غفورو رحیم اللہ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے روزی پہنچا رہا ہے ایک بھی نہیں جسے اللہ بھول جائے نیک بد ہر ایک اس کے ہاں کا وظیفہ خوار ہے جیسے فرمایا ( وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَــقَرَّهَا وَمُسْـتَوْدَعَهَا ۭ كُلٌّ فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ Č ) 11-ھود:6 ) ، زمین پر چلنے والے تمام جانداروں کی روزیوں کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے وہ ہر ایک کے رہنے سہنے کی جگہ کو بخوبی جانتا ہے اور سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوا بھی ہے وہ جس کے لئے چاہتا ہے کشادہ روزی مقرر کرتا ہے وہ طاقتور غالب ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی پھر فرماتا ہے جو آخرت کے اعمال کی طرف توجہ کرتا ہے ہم خود اس کی مدد کرتے ہیں اسے قوت طاقت دیتے ہیں اس کی نیکیاں بڑھاتے رہتے ہیں کسی نیکی کو دس گنی کر دیتے ہیں کسی کو سات سو گنا کسی کو اس سے بھی زیادہ الغرض آخرت کی چاہت جس دل میں ہوتی ہے اس شخص کو نیک اعمال کی توفیق اللہ کی طرف سے عطا فرمائی جاتی ہے ۔ اور جس کی تمام کوشش دنیا حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں آخرت کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی تو وہ دونوں جہاں سے محروم رہتا ہے دنیا کا ملنا اللہ کے ارادے پر موقوف ہے ممکن ہے وہ ہزاروں جتن کر لے اور دنیا سے بھی محروم رہ جائے دوسری آیت میں اس مضمون کو مقید بیان کیا گیا ہے ۔ فرمان ہے ( مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18 ) 17- الإسراء:18 ) ، یعنی جو شخص دنیا کا ہو گا ایسے لوگوں میں سے ہم جسے چاہیں اور جتنا چاہیں دے دیں گے پھر اس کے لئے جہنم تجویز کریں گے جس میں وہ بدحال اور راندہ درگاہ ہو کر داخل ہو گا اور جو آخرت کی طلب کرے گا اور اس کے لئے جو کوشش کرنی چاہیے کرے گا اور وہ با ایمان بھی ہو گا ۔ تو ناممکن ہے کہ اس کی کوشش کی قدر دانی نہ کی جائے ۔ دنیوی بخشش و عطا تو عام ہے ۔ اس سے ہم ان سب کی امداد کیا کرتے ہیں اور تیرے رب کی یہ دنیوی عطا کسی پر پسند نہیں ، خود دیکھ لو کہ ہم نے ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دے رکھی ہے یقین مان لو کہ درجوں کے اعتبار سے بھی اور فضیلت کی حیثیت سے بھی آخرت بہت بڑی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اس امت کو برتری اور بلندی کی نصرت اور سلطنت کی خوشخبری ہو ان میں سے جو شخص دینی عمل دنیا کے لئے کرے گا اسے آخرت میں کوئی حصہ نہ ملے گا پھر فرمایا ہے کہ یہ مشرکین دین اللہ کی تو پیروی کرتے نہیں بلکہ جن شیاطین اور انسانوں کو انہوں نے اپنا بڑا سمجھ رکھا ہے یہ جو احکام انہیں بتاتے ہیں انہی احکام کے مجموعے کو دین سمجھتے ہیں ۔ حلال و حرام کا تعین اپنے ان بڑوں کے کہنے پر کرتے ہیں انہی کے ایجاد کردہ عبادات کے طریقے استعمال کر رہے ہیں اسی طرح مال کے احکام بھی ازخود تراشیدہ ہیں جنہیں شرعی سمجھ بیٹھے ہیں چنانچہ جاہلیت میں بعض جانوروں کو انہوں نے از خود حرام کر لیا تھا مثلا وہ جانور جس کا کان چیر کر اپنے معبودان باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور داغ دے کر سانڈ چھوڑ دیتے تھے اور مادہ بچے کو حمل کی صورت میں ہی ان کے نام کر دیتے تھے جس اونٹ سے دس بچے حاصل کرلیں اسے ان کے نام چھوڑ دیتے تھے پھر انہیں ان کی تعظیم کے خیال سے اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے ۔ اور بعض چیزوں کو حلال کر لیا تھا جیسے مردار ، خون اور جوا ۔ صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے عمرو بن لحی بن قمعہ کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے غیر اللہ کے نام پر جانوروں کا چھوڑنا بتایا یہ شخص خزاعہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھا اسی نے سب سے پہلے ان کاموں کی ایجاد کی تھی ۔ جو جاہلیت کے کام عربوں میں مروج تھے ۔ اسی نے قریشیوں کو بت پرستی میں ڈال دیا اللہ اس پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے ۔ فرماتا ہے کہ اگر میری یہ بات پہلے سے میرے ہاں طے شدہ نہ ہوتی کہ میں گنہگاروں کو قیامت کے آنے تک ڈھیل دوں گا تو میں آج ہی ان کفار کو اپنے عذاب میں جکڑ لیتا اب انہیں قیامت کے دن جہنم کے المناک اور بڑے سخت عذاب ہوں گے میدان قیامت میں تم دیکھو گے کہ یہ ظالم لوگ اپنے کرتوتوں سے لرزاں و ترساں ہوں گے ۔ مارے خوف کے تھرا رہے ہوں گے لیکن آج کوئی چیز نہ ہوگی جو انہیں بچا سکے ۔ آج تو یہ اعمال کا مزہ چکھ کر ہی رہیں گے ان کے بالکل برعکس ایماندار نیکو کار لوگوں کا حال ہو گا کہ وہ امن چین سے جنتوں کے باغات میں مزے کر رہے ہوں گے ان کی ذلت و رسوائی ڈر خوف ان کی عزت بڑائی امن چین کا خیال کر لو وہ طرح طرح کی مصیبتوں تکلیفوں میں ہوں گے یہ طرح طرح کی راحتوں اور لذتوں میں ہوں گے ۔ عمدہ بہترین غذائیں ، بہترین لباس ، مکانات ، بہترین بیویاں اور بہترین سازو سامان انہیں ملے ہوئے ہوں گے جن کا دیکھنا سننا تو کہاں ؟ کسی انسان کے ذہن اور تصور میں بھی یہ چیزیں نہیں آسکتیں ۔ حضرت ابو طیبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتیوں کے سروں پر ابر آئے گا اور انہیں ندا ہو گی کہ بتاؤ کس چیز کی بارش چاہتے ہو؟ پس جو لوگ جس چیز کی بارش چاہیں گے وہی چیز ان پر اس بادل سے برسے گی یہاں تک کہ کہیں گے ہم پر ابھرے ہوئے سینے والی ہم عمر عورتیں برسائی جائیں چنانچہ وہی برسیں گی ۔ اسی لئے فرمایا کہ فضل کبیر یعنی زبردست کامیابی کامل نعمت یہی ہے ۔
اور جس کا ارادہ آخر کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے (1) اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس دنیا میں سے ہی کچھ دے دیں گے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
[٢٩] لطیف کا مفہوم :۔ لطیف کا معنی عموماً مہربان کرلیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا معنی اردو میں کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کے مادہ لطف کے بنیادی معنی میں دو باتیں پائی جاتی ہیں (١) دقّت نظر، (٢) نرمی، (مقاییس اللغہ) اور لطیف کے معنی میں کبھی صرف ایک ہی بات یعنی دقت نظر یا باریک بینی یا راز یا چھوٹی چھوٹی جزئیات تک سے آگاہی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ جیسے ( لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣۔ ) 6 ۔ الانعام :103) میں ہے۔ اور کبھی دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ جیسے اس مقام پر دونوں چیزیں موجود ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی چھوٹی چھوٹی اور رتی رتی تکالیف کا علم اور اس کی خبر بھی رکھتا ہے پھر از راہ مہربانی ان کا ازالہ بھی کردیتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے بندوں کی چھوٹی چھوٹی حاجات اور ضروریات کا خیال رکھتا ہے پھر از راہ مہربانی انہیں پورا بھی کرتا رہتا ہے۔- [٣٠] یعنی اللہ تعالیٰ کا لطف تو عام ہے جو بندوں کو یکساں پہنچ رہا ہے۔ لیکن رزق میں معاملہ اس سے الگ ہے۔ وہ ہر ایک کو یکساں نہیں ملتا۔ بلکہ اپنی حکمت کے پیش نظر کسی کو زیادہ دے دیتا ہے اور کسی کو کم یہ اس کی مشیئت پر منحصر ہے۔ البتہ ہر ایک کو دیتا ضرور ہے۔ جتنا رزق اس نے کسی کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ کوئی طاقت یا کوئی ہستی اس کی مقدار کو نہ بڑھا سکتی ہے اور نہ اس کا رزق کم کرسکتی یا روک سکتی ہے۔ کیونکہ وہ خود سب سے بڑھ کر طاقتور اور زبردست ہے۔
(١) اللہ لطیف بعبادہ :” لطیف “ ایسی چیز جو گرفت میں نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ” لطیف “ اس لحاظ سے ہے کہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی تدبیر نہایت باریک ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی۔ اس لحاظ سے اس کا معنی طف و کرم کرنے والا بھی ہے کہ وہ ایسے باریک طریقے سے مہربانی فرماتا ہے کہ نظر ہی نہیں آتا کہ یہ کیسے ہوگئی۔ (مفردات) گویا ” لطیف “ میں دو صفتیں جمع ہیں، ایک نہایت باریک بین اور دوسری نہایت مہربانی والا۔ ان کے ضمن میں کمال علم بھی ہے جس کے بغیر باریک بینی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بندوں پر لطیف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ان کی کوئی چھوٹی سے چھوٹی مادی یا روحانی ضرورت پوشیدہ نہیں اور وہ اپنی کمال مہربانی اور باریک طریقوں سے ایسے انتظام فرماتا ہے کہ ہر بندے کی بلکہ ہر مخلوق کی ضرورت جو اس کے حسب حال ہو، پوری ہو اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ وہ کیسے پوری ہوگئی۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ ” بعبادہ “ کا لفظ اگرچہ عام ہے مگر اس سے مراد یہاں اللہ کے مومن بندے ہیں اور بعض نے فرمایا کہ ” بعبادہ “ میں مومن و کافر دونوں شامل ہیں، دنیا میں دونوں اس کے لطف عام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، البتہ آخرت میں اس کا لطف و کرم مومنوں کیلئے خاص ہوگا۔- (٢) یرزق من یشآء : اسی لئے ان میں سے بیشمار لوگوں کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے کے باوجود بھوکا نہیں مارتا، بلکہ ان کی تمام ضرورتیں اپنے لطف و کرم سے پوری کرتا ہے۔ مگر جسے چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے رزق دیتا ہے اور جس کی روزی کا دفتر بند کرنا چاہتا ہے کہ کردیتا ہے۔ یہ بات یہاں ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ اکثر لوگ رزق کے پیچھے رزاق کو بھول جاتے ہیں۔- (٣) وھو القوی : یعنی وہ جو کرنا چاہیے، جسے جتنا رزق دینا چاہے اس کی پوری قوت رکھتا ہے، کسی کام میں کسیک ا محتاج نہیں۔- (٤) العزیز : یعنی دوسرے تمام معاملات کی طرح رزق کے معاملے میں بھی کسی کا اس پر زور نہیں کہ وہ دینا چاہے تو کوئی اسے روک سکے، یا نہ دینا چاہے تو کوئی اس سے لے سکے۔ خبر ” القوی العزیز “ پر الف لام سے قصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی دونوں صفتیں صرف اس میں ہیں، کسی اور میں نہیں، جیسا کہ فرمایا :(اللھم لا مابع لما اعطیت ، ولا معطی لما منعت) (بخاری ، القدر باب لامانع لما اعطی اللہ، 6625) ” اے اللہ تو جو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ کوئی دینے والا نہیں۔ “
خلاصہ تفسیر - اور یہ لوگ جو دنیا کی ناز و نعمت پر مغرور ہو کر آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ اگر ہمارا عمل اللہ کی رضا کے خلاف ہوتا تو ہم کو یہ عیش و عشرت کیوں دیتا خوب سمجھ لو کہ یہ ان کی بھول ہے، یہ دنیا کی دولت و نعمت دلیل رضا نہیں بلکہ اس کی وجہ تو یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ (دنیا میں) اپنے بندوں پر (عام طور سے) مہربان ہے (اسی رحمت عامہ کے سبب سب کو روزی دیتا ہے صحت و تندرستی دیتا ہے جس میں مصالح و حکمت کی بنا پر کمی و بیشی بھی ہوتی ہے کہ) جس کو (جس قدر) چاہتا ہے روزی دیتا ہے (مگر نفس روزی سب میں مشترک ہے) اور (دنیا میں اس لطف و مہربانی سے یہ سمجھ لینا کہ ان کا طریقہ حق ہے اور آخرت میں بھی لطف و مہربانی جاری رہے گی سراسر دھوکہ ہے۔ وہاں تو ان کے اعمال بد پر عذاب ہوگا جو کوئی مستبعد نہیں کیونکہ) وہ قوت والا زبردست ہے (غرض ان کی ساری خرابیوں کی جڑ دنیا پر مغرور ہونا ہے۔ ان کو چاہئے کہ اس سے باز آجائیں اور آخرت کی فکر کریں کیونکہ) جو شخص آخرت کی کھیتی کا طالب ہو۔ ہم اس کو اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے (اعمال صالحہ کھیتی اور اس پر ملنے والا ثواب اس کا پھل ہے اور اس کی ترقی یہ ہے کہ ثواب مضاعف ملے گا، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا) اور جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہو (یعنی سارے عمل و سعی کا مقصد دنیا کی متاع ہو، آخرت کے لئے کچھ کوشش نہ کرے) تو ہم اس کو کچھ دینا (اگر چاہیں) دے دیں گے اور آخرت میں اس کو کچھ حصہ نہیں (کیونکہ اس کی شرط ایمان ہے وہ ان میں ہے نہیں) ۔- معارف و مسائل - اَللّٰهُ لَطِيْفٌۢ بِعِبَادِهٖ ۔ لفظ لطیف لغت کے اعتبار سے چند معانی میں استعمال ہوتا ہے یہاں حضرت ابن عباس نے اس کا ترجمہ حفی بمعنی مہربان سے اور حضرت عکرمہ نے بار یعنی محسن سے کیا ہے۔- حضرت مقاتل نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے سبھی بندوں پر مہربان ہے۔ یہاں تک کہ کافر فاجر پر بھی دنیا میں اس کی نعمتیں برستی ہیں حق تعالیٰ کی عنایات اور لطف و کرم اپنے بندوں پر بیشمار انواع و اقسام کے ہیں۔ اس لئے تفسیر قرطبی نے لفظ لطیف کے معنی بھی بہت سے بیان فرمائے ہیں۔ اور حاصل سب کا لفظ حفی اور بار میں شامل ہے۔- اللہ تعالیٰ کا رزق تو ساری مخلوقات کے لئے عام اور شامل ہے۔ دریا اور خشکی میں رہنے والے وہ جانور جن کو کوئی نہیں جانتا اس کا رزق ان کو بھی پہنچتا ہے۔ اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا کہ رزق دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اس کا حاصل زیادہ واضح وہ ہے جس کو تفسیر مظہری نے اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رزق کی بیشمار اقسام و انواع ہیں۔ بقدر ضرورت معاش رزق تو سب کے لئے عام ہے۔ پھر خاص خاص اقسام رزق کی تقسیم میں اپنی حکمت بالغہ سے مختلف درجات اور پیمانے رکھے ہیں۔ کسی کو مال و دولت کا رزق زیادہ دے دینا۔ کسی کو صحت وقوت کا، کسی کو علم و معرفت کا کسی کو دوسری انواع و اقسام کا اس طرح ہر انسان دوسرے کا محتاج بھی رہتا ہے اور یہی احتیاج ان کو باہمی تعاون و تناصر پر آمادہ کرتی ہے جس پر تمدن انسانی کی بنیاد ہے۔- حضرت جعفر بن محمد نے فرمایا کہ رزق کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی بندوں پر دو طرح کی ہے اول تو یہ کہ ہر ایک ذی روح کو اس کے مناسب حال غذاء اور ضروریات عطا فرماتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی کو اس کا پورا رزق عمر بھر کا بیک وقت نہیں دے دیتا، ورنہ اول تو اس کی حفاظت کرنا مشکل ہوجاتا اور کتنی بھی حفاظت کرتا وہ پھر بھی سڑنے اور خراب ہونے سے بچتا۔ (مظہری و مثلہ فی القرطبی)- ایک مجرب عمل :- مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری نے فرمایا کہ حضرت حاجی امداد اللہ سے منقول ہے کہ جو شخص صبح کو ستر مرتبہ پابندی سے یہ آیت پڑھا کرے وہ رزق کی تنگی سے محفوظ رہے گا۔ اور فرمایا کہ بہت مجرب عمل ہے۔ آیت یہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔- (آیت) اَللّٰهُ لَطِيْفٌۢ بِعِبَادِهٖ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيْزُ
اَللہُ لَطِيْفٌۢ بِعِبَادِہٖ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ ٠ ۚ وَہُوَالْقَوِيُّ الْعَزِيْزُ ١٩ ۧ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- لطف - اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ- [ الشوری 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، - ( ل ط ف ) اللطیف - ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ - اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خواہ نیک ہوں یا بد مہربان ہے، یا یہ کہ ان کو علم کی دولت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے مال کی وسعت عطا کرتا ہے، وہ بندوں کو رزق دینے میں قوت والا اور کافر کو سزا دینے میں زبردست ہے۔
آیت ١٩ اَللّٰہُ لَطِیْفٌٌم بِعِبَادِہٖ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ ” اللہ اپنے بندوں کے حق میں بہت مہربان ہے ‘ وہ رزق دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ “- لفظ ” لَطِیْفٌ“ میں لطف و کرم اور شفقت و مہربانی کے علاوہ باریک بین ہونے کا مفہوم بھی ہے۔ یعنی وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ - آیت زیر مطالعہ کے مندرجہ بالا الفاظ کو اقامت دین کی جدوجہد کے سیاق وسباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اقامت دین کی جدوجہد میں تمہیں یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کھائیں گے کہاں سے ‘ پہنیں گے کیا اور ہماری دوسری ضروریات کیسے پوری ہوں گی ؟ اس حوالے سے قبل ازیں (سورۃ العنکبوت ‘ آیت ٦٠ کے ذیل میں) متی کی انجیل سے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے وعظ کا درج ذیل اقتباس ہم پڑھ چکے ہیں۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنے شاگردوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :- ” تم خدا اور دولت دونوں کی خدمت نہیں کرسکتے۔ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے ؟ اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنیں گے ؟ کیا جان خوراک سے اور بدن پوشاک سے بڑھ کر نہیں ؟ ہوا کے پرندوں کو دیکھو نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے۔ نہ کو ٹھیوں میں جمع کرتے ہیں تو بھی تمہارا آسمانی باپ ان کو کھلاتا ہے۔ کیا تم ان سے زیادہ قدر نہیں رکھتے ؟ تم میں ایسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے ؟ اور پوشاک کے لیے کیوں فکر کرتے ہو ؟ جنگلی سو سن کے درختوں کو غور سے دیکھو کہ وہ کس طرح بڑھتے ہیں۔ وہ نہ محنت کرتے نہ کا تتے ہیں۔ تو بھی میں تم سے کہتا ہوں کہ سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے کسی کے مانند ملبس ّنہ تھا۔ پس جب خدا میدان کی گھاس کو جو آج ہے کل تنور میں جھونکی جائے گی ایسی پوشاک پہناتا ہے تو اے کم اعتقادو ‘ تم کو کیوں نہ پہنائے گا ؟ اس لیے فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے ؟ کیونکہ ان سب چیزوں کی تلاش میں غیر قومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔ بلکہ تم پہلے اس کی بادشاہی اور اس کی راست بازی کو تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی۔ پس کل کے لیے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لیے آپ فکر کرلے گا۔ آج کے لیے آج ہی کا دکھ کافی ہے۔ “ (متی ‘ باب ٦ : ٢٥۔ ٣٤ ‘ بحوالہ تدبر قرآن ‘ جلد پنجم ‘ ص ٦٠)- اس میں کیا شک ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کا رازق بھی ہے اور وہ اپنے بندوں کی ایک ایک حاجت سے باخبر اور ان کی ایک ایک خواہش سے آگاہ بھی ہے۔ آپ ایک دفعہ یکسو ہو کر فیصلہ تو کرو ‘ کہ اب اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کردینا ہے۔ پھر دیکھنا اللہ تعالیٰ تمہاری ضروریات کا خیال کیسے رکھتا ہے۔ اس کا وعدہ ہے : وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُط (الطلاق : ٣) ” اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے ‘ اور وہ اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا “۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس راستے میں طرح طرح کی آزمائشوں اور سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب بندہ اس مرحلے میں بھی صبر و استقامت کے مظاہرے سے اپنی وفاداری اور یکسوئی ثابت کر دے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے نئے نئے راستے کھول دیتا ہے اور ان راستوں پر چلنا اس کے لیے آسان کردیتا ہے۔- وَہُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ ” اور وہ تو بہت قوی ہے ‘ بہت زبردست ہے۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :34 اصل میں لفظ لَطِیْفٌ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مہربان سے ادا نہیں ہوتا ۔ اس لفظ میں دو مفہوم شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت و عنایت رکھتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑی باریک بینی کے ساتھ ان کی دقیق ترین ضروریات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جن تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی ، اور انہیں اس طرح پورا کرتا ہے کہ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتے کہ ہماری کونسی ضرورت کب کس نے پوری کر دی ۔ پھر یہاں بندوں سے مراد محض اہل ایمان نہیں ، بلکہ تمام بندے ہیں ، یعنی اللہ کا یہ لطف اس کے سب بندوں پر عام ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :35 مطلب یہ ہے کہ اس لطیف عام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ سب بندوں کو سب کچھ یکساں دے دیا جائے ۔ اگرچہ وہ اپنے خزانوں سے دے سب ہی کو رہا ہے ، مگر اس عطا اور دین میں یکسانیت نہیں ہے ۔ کسی کو کوئی چیز دی ہے تو کسی دوسرے کو کوئی اور چیز ۔ کسی کو ایک چیز زیادہ دی ہے تو کسی اور کو کوئی دوسری چیز فراوانی کے ساتھ عطا فرما دی ہے ۔ سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :36 یعنی اس کی عطا و بخشش کا یہ نظام اس کے اپنے زور پر قائم ہے ۔ کسی کا یہ بل بوتا نہیں ہے کہ اسے بدل سکے ، یا زبردستی اس سے کچھ لے سکے ، یا کسی کو دینے سے اس کو روک سکے ۔