوتے اور پھر ان فیصلوں پر عمل درآمد کیونکر ہوتا ؟ - وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیْبٌ ” اور تمہیں کیا معلوم کہ قیامت قریب ہی ہو “- ” السَّاعۃ “ سے مراد قیامت کی گھڑی ہے ‘ اگرچہ انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو ہر شخص کی موت ہی گویا اس کی قیامت ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے : (مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُـہٗ ) (١) ” جس کو موت آگئی پس اس کی قیامت تو قائم ہوگئی “۔ مقامِ غور ہے کہ اس حوالے سے ہمیں کس قدر مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف ہم میں سے ہر ایک کی ” قیامت “ اس کے سر پر کھڑی ہے اور دوسری طرف اللہ کی ” میزان “ کو نصب کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے جو ہم سب کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ اب اگر ہم نے ابھی اور اسی وقت اس ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور اس کے لیے فوری طور پر ہم اپنا تن من دھن لگا دینے کے لیے میدانِ عمل میں نہ اترے تو نہ معلوم ہم میں سے کس کس کی مہلت ِعمل کچھ کیے بغیر ہی ختم ہوجائے۔ آج ہم میں سے کون کہہ سکتا ہے کہ اسے کل کا سورج بھی دیکھنا نصیب ہوگا یا نہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مزید وقت ضائع کیے بغیر اس ِجدوجہد ّمیں جت جائیں۔ اس فیصلے کے لیے تاخیر اور تاجیل میں وقت ضائع کرنا سب سے بڑی حماقت ہے :
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :32 میزان سے مراد اللہ کی شریعت ہے جو ترازو کی طرح تول کر صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، ظلم اور عدل ، راستی اور ناراستی کا فرق واضح کر دیتی ہے ۔ اوپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ کہلوایا گیا تھا کہ : اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ( مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں ) ۔ یہاں بتا دیا گیا کہ اس کتاب پاک کے ساتھ وہ میزان آ گئی ہے جس کے ذریعہ سے یہ انصاف قائم کیا جائے گا ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :33 یعنی جس کو سیدھا ہونا ہے بلا تاخیر سیدھا ہو جائے ۔ فیصلے کی گھڑی کو دور سمجھ کر ٹالنا نہیں چاہیے ۔ ایک سانس کے متعلق بھی آدمی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد دوسرے سانس کی اسے مہلت ضرور ہی مل جائے گی ۔ ہر سانس آخری سانس ہو سکتا ہے ۔