توبہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنا احسان اور اپنا کرم بیان فرماتا ہے کہ وہ اپنے غلاموں پر اس قدر مہربان ہے کہ بد سے بد گنہگار بھی جب اپنی بد کرداری سے باز آئے اور خلوص کے ساتھ اس کے سامنے جھکے اور سچے دل سے توبہ کرے تو وہ اپنے رحم و کرم سے اس کی پردہ پوشی کرتا ہے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اپنا فضل اس کے شامل حال کر دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے ( وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١١٠ ) 4- النسآء:110 ) ، جو شخص بد عملی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو غفور و رحیم پائے گا ۔ صحیح مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ سے اس سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی اونٹنی جنگل بیابان میں گم ہو گئی ہو جس پر اس کا کھانا پینا بھی ہو یہ اس کی جستجو کر کے عاجز آکر کسی درخت تلے پڑ رہا اور اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا اونٹنی سے بالکل مایوس ہو گیا کہ یکایک وہ دیکھتا ہے کہ اونٹنی اس کے پاس ہی کھڑی ہے یہ فورا اٹھ بیٹھتا ہے اس کی نکیل تھام لیتا ہے اور اس قدر خوش ہوتا ہے کہ بےتحاشا اس کی زبان سے نکل جاتا ہے کہ یا اللہ بیشک تو میرا غلام ہے اور میں تیرا رب ہوں وہ اپنی خوشی کی وجہ سے خطا کر جاتا ہے ایک مختصر حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس قدر خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس شخص کو بھی نہیں ہوتی جو ایسی جگہ میں ہو جہاں پیاس کے مارے ہلاک ہو رہا ہو اور وہیں اس کی سواری کا جانور گم ہو گیا ہو جو اسے دفعتًا مل جائے ۔ حضرت ابن مسعود سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے برا کام کرتا ہے پھر اس سے نکاح کر سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نکاح میں کوئی حرج نہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی توبہ تو مستقبل کے لئے قبول ہوتی ہے اور برائیاں گذشتہ معاف کر دی جاتی ہیں تمہارے ہر قول و فعل اور عمل کا اسے علم ہے ۔ باوجود اس کے جھکنے والے کی طرف مائل ہوتا ہے اور توبہ قبول فرما لیتا ہے وہ ایمان والوں اور نیک کاروں کی دعا قبول فرماتا ہے وہ خواہ اپنے لئے دعا کریں خواہ دوسروں کے لئے ۔ حضرت معاذ ملک شام میں خطبہ پڑھتے ہوئے اپنے مجاہد ساتھیوں سے فرماتے ہیں تم ایمان دار ہو اور جنتی ہو اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ رومی اور فارسی جنہیں تم قید کر لائے ہو کیا عجب کہ یہ بھی جنت میں پہنچ جائیں کیونکہ ان میں سے جب تمہارا کوئی کام کر دیتا ہے تو تم اسے کہتے ہو اللہ تجھ پر رحم کرے تو نے بہت اچھا کام کیا اللہ تجھے برکت دے تو نے بہت اچھا کیا وغیرہ اور قرآن کا وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کی قبول فرماتا ہے پھر آپ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت فرمایا معنی اسکے یہ کہ اللہ ان کی سنتا ہے جو بات کو مان لیتے ہیں اور اس کی اتباع کرتے ہیں اور جیسے فرمایا آیت ( اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ 36۬ ) 6- الانعام:36 ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ اپنے فضل سے زیادتی دینا یہ ہے کہ ان کے حق میں ایسے لوگوں کی سفارش قبول فرما لے گا جن کے ساتھ انہوں نے کچھ سلوک کیا ہو ۔ حضرت ابراہیم نخعی نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے وہ اپنے بھائیوں کی سفارش کریں گے اور انہیں زیادہ فضل ملے گا یعنی بھائیوں کے بھائیوں کی بھی شفاعت کی اجازت ہو جائے گی مومنوں کی اس عزو شان کو بیان فرما کر کفار کی بد حالی بیان فرمائی کہ انہیں سخت دردناک اور گھبراہٹ والے عذاب ہونگے پھر فرمایا اگر ان بندوں کو ان کی روزیوں میں وسعت مل جاتی ان کی ضرورت سے زیادہ ان کے پلے پڑ جاتا تو یہ خرمستی میں آ کر دنیا میں ہلڑ مچا دیتے اور دنیا کے امن کو آگ لگا دیتے ایک دوسرے کو پھونک دینا بھون کھانا ۔ سرکشی اور طغیان تکبر اور بےپرواہی حد سے بڑھ جاتی اسی لئے حضرت قتادہ کا فلسفیانہ مقولہ ہے کہ زندگی کا سامان اتنا ہی اچھا ہے جتنے میں سرکشی اور لاابالی پن نہ آئے اس مضمون کی پوری حدیث کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر دنیا کی نمائش کا ہے پہلے بیان ہو چکی ہے پھر فرماتا ہے وہ ایک اندازے سے روزیاں پہنچا رہا ہے بندے کی صلاحیت کا اسے علم ہے ۔ غنا اور فقیری کے مستحق کو وہ خوب جانتا ہے قدسی حدیث شریف میں ہے میرے بندے ایسے بھی ہیں جن کی صلاحیت مالداری میں ہی ہے اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو وہ دینداری سے بھی جاتے رہیں گے ۔ اور بعض میرے بندے ایسے بھی ہیں کہ ان کے لائق فقیری ہی ہے اگر وہ مال حاصل کرلیں اور توانگر بن جائیں تو اس حالت میں گویا ان کا دین فاسد کر دوں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ لوگ باران رحمت کا انتظار کرتے کرتے مایوس ہو جاتے ہیں ایسی پوری حاجت اور سخت مصیبت کے وقت میں بارش برساتا ہوں ان کی ناامیدی اور خشک سالی ختم ہو جاتی ہے اور عام طور پر میری رحمت پھیل جاتی ہے امیرالمومنین خلیفتہ المسلمین فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب سے ایک شخص کہتا ہے امیر المومنین قحط سالی ہو گئی اور اب تو لوگ بارش سے بالکل مایوس ہوگئے تو آپ نے فرمایا جاؤ اب انشاء اللہ ضرور بارش ہو گی پھر اس آیت کی تلاوت کی وہ ولی و حمید ہے یعنی مخلوقات کے تصرفات اسی کے قبضے میں ہیں اس کے کام قابل ستائش و تعریف ہیں ۔ مخلوق کے بھلے کو وہ جانتا ہے اور ان کے نفع کا اسے علم ہے اس کے کام نفع سے خالی نہیں ۔
25۔ 1 توبہ کا مطلب ہے، معصیت پر ندامت کا اظہار اور آئندہ اس کو نہ کرنے کا عزم محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا یا اس گناہ اور معصیت کے کام کو تو نہ چھوڑنا اور توبہ کا اظہار کئے جانا، توبہ نہیں ہے۔ یہ استہزاء اور مذاق ہے۔ تاہم خالص اور سچی توبہ اللہ تعالیٰ یقینا قبول فرماتا ہے۔
[٣٩] توبہ کی شرائط :۔ یہ خطاب صرف ایمانداروں سے نہیں بلکہ ان کافروں کو بھی شامل ہے جو آپ پر الزام تراشیاں کرتے تھے۔ اس آیت میں انہیں اپنے انہی بداعمالیوں سے توبہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کافروں کی توبہ اسلام لانا ہے۔ اسلام لانے سے ہی ان کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اور اگر اس کا خطاب ایمانداروں سے ہو تو توبہ کی شرائط اپنے گناہ پر نادم ہونا، پھر اللہ کی طرف رجوع اور توبہ استغفار کرنا اور آئندہ اس کام کو مطلقاً چھوڑ دینے کا عہد کرنا ہے۔ توبہ کی سب سے اہم شرط یہی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے یہ کام چھوڑا جائے۔ اور کوئی شخص کسی دوسری وجہ سے کوئی گناہ کا کام چھوڑ دے تو اس پر توبہ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ مثلاً کسی شخص کو معلوم ہوجائے کہ شراب اس کی صحت تباہ کر رہی ہے اور وہ اپنے کئے پر نادم بھی ہوتا اور آئندہ کے لیے شراب نوشی ترک کر دے تو اس پر توبہ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس طرح کوئی زانی اپنے اس فعل پر نادم ہو اور یہ فعل آئندہ اس لیے ترک کردینے کا عہد کرے کہ اب وہ بوڑھا ہوچکا ہے اور زنا کے قابل ہی نہیں رہا۔ تو یہ اس کی توبہ نہ ہوگی۔ اور اللہ کو تو معلوم ہے کہ کوئی کس نیت سے توبہ کر رہا ہے۔
(١) وھو الذی یقبل الثوبۃ عن عبادہ : پچھلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلاتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے، اب اپنی توبہ قبول کرنے کی صفت فرمئای کہ توبہ قبول کرنا اور گناہوں سے درگزر کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے (دیکھیے توبہ : ١٠٤) اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کیونکہ اگر وہ چاہے تو مجرم کے معافی ماگننے پر بھی اسے معاف نہ کرے۔ مقصود انھیں توبہ کی ترغیب دلانا اور کفر پر اصرار کے انجام بد سے ڈرانا ہے۔ کفر سے توبہ اسلامق بول کرنے سے ہوتی ہے اور گناہ سے توبہ میں تین چیزیں شامل ہیں، ایک پچھلے گناہ پر ندامت، دوسرا اسے ترک کردینا، تیسرا آئندہ دو گناہ نہ کرنے کا عزم اور اگر گناہ کا تعلق بندوں کے حق سے ہے تو حسب استطاعت اسے ادا کردینا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا۔ اگر آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم نہ ہو تو توبہ کا کچھ مطلب نہیں۔ ایک فارسی شاعر نے کہا ہے۔- سجہ در کف ، توبہ برلب، دل پر از ذوق گناہ معصیت را خندہ مے آیدز استغفار ما - ” ہاتھ میں تسبیح ہے، زبان پر توبہ اور دل گناہ کی لذت سے بھرا ہوا ہے، گناہ کو ہمارے استغفار پر ہنسی آتی ہے۔ “- (٢) عن عبادہ : اس میں توبہ قبول کرنے کی ایک وجہ بیان فرمئای ہے کہ گناہ کر کے توبہ کرنے والے اس کے اپنے بندے ہیں اور وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٣٧) ، آل عمران (١٣٥) اور سورة نسائ (١١٠)- (٣) ویعفوا عن السیات : توبہ مستقبل کیلئے قبول ہوتی ہے اور برائیاں گزشتہ معاف کردی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے کہ توبہ پر گزشتہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے، بلکہ سورة فرقان کی آیت (٧٠) کے مطابق توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ کس قدر ہوتا ہے، اس کی تفصیل انس (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرمائی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(للہ اشد فرحا بتوبۃ عبدہ حین یتوب الیہ من احدکم کان علی راحلتہ بارض فلاۃ فانفلت منہ، وعلیھا، طعامہ و شرابہ فابس منھا، فنی شجرۃ فاضطجع فی ظلھا قد ابس من راحلتہ فبینا ھو جذلک اذا ھو بھا قائمۃ عندہ فاخذ بخطامھا تم قال من شدۃ الفرح اللھم انت عبدی واناربک اخطا من شدۃ الفرح) (مسلم، التوبۃ باب فی الحض علی التوبۃ و الفرح بھا :2888” یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ اس کی طرف توبہ کرتا ہے، اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا تم میں سے کوئی شخص خوش ہوتا ہے، جو کسی بیابان میں اپنی اونٹنی پر سوار تھا تو وہ اس سے چھوٹ کر نکل گئی، اس کا کھانا اور پانی بھی اسی پر تھا۔ تو وہ اس سے ناامید ہوگیا اور ایک درخت کے پاس جا کر اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ حال اس کا یہ تھا کہ وہ اپنی اونٹنی سے مایوس ہوچکا تھا، وہ اسی حالت میں تھا کہ اچانک اس نے اسے دیکھا کہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی تھی، چناچہ اس نے اس کی مہار پکڑ لی، پھر شدید خوشی میں کہنے لگا :” اے اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب۔ “ خوشی کی شدت سے غلطی کر بیٹھا۔ “- (٤) اللہ تعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ بعض اوقات توبہ کے بغیر بھی گناہ معاف فرما دیتا ہے، جیسا کہ ہجرت کے بعد پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، حج مبرور کے بعد پہلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، شہادت فی سبیل اللہ سے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور نیکیوں کی کثرت سے گناہ مٹ جاتے ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ان الحسنت یذھبن السیات) (ھود : ١١٣)” بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔ “ اور کبیرہ گناہوں کے اجتناب سے صغیرہ گناہ خود بخود معاف ہوجاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب مومن کو، اگر وہ توبہ نہ کرے تو کافر یا ابدی جہنمی قرار دیتے ہیں، ان کی بات درست نہیں۔- (٥) ویعلم ماتفعلون : اس جملے میں بشارت بھی ہے اور نذرات بھی۔ عمل کا داور م دار دل کی حلات پر ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے اخلاص سے توبہ کی گئی ہے تو نص - اسے جانتا ہے اور اسے قبولیت سے نوازے گا اور اگر توبہ اپنے کسی دنیوی مقصد کے لئے کی گئی ہو، مثلاً ریا کے طور پر یا آئندہ توڑ ڈالنے کے ارادے سے، یا کسی دنیوی فائدے کے لئے مثلاً صحت و قوت کے لئے زنا، سگریٹ یا شراب کو ترک کیا گیا ہے تو وہ اسے بھی جانتا ہے۔
دوسری آیت میں منکرین و معاندین کو نصیحت کی گئی ہے کہ اب بھی کفر و انکار سے باز آجائیں اور توبہ کرلیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے، توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرما لیتا ہے اور ان کی خطاؤں کو بخش دیتا ہے۔- توبہ کی حقیقت :- توبہ کے لفظی معنی لوٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں، اور شرعی اصطلاح میں کسی گناہ سے باز آنے کو توبہ کہتے ہیں۔ اور اس کے صحیح و معتبر ہونے کے لئے تین شرائط ہیں۔- ایک یہ کہ جس گناہ میں فی الحال مبتلا ہے اس کو فوراً ترک کر دے، دوسرے یہ کہ ماضی میں جو گناہ ہوا اس پر نادم ہو، اور تیسرے یہ کہ آئندہ اسے ترک کرنے کا پختہ عزم کرلے اور کوئی شرعی فریضہ چھوڑا ہوا ہے تو اسے ادا یا قضا کرنے میں لگ جائے اور اگر گناہ حقوق العباد سے متعلق ہے تو اس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر کسی کا مال اپنے اوپر واجب ہے اور وہ شخص زندہ ہے تو یا اسے وہ مال لوٹائے یا اس سے معاف کرائے اور اگر وہ زندہ نہیں اور اس کے ورثہ موجود ہیں تو ان کو لوٹائے، اگر ورثہ بھی نہیں ہیں تو بیت المال میں داخل کرائے، بیت المال بھی نہیں ہے یا اس کا انتظام صحیح نہیں ہے تو اس کی طرف سے صدقہ کر دے، اور اگر کوئی غیر مالی حق کسی کا اپنے ذمہ واجب ہے، مثلاً کسی کو ناحق سنایا ہے، برا بھلا کہا ہے یا اس کی غیبت کی ہے تو اسے جس طرح ممکن ہے راضی کر کے اس سے معافی حاصل کرے۔- اور یہ تو ہر قسم کی توبہ کے لئے ضروری ہے ہی کہ گناہ کا ترک کرنا اللہ کے لئے ہے، اپنے کسی جسمانی ضعف یا مجبوری کی بنا پر نہ ہو۔ اور شریعت میں اصل مطلوب تو یہ ہے کہ توبہ سارے ہی گناہوں سے کی جائے، لیکن اگر صرف کسی خاص گناہ سے توبہ کی گئی تو اہل سنت کے مسلک کے مطابق اس گناہ کی حد تک تو معافی ہوجائے گی، دوسرے گناہوں کا وبال سر پر رہے گا۔
وَہُوَالَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَيَعْفُوْا عَنِ السَّـيِّاٰتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ ٢٥ ۙ- قبل ( تقبل)- قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی:- إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل :- فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي - اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران 37] پروردگار - نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے - توب - التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار،- فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول :- فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع :- ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة 54] - ( ت و ب ) التوب - ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے - کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں - ۔ پہلی صورت - یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ - دوسری صورت - یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ - تیسری صورت - یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر - شرعا توبہ - جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- عفو - العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر :- 323-- أخذ البلی أبلادها - «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر :- 324-- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله - «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره .- ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
(٢٥۔ ٢٥) اور ان لوگوں کی مغفرت کرتا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور اپنے فضل سے جنت میں ان کو ثواب و اعزاز میں ترقی دیتا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنا دیدار نصیب فرماتا ہے اور ابوجہل وغیرہ کے لیے تو سخت عذاب ہے۔
آیت ٢٥ وَہُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْن ” اور وہی ہے کہ جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور ان کی بہت سی برائیوں سے درگزر کرتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو ۔ “
سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :47 پچھلی آیت کے معاً بعد توبہ کی ترغیب دینے سے خود بخود یہ مضمون نکلتا ہے کہ ظالمو ، سچے نبی پر یہ جھوٹے الزامات رکھ کر کیوں اپنے آپ کو اور زیادہ خدا کے عذاب کا مستحق بناتے ہو ، اب بھی اپنی ان حرکتوں سے باز آ جاؤ اور توبہ کرلو تو اللہ معاف فرما دے گا ۔ توبہ کے ایک معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے کیے پر نادم ہو ، جس برائی کا وہ مرتکب ہوا ہے یا ہوتا رہا ہے اس سے باز آجائے ، اور آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرے ۔ نیز یہ بھی سچی توبہ کا لازمی تقاضا ہے کہ جو برائی کسی شخص نے پہلے کی ہے اس کی تلافی کرنے کی وہ اپنی حد تک پوری کوشش کرے ، اور جہاں تلافی کی کوئی صورت ممکن نہ ہو ، وہاں اللہ سے معافی مانگے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کے اس دھبے کو دھوتا رہے جو اس نے اپنے دامن پر لگا لیا ہے ۔ لیکن کوئی توبہ اس وقت تک حقیقی توبہ نہیں ہے جب تک کہ وہ اللہ کو راضی کرنے کی نیت سے نہ ہو ۔ کسی دوسری وجہ یا غرض سے کسی برے فعل کو چھوڑ دینا سرے سے توبہ کی تعریف ہی میں نہیں آتا ۔