Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٧] قرآن میں اکثر مقامات پر کشتیوں کی روانی کو اللہ کی آیات میں شمار کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ قریش مکہ کو تجارتی سلسلہ میں افریقہ کے ساحلی علاقہ سے تجارت کے لیے بحیرہ احمر کا سفر درپیش رہتا تھا۔ اس دور میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جن کی روانی اور رفتار کا انحصار باد موافق پر اور اس کی رفتار پر ہوتا تھا۔ انہیں بتایا یہ جارہا ہے کہ تمہاری بےبسی کا یہ عالم ہے کہ جب تمہاری کشتی وسط سمندر میں پہنچ جائے اور اللہ تعالیٰ ہوا کو ساکن کردے تو بتاؤ اس وقت تم کیا کرسکتے ہو ؟- [٤٨] صبار اور شکور دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور یہ دو ایسے الفاظ ہیں جن میں مومن کی ساری زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ یعنی مومن پر جب بھی کوئی مصیبت یا تکلیف آتی ہے تو وہ صبر اور برداشت سے کام لیتا ہے۔ اور جب بھی اللہ کی کوئی نعمت ملتی ہے یا اسے بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کا احسان مند ہوتا اور اس کا شکر ادا کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک کافر اور دنیادار انسان کا یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ مصیبت پڑنے پر جزع فزع کرتا، اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر اسے کو سنے لگتا ہے۔ اور جب اسے کوئی بھلائی نصیب ہوتی یا خوشحالی کا دور آتا ہے تو پھر وہ اللہ کو بھول ہی جاتا ہے۔ گویا ایک مومن کو سمندر کے سفر میں صبر اور شکر کا اکثر موقع ملتا رہتا ہے۔ وہ سازگار حالات میں اللہ کا شکر کرتا ہے اور اگر ہوا بند ہوجائے تو اس کی نظر اللہ ہی پر رہتی ہے اور صبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ان یشا یسکن الریح …:” رواکد “” رکد یرکد رکوداً “ (ن) سے اسم فاعل ” راکدۃ “ کی جمع ہے۔ نزول قرآن کے وقت سمندر میں بادبانی کشتیاں اور جہاز چلتے تھے ، جن کے چلنے نہ چلنے کا اور سست یا تیز رفتار سے چلنے کا دار و مدار ہوا پر ہوتا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے سمندروں میں جہازوں کو چلانے والی ہواؤں کی تین حالتیں بیان فرمائی ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ہوا کو ساکن کر دے اور جہاز جہاں کھڑے ہیں وہیں کھڑے رہ جائیں، پھر اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو اس ہوا کو چلا دے ؟- (٢) او یو بفھن بما کسبوا : اس کا عطف ” یسکن الریح “ پر ہے، گویا عبارت اس طرح ہے :” ان یشا یکسن الریح او ان یشاء یوبقھن بما کسبوا “ یعنی ” اگر وہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر دے یا اگر وہ چاہے تو ان کے اعمال بد کی وجہ سے تند و تیز طوفانی ہوا کے ساتھ انہیں ہلاک کر دے۔ “ یہ ہوا کی دوسری حالت ہے، تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر ایک اور آیت میں ہے، فرمایا :(حتی اذا کنتم فی الفلک وجرین بھم بریح طیبۃ و فرحوا بھا جآء تھا ریح عاصف) (یونس : ١٢٢)” یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور وہ انہیں لے کر عمدہ ہوا کے ساتھ چل پڑتی ہیں اور وہ اس پر خوش ہوتے ہیں تو ان (کشتیوں) پر سخت تیز ہوا آجاتی ہے۔ “ - (٣) ویعف عن کثیر : اس کا عطف بھی ” یکسن الریح “ پر ہے : ” ای وان یشاء یغف عن کثیر فلا یعاقبھم باسکان الریح او بار سلھا عاصفۃ “ یہ تیسری حالت ہے، یعنی اگر وہ چاہے تو بہت سے لوگوں سے درگزر کر دے، پھر نہ ہوا روک کر انھیں سزا دے اور نہ ہی تند و تیز طوفان کے ساتھ انھیں ہلاک کرے، بلکہ انھیں سلامتی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچا دے۔ ” یکسن “ ، ” یوبقھن “ اور ” یعف “ تینوں ” ان یشآئ “ شرط کی جزا ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں۔- (٤) ان آیات میں جہاں مشرکین کے لئے اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل بیان ہوئے ہیں وہیں مادہ پرست کمیونسٹوں اور دہریوں کا رد بھی ہے، کیونکہ ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہوا نہ اپنی مرضی سے چلتی ہے اور نہ ٹھہرتی ہے ، نہ اپنی مرضی سے باد موافق ہو کر چلتی ہے اور نہ ہی تند و تیز آندھی کی شکل اختیار کرتی ہے، بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اگر ہوا کا چلنا اس کا طبعی فعل ہوتا تو جس طرح آگ جلاتی ہے اور برف ٹھنڈی ہوتی ہے ہوا بھی یا ساکن رہتی اور کبھی نہ چلتی یا چلتی رہتی اور ہمیشہ تند و تیز آندھی کی صورت اختیار کئے رکھتی ۔ معلوم ہوا کہ ہوا کا چلنا خود اس کا فعل نہیں بلکہ یہ اس مالک و مختار کے ہاتھ میں ہے جس نے اسے پیدا فرمایا۔- (٥) ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اتنی واضح اور عظیم نشانیوں کے باوجود مشرک اور دہریے ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟ جواب کی تفصیل کے لئے دیکھیے سورة لقمان کی آیت (٣١) کی تفسیر۔- (٦) یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آج کل جہاز ہوا سے نہیں چلتے بلکہ انجنوں کی طاقت سے چلتے ہیں، پھر ہوا کے رکنے سے ان پر کیا اثر ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انجن بھی عقب میں ہوا کے ساتھ پانی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے جہازوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ” الریح “ کا لفظ اس ریح کو بھی شامل ہے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان انجنوں میں ایسی خرابی پیدا کر دے کہ وہ ایک ہی جگہ کھڑے رہ جائیں۔ (تفسیر ثنائی، بتصرف)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلٰي ظَہْرِہٖ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ۝ ٣٣ ۙ- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، - ( س ک ن ) السکون ( ن )- حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - ركد - رَكَدَ الماء والرّيح، أي : سكن، وکذلک السّفينة، قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] ، إِنْ يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَواكِدَ عَلى ظَهْرِهِ- [ الشوری 33] ، وجفنة رَكُودٌ: عبارة عن الامتلاء .- ( ر ک د ) رکد ( ن ) رکودا کے معنی پانی یا ہوا وغیرہ کے ٹھہر جانے کے ہیں ۔ اسی طرح کشتی کے ٹھہر جانے پر بھی رکود کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری 32] اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ( بادبانی ) جہاز ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح ( اونچے اونچے ) دکھائی دیتے ہیں اگر خدا چاہے تو ہوا کو ٹھہرادے تو جہاز سمندر کی سطح پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں ۔ جفنۃ رکود : لبالب بھرا ہوا پیالہ ۔- ظهر - الظَّهْرُ الجارحةُ ، وجمعه ظُهُورٌ. قال عزّ وجل :- وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10]- ( ظ ھ ر ) الظھر - کے معنی پیٹھ اور پشت کے ہیں اس کی جمع ظھور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ وَراءَ ظَهْرِهِ [ الانشقاق 10] اور جس کا نام اعمال اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائیگا - هذا ( ذَاكَ ذلك)- وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال :- هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام 131] ، إلى غير ذلك .- ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔- س صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ اِنْ یَّشَاْ یُسْکِنِ الرِّیْحَ فَیَظْلَلْنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَہْرِہٖ ” اگر وہ چاہے تو ہوا کو ساکن کردے سو وہ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں سمندر کی سطح پر۔ “- اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ ” یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لیے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الشُّوْرٰی حاشیہ نمبر :53 صبر کرنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اچھے اور برے تمام حالات میں بندگی کے رویے پر ثابت قدم رہے ۔ جس کا حال یہ نہ ہو کہ اچھا وقت آئے تو اپنی ہستی کو بھول کر خدا سے باغی اور بندوں کے حق میں ظالم بن جائے ، اور برا وقت آ جائے تو دل چھوڑ بیٹھے اور ہر ذلیل سے ذلیل حرکت کرنے پر اتر آئے ۔ شکر کرنے والے سے مراد وہ شخص ہے جسے تقدیر الہٰی خواہ کتنا ہی اونچا اٹھا لے جائے ، وہ اسے اپنا کمال نہیں بلکہ اللہ کا احسان ہی سمجھتا رہے ، اور وہ خواہ کتنا ہی نیچے گرا دیا جائے ، اس کی نگاہ اپنی محرومیوں کے بجائے ان نعمتوں پر ہی مرکوز رہے جو برے سے برے حالات میں بھی آدمی کو حاصل رہتی ہیں ، اور خوشحالی و بد حالی ، دونوں حالتوں میں اس کی زبان اور اس کے دل سے اپنے رب کا شکر ہی ادا ہوتا رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani